مٹھاس اردو کی تھوڑی بہت زبان میں رکھ

مٹھاس اردو کی تھوڑی بہت زبان میں رکھ

داؤداحمد
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج محمود آباد، سیتاپور (یو۔پی)
موبائل: 8423961475

اردو ایک ترقی یافتہ بہترین زبان ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی زبان کا فروغ دراصل تہذیب و تمدن تاریخ و روایات کا فروغ ہے۔ کسی کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے زبان ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ کسی کے دل تک رسائی کے لیے مہذب انداز، پاکیزہ گفتگو، شیریں اور معنی خیز الفاظ، لہجے میں نرمی اور شائستگی کے ساتھ حسن اخلاق اور دل کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اوصاف و آداب کے مجموعہ کو اردو زبان کہتے ہیں۔ اردو کی شیریں بیانی اور دل فریبی کے سبھی قائل ہیں۔ یہ زبان آج بھی عوام کے قلب و ذہن پر راج کر رہی ہے۔ اس زبان کے حسن کے لیے یہ کافی ہے کہ اس زبان نے انسانیت اور تہذیب مخالف الفاظ کو اپنے مجموعے میں جگہ نہیں دی یعنی اس میں گالی گلوج کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اس زبان کی انفرادی حیثیت بھی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے گالی دینا نہیں سکھایا۔ دوسری بڑی بات اس زبان کی یہ ہے کہ اس کی تاثیر کا حلقہ مذہب و ملک کی قید سے آزاد رہا ہے۔ ایک صوفی درویش کے گھر کی پروردہ اور تربیت یافتہ زبان انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کی آواز بن گئی۔ مذہب و برادری کی پرواہ کیے بغیر ہر ایک نے اس زبان کو گلے لگایا۔ وہ اردو جو آزادی کی خواہش کے اظہار کا ذریعہ بنی آج ایک مذہب خاص کے لوگوں کی زبان بتائی جا رہی ہے۔ اسی زبان میں کئی بار مشترکہ تباہی کے بعد غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ آج جس زبان کو اردو کہتے ہیں وہ ترقی کے کئی مراحل سے ہوکر گزری ہے۔ بارہویں صدی کے آغاز میں وسطی ایشیا سے آنے والے لوگ ہندستان میں بسنے لگے تھے جو فوجی آئے تھے، وہ ساتھ لاتے تھے اپنی کھانے پینے کی عادتیں اور سنگیت۔ وہ یہاں کے لوگوں سے اپنے علاقے کی زبان میں بات کرتے تھے جو یہاں کی پنجابی، ہریانوی اور کھڑی بولی سے مل جاتی تھی اور بن جاتی تھی فوجی لشکری زبان جس میں پشتو، فارسی، کھڑی بولی اور الفاظ جملوں سے ملتے جاتے تھے۔ تیرہویں صدی میں سندھی، پنجابی، فارسی، ترکی اور کھڑی بولی کے مرکب سے لشکری کی اگلی نسل وجود میں آئی اور اسے سرائے کی زبان کہا گیا۔ اسی دور میں یہاں صوفی خیالات کی لہر بھی پھیل رہی تھی۔ صوفیوں کے دروازوں پر بادشاہ آتے اور امرا آتے، سپہ سالار آتے اور غریب آتے اور سب اپنی اپنی زبان میں کچھ کہتے۔ اس بات چیت سے جو زبان پیدا ہورہی تھی وہی جمہوری زبان آنے والی صدیوں میں اس ملک کی سب سے اہم زبان بننے والی تھی۔ اس طرح کی ثقافت کا سب سے بڑا مرکز مہرولی میں قطب صاحب کی خانقاہ تھی۔صوفیوں کی خانقاہوں میں جو موسیقی پیدا ہوئی وہ آج آٹھ سو سال (٨٠٠) بعد بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ عام لوگوں کی زندگی کا حصہ ہے۔
اجمیر شریف میں چشتیہ سلسلے کے سب سے بڑے بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (غریب نواز) کے دربار میں امیر، غریب، ہندو اور مسلمان سب آتے تھے اور آشرواد کی جو زبان لے کر جاتے تھے، آنے والے وقت میں اسی کا نام اردو ہونے والا تھا۔ صوفی سنتوں کی خانقاہوں پر ایک نئی زبان پروان چڑھ رہی تھی۔ مقامی بولیوں میں فارسی اور عربی کے لفظ مل ر ہے تھے اور ہندستان کو ایک لڑی میں پرونے والی زبان کی بنیاد پڑ رہی تھی۔ اس زبان کو اب ہندوی کہا جانے لگا تھا۔ بابا فرید گنج شکر نے اسی زبان میں اپنی بات کہی۔ بابا فرید کے کلام کو گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل کیا گیا۔ دہلی اور پنجاب میں تیار ہو رہی اس زبان کو جنوب میں پہنچانے کا کام خواجہ گیسو دراز نے کیا۔ جب وہ گلبرگہ گئے اور وہیں ان کا آستانہ بنا. اس دوران دہلی میں اردو کے سب سے بڑے شاعر حضرت امیر خسرو اپنے پیر حضرت نظام الدین اولیا کے آستانے میں بیٹھ کر ہندوی زبان سنوار رہے تھے۔
امیر خسرو نے لاجواب شاعری کی جو ابھی تک بہترین ادب کا حصہ ہے اور آنے والی نسلیں ان پر فخر کریں گی۔حضرت امیر خسرو سے محبوب الٰہی، حضرت نظام الدین اولیا نے ہی فرمایا تھا کہ ہندوی میں شاعری کرو۔اس کے بعد امیر خسرو نے ہندوی میں وہ سب لکھا جو زندگی کو چھوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہندستان اس لیے مجھے عزیز از جان ہے کہ میں نے اس سر زمین پر آنکھ کھولی اور یہ ملک میرے لیے ماں کی گود کی طرح ہے‘۔ کلاسیکل موسیقی میں امیر خسرو کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انھوں نے متعدد راگ راگنیوں کی ایجاد کی۔خسرو وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنے دور کی مروجہ عوامی زبان کو ذریعہ اظہار بنا کر ہندی اور اردو کے مستقبل کی راہ ہموار کی۔ انھیں کھڑی بولی یعنی ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔حضرت نظام الدین اولیا کی دعاؤں سے دہلی میں ہندوی عام زبان بنتی جا رہی تھی۔ اردو کی ترقی میں دہلی کے سلطانوں کے سفر فتح کا بھی اہم رول ہے۔ ١٢٩٧ء میں علاؤالدین خلجی نے جب گجرات پر حملہ کیا تو لشکر کے ساتھ وہاں اس کی زبان بھی گئی۔ ١٣٢٧ء  میں جب تغلق نے دکن کا سفر کیا تو دہلی کی زبان، ہندوی ان کے ساتھ گئی۔ اب اس زبان میں مراٹھی، تلگو اور گجراتی کے لفظ مل چکے تھے۔ دکنی اور گجری کا جنم ہوچکا تھا۔
اردو زبان میں جذب و انجذاب کا عمل کئی صدیوں سے جاری ہے۔ بر صغیر میں پہلے مقامی بولیوں نے جنم لیا، پھر یہاں عرب زبان کی تاثیر آئی، پھر اولیائے کرام کی روحانی تاثیر فارسی کو ساتھ لائی، بعد ازاں مغلیہ دور میں ترکی بر صغیر میں علمی و ادبی زبان قرار پائی، ان تمام زبانوں کے الفاظ کے اختلاط کا عمل بھی جاری رہا۔حضرت امیر خسرو کے زمانے میں اس ریختہ نے بولی کی شکل اختیار کی اور ہندی کہلائی۔ شاہجہاں کے دور میں شاہجہان آباد میں عہد شباب کو پہنچی اور اردو کہلائی۔ اس کی تعمیر اور تخلیق کاری کا عمل مزید آگے بڑھا اور بڑھتا رہا۔ اردو زبان میں انگریزی کی سمائی ہم اسی دور میں سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد وغیرہ کے ہاں بھر پور طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے تو انگریزی کے الفاط کو چٹ پٹے انداز میں اپنی شاعری میں خوب برتا اور معنی کی تہہ کو ابھارا ہے۔تقسیم ہند کے بعد ایک بار پھر زبان نے پلٹا کھایا اور اس میں تغیر و تبدل کا عمل شروع ہوا۔ مختلف تہذیبیں، معاشرتی رویوں کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔تہذیبوں کے ملاپ سے لسانی امتزاج کے نئے پہلو ابھرے، جنھوں نے اردو میں نئے لہجوں کو جنم دیا۔ نئے روز مرہ، نئے محاورے پیدا کیے اور زبان و بیان کی نئی تراکیب سامنے آئیں۔
شاہجہاں کے دور میں مغل سلطنت کی راجدھانی دہلی آگئی۔ اس دور میں ولی دکنی کی شاعری دہلی پہنچی اور دہلی کے فارسی دانوں کو پتہ چلا کہ ریختہ میں بھی بہترین شاعری ہو سکتی تھی اور اسی سوچ کی وجہ سے ایک جمہوری زبان کے طور پر اپنی شناخت بنا سکی۔ دہلی میں مغل سلطنت کے کم زور ہونے کے بعد اودھ نے دہلی سے اپنا ناطہ توڑ لیا لیکن زبان کی ترقی مسلسل ہوتی رہی۔ در اصل ١٨/ ویں صدی میرؔ، سودؔا اور دردؔ کے نام سے یاد کی جائے گی۔ میرؔ پہلے عوامی شاعر ہیں۔ بچپن غربت میں گزرا اور جب جوان ہوئے تو دہلی پر مصیبت بن کر نادر شاہ ٹوٹ پڑا۔ ان کی شاعری کی جو تلخی ہے وہ اپنے زمانے کے درد کو بیان کرتی ہے۔ بعد میں نظیر کی شاعری میں بھی ظالم حکمرانوں کا ذکر میر تقی میر کی یاد دلاتا ہے۔ مغلیہ طاقت کے کم زور ہونے کے بعد ریختہ کے دیگر اہم مراکز ہیں۔
١٨٢٢ء میں اردو صحافت کی بنیاد پڑی جب منشی سدا سکھ لال نے ’جان جہاں نما‘ اخبار نکالا۔ دہلی سے ’دہلی اردو اخبار‘ اور ١٨٥٦ء میں لکھنؤ سے ’طلسم لکھنؤ‘ کی اشاعت کی گئی۔ لکھنؤ میں نول کشور پریس کے قیام کی اردو کی ترقی میں اہم حصہ داری ہے۔ سرسید احمد خاں، مولانا شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی، ڈاکٹر علامہ اقبال اردو کی ترقی کے بہت بڑے نام ہیں۔ اقبال کی شاعری ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہماری تہذیب اور تاریخ کا حصہ ہے. اس کے علاوہ مولوی نذیر احمد، پنڈت رتن ناتھ سرشار اور مرزا ہادی رسوا نے ناول لکھے۔ آغاحشر کاشمیری نے ڈرامہ لکھا۔
کانگریس کے کنونشن کی زبان بھی اردو ہی بن گئی تھی۔ ١٩١٦ء میں لکھنؤ کانگریس میں ’ہوم رول‘ کی جو تجویز پاس ہوئی وہ اردو میں ہے۔ ١٩١٩ء میں جب جلیاں والا باغ میں انگریزوں نے نہتے ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا تو اس غم اور غصے کا اظہار پنڈت برج نارائن چکبست اور اکبر الہ آبادی نے اردو میں ہی کیا تھا۔اس موقع پر لکھا گیا مولانا ابوالکلام آزاد کا مضمون آنے والی کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔ حسرت موہانی نے ١٩٢١ء کی تحریک میں انقلاب زندہ آباد کانعرہ دیا تھا جو آج انصاف کی لڑائی کا نشان بن گیا ہے۔
بہرحال اردو صرف زبان ہی نہیں بلکہ حق کی آواز رہی ہے۔ انگریزوں کو اس کی تاثیر کا کافی علم تھا۔ دستی صحافت کی ایک ایک تحریر دل اور کلیجے پر ایسے وار کرتی تھی کہ راتوں کی نیدیں حرام ہو جاتی تھیں۔آزاد، موہانی اور مولوی باقرجیسے اردو کے مسیحاؤں نے اس کی تاثیر کو پہچانا اور اس کا استعمال کیا۔ انھیں اس کی قیمت چکانی پڑی۔ لیکن یہ آواز کبھی دبی نہیں، کبھی بکی نہیں۔ اردو کو صرف اردو ہی زندہ کرسکتی ہے۔ یعنی تہذیب، رواداری محبت اور یکجہتی کی فضائیں جہاں قائم ہوں گی اردو وہاں پائی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں کے اخلاق و کردار کا فطری اور طبعی بیانیہ اسی زبان میں رہا۔ اردو ہندستان اور تصوف ملک کی اس وراثت کے امین ہیں جس کے لیے ملک پر ساری دنیا رشک کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے جس میں مختلف اقوام باہم شیر و شکر ہوکر سکون و اطمینان سے صدیوں سے زندگی گزارتے آرہے ہیں اور اردو اس گنگا جمنی تہذیب کی سب سے شاندار ترجمان ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس کا رسم الخط فارسی ہے لیکن اس کا خمیر خالص ہندستانی ہے۔ یہ زبان ہندستان کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔ یہیں پلی بڑھی اور جوان ہوئی ہے۔ اس کی آبیاری میں مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کا لہو شامل ہے۔ یہ نہ تو ہندو ہے اور نہ مسلمان، یہ فقط ہندوستانی ہے۔ اردو کے غیر مسلم شعرا اور ادیبوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے اردو زبان کو اپنے خیالات و افکار کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا۔ جن کے نام گنوانا آسان نہیں ہے۔ برسبیل تذکرہ چند اہم نام پیش ہیں۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کے شاگرد خاص منشی ہرگوپال تفتہ، منشی دیا شنکر نسیم، دوارکا پرساد شعلہ، کالی داس گپتا رضا اردو کے پہلے گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، منشی پریم چند، پنڈت ہری چند اختر، منشی گورکھ پرساد عبرت، فکر تونسوی، اپیندر ناتھ اشک، بلونت سنگھ وغیرہ۔ یہ وہ ادیب و شاعر ہیں جو اردو تہذیب کے آئینہ دار تھے۔ یہ جب تک زندہ رہے اردو کا پرچم انھوں نے بلند رکھا اور انھوں نے صحیح معنوں میں گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کی۔ ان لوگوں نے اپنے قول و عمل سے فرقہ پرستی اور ذہنی تنگ نظری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آج کے دور میں جب ماحول کو قصداً کشیدہ کیا جا رہا ہے۔مذہب کی بنیاد پر دلوں کے درمیان دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں تو لازمی ہے کہ اردو کو زندہ رکھا جائے لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اس کو خانوں میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ غیر مسلم افراد کو اس زبان کی جانب راغب کیا جائے۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ اردو رسم الخط سے واقف نہیں ہیں اس لیے اس سے غیر مانوس ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے کردار سے ان میں اردو دوستی کے جذبات کو پروان چڑھائیں۔ اگر اردو سے اجنبیت کا احساس جاتا رہے گا تو سبھی کہیں گے کہ یہ ہماری زبان ہے۔ جب یہ زبان اہل ملک کے دلوں پر راج کرے گی تو یقین ہے کہ یہ پیاری زبان نہ مرے گی اور نہ ہی مٹے گی ؎
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوش بو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
اردو ایک ایسی زبان ہے جسے ہر خاص و عام سمجھتا ہے اور بولتا بھی ہے۔ یہ قومی یکجہتی کی زبان ہے، انسانی بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور باہمی خیر سگالی کی علامت اور دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ یہ ہندستان کی عظیم تہذیبی روایات کی آئینہ دار اور سب ہی مذہبوں کے ماننے والوں کا مشترکہ قومی ورثہ ہے۔ حب الوطنی، وطن دوستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں اس زبان نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب اور ثقافت کی زبان ہے۔پچھلے پچاس برسوں میں اردو زبان پر کئی ردے لگ چکے ہیں۔ اب اس کی نئی شکل ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے، اس نئی ابھرتی ہوئی اردو زبان کی رچی ہوئی شکل بعض ناولوں، ادبی تحریروں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے ؎
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں قومی اور صوبائی سطح پر این سی ای آر ٹی، این آئی او ایس کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نیشنل بک ٹرسٹ، ساہتیہ اکادمی، مولانا آزاد فاؤنڈیشن، پی ٹی آئی، یو این آئی، یو جی سی کے علاوہ اکادمی آف پروفیشنل ڈیولپمنٹ آف اردو ٹیچرس جن کے سینٹر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد میں مرکزی حکومت کے ادارے، وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند کے تحت پر سار بھارتی، آل انڈیا ریڈیو، دور درشن کیندر، ڈی اے وی پی اور پبلی کیشنز ڈویزن کے علاوہ سرسید فاؤنڈیشن نئی دہلی،کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز بھوپال، جامعہ اردو علی گڑھ، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے علاوہ ملک کی ١٧ ریاستوں میں قائم اردو اکادمیاں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان اداروں میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا کام اور نام دونوں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ قومی کونسل کے ملک بھر میں تقریباً ٧٠٠ سینٹر کام کر رہے ہیں۔ ان مراکز میں طلبا کو اردو سکھانے کے علاوہ کمپیوٹر کی تعلیم دینے اور اردو کے ذریعہ انھیں ملازمت سے جوڑنے کا بھی کام کیا جاتا ہے۔
اردو کے فروغ میں ملک میں سرکاری اداروں کے ساتھ نجی اور نیم سرکاری ادارے بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ان اداروں میں انجمن ترقی اردو ہند دہلی، غالب اکادمی دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، دارالمصنفین اعظم گڑھ، انجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی کی وقیع تحقیقی اور ادبی خدمات ملک و بیرون ملک میں اپنا ایک معیار رکھتی ہیں۔ ملک میں اردو کے اشاعتی اداروں کی کمی نہیں ہے۔ حکومت کی سطح پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، پبلی کیشنز ڈویزن، این سی ای آرٹی، این بی ٹی اور این آئی او ایس ہر سال بڑی تعداد میں اردو کی ادبی اور معیاری کتابیں شائع کرتی ہیں۔اسی طرح نیم سرکاری اداروں میں ذاکر حسین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دہلی، انجمن ترقی اردو ہند دہلی، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی، غالب اکادمی دہلی، رضا لائبریری رام پور، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کے علاوہ مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیاں اور نجی اشاعتی اداروں میں ایجوکیشنل بک ڈپو علی گڑھ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، فرید بک ڈپودہلی، مکتبہ جامعہ دہلی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی، نئی کتاب پبلشرز دہلی، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی، کتابی دنیا دہلی، نیو پرنٹ سینٹر دہلی، شب خون کتاب گھر الہ آباد، ادارہ ادبیات حیدر آباد، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اردو کے اخبارات و رسائل کا اہم کردار رہا ہے۔ پریس رجسٹرار آفس کے ۲۲ مئی ٢٠١٠ کو جاری بیان کے مطابق ملک میں ہندی اور انگریزی کے بعد سب سے زیادہ نکلنے والے اخبارات اور رسائل کی تعداد میں اردو کا نمبر تیسرا ہے۔اخبارات و رسائل نہ صرف صحافت کا حق ادا کر رہے ہیں بلکہ اردو عوام میں ذہن سازی کا بھی کام انجام دے رہے ہیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے اہم اخبارات میں ہندستان ایکسپریس، ہمارا سماج، صحافت، اخبار مشرق، عوام، دعوت، نئی دنیا، میرا وطن اور خبردار وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جب کہ ممبئی میں انقلاب، اردو ٹائمز، صحافت، کولکاتا میں اخبار مشرق، ندائے ملت، حیدر آباد میں منصف، سیاست، اعتماد، رہنمائے دکن، اورنگ آباد سے ایکسپریس، اور اورنگ آباد ٹائمز، چنئی سے مسلمان، بنگلور سے سالار، نشیمن، پنجاب سے پرتاپ، ملاپ اور ہند سماچار، سری نگر سے تعمیل ارشاد، جموں سے لازوال اور جموں کشمیر سے اڑان، کشمیر عظمیٰ، لکھنؤ سے سہارا، اودھ نامہ، آگ، بہار میں قومی تنظیم، تاثیر، پندار اور مدھیہ پردیش بھوپال میں ندیم، حق و انصاف، اردو ایکشن، صدائے اردو کے نام قابل ذکر ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالوں میں دہلی سے قومی کونسل کا اردو دنیا، آج کل، ایوان اردو، کتاب نما، اردو ادب، نیا دور، ذہن جدید، چنڈی گڑھ سے پاسبان، تعمیر ہریانہ، جمنا تٹ، شملہ سے جدید فکر و فن، حیدر آباد سے سب رس، شگوفہ، شعر و حکمت، مہاراشٹر سے لوک راج، شاعر، نوائے ادب، نیا ورق، ہندوستانی زبان، اسباق، اردو میلا، بہار سے کہسار، مباحثہ، زبان و ادب، اتر پردیش سے امکان، معارف، لاریب، فکر و نظر، تہذیب الاخلاق، ادبی نشیمن، گلبن، مدھیہ پردیش سے انتساب، شاخیں، تمثیل، موج نربدا، کارواں ادب، فنکار، سری نگر سے شیرازہ، اور بازیافت، کلکتہ سے روح ادب اور انشا، جے پور سے نخلستان وغیرہ ایسے رسالے ہیں جنھیں دوسری زبان کے رسائل کے سامنے کہیں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور میڈیا کا دور کہا جا رہا ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کا ایک اہم ستون کہا جاتا ہے۔ میڈیا کا جدید اور تیز رفتار روپ الیکٹرانک میڈیا، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی بات کریں تو ای ٹی وی اردو کی ٢٠٠١ سے ملک میں جاری اردو خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ای ٹی وی اردو کے علاوہ ڈی ڈی اردو، پیس ٹی وی اردو، ذی سلام، عبادت اور منصف نے بھی اردو میں اپنی نشریات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مستقبل میں کئی اور اردو چینل کے منظر عام پر آنے کے امکان ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی زبان گو کہ ہندی ہے لیکن اس ہندی کا کام بغیر اردو کے نہیں چلتا کیوں کہ اس کی زبان میں اسی(٨٠) فی صد الفاظ اردو کلچر سے متعلق ہے۔ لہٰذا اردو والوں کی مدد ضروری ہے۔
ہندستان میں اردو کے امکانات بہت روشن ہیں۔ اور اس زبان کے پھلنے اور پھولنے کے بھی پورے مواقع میسر ہیں۔ اردو زبان کا ادبی سرمایہ دیگر ہندستانی زبانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اسے قبول کر رہے ہیں۔ اردو اخبارات و رسائل کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات بڑی تعداد میں شائع ہو رہی ہیں۔ جہاں اردو کی کتابوں کی اشاعت کے لیے حکومت کی سطح پر بڑے ادارے کام کر رہے ہیں۔ وہیں اردو ادیبوں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد خود بھی اپنی کتابیں شائع کرکے منظر عام پر لا رہی ہے۔
بین الاقوامی معیار کے بہت سے اردو رسائل اور اخبارات محبان اردو کو باہم مربوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، اس طرح اردو کا پیغام ہر جگہ پہنچا اور ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہندستان کی مٹی سے اٹھنے والی خوش بو سے آج دنیا کا گوشہ گوشہ مہک رہا ہے اور دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کا دائرہ مستقل بڑھ رہا ہے اور اس کی جاذبیت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ اکیسویں صدی میں اب یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہندستان میں اردو کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ اردو کی ترقی میں صرف ایک زبان کی ترقی نہیں ہے بلکہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی بقا کا راز مضمر ہے۔
اردو کی جاذبیت کے حوالے سے مبارک انصاری کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
ترے سخن کے سدا لوگ ہوں گے گرویدہ
مٹھاس اردو کی تھوڑی بہت زبان میں رکھ

Email: daudahmad786.gdc@gmail.com

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: کتاب: بطخ میاں انصاری کی انوکھی کہانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے