شخصیت : مقبول فیروزی

شخصیت : مقبول فیروزی

کالم نویس : ایس معشوق احمد

اللہ رب العزت نے انسان کو زبان اور قلم جیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے دل میں جو بات ہوتی ہے وہ زبان سے بیان کرتا ہے یا قلم سے لکھ کر دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ صرف دل میں موجزن باتوں کو ہی زبان سے ادا اور قلم سے لکھ کر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے احساسات، جذبات اور خیالات کو بھی ان کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ بعض انسان زبان سے زیادہ قلم کی نعمت کو استممال میں لاتے ہیں اور اس کی بدولت اللہ رب العزت انھیں اعلا مقام و مرتبہ دیتا ہے۔ وادی کشمیر میں بھی ایسی شخصیات موجود ہیں جو قلم جیسی نعمت کا صحیح ڈھنگ سے استعمال کرنا جانتے ہیں اور یہ بھی ان کے علم میں ہے کہ اللہ رب العزت کی ثنا خوانی کرنا، مذہب و مسلک کی خدمت کرنا، شرعی حدود میں رہ کر بہترین افکار و نظریات کی ترویج کرنا، اخوت و محبت کا پیغام دینا، گم راہ کن خیالات کے بجائے ایمان افروز واقعات کو صحفہ قرطاس کے حوالے کرنا ہی قلم کا صحیح استمعال ہے۔ ایسا ہی ایک معروف نام مقبول فیروزی کا ہے جن کا خاص میدان تصوف ہے اور اپنے قلم کے جوہر اس موضوع کی شرح میں دکھا رہے ہیں۔ وہ خود بھی تصوف جیسی مشکل اور پیچیدہ راہ پر چل کر کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان چھوڑ رہے ہیں تاکہ وہ صحیح سمت کی طرف گام زن ہوجائیں۔
ادبی دنیا میں مقبول فیروزی کے نام سے معروف شخصیت کا اصل نام محمد مقبول ڈار ہے۔ والد کا نام مرحوم غلام محی الدین ڈار، 3 نومبر 1950 ء میں فیروز پورہ رفیع آباد بارہمولہ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر یونی ورسٹی سرینگر سے فارسی ادبیات میں ایم-اے کیا اور اپنی محنت اور قابلیت سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اردو سے شغف رکھنے کے سبب پنجاب یونی ورسٹی چندی گڑھ سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ زبان و ادبیات فارسی میں ایم۔ فل کی ڈگری تہران یونی ورسٹی ایران سے حاصل کی۔پیشے سے سابق آفیسر برائے محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن جموں و کشمیر رہ چکے ہیں۔

مقبول فیروزی کا شمار کشمیر کے ان اہل علم حضرات میں ہوتا ہے جنھیں فارسی زبان پر دست رس حاصل ہے۔ فیروزی صاحب فارسی لکھ، پڑھ اور روانی سے بول لیتے ہیں۔ اردو اور کشمیری زبان پر بھی عبور ہے۔ گھر کا ماحول صوفیانہ ملا اور بچپن سے ہی تصوف کی کتابیں پڑھنے کا شوق رہا جس کو آج بھی پال رہے ہیں۔ خود قادری اور نقشسبدی سلسلے کے سالک ہیں اور ان دونوں سلسلوں سے قریباً دو دہائیوں سے عملی طور پر منسلک ہیں۔ قادری سلسلے میں الحاج پیر عبدالعزیز قریشیؒ اور نقشبندی سلسلے میں ان کے مرشد حضرت سائین حیات محمد سرولہ راجوری ہیں۔ مقبول فیروزی فارسی کے مشہور و معروف شعرا کے کلام سے واقف ہیں۔ اکثر اپنے مضامین میں علامہ اقبال کا تقابل فارسی شعرا سے کرتے ہیں اور اقبال کے فارسی اشعار کی شرح سہل اور آسان زبان میں کرتے ہیں جس سے اقبال کی فکر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تصوف کا تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ نام نہاد صوفی خلاف شریعت حرکات کرتا ہے، دو چار مریدوں کو تصوف کے اسباق، اشعار اور چند حوالوں سے مرعوب کرتا ہے اور جو ان کے خلاف بات کرتا ہے اس کے خلاف فتوی صادر کرتا ہے۔ لفظ صوفی کی مُحَقِّقِین نے مختلف وضاحتیں کی ہیں۔ "صفا" کا مطلب پاکیزگی ہے۔ جو لوگ روحانی صفائی پر زیادہ زور دیتے ہیں انھیں صوفی کہا گیا۔ "صوف" کا مطلب اون ہے۔ کہتے ہیں کہ عرب اور ایران میں کچھ لوگ اون کا لباس پہنتے تھے ان کو صوفی کہا جاتا تھا۔ ابو ریحان البیرونی نے لکھا ہے کہ "یونان میں صوفی فلاسفر کو کہتے ہیں۔ اسلام میں ایک گروپ ایسا تھا جو اسلامی نظریہ کو محققانہ و مفکرانہ انداز میں غور و فکر کرتا تھا، ان کو صوفی کہا گیا"۔ تصوف میں ایک انسان دنیاوی خیالات سے آزاد ہو کر مکمل طور سے اپنا آپ خدا کو سونپتا ہے۔ تصوف کا کام تزکیہ نفس کرنا ہے۔ ایک آدمی جب روحانی پاکیزگی اور خلوص نیت سے خدا کے حکم کو انجام دیتا ہے، خدا سے ڈرتا ہے، برائیوں سے خود کو بچاتا ہے، وہ طریقہ اپناتا ہے جس سے اللہ راضی ہوجائے تو جان لینا چاہیے کہ اس نے تزکیہ نفس کیا ہے۔ مقبول فیروزی کو تصوف سے خاص لگاؤ ہے۔ ان کی تصوف کے موضوع اور اس کی شرح و بسط پر اب تک دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ "تصوف پر اسلامی اور ایرانی اثرات" نامی کتاب 2017ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب سنٹرل یونی ورسٹی کشمیر نے ریلیز کی جس میں مفتی اعظم بوسنیا اور مفتی نذیر احمد دارالعلوم رحیمیہ کے علاوہ ٹیمپل یونی ورسٹی امریکہ کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ ہندستان کی کئی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان نے بھی شرکت کی. نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس کتاب میں تصوف پر اسلام کے اثرات پر مکالمہ باندھا گیا ہے۔ مختلف حوالوں سے فیروزی صاحب نے تصوف پر اسلام اور ایران کے اثرات پر اظہار خیال کیا ہے۔ پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
"مقبول فیروزی کی کتاب تصوف کے موضوع پر بہت ہی معلوماتی اور دل چسپ مندرجات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موصوف نے ایران کے بہت سارے مصنفین اور مفکرین کے حوالے دے کر بہت ساری نئی معلومات سامنے لائی ہے اور ہر موضوع [میں] مستند ماخذ کا حوالہ دے کر اپنی بات کو واضح کیا ہے۔ اس کتاب کو عام فہم زبان میں تحریر کرکے مقبول فیروزی صاحب نے ایک اہم خدمت انجام دی ہے اور اپنی خداداد علمی اور تنقیدی صلاحیت کا لوہا منوانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اگرچہ کتاب کے تمام ابواب بہت ہی مفید اور کار آمد نکات سے مزین ہیں مگر خاص طور پر عجمی اور ایرانی تصوف پر جو تحقیقی مواد فیروزی صاحب سامنے لاے ہیں، وہ کافی چشم کشا اور حیرت افزا ہے"۔
فیروزی صاحب کی ایک اور کتاب "گلدستہ طریقیت" ہے۔ یہ کتاب 2021ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں مقبول فیروزی نے طریقیت کی وضاحت کی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں طریقیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ___
"شریعت قرآن و سنت کے ظاہری احکام پر عمل کرنے کا نام ہے اور طریقیت، شریعت کے باطنی احکام بجا لانے کا نام ہے۔ طریقیت تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سکھاتا ہے اور انسان کے اندر مذموم اعمال ختم کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ طریقیت کی غایت وصول الی اللہ اور سعادت ابدی حاصل کرنا ہے۔ یہ ایک مقدس علم ہے جو شریعت پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوجاتا ہے۔ طریقیت انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ علم وجود باری تعالی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور خالق اور مخلوق دونوں سے محبت کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔
طریقیت انسان کو صبر و قناعت، بردباری، عبادت اور ریاضیت، ذکر و فکر، انس و محبت اور خدمت خلق سکھاتا ہے۔"

مقبول فیروزی کی تصوف پر ہفتہ وار سیریز تعمیل ارشاد میں تقریباً ایک سال متواتر چھتی رہی ہے۔ نہ صرف تصوف بلکہ مختلف شخصیات اور ان کی فکر و فن کے حوالے سے مضامین بھی تعمیل ارشاد میں چھپتے رہتے ہیں۔ مقبول فیروزی اردو کے فروغ میں پیش پیش مخلتف اداروں اور تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔ صدرِ بارہمولہ راٸٹرس فورم، فکشن رائٹرس گلڈ کے ممبر، ادبی مرکز کمراز کے ممبر، دبستان ادب رفیع آباد کے ممبر، انجمن اردو ادب کے ممبر، عالمی روحانی انجمن کے ممبر ہونے کے علاوہ کٸی قومی اور بین الاقومی ادبی، دینی، فلسفی اور صوفیانہ تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔ ادب کی خدمت کے صلے میں مقبول فیروزی کو مختلف اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ غنی کشمیری گولڈ میڈل انڈ و ایران سوسایٹی، میرٹ اسکالرشپ وزارت امور خارجہ حکومت ایران، سر محمد اقبال ایوارڈ از جموں کشمیر ثقافتی مرکز، انفوٹل ادبی ایوارڈ اور کئی توصیفی اسناد مختلف ادبی انجمنوں سے ملی ہیں۔
مقبول فیروزی نے مخلتف ممالک کی سیر کی ہے جن میں ایران، افغانستان، پاکستان، عراق اور سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی تین کتابیں "دو ہم خیال حضرت مجدد الف ثانی اور علامہ اقبال"، "مقالاتِ مقبول" اور "سفر نامہ ایران" طباعت کے مراحل میں ہیں۔ ابھی لکھ رہے ہیں اور قوی امید ہے کہ ان کے قلم سے ادب کی مزید آبیاری ہوگی۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :باری کا انتظار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے