اردو اور ہندی کے ابتدائی تنازعات اور سرسیّد احمد خاں

اردو اور ہندی کے ابتدائی تنازعات اور سرسیّد احمد خاں


صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اردو اور ہندی زبانوں کے تعلّق کی تفصیل اور آپسی تنازعات پر غور کرنے سے پہلے تاریخی طور پر مختصراً اردو ہندی کی پیدائش اور زبان کے طور پر ارتقا کے احوال پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان کے سلسلے سے لفظ ”اردو“ کی حیثیت تازہ تر ہے اور مصحفی کے یہاں اٹھارویں صدی کے اواخر میں یہ لفظ ان معنوں میں پہلی بار ملتا ہے جب کہ اس سے پہلے دکنی اردو شاعری کی کم از کم تین صدیاں اور دہلی میں امیر خسرو سے لے کر میر تک مختلف صدیاں مکمل ہوچکی تھیں۔ اردو کو گجری، دکھنی، زبانِ دہلی، ریختہ، ہندی، ہندوی اور ہندستانی ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا۔ رسمِ خط ابتدائی دور سے موجودہ فارسی رسمِ خط ہی رہا مگر فورٹ ولیم کالج میں پہلی بار لفظ ہندی کی نئی شناخت کے لیے ماحول قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ ”اردو“ لفظ زبان کے معنوں میں جیسے ہی مقبول ہوا، فطری طور پر یہ آسانی پیدا ہونے لگی کہ ”ہندی“ نام سے دیوناگری میں لکھی جانے والی تحریر کو شناخت ملے۔ معاملہ جب بین الاقوامی سیاست کے دائرے تک پہنچا ہوا ہو یا وہاں کے اشارات سے یہاں کے علمی معاملات میں دخل اندازیاں ہوتی ہوں تو سازشوں کے امکانات اپنے آپ واضح ہونے لگیں گے۔ فورٹ ولیم کالج میں ابتداً ہندی، ہندستانی، اردو جیسے الفاظ آج کی اردو کے لیے بھی مستعمل ہوئے کیوں کہ اس زمانے کے پڑھے لکھے ادیبوں شاعروں میں انھی اصطلاحات کا رواج تھا مگر ١٨٠٢ء میں ہی جان گل کرسٹ نے کھڑی بولی ہندی، کھڑی بولی ہندستانی یا اصلی کھڑی بولی جیسی اصطلاحوں کا اولاً استعمال کیا اور پھر کالج کے دو مصنفین للو لال جی اور سدل مشرا کو باضابطہ یہ ہدایت د ی گئی کہ وہ سب لوگ کھڑی بولی میں اپنی تحریریں سامنے لے آئیں۔ سدل مشرا نے اپنی کتاب ”رام چرت“ میں صفحہ دو پر یہ بات لکھی ہے:
”گل کرسٹ نے۔۔۔ ایک دن آگیا دی کہ تم رامائن کو ایسی بولی میں کرو جس میں عربی فارسی نہ آوے۔ تب میں اس کو ”کھڑی بولی“ میں کرنے لگا۔“
للو لال جی نے بھی سموت ١٨٦٠ سے ”یامنی بھاشا“ (یعنی فارسی رسم خط میں اردو) چھوڑ کر کھڑی بولی میں لکھنے کی ہدایت کا ذکر کیا ہے۔ اس کا اثر کتنا ہوا، اسے اس طور پر جاننا چاہیے کہ ہندی لفظ اردو کی شناخت سے اچانک علاحدہ ہوگیا اور ١٨٥٢ء میں جب گارساں دتاسی نے خطبہ دیا تو اس کا ماحصل کچھ اس طرح اسی کے لفظوں میں پیش کیا جاسکتا ہے:
”اہلِ یورپ لفظ ’ہندی‘ سے ہندوؤں کی بولی مراد لیتے ہیں جس کے لیے ہندوی بہتر ہے اور مسلمانوں کی بولی کے واسطے ”ہندستانی“ کا نام قرار دے دیا ہے۔“
اردو ہندی کے نام اور زبانوں کی پہچان کی یہی وراثت سرسیّد احمد خاں کو ملی۔ جس کی وجہ سے ابتدائی دور سے یہ بات سرسید کے لیے قابلِ غور رہی کہ اردو اور ہندی زبانوں کو دو الگ الگ ناموں اور دو رسوم خط سے پہچانا جائے گا۔ فورٹ ولیم کالج کے دور میں ہی زبان اور رسم خط کے ساتھ اقوام کی شناخت اور مذہبی طور پر انھیں تقسیم کرنے کا ایک واضح انداز نظر آتا ہے۔ زبان کے سلسلے سے رفتہ رفتہ قومیت اور مذہبیت کو جوڑ کر کچھ ایسا ماحول قائم ہوا کہ ملک میں مذہبی تنگ نظری کے ساتھ ساتھ لسانی تنگ نظری کی بھی چپقلش شروع ہوگئی۔ یہ بات یہاں بتانے کی نہیں کیوں کہ انگریزی راج کی تاریخ کے مقاصد واضح تھے اور ہندستانی قوم میں نفرت کی بنیاد پر اختلاف اور بٹوارے کی لکیر کھینچنے میں انھیں آسانی ہوسکتی تھی۔ اردو اور ہندی زبانوں کو لے کر رفتہ رفتہ جس انداز کا ماحول قائم ہوتا گیا، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زبان کو اوزار بناکر اقوام میں تقسیم کی مہم میں انگریز نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر کامیاب ہوئے بلکہ اس وقت جو بیج بوئے گئے تھے، وہ اب پورے طور پر زہریلے پھل پیدا کرنے کے لائق ہوگئے۔
”حیات سرسیّد“ کی مختلف کڑیوں کو جوڑیں تو غدر کے بعد سرسیّد جس تجدید کاری کی مہم میں رواں دواں تھے، اس کی سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی تقسیم اور منافرت ہی تھی۔ سرسید نے جن اداروں کی داغ بیل رکھی، ٹرانسلیشن سوسائٹی، سائنٹفک سوسائٹی اور ایم۔اے۔او۔ (MAO) کالج؛ ہر جگہ اپنی طرف سے انھوں نے برادرانِ وطن کی شمولیت سے گریز کی کوئی خوٗ نہیں اپنائی مگر دوسری طرف زبان کے سلسلے سے انگریزی پالیسی اور برادرانِ وطن کے بدلتے انداز کو بھی وہ بہ غور دیکھ رہے تھے۔ ١٨٦١ء میں بنارس انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور پھر ١٨٦٧ء سے ہندی ناگری تحریک سے منظر نامہ خاصہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ بہانا سرکاری زبان کا بنا اگرچہ ١٨٣٧ء سے ہی فارسی رسم خط میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا مگر بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر جی کیمبل نے ۴/دسمبر ١٨٧١ء کو یہ حکم نامہ جاری کیا کہ ہندی کیتھی رسم خط میں سرکاری زبان کے طور پر استعمال میں لائی جائے گی۔ بنارس اور الٰہ آباد میں جس منظم طریقے سے سرکاری زبان کے طور پر ہندی اور دیوناگری کے مقدمات عوامی اور علمی طور پر لڑنے میں کامیابی پائی گئی، اس میں پرانی اور نئی انجمنیں شریک تھیں اور ان کے اثرات پورے شمالی ہند پر پڑے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ سرسیّد احمد خاں ١٨٦٧ء سے ١٨٧٦ء کے دوران بنارس میں مامور تھے اور دیڑھ برس برطانیہ قیام کو چھوڑ کر وہ مسلسل اسی شہر میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ بھی خوب کہ اس زمانے میں سرسید اور دوسرے لوگوں کی کوششوں سے جو ایک نیا اور روشن خیال طبقہ ملک میں پیدا ہورہا تھا، انگریزی حکمتِ عملی سے اس کا بڑا حصہ اس ہندی تحریک میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شامل ہوچکا تھا۔ اس میں وہ لوگ بھی شریک تھے جو مختلف انجمنوں کے تحت سرسیّد کے ساتھ کام کررہے تھے مگر بہت تیزی سے ان کے مزاج میں تبدیلی آرہی تھی۔ ان میں سے بعض سرسیّد کی تعلیمی مہم میں تو شریک تھے اور یونی ورسٹی کو چندے بھی دے رہے تھے مگر اردو ہندی کے مسئلے میں وہ ہندو اور مسلمان بنے بیٹھے تھے یا سرسیّد احمد خاں کے نقطۂ نظر کے طرف دار نہیں تھے۔

اردو ہندی کے تنازعات کی تاریخ مرتب کریں تو جن بنیادی کرداروں کی پہچان ہوتی ہے، ان میں سے اکثر ایسے اصحاب ہیں جن کا براہِ راست تعلّق سرسیّد کے قائم کردہ اداروں بالخصوص سائنٹفک سوسائٹی سے قائم ہوچکا تھا۔ راجا جے کشن داس، بابو شیو پرساد، ماسٹر پیارے لال اور دھرم نارائن یا بابو سرودا پرشاد سنڈل وغیرہ سے سرسیّد کے ادارہ جاتی اور علمی رشتے ثابت ہیں۔ ١٨٥٧ء کے بعد لسانی فرقہ پرستی کی لَے کچھ اس قدر تیز ہوئی جس سے ان میں سے متعدد افراد اردو ہندی مسائل کو حساس اور نازک [نزاکت] کے ساتھ پورے طور پر پیچیدہ بنانے میں سرگرم ہوگئے۔ ذاتی خط و کتابت سے لے کر سرکاری مراسلت، ہر جگہ اردو ہندی کے سوالات سامنے آتے رہے۔ رسمِ خط اور زبان میں عربی، فارسی یا سنسکرت کے اضافے یا تخفیف کے معاملات بھی خاص طور پر زیرِ بحث رہے۔ اس زمانے میں سرسید اس پورے طوفان کاتنِ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض افراد کے سوالوں کے جوابات باضابطہ طور پر وہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور گشتی مراسلوں سے دیتے ہیں۔
مکتوباتِ سرسید (مرتبہ: اسماعیل پانی پتی) کی جلد اول میں سرسید کے دو خطوط بابو سرودا پرشاد سنڈل (الہٰ آباد) کے نام ملتے ہیں۔ پہلا خط ۸/نومبر ١٨٦٧ء اور دوسرا خط ١٤/نومبر ١٨٦٨ء کو لکھا گیا ہے۔ یہ دونوں خطوط سرسید کے انگلینڈ جانے کے پہلے کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرسید نے سفر کی تیاریوں کا ذکر بھی کیا ہے اور معذرت کی ہے کہ تمام جواب طلب امور مضمون کی شکل میں لکھنے کی انھیں فراغت نہیں ہے۔ سرسید کے یہ خطوط اگرچہ انھیں انگریزی میں بھیجے گئے تھے مگر وہ دستیاب نہ ہوسکے۔ ٢٧/نومبر ١٨٦٨ء کے انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں سرسید نے ان خطوط کو شائع کردیے۔ اسی متن پر ہمیں قناعت کرنے کی مجبوری ہے۔ ۸/ نومبر کے خط میں سرسید سنڈل کو یہ جملے لکھتے ہیں:
”مری دانست میں اس طرح پر بیان کرنا کہ ہندی زبان اضلاعِ شمال و مغرب کی موجودہ مخلوط زبان ہے جو دیوناگری حروف میں لکھی جاتی ہے، دو مخالف باتوں کو ملا دینا ہے۔ اس لیے کہ زبان فی نفسہ اور چیز ہے اور کسی قسم کے خاص حروف میں لکھا جانا اور بات ہے۔“
سرسید زبان اور رسمِ خط کے امتیازات کو اس خط میں روشن کرتے ہوئے اردو ہندی کے تنازعے میں فارسی رسمِ خط کے سلسلے سے مخالفانہ زور کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ سرسید نے صراحت سے یہ بات تو کی ہے مگر ان کے مخالفین پر اس بات کا کوئی اثر نظر نہیں آتا. کیوں کہ سائنٹفک سوسائٹی کے ممبر اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تحریک کے سرسید کے خاص معاون بابو شیو پرساد (ستارۂ ہند) کی کارکردگی پر غور کریں تو مزید نئے مسائل واضح ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سائنٹفک سوسائٹی کی نشستوں کی رودادیں اردو کے ساتھ ہندی میں شائع ہوں، اس کے لیے سب سے مضبوط مانگ بابو شیو پرساد کی طرف سے ہی تھی۔ بابو شیو پرساد نے اردو کے ساتھ ہندی رسالہ سائنٹفک سوسائٹی کی طرف سے جاری کرنے کی وکالت کی۔ ١٨٨٢ء کے ہنٹر کمیشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے راجا شیو پرساد نے اردو کی کھلی مخالفت کی اور ہندی کی حمایت میں عرض داشت پیش کی۔ اردو کے اثرات کے پھیلنے کے بارے میں شیو پرساد طنز آمیز لہجے میں یہ بات برملا کہتے ہیں: ”اردو اپنی برتری اور اہمیت کی بنا پر ہندوؤں  کی مادری زبان بننے والی ہے“۔ انھوں نے ایک جگہ اردو رسمِ خط پر اعتراض کرتے ہوئے یہ بھی لکھا: ”اردو کا رسمِ خط اسلامی برتری کا احساس دلاتا ہے“۔ مطلب صاف ہے کہ اس سے نجات حاصل کرلینا چاہیے۔“
١٤/نومبر ١٨٦٨ء کو سرودا پرساد سنڈل کو سرسید چند نئی بنیادوں پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت زمین اور مکان کے کاغذات کی فارسی زبان میں تحریر کے خلاف سنڈل اور دوسرے لوگ یہ بات بھی پیش کررہے تھے کہ فارسی میں لکھے وثائق کی زبان مشکل ہے اور انھیں پڑھوانے کے لیے خرچ کرکے فارسی رسمِ خط کے ماہرین سے تعاون لینا پڑے گا۔ سرسید کے جملے کچھ اس طرح سے ہیں:
”یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہلِ معاملہ کے لیے یہ حروف بڑی سدِّراہ ہیں کہ ان کو بعض وثائق کے پڑھوانے کے واسطے ایک فارسی خواں کی تلاش ہوتی ہے اور اس میں ان کا سخت ہرج ہوتا ہے۔“
سرسید کو معلوم ہے کہ یہ اعتراضات بہانہ بناکر کیے جارہے ہیں، اس لیے انھوں نے سنجیدگی سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سرکاری دستاویزات پورے طور پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی کبھی بات نہیں رہی۔ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانیں اور اقوام بھی ان مسائل میں مبتلا رہی ہیں۔ قانونی مسئلوں کو ماہرینِ قانون ہی پورے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے سرسید نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بات رسمِ خط کے بجاے قانونی مہارت سے تعلق رکھتی ہے۔
اس دور میں ایسے بھی اعتراضات شروع ہوئے تھے کہ سرکاری استعمال کی فارسی رسمِ خط کی اردو مشکل تر ہے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے میں عام لوگوں کو دشواری ہوتی ہے جب کہ ہندی سادہ ز بان ہے اور دیوناگری میں لکھے الفاظ آسانی سے سمجھ میں آتے ہیں۔ اس زمانے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش ہوئی تھی کہ سرکاری کام کاج میں استعمال کی جانے والی اردو زبان بے حد مشکل اور ناقابلِ فہم ہے۔ سرسید اس سازش کو سمجھتے ہیں اور سنڈل کو خط لکھتے ہوئے محبت اور انصاف کے ساتھ صحیح صورتِ حال کا احساس کراتے ہیں. ١٤/نومبر کے خط میں سرسید نے ان تمام معاملات کی وضاحت کی ہے:
”آپ کا یہ فرمانا کہ اردو زبان میں فارسی کے بہت لفظ مخلوط ہیں، بجا نہیں ہے۔ اس واسطے کہ فارسی کے لفظ اردو میں، وہی لوگ زیادہ ملادیتے ہیں جو فارسی زیادہ جانتے ہیں اور جو لوگ فارسی زیادہ نہیں جانتے، وہ نہایت رواجی اور عام استعمال کے لفظوں میں بولتے ہیں جیسے کہ قدیمی رومی زبان کا جاننے والا انگریز اپنی اصلی انگریزی زبان میں رومی لفظ اور جملے ملانے کا شائق ہوتا ہے یا سنسکرت کا ماہر بھاکا زبان میں سنسکرت کے لفظ ملانے سے باز نہیں رہتا ہے“۔
اردو کے خلاف طرح طرح سے جس زہرناکی کا اس وقت مظاہرہ کیا جارہا تھا اور بے شک جس کا سرسید اپنی سطح سے جواب دے رہے تھے، اس کی سطح علمی بنیادوں سے گرکر کس قدر نیچے ہوگئی تھی، اسے جاننے کے لیے راجا شیو پرساد (ستارۂ ہند) کے ١٨٦٨ء میں لکھے اور بنارس انسٹی ٹیوٹ کے جلسے میں پڑھے گئے اور گورنمنٹ پریس الہٰ آباد سے ١٨٧٣ء میں چھپے رسالے ”کچھ بیان اپنی زبان کا“ سے اقتباسات ملاحظہ کرنا ضرور ی ہے جس سے اس وقت کے طوفان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
”اہلِ اسلام اپنے گھمنڈ کے مارے محکوموں کی زبان میں گفتگو کرنا بے شک موجبِ ذلت و حقارت سمجھتے ہوں گے لیکن ان کی حرم سرائیں ہندوزاد لڑکیوں سے پُر تھیں اور انھیں دن رات کا م ایسے ہندؤں سے پڑا کرتا تھا جو کہ فارسی سے کم واقف تھے“۔ (ص:۵۱)
”پچیس برس گزرتے ہیں۔ سرکار نے اپنی کچہریوں میں سے فارسی زبان اٹھادی اور حکم دیا کہ اس ملک کی بولی میں کام کیا جائے۔ سرکار کا انصاف اور سرکار کی دانائی اس تجویز سے اظہر من الشمس تھی۔ زبانِ فارسی تو اُٹھ گئی مگر حروفِ فارسی (اور میں پھر اسی غلط لفظ کا استعمال کرتا ہوں) مفرس جملے جو اکثر کایستھ اور اہلِ اسلام ہیں جوں کے توں باقی ہے“۔ (ص: ٢٠)
راجا شیو پرساد اردو میں تقریباً دو درجن کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے اکثر کتابیں درس میں شامل تھیں۔ سرسید احمد خاں نے ان کی وفات پر جو تعزیتی تحریر شائع کی، اس میں ان کی اردو مخالفت کا ایک ذرا ذکر نہیں ہے اور علی گڑھ کالج کے سلسلے سے ان کے چندہ دینے یا سرگرم ہونے کا حوالہ بہ طورِ تعریف موجود ہے۔
١٨٦٧ء میں سرسید احمد خاں نے واے سراے اور گورنر جرنل دونوں کو ورناکولر یونی ورسٹی کے سلسلے سے عرض داشت پیش کی تھی۔ اس پر شیو پرساد اور جے کشن داس جیسے معتبر اردو مخالفین کے دستخط موجود تھے مگر رفتہ رفتہ سرسید کے حمایتی ورناکولر یونی ورسٹی کی حمایت سے دور ہوتے چلے گئے اور اس مجوزہ یونی ورسٹی کی ایسی مخالفت ہوئی کہ پھر ہمیشہ کے لیے یہ معاملہ ہی ختم ہوگیا۔ اسی سلسلے سے بنارس سے کمشنر مسٹر شیکسپیر سے تبادلۂ خیالات کے دوران سرسید نے جو کہا، وہ حقیقت میں سب کی آنکھیں کھولنے والا ہے۔ اپنی کوششوں میں ناکام رہنے کا درد کیا ہوگا، اس کا اندازہ سرسید کی ان باتوں سے ہوسکتا ہے جسے حالی نے یوں نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو:
”اب مجھ کو یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہوسکیں گی۔ ابھی تو بہت کم ہے، آگے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، بڑھتا نظر آتا ہے۔ جو زندہ رہے گا، دیکھے گا۔“(حیاتِ جاوید)
اردو ہندی تنازعات میں سرسید بے شک اپنی دلیلیں پیش کرتے رہے اور انھوں نے کوشش کی کہ تمام مخالفین کو قائل کرلیں۔ ابتدائی دور میں وہ ایک ایک بات کا جواب دیتے رہے مگر ڈیڑھ برس کے لیے قیامِ برطانیہ کی وجہ سے اردو کے مخالفین کو بھرپور مواقع حاصل ہوئے اور انھوں نے شدت کے ساتھ محاذ آرائی کی۔ سرسید صد فی صد اردو کے طرف دار ہیں اور ملک کے مستقبل کے لیے اپنا واضح نقطۂ نظر رکھتے ہیں مگر انگریزوں کے ساتھ معاونت کا رویہ اور جاگیردارانہ طبقے کے افراد اور حکومت نواز لوگوں کی ہم راہی کے سبب ہوسکتے تھے[؟] تعلیمی معاملے میں ان کی ترقی میں کہیں نہ کہیں انگریزوں کے خلاف نہیں ہونے کو بھی ایک بنیاد کا پتھر سمجھا جاتا ہے۔ مسلم یونی ورسٹی کے علاوہ دوسری نشستوں میں بھی سرسید کی ان اصحاب کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ رہتا تھا۔ اکثر ایسے معاملات پر انگریز مخالف نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ہندی کی موافقین اگر آگے بڑھ رہے ہیں تو سرسید کو اس سے زیادہ پریشانی اس لیے نہیں ہے کہ وہ سب انگریزی نواز طبقے سے متعلق ہیں۔ سرسید کی یہ دانش ورانہ افتاد تھی کہ وہ انگریزوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کی کوتاہیوں، خامیوں اور سازشوں پر بھی نظر رکھتے تھے، اسی لیے انھوں نے اتنی شدت کے ساتھ اردو مخالفین سے لوہا لیا اور اپنی باتیں بہ بانگِ دہل کہتے رہے۔
سرسیّد احمد خاں عرفِ عام میں علمِ زبان کے ماہر نہیں تھے۔ لسانیاتی شغف کے ثبوت تو ان کے ہاں ضرور ملتے ہیں مگر یہ کہنا ہمارے لیے مشکل ہے کہ اردو یا کسی دوسری زبان کی پیدائش اور ارتقا کے مراحل کی باریکیوں سے وہ کما حقہٗ واقف تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت تک لسانیات کا شعبہ ابھی طفلی کے دور سے گزرر ہا تھا اور پوری دنیا میں اس سلسلے سے ابتدائی کا م ہی سر انجام پا سکے تھے۔’آثارالصنا دید‘ میں زبان کے آغاز و ارتقا پر سر سیّد کی جو غور و فکر ملتی ہے، اسے بھی اُن کی لسانی دل چسپیوں کے ثبوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سرسید کے عہد میں، خاص طور سے انیسویں صدی کے پورے عرصے میں میر امّن دہلوی، اسداللہ خاں غالب، امام بخش صہبائی اور محمد حسین آزاد کے ساتھ ساتھ سر سیّد کو کچھ یوں یاد کیا جاسکتا ہے کہ ان اصحاب کے یہاں اردو زبان کے تعلّق سے بعض ایسے موضوعات پر گفتگو ملتی ہے جنھیں موجودہ عہد کے ترقی یافتہ علم لسانیات سے ہم رشتہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام افراد کی تحریروں میں موجود بنیادی منطق، علمی ثبوت اور نتائج سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ ان تمام افراد کے یہاں یہ علم ابھی ابتدائی شکل میں تھا جس کی وجہ سے مختلف مراحل میں ان کی دلیلیں نا کافی ہیں اور اخذِ نتائج میں جگہ جگہ واضح علمی کم زوریاں بھی ظاہر ہو تی ہیں۔ اس کے باوجود اس نسل کے افراد اپنی باتیں پیش کرنے میں اس وجہ سے کامیاب ہوئے کیوں کہ ان کا روایتی علم اور اس سے حاصل شدہ عرفان کے ساتھ ساتھ علمی خلوص اور ذہنی وابستگی میں ایسی کاملیت تھی جس سے اس نسل نے نئے نئے علمی ذائقوں سے پوری قوم کو آشنا کرایا۔
سرسیّد احمد خاں اور ان کی نسل کے دوسرے ادبا لسانیاتی توجہ اور انہماک کے باوجود اپنے دلائل میں کس حد تک آج کے مطابق کچّے اور ناپختہ ثابت ہوئے، اس کی جانچ کرنے کے لیے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے 19مارچ 1898میں شایع شدہ سرسیّد کا مضمون ”متعلق اردوناگری“ کا مطالعہ بے سود نہ ہو گا۔ غالباً سرسیّد کی زندگی کا یہ آخری تحریری نمونہ ہے کیوں کہ آٹھ دنوں کے بعد سرسید اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔حقیقت میں یہ مضمون بعض لوگوں کے ان سوالوں کے جواب پر مشتمل ہے جن کا یہ کہنا تھا کہ ہندستان کی عدالتوں میں اردو کی جگہ پر دیوناگری رسمِ خط میں ہندی زبان کو نافذ کرنا چاہیے۔ سرسیّد اس پوری ناگری تحریک کے خلاف تھے۔ اپنے مضمون میں سرسیّد نے جن خاص نکات کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
* ”بہار میں کیتھی حروف جاری ہوئے ہیں جو آسانی سے لکھے جاتے ہیں مگر ان کا پڑھنا اردو حرفوں کی تحریر سے بھی زیادہ مشتبہ اور مشکل ہے۔ ناگری حرفوں کا لکھنا بہ نسبت کیتھی حرفوں کے، نہایت مشکل اور بہت دیر میں لکھے جاتے ہیں اور منڈے حرفوں کی تحریر کبھی صحیح نہیں پڑھی جاتی، پس کیتھی حرفوں کے جاری ہونے اور ناگری حرفوں کے جاری ہونے میں نہایت تفاوت ہے اور اس لیے صوبۂ بہار کی کارروائی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔“
* ”کتنے اخبار ہیں جو اردو زبان اور اردو حروف میں چھپتے ہیں اور کتنے اخبار ایسے ہیں جو ہندی زبان اور ناگری حروف میں چھپتے ہیں اور اردو کی کس قدر کتابیں اور رسالے اردو میں چھاپے جاتے ہیں اور کس قدر رسالے اور کتابیں ہندی اور ناگری حرفوں میں چھاپی جاتی ہیں۔“
* ”ایک اور ذریعہ اس بات کی دریافت کرنے کا (ہے) کون سی زبان اور کون سے حروف ملک میں عام طور پر رائج ہیں۔ سرکاری ڈاک خانہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جس قدر خطوط ڈاک میں پڑتے ہیں، ان میں کس قدر اردو کے ہوتے ہیں اور کس قدر ناگری کے۔
* ”ہم کو یقین ہے کہ ہندو اور مسلمان باہم بات چیت میں جو زبان بولتے ہیں، اس میں کچھ فرق نہیں ہے۔ جس طرح اردو زبان میں بہت سے الفاظ فارسی یا عربی کے مستعمل ہوگئے ہیں، اسی طرح روز بروز انگریزی زبان کے بھی بہت سے لفظ شامل ہوتے جاتے ہیں اور یہ قدرتی قاعدہ ہے کہ جوں جوں زبان کو ترقی ہوتی جاتی ہے اور غیر قوموں سے میل جول ہوتا جاتا ہے، اسی غیر زبان کے لفظ زبان میں آتے جاتے ہیں۔ ان لفظوں کے آنے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ زبان اصلی نہیں رہی۔“
* ”ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قدرتی طور پر یہ بات لازم ہے کہ جو زبان حاکموں کی ہے، وہی زبان عدالتوں میں جاری ہو مگر اس وقت اس قدر لوگ انگریزی تعلیم یافتہ موجود نہیں ہیں کہ ان تمام عہدوں کو معمور کریں جن کی ضرورت گورنمنٹ کو ہے۔ بالفعل ملک میں انگریزی تعلیم کی ترقی ہوتی جارہی ہے اور متعدد سرکاری عہدوں میں انگریزی دانی کی شرط ہوگئی ہے اور چند روز بعد انگریزی تعلیم یافتوں کی کثرت ہوجاوے گی اور گورنمنٹ کو ہر ایک عہدے کے لیے انگریزی تعلیم یافتہ لوگ میسر آویں گے اور اس وقت ضرور ہوگا کہ تمام عدالتوں میں انگریزی مروّج ہوجاوے۔“
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری دور میں یہ مضمون لکھا، اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اردو ہندی کے مسئلے پر ان کے علمی نتائج کا یہاں نچوڑ سامنے آگیا ہوگا۔ اردو ہندی کے مسائل، اردو کی پیدائش اور فروغ و ارتقا کے مراحل سرسید کی زندگی میں کم و بیش نصف صدی تک ایک علمی موضوع کے طورپر موجود دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہاں ان کی دلیلیں دیکھنے سے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ قومی تعلیم کی اس دور اندیش شخصیت کے الفاظ ہیں جس نے اپنی کوششوں سے آنے والے دور کا نقشہ بدل دیا تھا۔ کیتھی، ناگری اور فارسی رسم خط کے درمیان تقابل کرتے ہوئے سرسید علمی بنیادوں پر کہیں قائم و دائم نظر نہیں آتے۔ کیتھی کا اردو سے مشکل ہونا اور کیتھی سے زیادہ ناگری حرفوں کے لکھنے کے انداز کو سرسید نے جس اعتماد کے ساتھ پیش کیا ہے، اس کے پیچھے ان کے ذاتی شغف یا معذرت کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ بات بھی یہاں توجہ طلب ہے کہ سرسید ایک عام اردو تحریک کار کی طرح یہاں اپنے دلائل پیش کرتے ہیں جہاں علمی اور لسانیاتی بنیادیں معدوم ہیں۔
ہندستانی زبان ناگری یا کیتھی میں زیادہ لکھی جاتی ہے یا فارسی رسم خط میں؛ اس پر سرسیّد اپنی طرف سے جرح کرنا چاہتے ہیں۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت کی تعداد کو وہ معیار تصور کرتے ہیں اور اپنے عہد میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہندی یا دیوناگری میں نکلنے والے اخبارات و رسائل سے زیادہ فارسی رسم خط میں طباعت کا کام ہورہا ہے۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ سرسیّد حکومت کی زبان کون سی ہو، اس بنیادی موضوع پر گفتگو کررہے ہیں۔ سرسید کی اسی منطق سے آزادی کے بعد ہندستان میں سرکاری اداروں میں اردو کو جگہیں نہیں ملیں اور بے پناہ قتل و خون کے بعد بنگلہ دیش سے بھی اس زبان کی سرکاری حیثیت ختم ہوگئی۔ سرسید یہاں زبان کی علمی بنیادوں، اصطلاحات کی تشکیل اور حکومت کے مختلف انداز کے کاموں میں زبان کی مہارت کے بنیادی نکتوں کو چھوڑ کر جن دلائل تک خود کو محدود کرتے ہیں، وہ مستقبل میں اردو کے مخالفین کے منہ میں دلیلیں ڈالنے کے مترادف ہے جن کے خطرات اور پھر نتائج سے ہم سب واقف ہیں۔ سرکاری ڈاک خانے میں خطوط کی زبان کو بنیاد بنانا بھی اسی انداز کا ایک بے پروا ثبوت ہے. کیوں کہ رفتہ رفتہ اس میں بھی اردو پچھڑتی چلی گئی اور آج وہاں ہے کہ ہم بہ مشکل کبھی یہ حوصلہ کرپاتے ہیں کہ کوئی کسی خط کا پتا اردو میں لکھے۔
ہندو اور مسلمان طبقے کی زبان کے امتیاز میں سرسیّد اردو مخالف لوگوں کی دلیلوں کے چنگل میں اپنے آپ پھنس جاتے ہیں۔ اردو کون سی زبان ہے اور ہندی کون سی، اس سلسلے سے انگریزوں کی نگرانی میں فورٹ ولیم کالج میں وہ مشہور اصول قائم ہوا کہ جہاں عربی فارسی کے الفاظ زیادہ ہوں، وہ زبان اردو ہے اور جہاں سنسکرت اصل کے الفاظ زیادہ استعمال میں لائے جائیں، وہ ہندی ہے۔ فورٹ ولیم کالج میں اس اصول کے پیچھے واضح حکمتِ عملی تھی اور وہاں بہت آسانی سے عربی اور فارسی کے حوالے سے مسلمانوں کی شناخت ہوگئی اور اسی طرح سنسکرت کے سبب ہندو مذہب کو پہچانا گیا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ زبان کی شناخت میں سرمایۂ الفاظ کی بنیادی حیثیت کیوں کر ہونی چاہیے؟فورٹ ولیم کالج کی سازشی حکمت عملی کو غالباً علمی اعتبار سے سرسید بہت حد تک سمجھ نہیں پائے اور اردو میں شامل عربی، فارسی الفاظ کی توجیہہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سر سیّد کا حکومتِ وقت اور لسانی آبادی سے میل جول کا سبب متعین کرتے ہوئے انگریزی کے رفتہ رفتہ اثر انداز ہونے کی بات علمی دلیل کے اعتبار سے ایک عامیانہ توجیہہ ہے۔ اس دلیل سے ہم کسی زبان کی کاروباری جہتوں کو کھول نہیں سکتے۔ اپنی مہارتوں سے کوئی لسانی آبادی کس طرح اپنی ایک نئی دنیا گڑھتی ہے، اس پر سرسیّد سیر حاصل گفتگو نہیں کرتے۔ مشکل یہ ہے کہ سرسیّد اردو میں موجود عربی و فارسی الفاظ کی مخالفت کو حکومتِ وقت کے اثرات سے متعلّق کرنے میں جس انداز کی دلیلیں پیش کرتے ہیں، ان کے خطروں کو وہ بالکل نہیں سمجھتے. حالاں کہ حکومت کے اثر سے حکومت کی زبان عوام پر اپنے آپ دباو قائم کرلیتی ہے، اس پر سرسیّد کے بیانات اس مستقبل کی طرف اپنے آپ اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اردو کی جگہ پر ہندی اور پھر انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر داخلہ مل جائے گا۔ اگر اسے سرسیّد کی مستقبل شناسی کہیں تو پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آخر ان تمام باتوں کو سمجھتے ہوئے وہ اردو ہندی کے اس تنازعے میں ہندی کی مخالفت اور اردو کے طرف دار کیوں کر ہونا چاہتے ہیں؟
SAFDAR IMAM QUADRI,
Head, Department of Urdu, College of Commerce, Arts & Science, Patna: 800020(Bihar)
Res: 202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath,Patna-6(Bihar)
Email: safdarimamquadri@gmail.com Mobile: 09430466321

صفدر امام قادری کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :انتخابِ امیرِشریعت:سو برس بعد امارتِ شرعیہ نے کیا کھویا؟ کیا پایا؟؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے