وبا میں ہمارے نظامِ تعلیم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

وبا میں ہمارے نظامِ تعلیم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

 ابھی اس کا جائزہ باقی ہے

اسکول، کالج اور یو نی ور سٹیوں کے مقفّل رہنے کے دوران ملک کا نظامِ تعلیم مزید زوال کا شکار ہوا مگر اس سے نجات کی موثر کوششیں معدوم ہیں۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

مارچ ٢٠٢٠ء سے کورونا کی ابتدائی اطّلاعات کے ساتھ جو ہمارے تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہوئے، وہ کم و بیش اب تک اسی انداز سے چل رہے ہیں۔ کچھ اداروں نے آزمائش کے طور پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے کلاس کی تعلیم اور کچھ امتحانات کا بھی بند و بست کیا مگر مرکزی حکومت نے اس سلسلے سے صوبائی حکومتوں کو اپنے طور پر حالات کے پیشِ نظر فیصلے کی اجازت دے دی ہے، اس لیے پورے ملک میں ایک جیسی صورتِ حال دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ مرکزی یونی ورسٹیوں کے دروازے اب بھی مقفل ہیں اور داخلہ امتحانات یا سالانہ امتحانات اور نتایج کے اعلانات تک ان کی سرگرمیاں محدود ہیں۔ قومی سطح کے بہت سارے امتحانات جن میں دس اور بیس لاکھ لوگ ایک ساتھ شریک ہوتے ہیں، ان میں بھی بعض امتحانات ہوئے، کچھ آن لائن اور کچھ آف لائن کی شکل میں منعقد کیے گئے مگر حقیقی بات یہ ہے کہ مارچ ۲۰۲۰ء سے پہلے کی چہل پہل، رونق اور تعلیمی زندگی کی عمومی رفتار واپس نہیں آ سکی ہے۔
جیسے ہی وبائی صورتِ حال سامنے آئی، ملک اور دنیا کے نظام میں واضح تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ بازار کے ساتھ ساتھ تمام طرح کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔اس زمانے کے وزیرِ تعلیم کے پاس ان کے جو مشیران کام کر رہے تھے، ان کی رو سے فوری طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ اس مشکل حالت میں آن لائن نظامِ تعلیم کی طرف ہمیں بڑھ جانا ہے۔ اسکول کے بورڈ سے لے کر یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے عہدے داران تک، سب کے دماغ میں یہ بات تھی کہ ہمارے طالب علموں کو کوئی نقصان نہ ہو جائے، اس لیے فوری طور پر نظامِ تعلیم کو آن لائن موڈ میں جہاں تک ممکن ہو، بدل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔دوسرے ترقّی یافتہ ملکوں کی دیکھا دیکھی میں بہ عجلت یہ فیصلہ ہوا تھا، اس لیے اس کے پیچھے کوئی مبسوط غور و فکر کا پیمانہ وضع نہیں ہوا تھا۔ اس بات کی کوئی جانچ پرکھ ہی نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے ملک میں کتنے طلبا کے پاس ان کے گھر میں انٹر نیٹ، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ موبائل فون کی سہولتیں حاصل ہیں؟ پھر یہ بات کہ جن گھروں میں دو چار اور پانچ بچے بر سرِ تعلیم ہیں اور ان گھروں کے والدین بھی بر سرِ کار ہیں؛ کیا وہاں موبائل اور لیپ ٹاپ یا ڈیکس ٹاپ وغیرہ کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے یا نہیں۔ کیوں کہ دفتر بھی آن لائن چل رہے تھے، اور اسکول اور کالج بھی۔ یہی نہیں، مقابلہ جاتی امتحانات کی کوچنگ کا بھی ایک آن لائن نظام قایم ہو گیا۔ اس میں اساتذہ اور طلبا بھی شریک ہو گئے۔ جب مسائل سامنے آنے لگے تو پتا چلا کہ ہمارے گھروں میں ضرورت کی ایک چوتھائی الیکٹرانک چیزیں موجود نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آن لائن تعلیم کا جو فیض جاری ہوا، وہ ایک چوتھائی سے زیادہ تک پہنچ ہی نہیں سکتا تھا مگر اسے حکومت اور تعلیمی انتظام کاروں نے پوری حقیقت کے طور پر پیش کیا. جب کہ سچائی یہ رہی کہ سارا عمل خانہ پری سے آگے کا کچھ نہیں تھا۔
آن لائن نظامِ تعلیم کے سرکاری اعلانات اور ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے چمکیلے اشتہارات کو چھوڑ کر اگر زندگی کی حقیقی دنیا میں قدم رکھیں تو اس پچیس فی صد کام کے جو نتایج سامنے آئے، وہ تعلیم، صحت اور معیشت تینوں پہلوؤں سے خطرناک ہیں۔ پہلی دوسری جماعت کے بچوں نے موبائل کے اسکرین پر روزانہ چار چار گھنٹے اپنی آنکھ لگا رکھی تھی، اس کا بُرا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں بچوں کی آنکھ کی روشنی متاثر ہوئی۔ کچھ کے چشمے لگ گئے، کچھ کے پیشِ نظر دوسرے امراض ہیں۔ اور ایک بڑا طبقہ ہے جسے آنے والے وقت میں اس تعلیمی نظام کے جبر کا شکار ہونا ہے۔ طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اس طرح کی بیماریوں کے مرتکب ہوئے۔ کسی ایک جگہ پر بالعموم کسی خاص وقفے کے بغیر کرسی پر بیٹھ کر ایک جسمانی انداز سے چار پانچ اور چھے گھنٹے جن لوگوں نے پڑھے یا پڑھائے، ان کی پیٹھ، کمر، کندھا اور گردن کے امراض رفتہ رفتہ سامنے آنے لگے ہیں۔ حکومت نے ان تمام پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا کہ اچانک ایک نئے نظام کو جبریہ طور پر قبول کر نے میں کس انداز کے مسائل پیدا ہوں گے۔ غفلت شعاری تو یہ ہے کہ آج تک تعلیمی انتظام کاروں کے ذہن میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ آن لائن نظام کی حدود کیا ہیں، اور کیا ان کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ میں صحت کے ایسے شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو ساری زندگی چلیں گے؟ حکومت کے فیصلے کے بُرے نتایج بھگتنے کے لیے عوام، طالب علم اور اساتذہ مجبور اور بے بس ثابت ہوئے۔
ابتدا میں بچوں کے وقت کی بربادی یا نصاب کے ادھورا رہنے کے مسائل پر غور کیا گیا اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ امتحانات میں تیس اور چالیس فی صد نصاب کو القط کر دیا جائے گا۔ اس بات پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی کہ نصاب کا جو حصّہ انھیں نہیں پڑھایا گیا ،اس کی بھرپائی زندگی کے کس مرحلے میں ممکن ہو سکے گی۔کچھ اداروں نے یہ طے کیا کہ جہاں جہاں داخلی امتحانات ہو چکے تھے، انھی کی بنیاد پر فائنل نتایج دے دیے جائیں۔ کہیں وہ بھی ممکن نہیں ہوا تھا مگر بچوں کو نقصان نہ ہو، اس لیے کاغذی طور پر انھیں ڈگری پیش کر دی گئی اور آگے کی جماعتوں میں پہنچا دیا گیا۔ یہ کام بھی چھوٹے اداروں سے لے کر مرکزی یونی ورسٹیوں تک دیکھنے میں آئے۔ یہاں بھی اس بات کی وضاحت اب تک سامنے نہیں آئی کہ نصاب کا جو حصّہ رہ گیا، یاامتحان کے جو مراحل بچ گئے، ان کے لیے مستقبل میں کیا کیا جائے گا؟
مرکزی اور صوبائی سطح پر بھی کوئی یکساں فارمولا نہیں تیّار کیا گیا تھا، اس لیے اس تعلیمی وقفے سے نمٹنے کے لیے سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی۔ کسی نے اپنے ویب سائٹ پر سوالات بینک ڈال دیے اور طلبا سے کہہ دیا گیا کہ انھی میں سے فائنل امتحانات کے سوال ہوں گے۔ کہیں یہ طے کر دیا گیا کہ معروضی سوالات پر مشتمل امتحانات لیے جائیں گے۔ ایسے امتحانات ہوئے اور ہمارے طالب علموں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ جن کتابوں یا موضوعات کو نصاب میں شامل رکھا گیا تھا، ان کا انداز مضمون نویسی والے جواب کے لیے موزوں تھا۔ جب ان سے ویسی کتابوں پر سو سو سوالات پوچھے گئے تو ان کا ذہن کام کرنے سے عاجز آ گیا۔ ایک مثال سے اس مشکل کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک یو نی ور سٹی میں تاریخِ اسلام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اور خلافت راشدہ سے متعلق جب سو معروضی سوال کیے گئے ہوں گے تو عام طالب علم اور اساتذہ کو کون کہے، بڑے بڑے علماے کرام کی پالکی رکھ دی جائے گی۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ دونوں طرح کے امتحان کے مزاج کے فرق کو نہ یونی ور سٹی نے سمجھا اور نہ اس کے اعلا حکام نے ان نزاکتوں کو غور کیا۔ نتیجہ بھگتنے کے لیے ہمارے طلبا ہر حال میں مجبور و بے کس ہیں، اور وہ اس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
گذشتہ پونے دو برسوں میں بے شک ہمارے طلبا اور اساتذہ نے تعلیم کے دوران تکنیک سے استفادہ کرنے کا ایک سلیقہ پا لیا ہے۔ اس سے ان کے سیکھنے کا عمل تیز تر ہوا ہے اور وہ نئے نئے وسائل کی طرف بڑھنے لگے ہیں مگر ان برسوں میں ذہنی ارتکاز، کتابوں کی ورق گردانی کا ذوق اور اساتذہ اور طلبا کے دوران تبادلۂ خیال میں جو کمی آئی ہے، اس کے برے نتایج رفتہ رفتہ سامنے آتے جائیں گے۔ اساسی کتب کے متن پر توجہ کرنا، کتب خانوں میں نئے نئے وسائل کی تلاش کرنا، عمل گاہوں میں تجربوں سے حیران کن نتایج پیدا کرنا جیسے بنیادی کام جو اس دوران ہماری زندگی سے نکل گئے ہیں، اس کی واپسی کے لیے کون کوشاں ہے۔ جن سینئر طلبا کو اپنی تحقیق کے لیے تجربہ گاہوں میں رات دن ایک کرنا تھا اور جنھیں فیلڈ اسٹڈی کے لیے سفر کرنے تھے اور متعدد صوبوں اور ملکوں سے معلومات حاصل کرنی تھی، وہ سب بکھرے ہوئے خوابوں کے جبر میں پریشان ہیں۔ یونی ور سٹی گرانٹس کمیشن یا دوسرے ادارے تحقیق کی مدّت میں توسیع کا فرمان جاری کرکے طلبا کے لیے بہ ظاہر ہمدردانہ فیصلے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر یہ حقیقی مداوا نہیں ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں اس بات کی اب تک کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی ہے کہ زندگی کے ان کھوئے ہوئے برسوں کی بھرپائی آبرو مندانہ طریقے سے کس طرح ہو پائے گی۔ بزرگوں اور مختلف طرح کی بیماریوں کے شکار افراد اور کورونا کی زد میں آئے لاکھوں زندگی سے ہار چکے ہیں، ہمیں یہ خوف آتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہماری تعلیم گاہوں میں کسمساتی ہوئی یہ نسل کسی بڑے نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہو جائے، اس وقت ہندستانی سماج کے لیے کورونا سے بھی بڑی آفت آ جائے گی مگر ہم سب طوفان کی زد میں شترمرغ کی طرح ریت میں سر گاڑ کر یہی سمجھ رہے ہیں کہ اب خطرات ٹل گئے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گامگر ایسا نہیں ہے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
صاحب تحریر کا یہ مقالہ بھی پڑھیں :http://سرسید کے تعلیمی تحفّظات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے