ولادت با سعادت

ولادت با سعادت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

ربیع الاول کا مہینہ ہمیں اس ذات اقدس کی ولادت با سعادت کی یاد دلاتا ہے، جن سے بہتر انسان پر آج تک سورج طلوع نہیں ہوا، ان کی آمد سے چمنستان عالم میں بہار آئی، ظلم و جور کا خاتمہ ہوا، عدل و انصاف سے دنیا معمور ہوئی، ایک دوسرے کے حقوق کا احساس پیدا ہوا، جہالت دور ہوئی، علم و فضل نے اپنا سکہ جمایا، کراہتی اور سسکتی انسانیت کو نئی زندگی ملی، اسی نسبت کی وجہ سے اس مہینہ میں ذکر نبی کی مجلسیں زیادہ سجتی ہیں، سیرت کے جلسے ہوتے ہیں، جلوس محمدی کا اہتمام ہوتا ہے، یہ سب اظہار محبت ہی کے نام پر ہوتا ہے، ہمیں یہ بات ضروریاد رکھنی چاہیے کہ محبت کا اظہار اس انداز میں ہو جو محبوب کو پسند ہو، محبت کا ایسا اظہار جو محبوب کی خفگی کا سبب بن جائے اس سے پر ہیز لازم ہے، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو سامنے رکھ کر اظہار محبت کرنا چاہیے، مبادا کوئی عمل ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے دور نہ کر دے اور ہماری بے احتیاطی ہمارے اعمال کے ثواب سے محروم نہ کردے، بلکہ ہمارا شمار دوسروں میں نہ ہونے لگے۔
اس لیے اس ماہ میں ان اعمال کی کثرت ہونی چاہیے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھے، مثلاً کثرت سے درود شریف کا اہتمام، اپنی زندگی کو اسوۂ رسول کے مطابق بنانے کی جد وجہد، اس کے علاوہ سیرت پاک پر کسی ایک کتاب کا مطالعہ جس میں ولادت با سعادت سے وصال تک کے احوال مستند اور محقق انداز میں درج ہوں، آج کل وھاٹس اپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کا استعمال لوگ کثرت سے کر رہے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم پورے ماہ ہر روز پابندی سے ایک ایسی حدیث اپنے احباب کو بھیجیں، جس میں سماجی مسائل اور انسانیت سے متعلق بات کہی گئی ہو، دعوتی نقطۂ نظر سے ایسی حدیثیں اپنے غیر مسلم دوستوں کو بھی ارسال کریں؛ تاکہ وہ بھی تعلیمات نبوی سے آشنا ہو سکیں، ائمہ مساجد اور علما اس کی روشنی میں مذہبی رواداری، حقوق کے تحفظ، امن، بھائی چارگی، مختلف لسانی و مذہبی گروہوں کے ساتھ عدل و انصاف کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں، تاکہ بعض داخلی و خارجی حالات کی وجہ سے ملک میں بے چینی وعدم رواداری اور فرقہ وارانہ منافرت کی جو فضا پیدا ہو گئی ہے، اس پر قابو پانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ جمعہ اور دوسرے موقعوں سے سیرت پاک کو اپنی گفتگو کا موضوع بنائیں، اخبارات اس کا اہتمام کریں کہ صرف جمعہ ہی نہیں اس مہینے کے تمام ایام میں سیرت پاک پر مضامین ومقالات شائع کریں، اسکول و مدارس کے ذمہ داران، طلبا کے درمیان سیرت کے موضوع پر مقابلوں کا انعقاد کریں اور اچھی کار کردگی دکھانے والے طلبا کو انعام و اکرام سے نوازیں، غیر مسلموں کو بھی سیرت پاک سے واقف کرایا جائے اور بتایا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے رسول ہیں اور آپ کی زندگی سب کے لیے نمونۂ عمل ہے، اظہار محبت کے یہ چند طریقے جو فوری طور پر اللہ نے ذہن میں ڈالے، درج کیے گیے ہیں، آپ اپنے طور پر بھی اس پر غور کر سکتے ہیں، صرف ایک بات کا خیال رکھنا ہے کہ طریقہ کوئی سا بھی ہو، اسلامی ہو اور اس میں غیروں کی مشابہت نہ پائی جاتی ہو۔
مسلمان ایک داعی قوم ہے، اعلا اخلاقی اقدار کا سب سے بڑا دخیرہ اس کے پاس ہے، ساری چیزوں کی کمی دوسرے ممالک اور ادیان دور کر سکتے ہیں؛ لیکن انسانی قدروں کے فروغ اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے دوسروں کے پاس کچھ نہیں ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک اور بیرون ملک میں تیزی سے پھیل رہی گم راہی کو دور کرنے کے لیے آگے آئیں، محبت رسول ہمارے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے، ہم اس سوغات کو لے کر عیسائیوں، جینیوں، بدھشٹوں اور اپنے برادران وطن کے پاس جائیں اور انھیں اسلامی تعلیمات سے روشناش کرائیں، غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ نشستیں کریں، سیمینار و سمپوزیم میں ان کو مدعو کریں، اپنے اخلاق کریمانہ کا عکس ان پر ڈالیں، ان کے لیے دعا بھی کریں کہ اللّٰہ ان کے دل کے دروازے ایمان واسلام کے لیے کھول دے، اس پورے مہینے میں اس کام کے لیے اپنے کو فارغ کیجیے اور سیرت نبوی کو گھر گھر پہنچانے کے ارادے سے کمر بستہ ہو جائیے اللّٰہ کی نصرت اور مدد آپ کے ساتھ ہے۔
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو:حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے