پانچ ستمبر

پانچ ستمبر

غضنفر

نظر کے سامنے میرے ستمبر پانچ لکھا ہے
مگر آنکھوں میں میری ایک بھی صورت نہیں ایسی
کہ میں جس کی سماعت میں عقیدت کی صدا بھیجوں
بصارت تک دعاۓ زندگی کے لفظ پہنچاوں
مخاطب کرکے میں دل سے ثنا خوانی کروں اس کی
جو اس نے علم کی دولت مجھے دی ہے
میں اس پر داد برساؤں
میں اس کی شفقتوں کے گیت گاؤں،
مہربانی کا قصیدہ بھی پڑھوں من سے
کہوں اس سے کہ اس نے راہ دکھلائی تھی جو مجھ کو
چلا اس راہ پر میں بے خطر میلوں مگر اب تو اندھیرا ہے
اندھیرا اک عجب پیکر بناتا ہے
ہیںولا خوف کا مجھ کو دکھاتا ہے
مجھے ہر پل ڈراتا ہے
میں کس سے روشنی چاہوں
میں کس سے آگہی مانگوں
ستمبر پانچ اب بھی ہے
مگر منبع نہیں ہے روشنی کا اس میں اب کوئی
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ مجھ میں علم و فن کا نور باقی ہے
یہ جی چاہے ،کوئی آۓ
جو باقی نور ہے مجھ میں، اسے پاۓ
کئی شاگرد بھی ہیں شہر میں میرے
مگر ان کو ضرورت ہی نہیں ہے
روشنی کی اب
***
غضنفر سے متعلق یہ تحریر بھی پڑھیں :غضنفر کے افسانہ "تصویر تخت سلیمانی" کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے