احسن امام احسن کی تصنیف جھار کھنڈ کے قلم کار : ایک مطالعہ

احسن امام احسن کی تصنیف جھار کھنڈ کے قلم کار : ایک مطالعہ

 مظفر نازنین، کولکاتا

معروف ادبی و علمی شخصیت جناب احسن امام احسن صاحب کی ایک اہم کتاب ”جھارکھنڈ کے قلم کار“ منصۂ شہود پر آئی ہے۔ یہ تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے جو ٢٠ مختلف عناوین اور موضوعات پر جھارکھنڈ کے ٢٠ اہم ادبی اور علمی شخصیات پر لکھے گئے ہیں۔ یہ کتاب ١٤٤ صفحات پر مشتمل ہے جو ٢٠١٩ء میں روشنان پرنٹرس دہلی سے شائع ہوئی۔ احسن امام احسن صاحب نے اپنی اس کتاب ”جھارکھنڈ کے قلم کار“ کو اپنے استادِ محترم جناب ابوذر عثمان کے نام جنھوں نے یونی ورسٹی میں انھیں بہت کچھ سکھایا اور جھارکھنڈ میں اردو کے لیے لڑتے رہے؛ مرحوم سہیل اختر کی یاد میں منسوب کیا ہے۔ اس کتاب سے قبل احسن امام احسن کی دو کتابیں بعنوان ”سمندر شناس“ (شعری مجموعہ٢٠١٣ء) اور مہاراشٹر کے قلم کار (ادبی مضامین کا مجموعہ ٢٠١٧ء) منصۂ شہود پر آکر پذیرائی کی منزل سے ہم کنار ہوئیں۔ وہ رقم طراز ہیں جس سے ان کی عاجزی اور انکساری کا پتہ چلتا ہے "اس کے باوجود میں دعویٰ نہیں کرتا کہ کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہوں مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق ہے سو کرتا رہتا ہوں۔" (ص: 6) موصوف احسن امام احسن صاحب اپنے استادِ محترم ظہیر غازی پوری (مرحوم) کے بے حد شکر گزار ہیں۔ یوں رقم طراز ہیں:” استادِ محترم ظہیر غازی پوری (مرحوم) کا ممنون ہوں کہ مجھے اس لائق بنانے میں ان کا خصوصی تعاون شامل حال رہا۔ یہ انہی کا کرم ہے کہ میری تخلیقات اردو کے موقر رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو ان کا انتخاب کتابی شکل میں اہل مغرد [؟] کے حضور پیش کر دیتا ہوں۔
صفحہ ۷ پر احسن امام احسن کے یہ خوب صورت جملے ملا حظہ کریں: "ایک تو سرکاری کوارٹر ہم خود رہیں یا کتابیں رکھیں۔ لیکن اس شوق بلا خیز کا کیا کریں [کہ] چپ بیٹھنے نہیں دیتا۔" اس جملے سے صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ اس  حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ صرف ادبی کتابوں اور لٹریچر کا عمیق مطالعہ ہی کسی کو سچا اور اچھا قلم کار بناتی ہے۔ شاعر ہو کہ ادیب، فنکار ہو یا عیش و طرب، ہیرے جواہرات کی اس کے سامنے قدر و قیمت نہیں ہوتی۔
 اظہار تشکر کے عنوان سے  احسن امام احسن صاحب لکھتے ہیں کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ اپنا خون جگر جلا کر ادب کی شمع روشن رکھنے والے قلم کاروں کو اردو کے بعض ایسے شیدائیوں کا ساتھ مل رہا ہے جو بہر قیمت اس شمع کی لو مدھم ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔(ص:9)  بالکل یہ حقیقت ہے۔ احسن امام احسن صاحب  نے اپنی اس اہم تصنیف سے جھاڑکھنڈ کے قلم کاروں کو منظر عام ہر لانے کی کوشش کی ہے اور ان کی کاوشوں کو سراہا ہے۔  اس کتاب کو شائع کرکے جھاڑکھنڈ کے قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے اور اپنی اس کتاب میں مختلف عناوین کے تحت جھاڑکھنڈ کے قلم کاروں کی انفرادی خصوصیت، شعراے کرام کے گوہر افکار اور فنی بصیرت کا جائزہ لیا ہے اور ان شعراے کرام اور قلم کاروں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے جو قاری کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ اس ضمن میں پرفیسر ابوذر عثمانی صاحب سابق صدر شعبۂ اردو ونوبا بھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ  یوں رقم طراز ہیں۔ "میرے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے جس میں جھاڑکھنڈ کی چند مشہور ادبی شخصیات کو مطالعے کا موضوع بنایا گیا ہے اور یہ اپنی موجودہ شکل میں ادبی تذکرے کی حیثیت اختیار کرکے علاقہ داری بنیاد پر ادبی تاریخ کا جز بن گئی ہے۔" (ص: ١٤)
نصراللہ نصر صاحب کہتے ہیں: احسن امام احسن کی دوسری خوبی ان کی خوب صورت نثر نگاری ہے جہاں وہ اچھی شاعری کرتے ہیں وہیں مضامین بھی تحقیقی اور معلوماتی رقم کرنے کا مجاز رکھتے ہیں۔ احسن امام احسن نے ۲۲ قلم کاروں کی ادبی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں صفحہ ٢٤ پر ایک عنوان ہے "قلندر صفت شاعر"۔ یہ صدیق محیبی کے تعلق سے ہے جس میں موصوف نے ان کے ادبی خدمات، حیات اور شخصیت پر روشنی ڈالی ہے اور کہتے ہیں جو کام ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا. چند مشاہیر ادب جیسے مشتاق احمد نوری، پروفیسر وہاب اشرفی، عالم خورشید، ’عطا عابدی، ڈاکٹر مولا بخش نے ان کی ادبی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ مشتاق احمد نوری صاحب لکھتے ہیں "صدیق محیبی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ حالات کے سامنے سپر نہیں ڈالتے بلکہ مردانہ وار مقابلہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دنیا کی صعوبتوں سے گھبرا کر میدان چھوڑنا ان کی فطرت کے خلاف ہے۔"
صفحہ ٣٤ پر جناب احسن امام احسن صاحب نے اپنے استاد پروفیسر ابوذر عثمانی کے نام ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ”جھارکھنڈ میں اردو کا مجاہد پروفیسر ابو ذر عثمانی"۔ اس مضمون کو پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ موصوف احسن امام احسن  کے دل میں اپنے استاد کے لیے کس قدر عزت و احترام ہے۔ بلاشبہ ایک اچھا استاد شاگرد کے دل میں گھر کر لیتا ہے۔ اور استاد کی شخصیت کے شاگرد کے ذہن پر گہرے اور انمٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں۔ انگریزی میں صحیح کہتے ہیں۔Best teachers teach from the heart وہ  کہتے ہیں۔ "موصوف یونیورسٹی میں میرے استاد رہے ہیں جہاں انھیں بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ان کو دیکھا پرکھا اور سمجھا تب اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں اردو کے تئیں ایک جنون ہے جو ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔" (ص: ٣٥) پھر آگے یوں رقم طراز ہیں۔” ابو ذر عثمانی علم کا سمندر ہیں۔ ان کے پڑھانے کا انداز طلبا کے ذہن میں رچ بس جاتا ہے. وہ کسی بات کو اتنی اچھی طرح ذہن میں ڈالتے ہیں کہ طلبا خوش ہو جاتے ہیں اور جب ادب پر گفتگو کر تے ہیں تو طلبا کے ذہن کے کونے کونے میں ادبی جراثیم رینگنے لگتے ہیں۔" آخری پیراگراف میں کہتے ہیں کہ انھیں اردو کا مجاہد کہنا غلط نہ ہوگا۔
زبان کا درد اور نہال آتش کے عنوان سے ایک مضمون ہے جس میں احسن امام احسن نے کہا ہے کہ جھاڑکھنڈ کی دھرتی پر ایک معتبر نام اخبارات اور رسائل میں گشت کرتا رہتا ہے وہ ہے جناب نہال آتش کا۔ مضمون کے آخر میں اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں جس شخص کے پاس قوم کا درد ہو وہ آدمی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلا شبہ وہ مخلص اور درد مند انسان ہیں۔ ان کی شخصیت کا کھلی زبان سے اعتراف کرتا ہوں۔ چونکہ ان کے ساتھ انجمن ترقی اردو میں جڑ کر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
 کچھ باتیں ظہیر غازی پوری کے تعلق سے کہتے ہیں۔ حضرت ظہیر غازی پوری دنیا کے معروف ترین انسانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ ہزاری باغ جیسے کوردہ اور جنگلستان علاقہ میں رہ کر بھی تقریباً نصف صدی سے خالص ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ظہیر غازی پوری صاحب کو اپنی ادبی خدمات پر مکمل اعتماد ہے۔ یہ خدمت انھوں نے عبات کی طرح کی ہے۔ لہٰذا ان کے اشعار میں بھی اس سچائی کا اظہار ہوا ہے۔ چند اشعار لکھے ہیں جس سے اس حقیقت کا اعتراف ہوتا ہے۔
لفظ و معنی کے رسولوں کی امانت ہوں میں
فن کی زینت، نئی قدروں کی علامت ہوں میں
صفحہ ۵۵ پر شہر آہن کا منجھا ہوا شاعر شمش فریدی کے نام سے مضمون ہے۔ شمش فریدی ایک منجھے ہوئے شاعر ہیں۔ معیاری تخلیق جس ہنر مندی سے قاری کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں یہ ان کا ہی حصہ ہے۔ ان کے خوب صورت شعر ملا حظہ کریں۔
کاغذ کی ناؤ چھوڑ گئی تھی ندی میں وہ
پانی میں تیرتی ہوئی تحریر مل گئی
علی منیر صاحب کے بارے میں صفحہ ٥٨ پر لکھا ہے: "موصوف افق ادب کے مدیر اعلا ہیں۔ اس سے پہلے کہسار نکالا کرتے تھے جس میں وہ کافی محنت کرتے تھے تو اشتہار کے لیے اپنے شاگردوں کی دکان پر جاکر کھڑے ہوجاتے  اور انھیں اشتہار مل جاتا تھا۔ صفحہ ٦٤ پر ایک خاص مضمون یادیں ڈاکٹر خورشید جہاں کی کے عنوان سے ہے جہاں موصوف احسن امام احسن پہلے اقتباس میں لکھتے ہیں اردو ادب میں خواتین نے اہم کردار ادا کئے ہیں اور صفحہ ٦٧ پر موصوف ڈاکٹر خوشید جہاں سے اپنے گہرے مراسم کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قریب ٣٥ سالوں سے ان کی فیملی کے ساتھ دیرینہ مراسم رہے ہیں لیکن میڈم کو قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع مجھے ونو بھاوے یونی ورسٹی میں ملا۔ ان کی بے وقت موت پر احسن امام احسن گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور  کہتے ہیں کہ موصوفہ ایک عورت کے ناطے ایک ماں کے ناطے ایک استاد کے ناطے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ گئی ہیں جو آسانی سے پر نہیں ہو سکتا۔
احسن امام احسن نے اس  اہم تصنیف سے در اصل سر زمین جھاڑکھنڈ کے قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے اور یہ وہی کر سکتا ہے جو سچا ادیب اور قلم کار ہوگا اور ادب ہی اس کے لئے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرے۔ جیسا کہ غالب دہلوی نے عیش کی تعریف یوں کی ہے جس شخص کو جس شغل کا ذوق ہو اور وہ اس میں بے تکلف عمر بسر کرے تو اسی کا نام عیش ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک ادیب یا قلم کار اپنے قلم کو سنبھالتا ہے تو اسے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہیں رہتی اور اپنے قلم سے صفحۂ قرطاس پر موتی بکھیرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت جناب احسن امام احسن صاحب کی ہے۔
اس کتاب میں شان بھارتی کی فکری روش کے عنوان سے ایک مضمون ہے۔ شان بھارتی ایک عمدہ شاعر اور صحافی ہیں اور رنگ جیسے معیاری رسالے کے مدیر ہیں۔ شان بھارتی کا تعلق کالے ہیرے کی سرزمین سے ہے جہاں احسن امام احسن صاحب بھی اس کا تذکرہ کرتے ہیں گویا ان کا تعلق دھنباد سے ہے۔ موصوف یوں رقم طراز ہیں:  "شان بھارتی کی شاعری میں اس کالی دھرتی کا ذکر نہ کیا جائے جہاں وہ پلے بڑھے جس دھرتی نے انھیں پہچان دی عزت بخشی، اس کوئلے کی کانوں کا ہیرا ہیں شان بھارتی اور مشہور و معروف ادیب  محبوب انور صاحب کہتے ہیں:  یوں تو شان بھارتی ایک متحرک اور فعال شخصیت کا نام ہے لیکن شعر و شاعری ان کی فطرت و جبلت میں شامل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدائے لم یزل نے شعر و ادب ان کے خمیر میں ڈال دیا ہے ورنہ دھنباد سے تیرہ چودہ کیلو میٹر دور ٹوٹی پھوٹی سی سجوا میں اردوزبان و ادب کا ایک سچا عاشق کہاں سے پیدا ہو جاتا۔
ان کے (شان بھارتی) کے اشعار قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں۔
ہمارے بعد کی ہر نسل یاد رکھے گی
کہ ہم بھی رہتے تھے ان کوئلے کی کانوں میں
پنپ رہی ہے شب و روز صنعتی تہذیب
نکل کے چمنی سے کالا دھواں پکارے گا
مجھے نوازیں مجھے بھی عطا کریں خلعت
میں اس سلگتے ہوئے شہر کا قصیدہ ہوں
انور امام، پرویز رحمانی، معین الدین شمسی، سہیل اختر، مقبول منظر، خورشید طلب، ارشد قمر، حسن نظامی، ڈاکٹر اقبال حسین، چاند نظامی جیسے عظیم قلم کار کا بہ خوبی جائزہ لیا ہے جناب احسن امام احسن نے.  صفحہ ٧٣ پر کہتے ہیں انور امام اپنی باتوں کو لطیف پیرائے میں ڈھال کر افسانے کا جال بنتے ہیں۔ افسانے کے فن کو بہ خوبی نبھانا اور فکشن پر گہری نظر رکھنا انھیں خوب آتا ہے۔ موصوف احسن امام احسن صاحب کہتے ہیں پرویز رحمانی نے آس پاس کے ماحول کی بھر پور عکاسی کی ہے۔
آج ہم جس افرا تفری کے ماحول میں جیتے ہیں خوف کے سائے میں سانس لیتے ہیں ایسے ماحول کے بعد پرویز رحمانی خاموش کہاں رہتے۔ انھوں نے عوام کے دکھ درد کو محسوس کیا اور اسے کاغذ کے سینے پر اتار دیا۔ ڈاکٹر اقبال حسین کا خیال ہے۔ پرویز رحمانی ارض جھاڑکھنڈ کے ایک منفرد لب و لہجہ، انوکھے طرز اور نرالے اسلوب و بیان کے اچھوتے شاعر ہیں. ان کے اختراعات و تراکیب اور انداز بیاں سب سے جداگانہ ہیں۔ انھوں نے علاقوں کے سطح پر معنی کے نئے تجربے کئے ہیں۔ صفحہ ٨٣ پر ایک مضمون بہ عنوان صحرا کے پھول کا شاعر معین الدین شمسی کے حوالے سے ہے۔ معین الدین شمشی صوبہ جھاڑکھنڈ کے مشہور و معروف شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں. ان کے چند اشعار قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر ہے۔
دل کی دھرتی میں جس نے دکھ بوئے
حق میں اس کے لیے دعا کرنا
کل تک تھا جو غنڈہ دغاباز چھوڑیے
شمشی ہے آج قوم کا رہبر بنا ہوا
موصوف نے سہیل اختر کو متعارف کرایا ہے اور کہتے ہیں کہ سہیل اختر بھونیشور میں ہیں۔ وہ ١٩٨٥ء میں IIT Kanpur سے Civil Engineer کی ڈگری حاصل کی ہے۔ موصوف احسن امام احسن نے خورشید طلب، مقبول منظر اور ارشد قمر کی شاعری کا خوب تجزیہ کیا ہے۔ مقبول منظر صاحب کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ان کی شاعری اچھی ہے۔ مستقبل میں ان سے امیدیں وابستہ ہیں.. 
خورشید طلب کے تعلق سے کہتے ہیں کہ لفظوں کی کرشمہ سازی خورشید طلب کے یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ اپنے مخصوص لب وہ لہجے میں بات کہنے کا فن ان کے ہاں موجود ہے۔ ان کے چند اشعار:
میں ایک جگنو مری حیثیت بھی کیا لیکن
یہ کم نہیں خس و خاشاک مجھ سے روشن ہیں
فرات سے کہو نہ میرے منھ لگے
کہ ایسی ویسی تشنگی نہیں ہوں میں
موصوف احسن کمال احسن صاحب صفحہ ١٠٧ پر لکھتے ہیں کہ یہ بات اپنے آپ میں قابل تعریف ہے کہ انھوں نے سنگلاخ علاقے میں رہ کر اور نامساعد حالات کے باوجود اپنا شعری سفر جاری رکھا ہے۔ ان کامجموعہ کلام دعائیں جل رہی ہیں اور پھر لطیف انداز میں کہتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے میری آنکھیں جل رہی ہیں پانچ سال قبل شائع ہو چکا ہے۔ تذکرہ اردو شعرائے پلاموں اور ارشد قمر کا بہترین کام اس مضمون میں احسن امام احسن صاحب کہتے ہیں کہ گمنام اور خاموش شعرا کو منظر عام پر لانا ایک اچھا کام ہے جس میں ارشد قمر کامیاب ہیں۔
صفحہ ۱۱۱ پر ایک خاص مضمون جی ایم جاوید میرا دوست کے عنوان سے ہے. غلام محی الدین ان کا نام اور قلمی نام جی ایم جاوید ہے۔ احسن امام احسن نے اپنے اس مضمون میں اپنے دوست جی ایم جاوید کا بہترین تعارفی خاکہ کھینچا ہے۔ جاوید صاحب کی پیدائش ۳/ اگست ١٩٦٥ء کو ہزاری باغ میں ہوئی تھی۔ بزم ظرافت ہزاری باغ نے ان کی ہزلیہ شاعری کا اعتراف کرتے ہوئے سپاس نامہ دیا ہے۔ جی ایم جاوید کے چند خوب صورت اشعار ملاحظہ کریں۔
بال کالا کرکے سب بوڑھے جواں ہونے لگے
جو خس و خاشاک تھے وہ کہکشاں ہونے لگے
چہرے کا رنگ صاف ہے بیگم کا اس قدر
جب دیکھتا ہوں چہرہ تو میدہ دکھائی دے
حسن نظامی مشتاق احمد اور ڈاکٹر اقبال حسین، راشد انور راشد، چاند نظامی کے حوالے سے موصوف احسن امام احسن نے اپنی اس کتاب میں بہت ہی خوب صورت انداز اور لطیف پیرائے میں تعارفی خاکہ پیش کیا ہے. اقبال حسین صاحب کی کتاب سخنوارانِ جھاڑکھنڈ ہے جس میں انھوں نے سخنورانِ جھاڑکھنڈ کو ایک جگہ جمع کردیا۔ ٥٤٤ صفحات کی یہ ضخیم کتاب واقعی بہت کچھ اپنے اندر رکھتی ہے۔ یوں رقم طراز ہیں۔سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے شعرا گمنامی کے غار میں تھے انھیں موصوف نے ڈھونڈ نکالا اور منظر عام پر لاکر ادب کے لوگوں کو ان سے روشناس کرایا۔ اقبال حسین یوں کہتے ہیں۔ جھاڑکھنڈ میں نہ صرف معدنیات کا خزانہ ہے بلکہ لسانی و ادبی خزانہ بھی چھپا ہوا ہے. بے شمار قابل قدر اور مستند شعرا و ادبا گوشہ گمنامی میں چھپے ہیں۔Definitely Chhotanagpur Pletue is full of precious minerals, but one can’t deny that this region is also filled with urdu poets and literers.
موصوف اقبال حسین صاحب نے نامور شعرا کی تلاش و جستجو میں رانچی جمشید پور پلاموں ہزاری باغ بوکارو مدھوپر گریڈیہہ اور متعدد شہروں اور قصبوں کی خاک چھانی اور جھاڑکھنڈ کے پرانے اور مستند شعرا کے علاوہ نئے شیشے اور کوہکن کو بھی ڈھونڈ نکالا جو گوشۂ گمنامی میں کھوئے تھے۔ آخر میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی صاحب کی بات پر اپنی بات ختم کرتے ہیں۔ "ڈاکٹر اقبال نے سخن ہائے گفتنی میں اس کتاب کے وجود میں آنے کا جو سبب بیان کیا ہے اس میں بڑا اخلاص ہے اور اسی وفورِ اخلاص نے ان سے اتنا بڑا کام کرا لیا ہے۔" راشد انور راشد صاحب کے تعلق سے ایک مضمون صفحہ ۱۳۱ پر ہے۔ جہاں کہتے ہیں کہ ادب کی تخلیق مشکل ترین راہوں سے گزر کر ہوتی ہے لیکن اللے تبارک تعالیٰ نے راشد کو جو تخلیقی شعور عطا کیا ہے وہ ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار ملاحظہ کریں۔
یہ خواب خواب سا منظر نیا ہے میرے لیے
مرا حریف دعا مانگتا ہے میرے لیے
اپنی آنکھوں کی ندی سوکھ چکی ہے شاید
اشک بھی ساتھ نہ دے پائے جو رونا چاہے
ہر لمحہ نئی یلغار کا خطرہ ستاتا ہے
مخالف سمت سے آتے ہیں لشکر شام ہوتے ہی
آخر میں مضمون چاند نظامی کے تعلق سے ہے۔ ایک مضمون ہے بعنوان ادب کا چاند چاند نظامی. آخری اقتباس میں احسن امام احسن صاحب یوں رقم طراز ہیں:  "بہر حال چاند نظامی نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے اندر بے پناہ تخلیقی صلاحیت اور فنکارانہ شعور موجود ہے مگر معلوم نہیں وہ کیوں تخلیقی کاموں سے دور دور رہتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ وہ ابھی جوان ہیں انھیں جم کر لکھنا چاہئے۔ ہر طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی کرنی چاہئے. "اور انھیں مبارکباد دیتے ہوئے کہتے ہیں "میں انھیں اس تحقیقی کام کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کے قلم میں اور روانی دے۔"
کتاب کے آخری ورق پر جناب نذیر احمد یوسفی یوں رقم طراز ہیں: اڑیسہ کی سرزمین پر اردو کے باغ و بہار با کمال اور ہنر مند شخصییتوں میں تازہ نسل کے نہایت تیز رفتار قلم کار احسن امام احسن کا نام نامی ادب کی نہج سے روشن ہے۔ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی جہاں ان کی شعری تخالیق ملک کے معیاری رسائل کی زینت بنتی ہیں وہیں فن اور شخصیت پر لکھے تاثراتی توصیفی اور تنقیدی مضامین بھی موقر رسائل کے صفحات پر اپنی اہمیت و افادیت کے جلوے بکھیرتے ہیں۔ ان کے لکھنے اور چھپنے کا ولولہ اور حوصلہ ان کے سنجیدہ مطالعہ اور فکری اختراع کی دین ہے۔؎ میں آخر میں جناب احسن امام احسن صاحب کو ان کی اہم تصنیف جھاڑکھنڈ کے قلم کار پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پر خلوں مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اور خدا کی بارگاہ میں سحدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا موصوف کے قلم کو طاقت بخشے اور ان کا قلم تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔ ان کے لیے خواجہ میر درد کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

مظفر نازنین کی یہ نگارش بھی پڑھیں : گوش بر آواز اور مشتاق دربھنگوی

شیئر کیجیے

One thought on “احسن امام احسن کی تصنیف جھار کھنڈ کے قلم کار : ایک مطالعہ

  1. مظفر نازنین، کولکاتہ کا خوبصورت اور پر مغز تحریر نظر سے گزرا۔ آپ نے احسن امام احسن کی تصنیف جھارکھنڈ کے قلم کار کا کماحقہ تعارف کرایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ ریاستِ جھارکھنڈ کے اُن تمام باکمال ادبا و شعرا کی ایک دستاویز تیار کی جائے جو اُردو زبان کی اپنے خون جگر سے آبیاری کر رہے ہیں۔ ایسے سینکڑوں قلمکار ہیں جو ابھی پردہ اخفا میں رہ کر اپنی کاوشات سے دامن اُردو کی توسیع کر رہے ہیں، ان کا بر وقت اعتراف ازحد ضروری ہے۔
    میں، ایک بار پھر احسن امام احسن اور مظفر نازنین کا بصمیم قلب شکریہ ادا کر تے ہوئے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی تحریروں سے مُجھ جیسے دور دراز دہلی میں بیٹھے ہوئے جمشیدپور کے افسانہ نگار اور شاعر کے دل میں وطن مالوف جمشید پور اور جھارکھنڈ کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔
    غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دِل وطن میں
    سید احمد شمیم کا نام صدیق مجیب کے مقابل آنا چاہیے تھا۔ اُن کے اور بھی کئی نام ہیں جن پر احسن امام احسن کو آئندہ کام کر نا چاہیے تاکہ اُنھیں ادب کی تاریخ میں احسن طریقے سے یاد کیا جاتا رہے۔ نیک خواہشات کے ساتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے