شخصیت : شیخ بشیر احمد

شخصیت : شیخ بشیر احمد

ایس معشوق احمد

ابتدا سے ہی اردو افسانے پر دو رحجانات غالب رہے ہیں۔ ایک طرف اس میں عشق و محبت کے قصے، عورت کے روپ سروپ کی تعریف، حسن کی مصوری اور تخیل کے بل بوتے پر خوب صورت دنیا کی عکاسی کی گئی تو وہیں دوسری طرف اس میں عصری مسائل، مشکلات و مصائب، زندگی اور سماج کی صورت گری کی گئی۔ حقائق کو ادب کے پیرایے میں بیان کرنے والا افسانہ نگار ناظر بن کر اردگرد کے حالات و واقعات اور زندگی کی نقاشی کرتا ہے۔ وہ کچھ پوشیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی کچھ چھپاتا ہے بلکہ من و عن سماج اور ماحول کی عکاسی اپنے افسانوں میں کرتا ہے۔ انداز بیان کو صاف اور سیدھا رکھتا ہے اور وہ اسلوب اپناتا ہے جو کہانی کے عین مطابق ہو۔ وادی کشمیر میں بھی ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے حقیقت نگاری کے پرچم تلے عمدہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔ شیخ بشیر احمد کا شمار ایسے ہی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

وادی میں جن کہنہ مشق افسانہ نگاروں نے اردو افسانے کو وقار بخشا اور بلندی عطا کی ان میں شیخ بشیر احمد کا نام بے حد اہم ہے۔ شیخ بشیر احمد 9 مارچ 1950ء میں ٹینگہ پورہ نواب بازار سرینگر میں پیدا ہوئے۔ محکمہ تعلیم میں ملازمت کی اور سبک دوش ہونے کے بعد آٹھوں پہر اردو ادب کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہیں۔ افسانوں کے علاوہ مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ”اور اس نے اپنی موت کا جواز تلاش کرلیا" سرینگر کے مشہور اخبار چنار میں 9 مارچ 1969ء میں شائع ہوا۔ دوسری کہانی بھی "بوند جو بن گئی موتی" اسی اخبار کی زینت بنی۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے "بند مٹھی سے بھاگا پرندہ" (2011)ء، "کلی کی بے کلی" ( 2014)ء اور "شیشے کی دیوار" (2016)ء شائع ہوچکے ہیں۔
کشمیر کا ایک حساس ادیب ہی اپنی تخلیقات میں کشمیری تہذیب و تمدن، سماجی و سیاسی مسائل، حالات و واقعات، قدرتی مناظر، تاریخی مقامات، رہن سہن، روایات، لوگوں کی نفسیات اور عادات و اطوار کو بہترین انداز میں اپنی تخلیقات میں پیش کر سکتا ہے. سامنے کی مثال وادی کے معروف افسانہ نگار شیخ بشیر احمد کی ہے۔ شیخ بشیر احمد کشمیر کی روح، کلچر، ثقافت، افراتفری، ظلم و جبر اور دیگر معاملات کی عکاسی نہایت دل کش انداز میں اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔ سنجیدہ موضوعات پر لکھتے ہیں۔ جو کچھ شعور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اس کو لفظوں کے ذریعے صحفہ قرطاس کے حوالے کرتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے ابتر صورت حال کی عکاسی کے ساتھ ساتھ خارجی اور داخلی انتشار کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے قوم کی حالت اور شناخت کو مسخ نہیں کرتے، بلکہ حوصلے اور کامیابی سے ان کے ترجمان بنے ہیں۔ ان کے افسانے اپنے زمانے کی سچی تصویریں ہیں۔ ان کے افسانے استحصالی قوتوں کے خلاف احتجاج ہیں. جن میں جوش اور ولولہ ہے، تشدد اور قتل و غارت گری کے خلاف مخالفانہ آواز ہے۔ وادی کے معروف ناقد پروفیسر حامدی کشمیری ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
” شیخ بشیر احمد ذاتی اور اجتماعی زندگی کے واقعات و حالات سے بے حد متاثر ہو کر قلم اٹھاتے ہیں۔ اس ضمن میں کشمیر کی المناک اور خون آشام زندگی کے دل سوز واقعات ان کے افسانوں میں جگہ پاتے ہیں۔ وہ افسانوں میں اختصایت، مکالمہ اور شعری بیان سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح معاشرتی، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی حالات سے متصادم ہوکر افسانے لکھتے ہیں"۔
آئے روز اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر یہ دل دوز خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ ایک دوشیزہ کی اجتماعی آبرو ریزی ہوئی ہے۔ اگر کوئی لڑکی خود اس زیادتی کا شکار ہوئی ہو یا اس کا کوئی رشتہ دار، سہیلی کو یہ صدمہ پہنچا ہو، جب ایسی خبر وہ لڑکی دیکھتی یا پڑھتی ہے تو اس کا ماضی کیسے اس سے لپٹ جاتا ہے اس موضوع کو شیخ بشیر احمد نے افسانہ ” کلی کی بے کلی" میں خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ درخشندہ جب ٹیلی ویژن پر یہ خبر دیکھتی ہے کہ کل شام دہلی کے ایک علاقے میں دو غنڈوں نے ایک کم سن طالبہ کا بلاتکار کیا ہے تو اس کی کان کی لویں سرخ ہوجاتی ہیں۔ ماضی میں غوطہ زن ہوکر اسے یاد آتا ہے کہ ایک روز کلاس دیتے ہوئے دیر ہوئی تھی اور جب وہ اپنی دو سہلیوں سمیت باہر نکلی تو ہلکی ہلکی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ موسلا دھار بارش شروع ہوئی اور انوپا اور ریکھا کے بدن پر بارش کے شرارتی قطرے گر رہے تھے۔ یہ تینوں سہیلیاں بس کے انتظار میں تھیں کہ ان کے کالج کے دو ساتھی منوہر اور رمیش نے لفٹ آفر کی۔ انوپا تو راضی ہوئی پر ریکھا نفسیاتی کش مکش اور وسوسوں میں مبتلا ہوئی۔ اس نے منوہر سے نظر بچا کر انوپا کے کمر پر چٹکی لی اور دھیرے سے سمجھایا بھی لیکن انوپا اگلے ہی لمحے کار کی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔ کل کالج کھلا تو درخشندہ نے انوپا اور ریکھا کو ہر اس جگہ تلاش کیا جہاں ان کے ملنے کا امکان تھا۔ کالج کا ماحول درخشندہ کو اجنبی لگ رہا تھا تو اس نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر گھر واپس جانے کا من بنا لیا۔ لیکچرار حمید نے درخشندہ کو بتایا کہ انوپا اور ریکھا کو ہوٹل میں چائے کے ساتھ نشہ آور گولیاں پلائی گئیں اور دونوں کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسلا گیا۔درخشندہ کو یہ صدمہ پریشان کرتا ہے۔ وہ دن رات بے چین رہتی ہے۔ ایک دن گھر میں اکیلی ہوتی ہے تو دو نقاب پوش اس کا سب کچھ چھین لیتے ہیں۔ اس حادثے کو وہ راز میں رکھتی ہے لیکن جب ٹیلی ویژن پر خبر دیکھتی ہے تو درخشندہ کا ذہن اس حادثے کی طرف جاتا ہے۔ اس کے شوہر لیکچرار حمید پر اس کی عجیب حالت دیکھ کر یہ راز آشکار ہوتا ہے اور وہ اسے سمجھاتا ہے کہ اس ناکردہ گناہ پر پشیمان کیوں ہو رہی ہو جو تم نے کیا ہی نہیں۔
افسانے میں تین سہیلوں کی آبرو ریزی ہوتی ہے۔ دو کو لفٹ دینے کے بعد واقف کار بردباد کرتے ہیں اور ایک کو گھر میں نقاب پوش اکیلے پاکر ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ درخشندہ کی عزت کو داغ دار کرنے کا واقعہ اضافی ہے۔ اس سے افسانہ طویل ہوگیا ہے۔ اگر بس انوپا اور ریکھا کے واقعے کو ہی افسانے میں پیش کیا گیا ہوتا تب بھی افسانہ خوب صورت ہوتا۔
چندر بھان خیال کا شعر ہے کہ :
کون دہشت گرد ہے اور کون ہے دہشت زدہ
یہ سب اک ابہام پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں

لیکن اس ابہام کو ابہام نہ رہنے دیا گیا۔ دہشت گردی کیا ہے اس سوال کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں۔ نہتے شہریوں پر جہاں ظلم کیا جائے، جہاں خوف و ڈر کی حکومت ہو، جہاں ذاتی مقاصد کے لیے لوگوں کو اذیت میں مبتلا کیا جائے، جہاں صبح شام موت رقصاں ہو اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو قتل کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہاں دہشت گردی کی بادشاہت ہے۔ پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے. لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ اور آرام دہ دنیا کو خار زار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ شیخ بشیر احمد کا ایک معروف افسانہ "دہشت گرد کون" ہے۔اس افسانہ میں شیخ بشیر احمد قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دہشت گرد وہ سہما سہما نوجوان ہے جو بے گناہ ہوکر بھی جیل کی کال کوٹھری میں سالوں سے بند پڑا ہے اور جب رہائی پاتا ہے تو باہر وردی میں ملبوس افراد اپنے آفیسر سے اجازت طلب کرتے ہیں کہ سر اس حرام زادے کے جسم کو گولیوں سے بھون ڈالیں، یہ کوئی جیل سے بھاگا ہوا دہشت گرد لگتا ہے۔ تب آفیسر حکم دیتا ہے کہ جانے دو سالے کو۔ یا وہ دہشت گرد ہے جو اس نوجوان کو گولی مارتا ہے جو رہائی کے بعد عزم اور حوصلے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر کی جانب رواں ہے۔ جس کی بیوہ ماں اور جوان بہن راہ تکتی انتظار میں ہے اور وہ نوجوان جیل سے چھوٹ کر تڑاخ کی آواز کا نشانہ بن کر نئی دنیا میں چلا جاتا ہے۔

شیخ بشیر احمد کی تخلیقات کشمیر کے معتبر اخبارات و رسائل چنار، آفتاب، ہمدرد، سرینگر ٹائمز، نوائے وقت، زمیندار کے علاوہ، چار سو، ترجمان الحق، اذان، نیا ولولہ، آزاد ہند، عالمی سہارا، ماہنامہ تحفظ، فلمی ستارے، خاتون مشرق، شہرنگاراں، ایوان اردو، آجکل، تحریر نو، شاندار، رنگ، تریاق ،ایوان اردو، ادبی محاذ، میں لگاتار چھپتی ہیں۔
شیخ بشیر احمد ادبی تنظیموں اور اداروں کے ممبر بھی ہیں۔ بزم شعرا کے ممبر، بزم ادب کے سکریٹری، سفینہ ادب کے جنرل سکریٹری، تلاش ادب اور مالیات اردو اکادمی کے سکریٹری ہیں۔ شیخ بشیر احمد کو 1977ء میں ادارہ قیصر ادب آگرہ یوپی کے زیر اہتمام کل ہند افسانوں کے تحریری مقابلہ جاتی امتحان میں بہترین افسانے پر توصیفی سند ملا ہے۔بزم شعرا اور آل انڈیا ہندی اردو سنگم جموں و کشمیر کی جانب سے غیر معمولی ادبی خدمات پر توصیفی سرٹیفکیٹ بھی ملا ہے۔ اس کے علاوہ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن نئی دہلی کے اشتراک ہلپ فاؤنڈیشن شہجار جموں و کشمیر سرینگر کی جانب سے 2009ء کے زیر اہتمام افسانوں کے مقابلہ جاتی امتحان میں بہترین کہانی لکھنے پر ایک توصیفی سند کے ساتھ نقد ساڑھے سات ہزار ملے ہیں۔
شیخ بشیر کے افسانوں کے موضوعات اس سماج سے تعلق رکھتے ہیں جس میں وہ خود سانس لے رہے ہیں۔ کشمیر کی فضا، ماحول، عصری مسائل، خوشی، غمی اور معتدد موضوعات سے اپنے افسانوں میں رنگ بھرتے ہیں۔ انھوں نے انسانی رویوں کی بھی ترجمانی کی ہے اور زندگی کے تلخ اور تاریک پہلوؤں کی تصویر کشی بھی۔ استحصالی قوتوں کے سامنے بے بس مظلوموں کی حالت زار کو مصور کی طرح پیش کرتے ہیں۔ ابھی لکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید فن پارے وجود میں آئیں گے.
گذشتہ کالم یہاں ملاحظہ ہو:شاعرہ : رخسانہ جبین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے