مسلکی و فکری مناظرے اور ان کا حل

مسلکی و فکری مناظرے اور ان کا حل

الطاف جمیل ندوی، کشمیر


فضائیں محبت سے ہوں معطر
آؤ دل سے دل ہم بھی تو لگائیں
کہ امید وفا کی شمع روشن کریں
نسل نو کو اسلام سے آراستہ کریں

اعتدال پسندی یا برداشت کی صلاحیت انسان میں ہو تو کیا نہیں ہوسکتا. ہمارے ہاں جس چیز کا سب سے زیادہ فقدان ہے وہ ہے اعتدال یا دوسروں کو برداشت کرنا. خیر، یہ اس لیے عرض کیا کہ آپ کو باقی سب باتیں سمجھنے میں آسانی ہو. وادی میں ایک نہ تھمنے والا بین المسالک مناظرہ بازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پچھلے کچھ وقت سے کچھ اس قدر شدت سے شروع ہوا ہے اور عروج پر ہے کہ اہل فہم حیران و ششدر ہیں کہ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے. جتنے منہ اتنے تبصرے ہورہے ہیں. ہر شخص یا تو اس کی طرف داری کر رہا ہے یا پھر اس سے برات کا مظاہرہ کرکے خود کو راہ اعتدال کا راہی بتا رہا ہے. اس کی تشہیر جو سب سے زیادہ ہورہی ہے وہ جگہ ہے سوشل میڈیا، جہاں سب لوگ دیکھ اور سن کر اپنے فہم و فراست علمی کی بنیاد پر تبصرے کر کے مزید مسائل پیدا کر رہے ہیں. 
سبب کیا ہے؟ 
کئی سال ہوئے کہ ایک اجتماع میں جانا ہوا، جہاں پر اس اجتماع کے منتظمین کے من پسند اصحاب علم و قلم کی کتابیں فروخت ہورہی تھیں. ایک جگہ خاص بک سٹال تھا جہاں کچھ نوجوان کتابیں خرید رہے تھے. میں بھی گیا. ان نوجوانوں سے علیک سلیک کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں پر جو کتابیں ہیں وہ کسی زہر سے کم نہیں. جو بھی کتابیں تھیں ان میں اکثر کتابوں کے نام کچھ ایسے تھے
فلاں صاحب کے کفریہ عقائد
فلاں کے مشرکانہ عقائد
فلاں جماعت کی اسلام دشمنی
فلاں تنظیم کافروں کی ایجنٹ
فلاں نظم کی ابلیسی دعوت
دین کے نام پر فریب
فلاں کی فکری گم راہی فلاں کے عقائد باطلہ عقائد خبیثہ
یہاں صرف ایک جماعت کے حق میں کتابیں تھیں جو اس اسٹیج پر مقررین کی جماعت تھی. باقی سب کے سب جماعت یا تنظیموں کے لیے تحقیری تذلیلی اور تنقیدی کتابیں میسر تھیں. چھوٹی چھوٹی کتابوں کی بھر مار، جو صرف بقیہ افکار و خیالات کے رد میں تھیں، تو پوچھنے پر کہ یار کیا بکواس ہے یہ کہ سوائے آپ کے تو کوئی مسلمان ہی نہیں اور وہ جو صاحب مسند ہیں ان کے سوا کوئی مومن بھی نہیں ہے

آپ اگر ایسے رسالوں اور ایسی ہلکی پھلکی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو یقین کریں کہ آپ کا دماغ آپ کا دل پھٹنے کو آجائے گا. اگر آپ صاحب علم و ادب کی مجالس کے فیض یافتہ اور ہلکی پھلکی علمی لیاقت کے مالک ہوں، ایسی باتیں ہوتی ہیں ان کتابوں میں اپنے مخالف فکر کے اہل علم و ادب کے لیے اور یہ کوئی عام لوگوں کی تحریریں بھی نہیں ہوتیں. بلکہ ایسے علما کی ہوتی ہیں جن کا نام ہے علمی افق پر. تکلیف دہ بات یہ کہ ان کتابوں میں صرف علمی مباحثے ہی نہیں ہوتے بلکہ ذاتیات تک کی معلومات ہوتی ہیں، جیسے کہ لکھنے والا اپنے مخالف کا داروغہ ہو. ایسے اس کی ذاتیات پر رقیق حملے ہوتے ہیں. نتیجہ یہ کہ ان کتب کا مطالعہ کرنے پر کوئی صاحب شیخ تھانوی رحمہ اللہ کو تبلیغ کے دوران کہتا ہے: حضرت سنا ہے کہ آپ کافر ہیں، پر حضرت کی دریا دلی، فرمایا لو آپ کو گواہ بنا کر میں کلمہ پڑھ لیتا ہوں، آپ گواہ رہیں کہ میں ایمان لے آیا، پر ہر کوئی اب تھوڑی ہی حضرت تھانوی ہوگا. ایسے ہی شیخ مودودی رحمہ اللہ پر بھی فتوے بازی کی گئی. جس کا جواب دینا بھی مولانا نے ضروری نہیں سمجھا. پر یہ شدت پسند طبقہ جو اپنے ما سوا کسی کو بھی مومن نہیں صرف مسلمان ماننے کو آمادہ نہیں ہے، ہر فکر و نظر کی جماعت میں موجود ہیں. یہاں جتنی بھی دینی تنظیمیں ہیں یا طبقے ہیں پر جگہ یہ لوگ موجود ہوتے ہیں. جو اخوت سے زیادہ اختلاف میں یقین رکھتے ہیں. سبب وہی کہ ان لوگوں نے وہ زہر دیکھا ہوتا ہے جو ان کے بڑوں نے اپنی کتابوں میں رکھا ہے چھپا چھپا کر، اور امت پر جگہ اس زہر کی نظر ہورہی ہے. دوسری قسم ایک اور ہے، جو اکابر پرستی اور افکار و نظریات کے بجائے اپنے بڑوں کی ہر غلطی کو تسلیم کرنے کے مخالف پر برس پڑنا ہی کامل ایمان تصور کرتے ہیں م،ثال کے طور پر آپ کسی بھی مکتب فکر کی کسی جانی مانی ہستی کی کسی غلطی پر نقد کریں خ،یر خواہی کی بنیاد پر، تب بھی اس شخصیت کے فدائی آپ کو معاف کرنے سے رہے، کیونکہ اکثر معتقدین کو لگتا ہے کہ ان کا فکری رہ نما گناہوں سے غلطیوں سے صاف و شفاف ہے. اس لیے اس کی کسی بھی بات پر جرح کرنا یا اس سے کسی بات کی دلیل مانگنا ہی گناہ ہے. اس کے فدائین کے نزدیک مثال کے طور پر آپ شیخ تھانوی یا سید مودودی کی کسی بھی بات کے خلاف کچھ کہیں. پھر تماشہ دیکھیں. یہ دو باتیں عرض کی میں نے کہ ہم عدم برداشت کے اس قدر شکار ہیں کہ اپنے ماسوا ہر طرف کفر کے اندھیرے ہی دیکھائی دیتے ہیں

پہلا کام یہ کریں کہ ان کتابی مصیبتوں سے خود کو بچائیں جو کتابیں بجائے علمی مباحث کے شخصی یا مسلکی تذلیل و تحقیر سے بھر پور ہوں

جن اصحاب علم و ادب سے آپ کا تعلق ہے ان سے جڑے رہیں، پر غلو نہ کریں کہ ان میں آپ کو سب کچھ دیکھائی دے اور ان کی ہر کوتاہی کے دفاع کے لیے آپ ہر حد کو پھلانگ لیں، ایسا شیوا اصل نہیں بلکہ عبث گردانا جاتا ہے. 

دوسرے افکار و نظریات کی تحقیر و تذلیل بھی شریعت اسلامی میں کوئی مستحسن عمل نہیں کہ آپ اپنے مخالف فکر و نظریات رکھنے والوں کے ہاں معتبر شخصیات پر گندے اور غلیظ تبصرے کریں. اس بات سے تو اسلامی تعلیمات تب بھی منع کرتی ہیں جب آپ کفر کے ایوان میں ان کے معبود و مسجود کو برا بھلا کہیں. 

اگر تم کسی کے جھوٹے خدا کو برا بھلا کہو گے تو وہ تمہارے اللہ کو کہیں گے. 

اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں. ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوش نما بنا دیا ہے. پھر انھیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنھیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں (سورہ الانعام آیت نمبر 108)

ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ خامیوں اور گمراہیوں کی نشان دہی احسن انداز سے کریں، یہ نشانی ہے اہل ایمان کی. مگر تحقیر و تذلیل ہر صورت ایک لایعنی اور غلیظ عمل ہے. اب جب کہ آپ کسی اہل ایمان پر گالی گلوچ کریں گے تو سمجھ لیں آپ انتہائی غلیظ سوچ کے مالک ہیں. پھر آپ کا درس اخلاقیات فضول ہے، کیونکہ احادیث میں منافق کی ایک نشانی یوں بھی ہے کہ وہ جھگڑا کرے گا تو گالی دے گا. 

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی ٔرحمت، صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ہے: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔‘‘

2 نبی ٔکریم، صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:’’آپس میں گالم گلوچ کرنے والے دو آدمی جو کچھ کہیں تووہ (یعنی اس کا وبال) ابتدا کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔

معیاری تنقید:

اگر آپ کو سید مودودی م،ولانا قاسم شاہ، یا مولانا احمد رضا خان، شیخ تھانوی یا استاد ندوی رحمہ اللہ میں سے کسی ایک بھی شخصیت پر تنقید برائے تعمیر کرنی ہے، اس کے لئے پہلی بات یہ لازم ہے کہ آپ کو ان جیسا علم ہو. ان جیسا فہم ہو. ان جیسا کوئی علمی کارنامہ آپ نے انجام دیا ہو. ان کی کتب کا مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو علماے امت کی کتابوں پر نظر ہو، تب جاکر اگر آپ علمی نکات پر نقد کرتے ہیں تو اچھی بات ہے. پر گلی میں دن رات تماشہ کرنے والا کوئی شخص اگر شام کو سوشل میڈیا پر یا کسی اور مجلس میں ان پر تبصرے کر رہا ہے، اسے علمی شد بد بھی نہیں تو یہ طریقہ غلط ہے. پر مصیبت یہ کہ ہمارے ہاں اس کا رواج ہے کہ غلیظ میں بیٹھے لوگ علما پر تبصرے کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اور تبصرے کیا ہوتے ہیں آپ بھی جان لیں. 

ہم سے ایک بار ایک ایسی ہی شخصیت ملنے آئی، جب ہمارے خیالات سنے، انھیں لگا یہ تو پکا اس کے ہی خیالات کا آدمی ہے، تو فرمانے لگے کہ کیا بتائیں کہ مسلک بریلوی کے مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ جو ہیں اس پر جتنی بھی میں نے تحقیق کی بس یہ سمجھا کہ وہ عالم بلکل بھی نہیں تھے، ان سے پوچھا کہ آپ نے ان کی کون سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، تو فرمایا اللہ بچائے وہ تو گم راہ تھے، ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا حرام ہے، ویسے انھوں نے کچھ خاص لکھا بھی نہیں ہے، میں نے کہا او بھائی تو نکل جا یہاں سے، یہ جو ان کی تفسیری یا فقہی خدمت ہے کیا وہ سب تم نے انھیں سیکھایا یا جو ان کی کتابیں ہیں وہ کیا خود بہ خود تیار ہوگئیں و،ہ جو ان کی شاعری ہے کیا وہ بھی ایسے ہی کسی اور نے کرکے ان کو دی، میں نے کہا اختلاف الگ بات ہے پر ان کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کرنا تو پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں. جب کہ تم جیسے طلبا تو اصل کفار کی کتابوں سے استفادہ کرتے اتراتے ہو، تو کیا حرج ہے اگر آپ کسی مخالف فکر کے صاحب علم کی علمی خدمات سے استفادہ کر لیں تو کون سی قیامت آئے گی، مگر بجائے علما کی مجالس میں جانے کے ہم بنا سوچے سمجھے ہی غلط سے غلط تبصرے تجزیے کرنے میں مصروف ہیں جب کہ علما سے تعلق اور اہمیت مسلم اصول ہے اور ان سے بغض و عناد ایک ابلیسی عمل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.

علما احادیث کی روشنی میں :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق ہی تکلیف دے سکتا ہے(۱) وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، (۲) عالم دین (۳) عادل بادشاہ (الترغیب و الترہیب ۱؍۱۱۵) حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی فقیہ (عالم) کو تکلیف پہنچائی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو تکلیف پہنچائی ( بخاری ، حدیث نمبر۶۰۴۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم عالم بنو، یا طالب علم بنو، یا علم سننے والے بنو، یا ان سے محبت رکھنے والے بنو، پانچویں قسم میں ہرگز داخل نہ ہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تو علم اور علما سے بغض رکھے (مجمع الزوائد حدیث نمبر۴۹۵)

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علما سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرتے ہیں، (۱) قحط سالی (۲) بادشاہ کی جانب سے مظالم (۳) حکام کی خیانت(۴) دشمنوں کے مسلسل حملے(مستدر حاکم ۴؍۳۶۱)

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا عالم زمین پر اللہ کی حجت ہے، پس جس نے عالم کی عیب جوئی کی وہ ہلاک ہو گیا (کنزالعمال۱۰؍۵۹) ان روایات کی روشنی میں آج کے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ آج لوگوں نے کس جرأت کے ساتھ علماء کی توہین اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو اپنے لیے شیوہ بنالیا ہے. جب کہ انھیں خود اپنے اعمال و کردار کی فکر نہیں. 

علما کی مجالس میں بیٹھنا اور استفادہ کرنا زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہورہا ہے، پر ہمارے زمانے کی حالت اللہ بچائے. 

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ بازار سے گزر رہے تھے، لوگوں کو دیکھا کہ وہ تجارت میں مشغول ہیں، آپ نے فرمایا تم لوگ یہاں کاروبار میں مشغول ہو اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے، لوگ فوراً مسجد کی طرف دوڑ گئے، وہاں جاکر دیکھا کہ کچھ لوگ تلاوت میں مشغول ہیں، کچھ حدیث پڑھ رہے ہیں، کچھ دوسرے لوگ علمی مذاکرہ میں مصروف ہیں، کچھ لوگ ذکر و اذکار اور تسبیح و مناجات میں لگے ہوئے ہیں۔ آنے والوں نے یہ دیکھ کر ابوہریرہ سے کہا آپ نے تو فرمایا تھا کہ مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے، اور یہاں تو کچھ ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا جن چیزوں میں یہ لوگ مشغول ہیں، یہی چیزیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہیں۔ یاد رکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث دنیا نہیں ہے

اس لیے آپ احتیاط کریں علماے امت کی باتیں کرتے ہوئے یا ان پر تنقید کرنے میں. 

مگر جب بنا کچھ مطالعہ کیے ہی آپ تبصرہ نگار ناقد بن جائیں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ سے کوئی خیر حاصل ہوسکے. 

نطریات و افکار کا اختلاف صدیوں سے چلا آرہا ہے. اس کا خاتمہ ممکن نہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر ہم اعتدال اور آپس میں برداشت کرنے کی کوشش کریں اور اختلافی امور میں اعتدال کی راہ اختیار کریں اور منظم ہوکر دعوتی اصلاحی کام کریں، یہ ایک اچھی کاوش ہوگی، ورنہ ضد عناد بغض و حسد کے ساتھ اتحادی مجالس کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ چائے اور کھانے پینے کی ایک مجلس ہوجائے س،وائے اس کے کچھ ہاتھ آنے والا ہے ہی نہیں. اختلافی امور پر مباحث کا انعقاد کرنا کوئی فرائض سے نہیں ہے، پر آپسی اتحاد و اتفاق فرائض سے ہے. بھلا اس بات سے کسے انکار ہوسکتا ہے. ایمان کے معاملے میں بھی شدت پسندی کوئی بہتر عمل نہیں کیونکہ ایمان کے درجات بھی مختلف ہیں. کسی کا ایمان بہت زیادہ اچھا ہے کسی کا درمیانہ تو کسی کا آخری درجہ تک کا بھی ہوسکتا ہے. پر ان تینوں کو کافر بنانے کا حق نہ ہی آپ کو ہے نہ ہی کسی اور کو ہے. یہ حق اللہ کا ہے اسی کے پاس رہنے دیں، کسی کو مرتد و کافر و فاسق بنانے کی سعی لاحاصل کرنے کے بجائے کوئی ایسا کام کیجئے جس سے علمی حلقے کے احباب مستفید ہوں. چند گزارشات کی ہیں، جب تک ہم اس سمت میں سوچنے کی زحمت نہ کریں گے ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک ہوتا رہے گا اور آئندہ نسل جو اس وقت دین بیزاری اور اسلام مخالف سرگرمیوں میں مشغول ہے وہ ہماری مناظرہ بازی سے باز نہیں آنے والی. تو اے اصحاب علم و ادب اس نسل کے! جاتے ہوئے آپ وارثین علما کسے بنا کر جارہے ہیں؟ کیونکہ اسلام کے بنیادی اور ضروری احکام کی نشر و اشاعت خوب سے خوب کی جائے. کیوں نہ بنیادی امور میں آپسی صلاح کو ترجیح دی جائے؟  آپس میں بنیادی کتب کا تبادلہ کیا جائے اور ان پر مباحث علمی کا اہتمام بھی، کیوں نہ تشہیری لٹریچر پر کام کیا جائے اور نفرت عناد بغض عداوت پر مبنی کتب کو اپنے اپنے کتب خانوں سے نکالا جائے؟ کیوں نہ ہم ان مصنفین سے کنارہ کشی اختیار کرلیں جنھیں سوائے اختلافات کے کچھ آتا ہی نہیں؟ کیوں نہ ہم آپس میں علمی ادبی شخصیات اور بزرگ ہستیوں کی عزت کریں؟ کیا لازم نہیں بنا سکتے کہ کسی صاحب علم و ادب کو گالی گلوچ سے یاد نہیں کریں گے؟ کیوں نہ اس فضا کو آپسی محبت اخوت ادب تعظیم کے پاکیزہ رشتے استوار کرکے صاف و شفاف بنا کر موجود اور آئندہ نسل تک اسلام کی بنیادی تعلیمات پہنچانے کی سعی کریں؟ 

اے میری ملت کے نیک و پاکیزہ نفوس کام بہت ہیں کرنے کے، جو جی لگے انھیں کرنے میں آؤ، آپس میں اک دوسرے کے غم ہی بانٹ لیں، خوشیاں خود بہ خود آئیں گی. سلامت رہو خوش رہو اے میرے اہل چمن

الطاف جمیل ندوی کی یہ نگارش بھی پڑھیں:سماجی تباہ کاریاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے