ڈا کٹر ذاکر فیضی نئی نسل کا افسانہ نگار

ڈا کٹر ذاکر فیضی نئی نسل کا افسانہ نگار

احسن امام احسن

ذاکر فیضی کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ اُن کے اسلوب سے آشنائی ہوئی۔ اردو سے محبت اور اُن کی محنت پر بے جا تنقید نہیں کی جا سکتی۔ ابھی انھیں تنقیدی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی انھیں اور بھی لکھنا ہے۔ بس وہ لکھتے جائیں، وقت فیصلہ کرے گا۔ بس اُن کی محنت کو سلام کیا جا سکتا ہے۔
موصوف نے ”نیا حمام“ میں ایک مخصوص سماج کو ننگا کر دیا ہے۔ رضی شہاب صاحب لکھتے ہیں:
” ذاکر فیضی کا فن برسوں کی ریاضت کے بعد اس مقام تک پہنچا ہے۔ بیانیہ کے ساتھ اس لمبے سفر نے انھیں کہانی بُننے اور کہنے کے ہنر سے واقف کرا دیا ہے۔ زبان و بیان ساہ رکھتے ہوئے بھی دل چسپی کے عنصر کو کہانی سے دور جانے نہیں دیتے۔ یہ ذاکر فیضی کا کمال ہے۔“
ڈاکٹر ذاکر فیضی کے یہاں حقیقت نگاری کا عمدہ نمونہ ملتا ہے۔ ساتھ ہی مسائلِ کائنات پر اُن کی بڑی گہری نظر ہے۔ جس کی پیکر تراشی وہ بڑی خوب صورتی سے کرتے ہیں۔ افسانہ ”نیاحمام“ میں انھوں نے میڈیا پر کرارا وار کیا ہے اور میڈیا کے بازاری کرن کو بے نقاب کیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
” پُل پار کرتے ہی ٹرین ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رُکی۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے ہم اُن کو پکڑیں، وہ پستول کی نوک پر ہم سے دور ہو جاتے ہیں۔ کیمرہ مین دوڑ کر اُس مقام پر پہنچتا ہے، جہاں پر بچّی کو پھینکا گیا ہے۔ بچّی مر چُکی ہے۔۔۔۔۔ سر! یہاں سے ہم لائیو (Live) ٹیلی کاسٹ کریں گے اور سر بریکینگ نیوز میں بچّی کا کلوز اپ لیا جائے گا۔ تب ہم فخر سے کہیں گے یہ نیوز صرف ہمارے پاس ہے، کسی دوسرے چینل کے پاس نہیں۔“
تین سال کی اندھی گونگی اور بہری بچّی کو مارا جانا ہے۔ پچیس سال کی حسین عورت جو بیوہ ہو گئی ہے اور اپنے پرانے عاشق سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے بچّی کو مارنا ہے۔ یہ مسالہ میڈیا کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ سارا تانا بانا بُننے میں رپورٹر لگ جاتے ہیں۔ فیضی نے میڈیا کا ننگا پن دکھایا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی سماج اور معاشرے کی منظر کشی میں کمال رکھتے ہیں۔ گھریلوں پریشانیوں سے گھرے لوگوں کے حالات، سماجی مسائل اور سماج کا بے غیرت چہرہ۔ یہ سب ان کی کہانیوں میں ملے گا۔ ذاکرفیضی کا بیانیہ سادہ بیانیہ نہیں بلکہ یہ ایک فن ہے جو بیانیہ انداز میں سب کُچھ کہہ کر نکل جانے کا فن کہلاتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں جس انداز سے اپنی تحریر کا جادو چلاتے ہیں، اس سے ان کی نثری صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی میڈیا سے دل چسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے ماس میڈیا کا کورس بھی کیا ہے۔ اس لیے میڈیا سے اچھّی واقفیت ہے۔ مجموعے میں ایک افسانہ ”اسٹوری میں دم نہیں ہے“ ہے۔ یہ افسانہ سماج کا گھناؤنا چہرہ دکھاتا ہے۔ اور ساتھ ہی میڈیا کا چہرہ بھی سامنے رکھتا ہے۔ اس میں جنسی موضوع کا چٹخارا بھی موجود ہے۔ دراصل آج کے افسانہ نگاروں کے پاس سماج کا وہ چہرہ سامنے ہے جو مختلف مسائل سے گھرا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی موجودہ عہد میں لکھے جا رہے افسانے کو نظر میں رکھتے ہیں پھر افسانے میں کردار کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ سطحی رومانیت، کھوکھلی جذباتیت اور اشتہاریت سے گریز کرتے ہیں۔ اپنے افسانوں میں کھلے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ذاکر فیضی اپنے فکر و خیال کو روشن رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ عمدہ افسانے سماج کو دے پاتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی نے اپنی کہانیوں میں سماج کی تصویر کو بڑے ہی عمدہ طریقے سے اتارا ہے۔ چاہے موضوع جو بھی ہو۔ میں آدمی وہ انسان، ہریا کی حیرانیاں، وائرس، ٹوٹے گملے کا پودا، میرا کمرہ، کسی بھی کہانی کو لے لیں، اُس میں عجیب سی کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغام آفاقی کہتے ہیں:
”فیضی کے اندر ایک عمدہ افسانہ نگار ہے، جو اپنے انداز میں افسانے لکھ رہا ہے. "
ڈاکٹر ذاکر فیضی نے موجودہ دور کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پروس دیاہے۔ جو صحت مند رویے کی ایک جھلک ہے۔ اُن کے افسانوں میں المیاتی انجام ہے اس لیے امتیاز احمد علیمی لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر ذاکر فیضی ایک اہم المیاتی تخلیق کار ہیں انھوں نے انھی المیوں کو اپنے افسانوں میں بہ حسن و خوبی پیش کیا ہے جن سے ہم سب روازانہ دوچار ہوتے رہتے ہیں یا جو ہماری سائیکی کا حصّہ بن چکے ہیں۔“
ڈاکٹر ذاکر فیضی کا اسلوب اُن کا اپنا اسلوب ہے جو اُن کے افسانوں کی پہچان ہے، سماج کی تلخ حقیقت کو قاری کے سامنے پیش کرنے کا انداز منفرد ہے، وہ وقت کی پُکار کو اپنی نظروں میں رکھتے ہیں۔ زندگی کی سچائی اور حقائق کو ظاہر کرنے کے لیے افسانوں کا سہارا ذاکر فیضی کا اچھّا قدم ہے۔ ان کی کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ملک کے مشہور و معروف قلم کار ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی رقم طراز ہیں:
”ڈاکٹر ذاکر فیضی کی بیشتر کہانیاں مشاہدات اور حادثات کو واقعات میں بدلنے کی شعوری کوشش
کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے ابھی واردات کی منزل دور نظر آتی ہے۔ ”ٹوٹے گملے کا پودا“ بھی سرسری نظر میں ایک سیدھی سادی المیہ کہانی نظر آتی ہے۔ ایسی المیہ کہانی جو ہماری بارہا دیکھی اور سُنی ہے۔ مگر اس کہانی کی نُدرت اور خوب صورتی سادگی میں پیوست پیچیدگی میں مُضمر ہے۔“
ڈاکٹر ذاکر فیضی اپنی باتوں کو لطیف پیرائے میں ڈھال کر افسانے کا جال بنتے ہیں جو حقائقِ زندگی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فیضی کے افسانوں کے خدو خال نہ کہ صرف بلند ہیں بلکہ نُدرت بھی پیدا کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے یہاں افسانے کا کینوس بہت وسیع نظر آتا ہے۔ ذاکر فیضی اپنے مشاہدات کو افسانے کے جسم میں پیوست کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں موضوعاتِ زندگی کے ایسے پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں کہ قاری غور و فکر کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ذاکر فیضی کی افسانہ نگاری پر مُلک کے بہت سے قلم کاروں نے اپنی رائے دی ہے۔ ڈاکٹر اشرف لون نے بہت ہی باریک بینی سے اُن کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے اور انھیں نوجوان نسل کا ایک اہم افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اشرف لون فرماتے ہیں:
”ذاکر فیضی کے افسانوں کا پہلا افسانوی مجموعہ ”نیا حمام“ کے عنوان سے چھپ کر سامنے آ چکا ہے۔ اس مجموعے میں پچیس افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ذاکر فیضی کے یہاں نہ صرف موضوعات کی جدّت پائی جاتی ہے بلکہ وہ افسانے کے فن سے بھی اچھّی طرح واقف ہیں لیکن ابھی ان کا سفر تکمیل کو نہیں پہنچا ہے اور ان کے فن میں پختگی آنا باقی ہے۔ لیکن بات یہ کہ ذاکر فیضی برابر لکھ رہے ہیں اور نئے نئے تجربے کر رہے ہیں۔ انھوں نے نئے اور اچھوتے موضوعات کو اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ آج کے انسان کی زندگی، جدید میڈیا کی فریب کاریاں اور سرمایاداری نظام کے تحت پنپنے والی غربت جیسے سنگین مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔“
ڈاکٹر ذاکر فیضی نے افسانے کے معنوی منظر کو خوب صورتی کے ساتھ قاری کے ذہن میں چسپاں کر دیا ہے۔ ذاکر فیضی موضوع اور اسلوب کی سطح پر نئے نئے تجربے کرتے ہیں۔ اُن کا افسانہ جدید بھی ہے اور مابعد ِ جدیدیت کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ افسانوں میں زندگی کے جتنے نقوش ہیں وہ ذاکر فیضی کے افسانوں میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ذاکر فیضی کی کہانیاں عصری حقائقِ زندگی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری ”نیا حمام“ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”مجموعی طور پر شاملِ کتاب افسانوں کا احاطہ کریں تو ”نیاحمام“ کے کئی افسانے، افسانچے فن اور فکر موضوعاتی برتاؤ اور پلاٹ اور پلاٹ سازی اور کردار نگاری مثالی افسانے ہیں، کیوں کہ مطالعہ سے ظاہر ہے کہ ذاکر فیضی کرافٹ اور بیانیہ کو کنٹرول کرنے کا اچھّا فنّی شعور رکھتے ہیں۔“
ڈاکٹر ذاکر فیضی کے یہاں عروج و زوال کی کہانی نظر آتی ہے۔ اُن کی کہانیوں میں اُلجھاؤ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی قاری کہیں اُلجھ جاتا ہے۔ مسلسل ریاضت سے ان کا افسانہ نکھر رہا ہے۔ اُن کی تحریر اور اسلوب دیکھ کر اُن کے تابناک مُستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ذاکر فیضی: نئے حمام کا افسانہ نگار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے