قصیدۂ بردہ شریف اب اردو زبان میں

قصیدۂ بردہ شریف اب اردو زبان میں

ترجمہ نگار: سید عارف معین بلے

(1)
جَل اُٹھی کیا شمعِ یادِ دوستانِ ذی سَلَم
خونِ دل بہنے لگا آنکھوں سے میری ایک دم
(2)
جھونکا کوئے کاظمہ سے آیا ہے یا پھر حضور
بجلی چمکی، ہوگیا روشن شبستانِ اِضَم
(3)
ہو گیا کیا؟ جو تری آنکھوں سے جاری ہے جھڑی
کیا ہوا ہے؟ دل پہ کیا ٹوٹا ترے کوہِ ستم
(4)
چُھپ نہیں سکتی محبت، ہے عبث تیرا خیال
ہے ترے سوزِ دروں کا آئینہ یہ چشمِ نم
(5)
سوزِ دل نے ہی رُلایا قریۂ برباد پر
ورنہ کب بے تاب کر سکتےغمِ بان و عَلَم
(6)
تو محبت سے کرے انکار ممکن ہی نہیں
بولتا ہے چہرہ، دیتی ہے گواہی چشمِ نم
(7)
ناتوانی، اشک افشانی دلیلِ عشق ہے
زرد ہے چہرہ توخونِ دل سے یہ آ نکھیں ہیں نم
(8)
جب خیالِ یار آیا رات آنکھوں میں کٹی
عشق نے سارا مزہ ہی کر دیا ہے نذرِ غم
(9)
اے مرے ناصح تو میری معذرت کر لے قبول
تو اگر منصف ہے تو مت توڑ اب مجھ پر ستم
(10)
ہیں سبھی واقف مرے احوال سے تیرے سوا
درد جو دل میں اُٹھا ہے، ہو نہیں پائے گا کم
(11)
وہ نصیحت خوب تھی پَر اس کا سُننا تھا محال
اِس محب کی ہو گئی رخصت سماعت ایک دم
(12)
سچا ناصح ہے بڑھاپا، میں نے کب اس کی سنی؟
جب نصیحت ہو ضعیفی ہے مُعریٰ از تہم
(13)
بد نصیبی! نفسِ اماّرہ نے اِس کو رد کیا
تھی مری پیرانہ سالی کی نصیحت محترم
(14)
میزبانی ہی نہ کر پایا مرا حسنِ عمل
سر پہ آ پہنچا ہے مہمانِ ضعیفی ایک دم
(15)
مجھ پہ کُھل جاتی اگر توقیر اس مہمان کی
کالی مہندی سے میں سر کے بال رنگتا دم بہ دم
(16)
ہے کوئی جو نفسِ سرکش کو لگامیں ڈال دے
گھوڑے کی جیسے طنابیں کھنچتی ہیں بس ایک دم
(17)
نفس کا تو ہو نہیں سکتا گناہوں سے علاج
ہَوکا بڑھ جائے تو پُر ہو ہی نہیں سکتا شِکم
(18)
نفس میں اور ایک بچے میں نہیں ہے کوئی فرق
روک کر ہی شیر خواری کو چھڑا سکتے ہیں ہم
(19)
قابو پالے نفس پر، تو فرماں برداری نہ کر
ورنہ مٹ جائے گا یا پھر عیب کچھ ہوں گے نہ کم
(20)
رشتہ اب حسنِ عمل کا خود نمائی سے نہ جوڑ
دور رکھ ہر اک چراگاہِ عمل سے تو قدم
(21)
روغنی ہر اِک غذا میں، خوب تھا بے شک مزہ
کاش! تو یہ جانتا شوگر میں بھی مخفی ہے سَم
(22)
ہو شکم سیری یا فاقہ، مکر سے تو اِن کے ڈر
فاقہ مستی بھی شکم سیری سے بڑھ کر، کب ہے کم؟
(23)
اپنی آنکھوں سے گناہوں کو تُو اپنے پاک کر
بہنے دے اپنی پشیمانی کے آنسو دم بہ دم
(24)
نفس اور شیطان دشمن ہیں، کہے میں تو نہ آ
جھوٹ ہیں دونوں، نصیحت ان کی سچی بھی تہم
(25)
یہ ترے دشمن ہوں یا حاکم، اطاعت تو نہ کر
مکر ان کا جان لے، ہے ایک دشمن، اِک حَکَم
(26)
توبہ استغفار قولِ بے عمل سے اے خدا
بانجھ عورت ہے، امید اولاد کی رکھتے ہیں ہم
(27)
ہے نصیحت نیکیوں کی، خود مگر اس سے ہیں دور
کیا کرے گا کوئی، جب کہ خود نہیں کرتے ہیں ہم
(28)
آخرت کا کیا کیا سامان ؟ کچھ بھی تو نہیں
فرض روزوں اور نمازوں کے سوا خالی ہیں ہم
(29)
سنتِ خیر الوریٰ پر ظلم ہی میں نے کیا
رات بھر جن کی عبادت سے تھا پیروں پر وَرَم
(30)
ہائے راہِ حق میں جب فاقوں پہ نوبت آ گئی
باندھے پتھر پیٹ سے اور بانٹے دِینار و دِرم
(31)
سونے کے چل کر پہاڑ آئے کہ حاضر ہیں حضور
کر دیا ان کو نظر انداز، کیا، یہ کچھ ہے کم؟
(32)
زہد و تقویٰ کر دیا حاجات نے مضبوط تر؟
غالب آئے کیسے حاجت آپ پر شاہِ امم
(33)
کیسے حاجت ان کو دنیا کی طرف مائل کرے
وہ نہ ہوتے تو یہ دنیا کا وجود ہوتا عدم
(34)
آپ ہیں سردارِ دو عالم محمد مصطفیٰ
اِنس و جاں کیا؟ آپ ہیں شاہِ عرب، شاہِ عجم
(35)
آمر و ناہی پیمبر آپ یکتا‘ لاجواب
سچے ہر اِک قول میں، میرے رسولِ محترم
(36)
وہ حبیبِ پاک ہیں بے شک شفاعت کی امید
ہوں گے جب ہم خوفِ محشر سے گرفتارِ الم
(37)
آپ کی دعوت پہ رسی، جس نے حق کی تھام لی
یہ کبھی رسی نہ ٹوٹے گی نبیِ محتشم
(38)
خُلق میں اعلا ہیں بے شک، خَلق میں برتر حضور
سارے نبیوں سے ہے بڑھ کر آپ کا عِلم و کرم
(39)
ملتمس ہیں انبیا سب آپ کے دربار میں
چُلّو ساگر سے ملے، اِک بوند از ابرِ کرم
(40)
اپنی حد میں ہیں کھڑے سب انبیا پیشِ حضور
حرف کے نقطے وہ، یہ علمِ کتابِ مختتم
(41)
صورت و سیرت میں سب سے برتر و اعلا حضور
یوں بھی ہیں باری تعالیٰ کے حبیبِ محترم
(42)
ان کے اوصاف و محاسن میں نہیں کوئی شریک
مل نہیں سکتا کسی کو جوہرِ شاہِ اُ مم
(43)
ابنِ مریم کے لیے جو کچھ نصاریٰ نے کہا
وہ نہیں، پردل سے کر مدحِ نبیِ محتشم
(44)
ہر شرف کو ذاتِ بابرکات سے منسوب کر
منزلت درکار ہے تو شان کر اُن کی رقم
(45)
کوئی بھی تو حد نہیں مولا کے علم و فضل کی
وہ کہاں سے لائیں منہ، جو کر سکیں توصیف ہم
(46)
آپ کی عظمت کے شایاں معجزے ہوتے اگر
نام پر جی اُٹھتیں خستہ ہڈیاں شاہِ امم
(47)
عقل کو بھی آزمائش سے بچایا آپ نے
یہ کرم ہوتا نہ تو تشکیک سے بچتے نہ ہم
(48)
معنیِ قرآں کُھلے ہیں، ساری دنیا دنگ ہے
دیکھی ہیں جب سے صفاتِ سیدِ خیرالامم
(49)
آپ ہیں سورج کہ جو چھوٹا سا آتا ہے نظر
دیکھ جب اس کی طرف خیرہ ہوں آنکھیں ایک دم
(50)
دنیا والے پائیں گے کیسے حقیقت آپ کی؟
غفلتوں میں پڑ گئے ہیں، قومِ خوابیدہ ہیں ہم
(51)
انتہائے علم بس یہ ہے، وہ ہیں خیر البشر
ساری مخلوقات سے بہتر رسولِ محتشم
(52)
انبیا و مرسلیں کے معجزے بھی خوب تھے
آپ ہی کا نور تھا، یہ آپ ہی کا تھا کرم
(53)
انبیا بے شک ستارے، آپ سورج فضل کا
روشنی سیارگاں کی آپ کا نور و کرم
(54)
نکلا جب سورج تو سارا جگ ہی روشن ہو گیا
آپ ہی کے نور سے جی اٹھی ہے ہر اک امُم
(55)
اللہ اللہ کیا عظیم الخلق ہیں خیر البشر
ہے جمالِ مصطفی میں سیرت و صورت بہم
(56)
غنچہ آسا تازگی میں ہیں، شرف میں ماہتاب
ہمت و جرات میں یکتا، دریا دل، بحرِ کرم
(57)
ہیں جلالت میں یقینا آپ خود اپنی مثال
تنہا بھی ہوں تو نظر آتا ہے لشکر کا حَشَم
(58)
سیپ میں موتی کی طرح آپ کے دندانِ پاک
معدنِ نطق و تبسم ، چہرۂ شاہِ اُمم
(59)
جاگ اٹھے بخت اس کا، جو بھی اس کو چوم لے
بوئے خاکِ پاکِ دربارِ رسولِ محترم
(60)
کُھل گئے دنیا پہ میلاد النبی سے وصف سب
پاک ہے آغاز ان کا، پاک ان کا مختتم
(61)
اہلِ فارس ڈر گئے سن کر ولادت کی خبر
اُڑ گئے ہیں ہوش، ان پر چھا گیا ہے ابرِ غم
(62)
ڈھے گیا ہے قصرِ کسریٰ، کرچی کرچی ہو گیا
ہو گئے اصحابِ کسریٰ منتشر پھر ایک دم
(63)
آتشِ فارس بھی ٹھنڈی پڑ گئی، یہ کیا ہوا؟
کر گیا ہے چشمۂ آبِ رواں کو خشک غم
(64)
خشک پنگھٹ دیکھ کر ہیں مضطرب ساوہ کے لوگ
پیاسے لوٹے ہیں، غم و غصہ کہاں ان کا ہے کم
(65)
غم کے مارے آگ بھی تو ہو گئی تھی آب آب
ہو گیا پانی بھڑک کر آگ ہی از سوز و غم
(66)
لشکرِ شیطاں بِلک اُٹھا تجلی دیکھ کر
معنی و کلمات سے ظاہر ہوا حق دم بہ دم
(67)
اندھے بہرے تھے بشارت کیسے پھر سنتے بھلا
دیکھتے کیسے بھلا؟ تخویفِ برق از رنج و غم
(68)
کاہنانِ دہر نے بس اتنی ہی دی تھی خبر
جتنے ہیں ادیانِ باطل، ہو گئے سب کالعدم
(69)
آسماں سے ٹوٹتے تارے بھی پھر دیکھے گئے
گر پڑے اوندھے زمیں پر، سرنگوں ہو کر صنم
(70)
یوں وحی کے راستے سے بھاگ اُٹھے شیطاں سبھی
پڑ رہے ہیں آگے پیچھے ایک دوجے کے قدم
(71)
ابرہہ کا تھا وہ لشکر ، یا وہ کوئی فوج تھی
آپ نے پھینکی تھیں کنکریاں رسولِ محترم
(72)
آپ نے تسبیح پڑھ کر پھینکا جو کنکر حضور
پیٹ سے مچھلی کے باہر آئے یونس ایک دم
(73)
سجدہ کرتے آپ کی دعوت پہ آئے ہیں شجر
یہ تنوں کے بل چلے، جیسے نہ ہوں ان کے قدم
(74)
خوب کھینچیں چل کے دھرتی پر درختوں نے سطور
ڈالی ڈالی نے بھی ڈالے رستے میں کچھ پیچ و خم
(75)
چلچلاتی دھوپ میں سایہ فگن ہے آپ پر
ابر بھی ہر اِک سفر میں آپ کاہے ہم قدم
(76)
آپ کے قلبِ منور کو ہے نسبت چاند سے
جو کیا تھا شق، میں اس کی سچی کھاتا ہوں قسم
(77)
آنکھ کے اندھے تھے جب کفار، کیسے دیکھتے؟
ہے قسم کہ غار میں محفوظ تھے خیر و کرم
(78)
صدق اور صدیق دونوں غار میں محفوظ تھے
غار میں کوئی نہیں، کفار بولے ایک دم
(79)
جالا مکڑی کا، کبوتر کے یہ انڈے دیکھ لو
سوچا ہو سکتے نہیں، اس میں رسولِ محترم
(80)
ہاں زرہ، اونچے قلعوں کی ہر سہولت بخش کر
کی حفاظت آپ کی رب نے نبیِ محتشم
(81)
جب ستم دنیا نے توڑے، میں پکارا "المدد"
آپ نے بخشی اماں، ہے آپ کا لطف و کرم
(82)
دین و دنیا میں نے کی، دستِ نبوت سے طلب
جو بھی کچھ مانگا ملا، ہے آپ کا یہ بھی کرم
(83)
خواب میں بھی تو وحی آتی تھی مت انکار کر
خواب میں بیدار رہتا تھا دلِ شاہِ امُم
(84)
خواب بھی ہوتے ہیں سچے، ہے نبوت کا کمال
کر نہ سچے خواب کا انکار، مت کر یہ ستم
(85)
بارک اللہ اکتسابی ہو نہیں سکتی وحی
غیب داں ہوتا نہیں، کوئی نبیِ محترم
(86)
چھو لیا دستِ مبارک سے تو بیماری گئی
بھاگ اٹھی دیوانگی، ہے آپ کا یہ بھی کرم
(87)
قحط سالی ہو گئی کافور، فصلیں جی اُٹھیں
آپ کی بس اِک دعا سے برسا ہے ابرِ کرم
(88)
ٹوٹ کر برسے ہیں بادل، ہو گیا جل تھل حضور
ندیاں چھلکی ہیں اور آیا ہے سیلابِ عَرَم
(89)
میں بیاں کیسے کروں اوصافِ آیاتِ مُبیں
وہ شبِ تاریک میں مشعل نما ہیں اِ ک عَلَم
(90)
اک لڑی میں موتیوں کا حسن بڑھ جاتا ہے پر
قدرو قیمت جب یہ بکھری ہوں تو کب ہوتی ہے کم؟
(91)
اس لیے بھی حقِ مدحت ہو نہیں سکتا ادا
عقل سے بالا ہیں اخلاقِ رسولِ مختتم
(92)
ہیں مرے رحمان کی آیاتِ حق سب لاجواب
ہے قدیم اس کی صفت، بے شک وہ موصوفِ قدم
(93)
عہدِ رفتہ سے نہیں نسبت، پر عبرت کے لیے
حال عقبیٰ کا سنائیں، قصۂ عاد و اِرم
(94)
انبیا کے معجزے سب، اِس طرف قرآن پاک
دائمی بھی وہ نہیں ہیں اور اس سے بھی ہیں کم
(95)
کوئی بھی تو شک نہیں، آیاتِ محکمات میں
دیکھیے قرآن ناطق ہے کہ وہ ہیں خود حَکَم
(96)
دشمنی میں جس نے بھی قرآن کی کھولا محاذ
زندہ رہنے کو کیا اس نے سرِ تسلیم خم
(97)
جو کیے دعوے بلاغت کے، غلط ثابت ہوئے
باقی جانی دوست غیرت مند ہیں اہلِ حرم
(98)
موجزن دریا بھی ہے اب گوہرِ قرآں کے ساتھ
قدرو قیمت میں یقیناً گوہرِ دریا ہے کم
(99)
جو عجائب ان میں مخفی، ان کی گنتی ہے محال
جتنا چاہے فیض پاﺅ، شوق کب ہوتا ہے کم
(100)
آنکھوں کو ٹھنڈک ملی، قاری سے میں نے کہہ دیا
تھام رسی رب کی، ہو گی فتح تیری ہم قدم
(101)
ہو اگر دوزخ کا ڈر اور تو اسے پڑھ لے اگر
آتشِ دوزخ یقیناً اس سے ہو جائے گی کم
(102)
حوضِ کوثر کی طرح دھو دے گی تیرے سب گنہہ
آئے گی چہرے کی کالک پر سفیدی ایک دم
(103)
عدل کی وہ ہیں ترازو، راستہ سچائی کا
کب بھلا ان کے بغیر انصاف کر سکتے ہیں ہم
(104)
جو بھی حاسد اب کرے انکار مت حیران ہو
ہے تجاہل عارفانہ ورنہ، ہے کب فہم کم
(105)
آنکھیں آئی ہوں تو دیکھیں کیسے نورِ آفتاب
میٹھا پانی کیا مزہ دے، ذائقے میں ہے سُقم
(106)
آپ ہیں ان سب سے اچھے حاضری دیتے ہیں جو
پا پیادہ یا سوارِ اُشترانِ باد دم
(107)
معتبر ہو کوئی تو ہیں آیتِ کبریٰ حضور
نعمتِ عظمیٰ برائے مغتنم شاہِ امم
(108)
گھومتا پھرتا ہے جیسے بدرِ کامل رات بھر
مسجدِ اقصیٰ میں پہنچے آپ از بیت الحرم
(109)
ماورائے عقل ہے ان کا مقامِ ارجمند
فاصلہ تو رہ گیا ہے دو کمانوں سے بھی کم
(110)
مسجدِ اقصیٰ میں جا کے دیکھو، ہے مخدوم کون؟
مقتدی ہیں آپ کے سب انبیائے ذی حَشَم
(111)
آپ نے ہفت آسماں کی سیر کی نبیوں کے ساتھ
بھیڑ میں بے شک فرشتوں کی اٹھایا ہے عَلم
(112)
کوئی پہنچا ہے نہ پہنچے گا جہاں پہنچے حضور
ہے بہشت و عرش بھی تو آپ کے زیرِ قدم
(113)
پہنچے ہیں اُس مرتبت پر سارے چھوٹے ہو گئے
آپ ہی بعد از خدا بے شک ہیں سب سے محترم
(114)
رازِ سر بستہ مقامِ وصل پر افشا کیے
کُھل گئے اسرارِ حق سب از رہِ فضل و کرم
(115)
سب فضائل آپ میں، جن میں نہیں کوئی شریک
عظمتوں میں آپ لاثانی ہیں یا شاہِ امم
(116)
ہیں عظیم الشان بے شک سب مراتب آپ کے
نعمتیں ہیں ماورائے عقل، کیا سمجھیں گے ہم
(117)
اے مسلمانو مبارک ہو، ملا ہے دیں تمہیں
تا اَبد رہنا ہے دینِ سیّدِ خیر الامم
(118)
حق تعالیٰ نے کہا ہے آپ کو خیر الرسل
آپ کی طاعت کے صدقے ہم ہوئے خیر الامم
(119)
دشمنوں کے ہل گئے دل، سن کے بعثت کی خبر
جس طرح چنگھاڑ سے سہمے ہرن بس ایک دم
(120)
کیا ہوئی غزوات میں کفار کی حالت نہ پوچھ
جسم کیا، وہ سر تھے نیزوں پر ہوئے تھے جو قلم
(121)
چاہتے تھے جنگ کی دہشت سے وہ راہِ فرار
نوچ لیں، چیلوں گِدھوں کی اب غذا بن جائیں ہم
(122)
سہمے سہمے بیت جاتی تھیں سبھی راتیں مگر
صرف ان راتوں کے، ہیں جن کے مہینے محترم
(123)
وہ سمجھتے تھے کہ دیں مہمان ان کے گھر کا ہے
چاہتے تھے دشمنوں کو نوچ ڈالیں مل کے ہم
(124)
لشکرِ دریا تھا سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ساتھ
جنگ کے میدان میں ٹکراتی موجیں دم بہ دم
(125)
دعوتِ حق پر مجاہد آ گئے میدان میں
چاہتے ہیں کفر کی بنیاد کردیں کالعدم
(126)
کوششوں سے ان کی آخر دین، ملت بن گیا
بچھڑے ساتھی کیا ملے کہ ہو گئی غربت بھی کم
(127)
نیک شوہر مل گیا بیوی کو اور بچوں کو باپ
بیوگی کا دھڑکا ہے نہ اب یتیمی کا ہے غم
(128)
عزم و استقلال کی چٹّان تھے، میں کیا کہوں
پوچھ ان سے، جس نے دیکھی، ان کی جراتِ اَتَم
(129)
پوچھ لے بدر و حنین و اُحد سے، بتلائیں کیا
کافروں کو موت آئی جو وبا سے کب تھی کم
(130)
خونِ دشمن سے ہوئی تلوار ان کی سرخرو
کالے لمبے بال والوں کو دیے کب زخم کم
(131)
دشمنوں کے جسم کو بے نقط کب رہنے دیا؟
لکھتے ہیں حرفِ غضب کیا خوب، نیزوں کے قلم
(132)
تھے مسلح، پر تھے پیشانی پہ سجدوں کے نشاں
تھے صحابہ گل تو، کب کفار تھے کانٹوں سے کم
(133)
ان کی نصرت کی خبر پہنچی ہے اب تو جان لے
تھی بہارِ جادواں غنچوں کے پردوں میں بہم
(134)
جیسے ٹیلوں پر شجر ہوں یوں تھے گھوڑوں پر سوار
زین چاہے سخت ہے پر یہ تو ہیں ثابت قدم
(135)
اڑ گئے ہیں جنگ کے میدان میں دشمن کے ہوش
انساں اور چوپائے دونوں ایک ہیں تو کیا ہے غم
(136)
نصرتِ شاہِ دو عالم جس کو ہو جائے نصیب
شیر سے بھی سامنا ہو تو نہیں مارے گا دم
(137)
دوست ان کا کوئی بھی ناکام ہو سکتا نہیں
دل شکستہ ہی رہے گا دشمنِ شاہِ امم
(138)
شیر جیسے اپنے بچوں کی نگہبانی کرے
آپ نے محفوظ یوں فرمائی ہے خیر الامم
(139)
دشمنوں کو خاک چٹوا دی کلام اللہ نے
اور دلائل نے کیا، ان کا سرِ تسلیم خم
(140)
معجزہ تو دیکھو وہ امی بھی ہیں، عالم بھی ہیں
ہاں یتیمی میں ہنرور ہیں رسولِ محتشم
(141)
چھوڑ دی ہے شاعری اب دنیا داری کے لیے
کر رہا ہوں نعتِ سرکارِ دو عالم میں رقم
(142)
پٹہ گردن میں ہے، قربانی کا ہوں کیا جانور؟
ڈر رہا ہوں اپنے میں انجام سے اب دم بہ دم
(143)
بچپنے کی گمرہی سے کیا بھلا حاصل ہوا
دولتِ جرم و ندامت سے ہیں مالا مال ہم
(144)
دکھ ہے میرے نفس نے سودا خسارے کا کیا
دین کے بدلے خریدی دنیا، یہ توڑا ستم
(145)
صرف دنیا کے لیے بیچی ہے جس نے آخرت
ہے نرا گھاٹے کا سودا اس کے حق میں کم سے کم
(146)
عاصی ہو کر بھی نہ توڑا آپ سے عہدِ وفا
رسی میں نے تھام رکھی ہے رسولِ محترم
(147)
اس لیے بھی مجھ کو امیدِ شفاعت ہے حضور
نام میں میرے "محمد" ہے نبیِ محتشم
(148)
روزِ محشر ہاتھ گر تھاما نہ میرا آپ نے
بدنصیبی ہی مِری ہو گی اگر رَپٹا قدم
(149)
میں رہوں محروم یہ تو آپ کا منصب نہیں
خالی پلٹوں کیسے ممکن ہے نہ ہو مجھ پر کرم
(150)
ہو گئے ہیں وقف سب افکار مدحت کے لیے
آپ کے صدقے ہی ہر مشکل سے اب نکلیں گے ہم
(151)
آپ کے دستِ کرم کی برکتیں درکار ہیں
جس طرح گلشن بنا دے دشت کو ابرِ کرم
(152)
میں زُہیرِ وقت ہوں نہ مجھ کو دولت چاہیے
مال وزر اس نے سمیٹا بن کے مداحِ ھَرَم
(153)
آپ سے بہتر نہیں کوئی تو میں جاﺅں کہاں
حادثوں سے اب بچا لیں، چھانٹ دیجے ابرِغم
(154)
منتقم بن کر خدا جب ہو گا جلوہ گر حضور
آپ کا رتبہ شفاعت سے میری ہوگا نہ کم
(155)
دین اور دنیا ہے کیا، یہ آپ ہی کی ہے عطا
آپ ہی کے علم سے ہے علم ِالواح و قلم
(156)
اے مرے دل ان گناہوں سے نہ تو مایوس ہو
مغفرت کے سامنے تو انتہائی ہیں یہ کم
(157)
جب بٹے گی رحمتِ رب مجھ کو یہ امید ہے
بڑھ کے ہو گا میرے عصیاں سے کہیں رب کا کرم
(158)
رد نہ کر دنیا مری امید کو ربِ جلیل
حشر میں رحمت اگر ہو تو نہیں ہے کوئی غم
(159)
دین و دنیا میں تو مجھ پہ لطف فرما اے خدا
صبر کا دامن چھٹا جائے بہ صد درد و الم
(160)
حکم دے دے ابرِ رحمت کو مرے ربِ جلیل
تا ابد برسے نبی پر ٹوٹ کر ابرِ کرم
(161)
آل اور اصحاب کیا، سب تابعینِ پاک پر
رحمتیں ہر متقی، برصاحبِ علم و کرم
(162)
یا اللہ راضی ہو بوبکر و عمر، عثمان سے
اور علی سے، ہیں جو، اصحابِ رسولِ ذی حَشَم
(163)
ہاں یونہی کرتی رہے بادِ صبا اٹھکھیلیاں
مستی اونٹوں کی حُدی خوانی بڑھائے دم بہ دم
(164)
مغفرت فرمائیے، جس نے لکھا، اب جو پڑھے
آپ سے یہ التجا ہے صاحبِ جود و کرم
***
قصیدۂ بردہ شریف کی حاشیہ آرائی کیوں؟
۔۔۔۔
ذکر اشخاص و اماکن کا بھی ہے اس میں رقم
جن کے بارے میں یقیناً جانتے ہیں لوگ کم
ہے مقامات و اماکن کا تعارف ناگزیر
ذکر کن اشخاص کا ہے؟ جاننا چاہیں گے ہم
یوں اٹھایا ہے قلم اب حاشیہ آرائی کو
کھل سکیں معنیِ نعتِ سیدِ خیر الامم
لفظ کے محمل میں لیلیِ معانی دیکھئے
آپ کہتے ہیں تو یہ پردہ ہٹا دیتے ہیں ہم

1۔ سَلَم ۔ پہلا شعر
اس قصیدے میں کیا ہے آپ نے ذکرِ سلَم
یہ سلم کیا ہے، سنو وہ ہے مقامِ محترم
بارہا چومے نبیِ پاک کے جس نے قدم
ایک موضع ہے یہ مکہ اور مدینے کی قسم
بیٹھتے تھے جس کی چھاﺅں میں نبیِ محتشم
پیڑ کیکر کا ہے، جس کو لوگ کہتے ہیں سلم
استعارہ بھی یہ بے شک روضۂ اقدس کا ہے
ہاں جہاں آرام فرما ہیں رسولِ مختتم
بعض کہتے ہیں کہ ہے دارالسلام اس سے مراد
نسبتوں کا فیض ہے، تاریخ کر دی ہے رقم
اس کی ٹھنڈی چھاﺅں گھر بیٹھے بھی ہے اپنا نصیب
دھوپ ہو تو اس کے زیر سایہ ہی رہتے ہیں ہم

2۔ کاظمہ ۔ دوسرا شعر
یہ مدینے کی ہے بستی، کاظمہ کہتے ہیں ہم
کاظمہ ہے اسمِ شہر سیدِ خیر الامم
گنبدِ خضریٰ کو بھی لکھتے ہیں کچھ اہلِ قلم
جان کی تسکین لُغت میں اس کامطلب ہے رقم

3۔ اِضَم ۔ دوسرا شعر
تذکروں میں نام ملتا ہے پہاڑی کا اِضم
جس پہ جلوہ فرما ہوتے تھے رسولِ محترم
بارہا چومے رسولِ پاک کے اس نے قدم
آپ ہی کے دم قدم سے اس کا ہے جاہ و حشم
سچ تو یہ ہے یہ پہاڑی ہے مدینے کے قریب
اِک ٹھکانہ ہے رسولِ پاک کا کوہِ اضِم

4۔ عذری ۔ 9واںشعر
اک قبیلہ ہے بنی عُذرہ چلو ملتے ہیں ہم
عشق میں گھل گھل کے آخر توڑ دیتے ہیں یہ دم
پارسا ہیں، نرم خو ہیں، خوش ادا ہیں خوش مزاج
یوں ہے عُذری کا اشارہ اس قصیدے میں رقم

5۔ کسریٰ ۔ 62 واں شعر .
کسریٰ یا خسرو ہی کہلاتے تھے سلطانِ عجم
دنیا میں تشریف جب لائے رسولِ محترم
ڈھہ گیا ایوانِ کسریٰ ڈھیر ملبے کا بنا
ہوں گے اب اصحابِ کسریٰ بھی یقینا کالعدم

6 ۔ ساوہ بُحیرہ ۔ 64 واں شعر
قصبہ ہے ایران کا، ساوہ جسے کہتے ہیں ہم
تذکروں میں اس کی بھی تاریخ بے شک ہے رقم
ہے بُحیرہ اک ندی ہمدان و قم کے درمیاں
بت کدے ہیں جس کے چاروں اور، جس میں ہیں صنم
یوں بُحیرہ بت کدوں کی سرزمیں کا نام ہے
ان کی جانب ہے اشارہ اور کیا بتلائیں ہم

7۔ عرم ۔ 88واں شعر
یہ وہ وادی ہے، ہوا اللہ کا جس پر کرم
رہتی تھی سیلاب کی زد میں یہ بستی دم بہ دم
ملکۂ بلقیس نے تعمیر فرمایا تھا بند
یوں مچا پائیں نہ پھر طغانیاں کوئی اُدھم
چاروں جانب سینکڑوں باغات قائم ہو گئے
رحمتوں کے ساتھ برسا ٹوٹ کر ابر کرم
جب کیا کفرانِ نعمت تو غضب نازل ہوا
بند ٹوٹا، ہو گئے باغات سارے کالعدم
اس کے بارے میں کہوں میں اور کیا المختصر
قصہ بربادی کا یہ قرآن میں بھی ہے رقم

8۔ عاد و ارم ۔ 93 واں شعر
تھی بڑی سرکش یہ قومِ عاد و اولادِ ارم
ذکر قرآں کی بہت سی سورتوں میں ہے رقم
ہود کو اس کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا
خیر کی جانب مگر اٹھا نہیں اس کا قدم
آندھی اور طوفان نے برباد کر ڈالا اِسے
ہود کے ساتھی رہے محفوظ، تھا رب کا کرم
دیکھو قومِ عاد کا انجام عبرتناک ہے
اس بُرے انجام سے سوچو تو بچ سکتے ہیں ہم

9۔ زُہیر و ھرم ۔ 152واں شعر
بادشاہ ملکِ عرب کا ایک گزرا ہے ھرم
دریا دل تھا، ذات میں اپنی تھا اِک بحرِ کرم
ہاں زُھیر ابن ابی سلمیٰ تھا اک اہل قلم
اپنی شعر و شاعری کے بَل پہ تھا وہ محترم
بیسیوں اُس نے قصیدے لکھے در شانِ ھرم
کر رہا ہے یہ اشارہ ہی بوصیری کا قلم

سید عارف معین بلے کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو :مولایَ صلِ وسلم : قصیدۂ بردہ شریف کا قصیدہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے