سچر کمیٹی کی سفارشات اور ریزرویشن: کیاہم خواب بیچتے ہیں ؟

سچر کمیٹی کی سفارشات اور ریزرویشن: کیاہم خواب بیچتے ہیں ؟

عمیر محمد خان
رابط:9970306300

حقائق کا تعلق خواب سے ہے. خواب تصوراتی حقیقت ہے. مگر آج صرف خوابوں کے ہی بازار گرم ہیں۔ ماضی کے حسین خواب اور مستقبل کے زرین خوابوں میں ہی ہم حیات کو الجھا گئے ہیں۔
تصوراتی دنیا حسین ہوتی ہے۔ تصورات ہی عمل کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن تصورات میں ہی پوری زندگی جھونک دینا ایک حماقت ہے۔ تصورات اور خوابوں کی دنیا میں افراد قوم کو غرق کردینا قومی افراد کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ملک و قوم کو ناکارہ اور بے عمل بنانے کا دوسرا نام ہے طلسماتی تصورات ۔۔۔۔ تصورات شداد کی جنت کا عکس ہوتے ہیں یا حسن بن صباح کی جنت کی جلوہ آفریناں ۔۔۔۔!!! عمل سے دور انسانوں کو تھپک تھپک کر حشیش کی سی سرور و کیف کی حالت میں مدہوش ومدغم کرنے کا نام خام خیالی تصورات یا خوابِ بے عمل ہے ۔ بے عمل خواب و تصورات ناکارگی اور بسیار گوئی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
آج کی پر فریب دنیا میں ہر کوئی خواب کا بیوپاری نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بازار عکاظ میں خوابوں کے بیچنے والوں کے اطراف انگنت رنگین خوابوں کے خریدار کھڑے ہیں۔۔۔۔۔ خوب صورت گاؤں کے خواب، محلوں کے خواب، شہروں کے خواب، درس گاہوں و جامعات کے خواب، سکول و کالجز کے خواب، بہترین ملک کے خواب، کمپنیوں اور فرمز کے خواب، مثالی سلطنتوں کے خواب، مثالی افراد کے خواب، امن و آشتی کے خواب، عقیدت و محبت کے خواب، رحم دلی واخوت کے خواب، پیشوں و کاروبار کے خواب، تعلیم وتعلم کے خواب، روزگار و امداد باہمی کے خواب، شفا خانوں و حفظانِ صحت کے خواب، کاشتکاری و باغبانی کے خواب۔۔۔۔۔
غرض خواب۔۔۔خواب اور صرف خواب ہی ہمارے اثاثہ بن کے رہ گئے ہیں۔
ہمارا میڈیا خواب بیچتاہے۔ سیاسی مقامر خواب بیچتے ہیں۔ واعظ خواب بیچتے ہیں۔ زندگی کے جملہ میدانوں سے ہر کوئی خواب بیچتا نظر آتا ہے۔ خواب بیچنا کوئی برائی نہیں مگر صرف خواب ہی بیچنا ایک مذموم فعل ممنوعہ ہے۔ عمل کی دنیا خالی ہے۔تصورات و خوابوں کے حصاروں میں ہی زندگی کی رنگینیوں کا حصول ممکن نہیں۔ دنیا و مذہب کا اساس عمل ہی ہے۔ احسن اعمال اور عمدہ افعال و کردار ہی انقلاب برپا کرتے ہیں۔ تگ ودو سے ہی کایا پلٹ ممکن ہے۔ تغیر و تبدیلی عمل سے ہی لائی جاسکتی ہے۔
آئیے خوابوں کے حسین سلسلہ کی سیر بینی میں آپ کو کرواتا ہوں۔
1923 میں برطانوی حکومت کے دوران ریڈیو سروس ہندستان ( مشترکہ ہند، پاک، بنگلہ دیش ) میں شروع ہوئی. 23 جولائی 1927
میں باقاعدہ ریڈیو کی نشریات کا آغاز ہوا. ریڈیو عوام کی آگاہی کا ایک ذریعہ رہا بعد ازاں پروپگنڈا کا ایک طویل سلسلہ بنایا گیا۔
ریڈیو جب کبھی وسیلہ تھا جس کے سہارے خواب بیچے گئے تھے۔ سامعین کو یوں ادراک کرایا جاتا تھا گویا زندگی ایک زرین دور میں قدم رکھے گی اور ہمارے مسائل کا مداوا ہاتھ آجاۓ گا۔ پرنٹ میڈیا نے تصورات کے انواع و اقسام کے پر فریب باغات لگا دیے۔ ایسا لگتا تھا کہ فردا کلفت و آلام کی نکیل لگا کر خوشیوں کی بہار لے کر آئے گا۔ انسان ایسے عہد زریں میں داخل ہوگا جہاں طمانیت و آسودگی کے ترانے ہی ترانے گنگنائے جائیں گے۔ خلق خدا راج کرے گی۔ بے روزگاری، بھکمری، مظالم نسواں، ظلم و استبداد کا خاتمہ ہوجائے گا. مگر انسانیت وہیں گھٹ گھٹ کر مرتی رہی. نادار مزید نادار ہوتے گئے۔ بے روزگار مزید بے روزگار ہوتے گئے۔ مظالم نسواں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ظلم و استبداد حد سے تجاوز کرگئے۔حیات کی رونقیں چھین لی گئیں۔

1959 میں دہلی میں ٹیلی ویژن TV
کی ابتدا ہوئی۔ 1973 تک اس کے نشریاتی مراکز ممبئی، سرینگر، امرتسر، کلکتہ، مدراس میں پھیل گئے۔ 1980 کی دہائی میں دور درشن کے نام سے ٹیلی ویژن نے ہنگامہ برپا کردیا۔
سنیما گھروں کی آمد اور ٹیلی ویژن نے ایک پر تعیش زندگی کے خواب دکھا ڈالے. افراط زر اور سرمایہ کاری نے ایک عجیب منظر پیش کیا۔ روزگاری کے میدان وسیع ہو جائیں گے، تعلیم کے ذرائع فروغ پائیں گے، یکساں حقوق و مراعات کا حصول ممکن اور سہل ہوگا۔ انصاف کی علم برداری ہوگی۔ قصبوں اور قریوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہوگی۔ شادمانی اور درخشندگی کے عہد زریں کے ہم شاہد ہوں گے۔ مگر یہ سب تصورات اور خواب ہی بنے رہے۔
سکون چین ہم سے رخصت ہوا۔ ہوا کی سبکی قدموں کو لگ گئی. دنیا ایسے ہی خوابوں میں سرگرداں ہوگئ۔ محبت و خلوص رخصت ہوا۔ ہم دری و اخوت قربان ہوگئ۔ دوستی و رشتہ داری قرابت داری بھلا دی گئی۔ ناولز، ڈراموں، فلموں نے وہ خواب بنے جس نے تصوراتی دنیا میں ہمیں غرق کردیا۔۔۔۔
حشیش بھی وہ کام نہ کرسکی جو شوشل میڈیا نے کردکھایا۔۔۔!!!
رہی سہی کسر لچھے دار تقریروں نے پوری کردی۔ دنیا عمل کی بجائے تصورات میں فتح ہونے لگی۔ آج شوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا ایک طوفان بلاخیز کی مانند خوابوں کے تخلیق کار ہیں۔ ہمارے اطراف utopian یوٹوپیائی ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ یہ یوٹوپیائی دل فریب مناظر ہماری سحر انگیزی میں اضافہ کر گئےاور کرتے آرہے ہیں۔
زمینی حقائق ہمارے لیے باعث تشویش ہیں۔ ہماری دس سالہ کار گزاریوں کی ایک لاحاصل کوشش کو اجاگر کرتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق
سرکاری اہل کاروں میں مسلمانوں کی نمائندگی محض پانچ فی صد ہے۔ محکمہ ریل میں جو سب سے زیادہ نوکریاں مہیا کرواتا ہے مسلمانوں کا تناسب صرف 4.5 عشاریہ ہے۔ اس میں98.7 مسلمانوں کو انتہائی نچلے درجے پر تعینات کیا گیا ہے۔ سول سروسز میں محض تین اور وزرات خارجہ میں ایک عشاریہ آٹھ فی صد، ہولس میں چار فی صد، محکمہ عدلیہ میں7.8 فی صد۔ پولس میں بطور کانسٹیبل 6فی صد، حفظانِ صحت کے محکمہ میں 4.4 فی صد، حساس اداروں جیسے، محکمہ تفتیش، تحقیق اور تجزیاتی اہل کار، تحفظاتی عملے
( Intelligence, research , analysis and VVIP protection forces )
میں مسلمانوں کو تعیناتی سے محروم رکھا گیا ہے۔
پیرا ملٹری ایجنسیوں میں مسلمانوں کا تناسب محض 1.5 فی صد ہے۔ مسلمانوں میں غربت کا یہ عالم ہے کہ اکتیس فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
سچر کمیٹی کی سفارشات مسلمانوں کی نہ صرف زبوں حالی کی آئینہ دار ہے بلکہ ایک بہتر مستقبل کی عکاس بھی تھی. مگر وہ بھی تصورات اور خواب حسیں بن کے رہ گئے۔ حکومت نے ایک خواب دکھا کر اسے سرد خانوں کی نذر کردیا۔ وہ فائل منوں مٹی تلے دبا دی گئی۔ اس دور کے برسر اقتدار حکمران اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے۔ ساری قوم جس سیاسی جماعت کو انتخابات میں کامیابی دلاتی رہی انہی لوگوں نے سفارشات کو پیروں تلے روند ڈالا۔ ساٹھ سالوں کی وفاداری کا صلہ خاموشیوں کی نذر ہو گیا۔ آج بھی ہم اس تصوراتی طلسم کو عملی حقیقت میں نہ ڈھال سکے۔ اس کی منفعت بطور ایک قوم و ملت واضح ہونے کے باوجود ایک پرچم تلے ہمیں مجتمع نہیں کرسکی۔ اب تمام کار گزاریوں کو ایک خواب اور تصور ہی کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔ عمل سے دور عوام کے لیے ایک پر کش پلندہ۔۔۔۔!!!
سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن آج بھی ایک تصور ہی لگ رہا ہے۔ پیشہ و روزگار کے لیے مختص عہدوں پر سر کاری و نیم سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی ہنوز ایک خواب نظر آتا ہے۔ مہاراشٹر حکومت سے امید ہے کہ وہ اس کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہوگی ان شاءاللہ۔۔۔
حکومتی اداروں اور سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے ہمارے عزائم سرد نہیں پڑنے چاہئیں۔ ان خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا عمل مزید تیز ہونا چاہیے۔ 60 سالوں سے ہم خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔ آنے والی نسلیں بھی کیا خواب ہی دیکھتی رہیں گی۔ کم از کم ان خوابوں کی تکمیل ہماری نسل نو کے لیے ممکن تو ہو۔ تعبیر کے لیے متحدہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرچموں کا اتحاد نہیں بلکہ یک پرچم کا اتحاد متحدہ قومی عمل کہلاتاہے۔ ان اعمال اور خوابوں سے ہی قومیں جی اٹھتی ہیں۔ ایسے ہی افعال سے عروج کے کلس کو چھوا جاسکتا ہے۔ ورنہ انفرادی کوششیں قومیت کا رنگ نہیں دھار سکتی ہیں۔ آئیے یک پرچم مجتمع قوم وملت کے خواب کی تکمیل کے لیے ایک قدم بڑھائیں۔۔۔ اور ایک بہترین مستقبل کو ڈھالنے کے عملی اقدامات کر گزریں۔ اللہ پر توکل سے یہ ممکن ہے۔ تمام ناتواں سہاروں سے مضبوط سہارا خدائے ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ بے شک وہی ہمارا ملجا و ماوا ہے۔ اللّہ ہمیں استقامت عطا کرے اور نسل نو کے عمدہ مستقبل کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

عمیر محمد خان کی یہ نگارش بھی پڑھیں : دنیا حیاتیاتی جنگ کی زد میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے