افسانچہ اور مائیکرو فکشن/ مائکروف

افسانچہ اور مائیکرو فکشن/ مائکروف

غضنفر

گاۓ، بھینس، بکری تینوں دودھ دیتی ہیں اور تینوں کے دودھ کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ مگر اس دودھ اور اس کے سفید رنگ کی بدولت ہم تینوں کو ایک تو نہیں مان لیتے۔ یا یہ تینوں ایک تو نہیں ہو جاتیں۔ تینوں کی الگ الگ پہچان ہے :
بھینس کافی اونچی اور لحیم شحیم ہوتی ہے۔ عام طور پر کالی بھی ہوتی ہے۔
گاۓ اپنے ڈیل ڈول میں بھینس سے چھوٹی ہوتی ہے۔ اور زیادہ تر گایوں کا رنگ سفید ہوتا ہے۔
بکری جسامت میں ان دونوں کے مقابلے میں بہت چھوٹی اور دبلی پتلی بھی ہوتی ہے۔
ان تینوں کے دودھ کا ذائقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
ان کی شناخت اس قدر نمایاں ہے کہ انھیں آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے ۔
یہی صورت حال ادبی اصناف کی بھی ہے. پابند نظم ہو، یا نظمِ معریٰ ہو یا آزاد نظم سب میں شاعری یا شعریت ہوتی ہے مگر اس شاعری یا شعریت کی بنیاد پر ہم تینوں کو ایک نہیں تسلیم کر لیتے۔ تینوں کی اپنی اپنی شناخت ہے۔
پابند نظم میں وزن اور قافیے کی پابندیاں ہیں۔نظمِ معریٰ میں مصرعے برابر ہونے کی پابندی اور قافیہ نہ ہونے کی آزادی ہوتی ہے اور آزاد نظم ان دونوں سے آزاد ہوتی ہے۔ یعنی اس میں بھی قافیے نہیں ہوتے اور اس کے مصرعے برابر ہونے کے بجاۓ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔
اسی طرح ناول ہو یا افسانہ ہو یا افسانچہ سب میں کہانی ہوتی ہے مگر اس کہانی کے سبب یہ تینوں ایک نہیں ہو جاتے۔ تینوں اپنی جداگانہ پہچان رکھتے ہیں۔
انھیں پڑھ کر ہم آسانی سے پتا لگا لیتے ہیں کہ ان میں کون سا ناول ہے، کون سا افسانہ، اور کون سا افسانچہ ہے۔ ان کی شناخت اس لیے ہوپاتی ہے کہ ان کی شناخت کے خط و خال متعین ہو چکے ہیں۔ مگر آج جس افسانوی صنف کا شہرہ ہے اور جس کے لیے ساری اردو دنیا میں ڈھول پیٹا جا رہا ہے، اس کی شناخت کے خط و خال ابھی تک پوری طرح ابھر نہیں سکے ہیں یا یوں کہیں کہ وہ نقوش سامنے نہیں آ سکے ہیں جنھیں دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ یہ افسانوی شکل افسانہ، اور افسانچہ سے مختلف ہے۔ایسے نمونے بھی ابھی تک پیش نہیں کیے جاسکے ہیں جنھیں دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ یہ افسانہ یا افسانچے سے الگ ہیں۔ انھیں پڑھ کر تو یہی لگتا ہے کہ وہ یا تو افسانہ ہیں یا افسانچہ۔ مگر شور ایسا کہ کسی کولمبس نے پھر کسی نئے ملک کو ڈھونڈ نکالاہو۔
‘انہماک` تو ایسا انہماک دکھا رہا ہے جیسے آسمانِ ادب پر کوئی نئی ست رنگی دھنک تاننے کی تیاری میں ہو۔ مائکروفکشن کا کوئی ایسا چاند ابھی تک طلوع نہیں ہوا جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ
"وہ دیکھو ! آسمانِ ادب کے دامن سے مائکروف نکلا" مگرچاند کے تصوراتی پیکر کا عکس کچھ لوگوں کی آنکھوں میں ایسا جھلملا یا کہ جشنِ عید شروع ہوگیا اور چاند کے پرتو کے عقب میں ایسے ایسے ملکوتی حسن کے نظارے نظر آۓ کہ انھیں منظرِ عام پر لانے کا مژدۂ جاں فزا سنا دیا گیا اور اس کام پر آناً فاناً میں محقیقین بھی مامور کر دیے گیے۔
سچ تو یہ ہے کہ کسی تجربے کو کامیابی اس وقت ملتی ہے جب اس تجربے کی شکل و صورت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اس کے خط و خال نمایاں ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی قبیل کی دوسری صورتوں سے ممتاز وممیّز اور منفرد ہو جاتا ہے۔ اس کی پہچان پوری طرح ممکن ہو جاتی ہے جیسا کہ افسانہ، ناول، اور داستان ایک ہی قبیل کی اصناف ہیں۔ تینوں کا بنیادی عنصر قصہ یا کہانی ہے۔ تینوں میں اجزاۓ ترکیبی بھی ہوتے ہیں اور بعض عناصر سب میں مشترک بھی ہیں، پھر بھی تینوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تینوں کی شناخت الگ الگ ہے۔ تینوں کے رنگ و آہنگ جدا ہیں۔ اس لیے تینوں کی پہچان ممکن ہے۔ آسانی سے تینوں پہچان لی جاتی ہیں۔ قصّہ مختصر یہ کہ کہانی اور منی کہانی یعنی افسانہ اور افسانچہ میں بھی فرق موجود ہے اور یہ فرق ضخامت کا ہی نہیں ہے بلکہ دونوں کے زبان وبیان میں کمال دکھانے کی گنجائش کا فرق بھی ہے اور کہانی کے مختلف اجزا کو قائم رکھنے اور نہ رکھنے کا امتیاز بھی. ایک میں تمام یا زیادہ سے زیادہ اجزا کے برتنے، ان کے اظہار اور ان کے کمالات دکھانے کے مواقع میسّر ہوتے ہیں اور دوسرے میں ان کی گنجایش نہیں ہوتی ہے یا بہت کم ہوتی ہے۔
اب اگر ایسے میں منی کہانی یا افسانچے سے ملتی جلتی کسی نئی صنف کا تجربہ ہوتا ہے جن کی ضخامت بھی کم و بیش برابر ہے۔ دونوں فکشن یعنی افسانوی جوہر پر based ہیں، اور دونوں میں کساو بھی ضروری ہے کہ جس سے ارتکاز اور ایجاز و اختصار ممکن ہے، دونوں میں زبردست تخلیقیت بھی درکار ہے، تو ایسے میں مائکرو فکشن کی ہییت یا ماہئیت کا تعین آسان نہیں۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحریریں میرے سامنے سے گزری ہیں، ان میں دعوے زیادہ ہیں۔ دلیلیں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ کم زوز ہیں یا اتنی مضبوط نہیں ہیں جو منطقی ذہنوں کو گرفت میں لے سکیں۔ ان میں کوئی تحریر ایسی نہیں جو ان دونوں مختصر افسانوی اصناف میں خطِ مستقیم کھینچتی ہو۔ بیش تر تحریریں نمونوں اور مثالوں سے خالی ہیں۔ اور ان میں تجزیاتی بحث بھی بہت کم کی گئی ہے۔
جو لوگ اس صنف کی حمایت میں کھڑے ہیں اور اس کے فروغ کے خواہاں ہیں انھیں چاہیے کہ پہلے اس صنف کی صورت گڑھیں۔ اس کے خط و خال نمایاں کریں۔ اسے اس کی پہچان دیں۔ اس کے نقوش اس طرح واضح کریں کہ اس کی شناخت ممکن ہو سکے۔ یہ افسانچہ، منی کہانی یا مختصر کہانی کے درمیان کھڑی ہو تو الگ نظر آۓ۔ ان سے مختلف دکھائی دے تاکہ نگاہیں اسے دیکھتے ہی پہچان جائیں اور زبان بول پڑے کہ یہ رہی مائکروف! دیکھیے اس کی پیشانی پر ایک الگ قسم کا تیج ہے۔ اس کا جسم سب سے زیادہ سڈول، سب سے زیادہ چست درست ہے۔ اس کے سراپے میں اوپر سے نیچے تک کساو ہی کساو ہے۔ کہیں پر کجی، کھانچا اور جھول نہیں، ڈھیلا پن نہیں۔ اس کا ہر انگ کمان سا کسا ہوا ہے۔ تیر سا تنا ہوا ہے۔ حسن سے بھرا ہوا ہے۔ اور وہ حسن ایسا ویسا نہیں بلکہ حسنِ گداز، غمزۂ غمّاز اور سحر ساز ہے۔ اس میں ایسی کشش ہے کہ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لے۔ اک آن میں اپنا بنا لے۔ اس میں فکشن تو ہے ہی، اس فکشن میں الوہی قسم کا نور بھی ہے۔ تجربے کا ست بھی ہے۔ زندگی کا سار بھی ہے۔ ایک ایسا سُر ہے جو تحریر کے ایک ایک جملے کی تان سے نکلتا ہے۔ ایک ایک لفظ کی لے سے برآمد ہوتاہے۔ ہر ایک لسانی ترکیب اور صوتی ترتیب کے تال سے پھوٹتا ہے اور اس طرح پھوٹتا ہے کہ ایک ایک بول پر رگ و پے میں کیف و سرور اور قلب و نظر میں نور بھر دیتا ہے اور پڑھنے والا صداۓ سحر ساز اور معانیِ دل نواز سے مسحور ومسرور ہو جاتا ہے۔ لوگ جسے دیکھتے ہی پکار اٹھیں کہ یہ ہے مائکروف جس کی آنکھوں سے شعور و ادراک کی ایسی شعاعیں نکل رہی ہیں جو کسی اور کے دیدوں کو میسّر نہیں!
یہ ہے فکشن کی نئی نویلی دلہن جو گھونگھٹ میں رہ کر بھی حسن و جمال کی پچکاری چھوڑ رہی ہے اور کیف و کمال کی بارش کر رہی ہے۔ جس کی پیشانی پر چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔ جس کے چتونوں کا تیور انوکھا ہے۔ جس کے ابروؤں کے کٹار نرالے ہیں۔ جن کی کاٹ میں خنجروں سے بھی زیادہ تیزی ہے۔ جس کے دیدوں کی سفیدی میں ایسی شفافیت ہے کہ برّاق بھی دیکھے تو شرما جاۓ۔ جس کے لبوں کے بول میں ایسا رس گھلا ہے کہ جو سماعت میں سر تال بھر دے۔ رگ ریشے میں موسیقی گھول دے۔
جس کی ہئیت کہے کہ میں ہوں مائکروف! جس کا رنگ بتاۓ کہ میں ہوں فکشن کی مائکروف۔ جس کا نور دکھاۓ کہ ادھر ہے مائکروف۔ جس کا آہنگ چلّا چلّا کر بولے کہ لوگ جسے تلاش کر رہے ہیں وہ میں ہوں۔
ایسے تمام لوگ جو اس نئی افسانوی صنف کی حمایت میں کھڑے ہیں اور شد و مد سے اس کی طرف داری کر رہے ہیں ان سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے اس تصور کو متشکل کریں۔ اس کی تجسیم کی سبیل نکالیں۔ اپنے خواب کی صورت دکھائیں۔ اس میں خوب صورتی ہوگی، نیاپن ہوگا، کشش ہوگی تو وہ خود بہ خود لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے گی۔ اپنے آپ نگاہوں کی توجہ کا مرکز بن جاۓ گی۔
یا جو پہلے سے ماڈل تیار ہیں ان میں سے کچھ جو زیادہ بہتر ہوں، لوگوں کے سامنے رکھے جائیں اور اگر ممکن ہو تواس نئے سانچے جس کو مائیکرو فکشن کہا جا رہا ہے یا مائکروف کا نام دیا جا رہا ہے، سے ملتے جلتے سانچوں مثلاً افسانچہ، منی کہانی، نثری نظم وغیرہ کے کچھ نمونے بھی برابر میں رکھ دیے جائیں تاکہ شکل و صورت کے تعین اور ساخت کی شناخت بنانے میں آسانی ہو جاے اور اس کی تقلید پھر ممکن ہو جاۓ۔
شاید کہ اتر جاۓ ترے دل میں مری بات
آپ کی آسانی کے لیے اس صنف کی ایک تعریف میں بھی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. شاید پسند آ جاۓ اور ممکن ہے کسی مرحلے پر آپ کے کام بھی آ جاۓ۔

” مائیکرو فکشن سے مراد ایسی مربوط اور مختصر ترین افسانوی تحریر جو لطیف ترین بھی ہو۔ یعنی افسانوی رنگ و روغن سے سجا تخلیقی نثر کی وہ مختصر ترین نگارش جو نہایت چست درست ہو اور جس کے ایک ایک جملے میں زندگی کے کسی گہرے تجربے کی کوئی جھلک یا شعور و ادراک کی کوئی رمق، یا جذبہ و احساس کی کوئی دمک، یا زبان و بیان کی کوئی چمک ہو، جس کی عبارت پھولوں کی لڑی کی مانند مربوط ہو اور ایک ایک پھول، اپنے رنگ، اپنی خوش بو اور اپنے نور کا جوت جگا رہا ہو اور جو پڑھتے وقت قاری کے ذہن و دل میں کیف و انبساط بھر دے اور انجام پر پڑھنے والےکو سوچنے پر مجبور کر دے، مائکرو فکشن ہے۔"

ایک مثال بھی ملاحظہ کر لیجیے :
"عزیزم ! کیا تمھیں بھی ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا کہ مجھے؟"
"کیا سر؟"
"یہی کہ ہمارے چاروں طرف چھٹپٹاہٹ، پھڑپھڑاہٹ اور جھنجھلاہٹ ہے۔ لگتا ہے کہیں کچھ چبھ کر ٹوٹ گیا ہے۔ معاینہ کرنے والے حیران ہیں. مشاہدہ کرنے والے پریشان ہیں۔ حکیموں کی حکمتیں ہانپ رہی ہیں۔ سادھوؤں کی سادھنائیں اسمرتھ ہو چکی ہیں۔ جوگ کے ایک ایک آسن تھک ہار کر بیٹھ چکے ہیں۔ کمپیوٹر بھی دیدے پھاڑے کھڑا ہے۔ اکسرے اور سٹی اسکین کی آنکھیں اپنی برقی بینائی پر شرمندہ ہیں۔ کسی کو کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ کہاں چبھا ہے؟ کدھر ٹوٹا ہے ؟"
” جی سر ! میں نے بھی محسوس کیا ہے۔"
۔۔۔
یہ افسانوی تحریر اپنے ایجاز و اختصار، لسانی کساو، معنوی چمک، ایک ایک جملے کی دمک اور تخلیقی دھمک کی بدولت مائیکرو فکشن کے خانے میں رکھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہر ایک کا اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔
اس تفصیلی گفتگو کی روشنی میں اگر ہم کچھ اور افسانچوں اور نثری نظموں اور مختصر افسانوں اور افسانچوں، مائکرو فکشن کے نمونوں کا تجزیہ کریں تو ممکن ہے ان اصناف کے بیچ کا امتیاز اور بھی واضح ہو کر سامنے آ سکے اور ہم مائیکرو فکشن کی کوئی اور بہتر اورٹھوس شکل و صورت گڑھنےمیں کامیاب ہو جائیں۔
غضنفر کی یہ نظم بھی ملاحظہ فرمائیں : پانچ ستمبر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے