سرسید کی شخصیت اور  تعلیمی نظریات

سرسید کی شخصیت اور تعلیمی نظریات

داوٓداحمد
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو،فخر الدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج محموداۤباد،سیتاپور(یو۔پی)

۱۹؍ ویں صدی کے عظیم مصلح، مفکر، مدبر سماجی رہ نما جوادالدولہ عارف جنگ سرسید احمد خاں بہادر ایک خوش حال اعلا گھرانے میں ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک نیک سیرت با اخلاص خاتون تھیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت انھی کی نگرانی میں ہوئی۔ انھوں نے بچپن سے ہی سر سید کے دل میں تعلیم کا شوق پیدا کیا اور سچائی، ایمان داری، اخلاق، ہمت اور انسانی ہم دردی کے راستے پر چلنا سکھایا۔ بڑے ہوکر انہی خصوصیات نے ان کی شخصیت کو عظمت و شہرت بخشی۔
سر سید اپنے وقت کے بلند پایہ عالم اور مصنف تھے۔ انھوں نے بہت سی تحقیقی اور علمی کتابیں لکھیں جس میں آثارالصنادید، آئین اکبری، تاریخ فیروز شاہی، تزک جہانگیری، خطبات احمدیہ، تفسیرالقرآن، اسباب بغاوت ہند وغیرہ خاص ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایک رسالہ ‘تہذیب الاخلاق` کے نام سے نکالا تھا جس کا خاص مقصد قوم کو بیداری کا پیغام دینا تھا۔ ان کا مرکزی خیال تھا کہ قومی ترقی مجموعہ ہے شخصی محنت، شخصی عزت، شخصی ایمان داری، شخصی ہم دردی کا۔ اسی طرح قومی تنزلی یعنی پستی مجموعہ ہے شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی اور شخصی خود غرضی کا۔ پس ہمیں چاہئے کہ قوم کی شخصی زندگی کس طرح عمدہ ہو۔ سرسید کو ابتدا سے ہی قوم کی پس ماندگی اور تباہ حالی کا احساس تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ مادی خوش حالی اور ترقی کے لیے مغربی تعلیم کا حاصل کرنا اشد ضروری ہے۔ انھوں نے ولایت جاکر مغربی طرز تعلیم اور معاشرت کا مطالعہ کیا۔ وطن واپس آکر قوم کی تعلیم کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے۔ اپنی تحریروں اور تقاریر سے قوم کو بیدار کیا۔ جواب میں ان کو نکتہ چینیوں سے نوازا گیا، مگر کچھ پرواہ نہ کی۔ کسی نے خوب کہا ہے :
وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں

سرسید کا کردار مرد آہن کا تھا جو سو چا وہ کیا۔ انھوں نے تعلیم کو معاشرتی اصلاح کا واحد ذریعہ تسلیم کیا۔ اعتراضات سے ان میں اور جلا آئی۔ یہ سر سید کی تحریک تھی کہ جس کے دم قدم سے ہمارے معاشرے میں تعلیم نسواں کی کرن آئی۔

آج تک نازاں ہے اس کے حوصلے پر آسماں
فخر سے کہتی ہے اس کو زندہ باد کہکشاں

غرض کہ قوم کی مخالفت کے باوجود ۱۸۷۵ء میں سر سید نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی جو بعد میں ترقی کرکے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی بنا۔ اسی درس گاہ نے نہ صرف قوم کو جہالت کی تاریکی سے نکالا بلکہ ہر فرقے اور مذہب کے لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کیا ہے۔ سر سید نے اپنے کردار و عمل اور جذبہ و جوش سے جو چراغ روشن کیا تھا اس کی روشنی دور تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری زندگی کے راستوں کو روشن کر رہی ہے۔
نچھاور ہو گئی ملت کے اوپر جان سر سید
رہے گا رہتی دنیا پر سدا احسان سر سید

تعلیم ایک ایسا نور ہے جو آدمی کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر انسانیت کی منزلوں پر فائز کرتا ہے۔ وہ اس کی شخصیت کو مہ و انجم کی طرح روشن رکھتا ہے جس سے آنے والی نسلیں فیض یاب ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ ایک نسل دوسری نسل تک اپنے تہذیبی و تمدنی، علمی و ادبی خدمات کو ورثہ کے طور پر منتقل کر سکتی ہے۔ سرسید احمد خاں کی تعلیمی خدمات اور نظریات آج بھی آنے والی نسلوں کی آب یاری کر رہے ہیں۔ ان کی عظیم تعلیمی خدمات کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان ہی کی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجہ میں ہندستانی سماج میں جدید تعلیم کی فضا ہموار ہوئی. جو قوم پستی و کمتری کی گہرائیوں میں گم تھی اس کو ابھر کر آسمان میں کہکشاں کی مانند چمکنے کے مواقع فراہم ہوئے۔ سر سید بہ خوبی جانتے تھے کہ تعلیم کا مختلف علوم و فنون سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً فلسفہ، تاریخ، نفسیات، سماجیات، حیاتیات وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے تعلیم کے فروغ میں مختلف عوامل مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلاً خاندان، مذہبی جماعتیں، مختلف قسم کی انجمنیں، مملکت، حکومت اور اسکول و مدارس وغیرہ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام عوامل کا سہارا لے کر معاشرے میں تعلیم کی ترسیل کے کام انجام دیے جائیں۔
معاشرے کو بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ایک رسالہ "تہذیب الاخلاق" نکالا جس کے ذریعہ انھوں نے قوم و ملت میں تعلیم کے راستہ پر گامزن ہونے کا نیک جذبہ بیدار کیا۔ سماج میں پھیل رہی بہت سی برائیوں سے بچنے اور جہالت کے اندھیروں سے دور رہ کر حق و صداقت قائم رہنے کے علاوہ، علمی و ادبی کارناموں کی جانب راغب کیا۔ اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے سر سید نے بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں مضامین کی اشاعت کی کیوں کہ سادہ اور سلیس زبان لوگوں کے ذہن پر اچھے نتائج مرتب کرتی ہے۔ سر سید کے اس رسالہ نے اردو ادب کے میدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اردو صحافت بھی اس سے کافی متاثر ہوئی۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان پس ماندگی اور جہالت کی دنیا میں گم ہوکر رہ گئے۔ ایسے نازک وقت میں سرسید نے قوم کی اصلاح کا بیڑا ٹھایا اور اپنی زندگی کو ہندستانی عوام میں تعلیم عام کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ سر سید بہ خوبی جانتے تھےکہ اعلا تعلیم حاصل کیے بغیر عوام ترقی کی راہ پر گام زن نہیں ہو سکتی. اس لیے سماج میں اعلا اور معیاری تعلیم کی فضا قائم کرنا لازمی ہے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سی کوششیں اور کاوشیں کیں۔ عوام کو جدید تعلیم سے آشنا کرانا ان کا نصب العین تھا. اس کے مطابق لوگوں کو سائنس کی تعلیم میں دل چسپی لینا بہت ضروری تھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے "سائنٹفک سوسائٹی" قائم کی اور انگریزی کتابوں کا بہت سا مواد اردو زبان میں منتقل کرایا تاکہ عوام مغربی علوم کی اچھی باتوں سے فیض حاصل کر سکیں اور سائنسی فضا قائم ہو سکے. ساتھ ہی عوام دنیا میں ہو رہی ترقیات سے بھی ہم کنار ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرسید مغربی یونی ورسٹیوں کی طرز پر ہندستان میں بھی یونی ورسٹی قائم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے انگلستان کا سفر بھی طے کیا تاکہ وہاں کا تعلیمی نظام دیکھیں اور پھر اسی طرز پر اپنے ملک میں تعلیمی نظام قائم کیا جا سکے، تاکہ ہندستانی عوام بھی تعلیم کے میدان میں دوسرے ممالک کی برابری کر سکے۔ ولایت میں انھوں نے کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی مشہور و معروف یونی ورسٹیوں کا مشاہدہ اور معائنہ کیا۔ سر سید وہاں چھپ رہے اخبارات ٹیٹلر اور اسپکٹیٹر سے بھی بہت متاثر ہوئے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سماج کی بیداری اور اس ترقی میں صحافت کا بھی اہم رول ہے۔ اس لیے انھوں نے ہندستان آکر "تہذیب الاخلاق" جاری کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے مل کر ایک اسکول کی بنیاد ڈالی۔
۱۸۷۵ء میں مولوی سمیع اللہ خاں کی مدد سے علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا ۔ مسلمانوں کی پس ماندگی اور ان کو جہالت کے اندھیرے سے باہر لانے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے رہے. اسی لیے انھوں نے "آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس" کی بنیاد بھی رکھی۔ ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ کالج اور ۱۸۸۱ء میں” محمڈن اینگلو اورینٹل کالج" قائم کیے۔ سر سید کی کوششیں اور کاوشیں رنگ لائیں اور ہندستانی عوام میں تعلیمی نظام قائم ہوا۔ ان کے ذریعہ قائم کیے گئے کالج کو ۱۹۲۰ ء میں یونی ورسٹی کا درجہ ملا اور اس کو ” علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی" کہا جانے لگا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔
الغرض سرسید وہ دور بین شخصیت تھے جو جدید تعلیم کو قوم کی ترقی کا ذریعہ مانتے تھے. اس ضمن میں جو انھوں نے کارنامے اور کاوشیں انجام دیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں. ہر آنے والا سماج اور دور ان کی دی ہوئی تعلیمی فکر سے اپنی سوچ کے چراغ روشن کرے گا.
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :مہاتما گاندھی کی حق پرستی، عدم تشدد اور زبان اردو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے