عصر حاضر میں تعلیمات نبوی کی معنویت

عصر حاضر میں تعلیمات نبوی کی معنویت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

اللّٰہ رب العزت نے جب سے یہ دنیا قائم کی، پہلے دن سے ہی انسانوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لے انبیا و رسل کو مبعوث کرنا شروع کیا، بلکہ جب اس دنیا میں کوئی انسان نہیں تھا صرف آدم علیہ السلام تھے، اس ایک انسان کو نبی بنایا، دنیا آباد ہوتی گئی، آبادیاں بڑھتی رہیں، کائنات کا نظام وسیع ہوتا رہا اور اس وسعت کے حساب سے انبیا و رسل بھیجے جاتے رہے، تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب مختلف علاقوں کے لے الگ الگ رسول بھیجے گئے تاکہ وہ احکام الہی کو لوگوں تک پہنچائیں، خود کرکے دکھائیں، اور وہ لوگوں کے لیے آئیڈیل ہوں، یہ احکام الہی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بھی رہیں، اس لیے آسمانی کتابیں اور صحیفے بھیجے گئے، ضرورت کے اعتبار سے یک بارگی یا قسطوں میں، پھر ایک دور وہ آیا جب خالق کائنات نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر معبوث کیا، کتاب اللہ کی شکل میں تئیس سال میں قرآن کریم کو قیامت تک کے لیے دستور حیات بنا کر نازل کیا اور عالم الغیب اور علیم بذات الصدور نے اس پورے نظام کی تکمیل کا اعلان کردیا، اور نعمت باری کے اتمام کا مژدہ سنادیا، رعایت قیامت تک آنے والے لوگوں کی ملحوظ رکھی گئی اور قرآن کریم کو قیامت تک کے لیے تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو جامع کمالات اور صفات کے ساتھ جوامع الکلم بنایا گیا اور ملفوظات نبوی بھی دین کا حصہ قرار پائے، زبان نبوت سے یہ اعلان بھی کروا دیا گیا کہ زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات و ملفوظات بھی وحی الہی سے ہی صادر ہوتے ہیں اور معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کی قرآن کریم کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی. اب یہ ساری تعلیمات قرآن و احادیث میں مذکور اور محفوظ ہیں. ان تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور اس نے ہر دور میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے. جب جب ان تعلیمات سے انسانوں نے دوری اختیارکی، انسانیت کراہنے اور سسکنے لگی، انسانوں کے خود ساختہ دستور، قوانین اور نظام زندگی نے بنی نوع انسان کو سکون، راحت و آرام پہنچانے کے بجائے اسے نت نئے مسائل اور پریشانیوں سے دوچار کیا، موجودہ دور اس کی منہ بولتی تصویر اور عصر حاضر کے مسائل و مشکلات اس کی واضح مثالیں ہیں. ہر طرف افراتفری اور افراط و تفریط کی گرم بازاری ہمیں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہا ہے، یہی ایک صورت ہے جس میں پریشان دنیا کا مداوا ہے۔ ہم نے ایک کے سامنے سر کو جھکانا چھوڑ دیا تو پتہ نہیں کتنی جگہوں پر جبیں سائی کرنی پڑرہی ہے۔ ہمیں’’یک درگیر و محکم گیر،، کا حکم دیا گیا تھا. ہم نے بہت سارے دروازوں سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں، نتیجہ میں ہمیں ہلاکت و بربادی، افلاس و پس ماندگی ملی، ہمیں غصہ پر قابو پانے کا حکم دیا گیا تھا اور جو اسے پچھاڑ دے اس کے قوی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، ہم اس معاملہ میں اتنے کم زور ثابت ہورہے ہیں کہ ہماری شبیہ جذباتی اور جوشیلی بن گئی ہے، تحمل اور برداشت کا مادہ ہم میں باقی نہیں ہے، جس کے مضر اثرات کھلی آنکھوں ہم دیکھ سکتے ہیں، ہمیں غیبت، چغل خوری، تجسس، ذات برادری کی لعنت سے دور رہنے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سماج بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن ہم اس پوری لعنت کو ترقی اور رفع درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے، اس کے لیے تنظیمیں بنائی جانے لگیں، اور ہم آپس میں دست و گریباں ہونے لگے. دھوکہ دہی مسلمانوں کے شایان شان نہیں تھا لیکن مادی منفعت کے حصول کی ہوس میں یہ شان جاتی رہی، اب پھٹے کپڑے اور خراب مال کو اچھا کہہ کر اچھی قیمت پر فروخت کردینے والا ہی اچھا سلزمین ہے، گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹ کے سفوف ملانے کے واقعات بھی حیرت انگیز نہیں ہیں، لوگوں پر رحم کرنے والے پر اللّٰہ کی رحمت کے نزول کی بشارت دی گئی تھی، لیکن ظلم و جور ہمارا شیوہ بن گیا، علم ہماری شناخت کا ذریعہ تھا، ہم جہالت میں ممتاز ہو کررہ گئے، اللّٰہ کا خوف باقی نہیں ہے. ہمیں امت وسط اور خیر امت بنا کر لوگوں کو صحیح راستے پرلانے کا کام سپرد کیا گیا تھا، ہم خود گم کردہ راہ ہوگئے، راہ بری کس طرح کرسکتے ہیں. سود کی لعنت سے پاک تجارت اور معاشی نظام ہماری پہچان تھی، لیکن ہمیں سودی کاروبار کرنے تک میں عار نہیں ہے. کوششیں اس کی بھی ہوتی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ہندستان میں سود کو جائز قرار دے دیا جائے، ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انھیں اف تک کہنے سے روکا گیا تھا، ان کے لے اپنے کاندھے جھکا دینے کا حکم دیا گیا اور ہم ان کے لیے اولڈ ایج ہوم کی تجویز لارہے ہیں، تاکہ ہماری بے لگام زندگی میں وہ کہیں پر رکاوٹ نہ بنیں، ہمیں اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، عورتوں کو بے پردہ نکلنے اور بنائو سنگھار کرکے غیروں کے سامنے آنے سے منع کیا گیا تھا، ہم نے ان حدود و قیود کو اس طرح توڑا کہ رشتوں کا احترام باقی نہیں رہا، ہمیں ام الخبائث شراب کی حرمت بتائی گئی تھی کہ اس میں گناہ بڑا ہے. ہم نے اس کو شیر مادر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا، جوئے، قمار سے ہمیں روکا گیا تھا، لیکن ہم نے اسے جلد مال دار ہونے کا نسخہ سمجھ لیا، اب جوئے خانے کے لائسنس دیے جاتے ہیں اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے میں کھلے عام جوا کھیلا جاتا ہے، ہمیں اسراف و فضول خرچی سے منع کیا گیا تھا اور فضول خرچی کرنے والے کوشیطان کا بھائی قرار دیا گیا تھا، ہم مختلف تقریبات میں ہزاروں روپے کے پٹاخے پھوڑ رہے ہیں، دو دو سو روپے کے شادی کارڈ چھپوا رہے ہیں، اور کئی کئی سو بلکہ ہزارہزار روپے کی پلیٹوں پر دعوت ولیمہ کررہے ہیں، بینڈ باجے، رقص و سرود، ڈکوریشن اور استقبالیہ کے نام پر جو تماشے ہم کررہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں، انسانی اعضا کی تجارت کو حرام قرار دیا گیا تھا ہم پورے کے پورے سالم جوان لڑکے کو تجارت کا مال سمجھ بیٹھے ہیں، لڑکی والوں پرشادی میں کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا ہم تلک و جہیز کے ساتھ کھانے تک کے مینو طے کرنے میں لگے ہیں. ہمیں مہر دینے کا حکم دیا گیا تھا، ہم نے اسے دین مہر بنادیا، ہم نے اسلامی تعلیم کو چھوڑا تو خاندان ٹوٹنے لگا۔ ہمیں پورے خاندان کا نگراں بنایا گیا تھا اور اس حوالے سے ہماری باز پرس بھی ہونی ہے، لیکن ہمیں کلبوں، تفریح گاہوں سنیما گھروں اور دوستوں کی مجلسوں سے فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے گھر خاندان اور بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکیں، پاکیزہ زندگی گزارنا ہمارا طرۂ امتیاز تھا، آج اس کا خیال تک قصہ پارینہ ہے، اس لیے عصرحاضر میں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اس سے بہت دور ہوگئے ہیں، اور ہم کا مطلب صرف مسلمان نہیں ہیں،تمام انسان ہیں. اس لیے کہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے، اللّٰہ تمام جہان کا رب، رسول تمام جہان کے رسول اور قرآن کریم تمام جہان کی ہدایت کے لیے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ جس نے اس دعوت کو قبول کرلیا ہے اس پر سارے احکام لاگو ہوتے ہیں اور جو ابھی ایمان نہیں لائے ان پر پہلے ایمان لانا اور پھر تمام احکام پر عمل کرنا ضروری ہے. جو لوگ بغیر ایمان لائے بھی تعلیمات نبوی کے دوسرے حصوں کو اپنی زندگی کا محور بنائیں گے وہ بھی دنیا میں اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اس قسم کی آواز لگاتے رہتے ہیں کہ حکومت کرنی ہے تو اس کا طریقہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمرؓ سے سیکھو اور انسانی ہم دردی اور اکرام انسانیت کا درس اسلام سے حاصل کرو۔ آیئے ہم پھر تعلیمات نبوی کی طرف لوٹ چلیں، اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گذاریں، اور نفس کے شر سے بچاکر اپنے اور اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور جن پر مامور فرشتے صرف اللّٰہ کی مانتے ہیں، ان کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم ہوتا ہے کر گذرتے ہیں. لا یعصون اللہ ماامر ھم ویفعلون مایؤمرون _
مفتی صاحب کی یہ نگار بھی ملاحظہ ہو :ولادت با سعادت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے