اخلاص و للہیت اور نام و نمود

اخلاص و للہیت اور نام و نمود

شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا، ویشالی، بہار

رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ذریعہ انسانی دنیا کو اخلاق حسنہ کی جو تعلیم و ہدایت ملی ہے اس کی تکمیل اخلاص و للہیت کی تعلیم سے ہوتی ہے. یعنی اخلاص و للہیت کتاب اخلاق کا آخری تکمیلی سبق اور روحانی و اخلاقی بلندی کا آخری زینہ ہے۔ اس اخلاص و للہیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف اس لیے اور اس نیت سے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو، ہم پر رحمت فرمائے اور اس کی ناراضگی اور غضب سے ہم محفوظ رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ تمام اچھے اعمال و اخلاق کی روح اور جان یہی اخلاص نیت ہے. اگر بہ ظاہر اچھے سے اچھے اعمال و اخلاق اس سے خالی ہوں اور ان کا مقصد رضائے الہی نہ ہو بلکہ نام و نمود یا اور کوئی ایسا ہی جذبہ ان کا محرک  اور باعث ہو تو اللہ کے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں اور ان پر کوئی ثواب ملنے والا نہیں۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی رضا اور آخرت کا ثواب جو اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کا اصل صلہ اور نتیجہ ہے اور جو انسانوں کا اصل مطلوب و مقصود ہونا چاہیے وہ صرف اعمال و اخلاق پر نہیں ملتا بلکہ جب ملتا ہے جب کہ ان اعمال و اخلاق سے اللہ تعالی کی رضا جوئی اور اخروی ثواب کا ارادہ بھی کیا گیا ہو، اور وہی ان کے لیے اصل محرک ہو۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے، فرض کیجیے کہ کوئی شخص آپ کی بڑی خدمت کرتا ہے، آپ کو ہر طرح آرام پہنچانے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر کسی ذریعہ سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسے آپ کے ساتھ کوئی خلوص نہیں ہے بلکہ اس کا یہ برتاؤ اپنی فلاں ذاتی غرض کے لئے ہے یا آپ کے کسی دوست یا عزیز قریب سے اپنا کوئی کام نکالنا چاہتا ہے اور صرف اس کے دکھاوے کے لیے آپ کے ساتھ اس کا یہ برتاؤ ہے تو پھر آپ کے دل میں اس کے اس برتاؤ کی کوئی قدروقیمت نہیں رہتی. بس یہی معاملہ اللہ تعالی کا ہے. فرق اتنا ہے کہ ہم دوسروں کے دلوں کا حال نہیں جانتے اور اللہ تعالی سب کے دلوں اور ان کی نیتوں کا حال جانتا ہے. پس اس کے جن بندوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس کی خوشنودی اور رحمت کی طلب میں اچھے اعمال کرتے ہیں وہ ان کے اعمال کو قبول کر کے ان سے راضی ہوتا ہے اور ان پر رحمتیں نازل کرتا ہے اور آخرت جو دار الجزا ہے اس میں اس کی اس رضا اور رحمت کا پورا ظہور ہوگا۔ اور جو لوگ اچھے اعمال و اخلاق کا مظاہرہ دنیا والوں کی داد و تحسین اور نیک نامی و شہرت طلبی کے لیے یا ایسے ہی دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے کرتے ہیں ان کو یہ دوسرے مقاصد چاہے دنیا میں حاصل ہو جائیں لیکن وہ اللہ کی رضا اور رحمت سے محروم رہیں گے اور ان کی محرومی کا پورا ظہور بھی آخرت میں ہوگا. 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمھاری صورتوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا لیکن تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے (صحیح مسلم)
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں مقبولیت کا معیار کسی کی شکل و صورت یا اس کی دولت مندی نہیں ہے بلکہ دل کی درستی اور نیک کرداری ہے. وہ کسی بندے کے لیے رضا اور رحمت کا فیصلہ اس کی شکل و صورت یا اس کی دولت مندی کی بنیاد پر نہیں کرتا بلکہ اس کے دل یعنی اس کی نیت کے صحیح رخ اور اس کی نیک داری کی بنیاد پر کرتا ہے۔
ریا ایک درجہ شرک اور ایک قسم کا نفاق ہے:
اخلاص وللہیت ( یعنی ہر نیک عمل کا اللہ کی رضا اور رحمت کی طلب میں کرنا) جس طرح ایمان و توحید کا تقاضا اور عمل کی جان ہے اسی طرح ریا و سمعہ یعنی مخلوق کے دکھا وے اور دنیا میں شہرت اور ناموری کے لیے نیک عمل کرنا ایمان و توحید کے منافی اور شرک ہے، بے شک معمولی ریاکاری بھی شرک کے درجہ کو پہنچا دیتی ہے. اس لیے کہ ریا کار وہی ہوتا ہے جس میں کبر اور غرور ہوتا ہے اور ریاکاری اور کبر نہایت زہریلی چیز ہے. اس سے آدمی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے اعلیٰ سمجھتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھتا ہے اور یہ دونوں چیزیں خدائے ذوالجلال اور خالق کائنات کی صفت ہیں. اس لیے اللہ تعالی کو ہرگز یہ پسند نہیں کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی ان صفات کا خواہش مند ہو۔ ایک حدیث قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ کبر میری چادر ہے اور میرے بندوں میں سے جو کبر اور ریا میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ مجھ سے میری چادر کو چھیننا چاہتا ہے جس کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا (مسلم شریف)
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے، جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ خیرات کیا اس نے شرک کیا (مسند احمد)
حقیقی شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات یا اس کے افعال اور اس کے خاص حقوق میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے یا اللہ کے سوا کسی اور کی بھی عبادت کی جائے. یہ وہ شرک حقیقی اور شرک جلی اور شرک اکبر ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں اعلان فرمایا گیا ہے اور ہم مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہےکہ اس کا کرنے والا ہرگز ہرگز بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن بعض اعمال اور اخلاق ایسے بھی ہیں جو اگرچہ اس معنی کے شرک نہیں ہیں لیکن ان میں اس شرک کا تھوڑا بہت شائبہ ہے. انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی عبادت یا کوئی اور نیک کام اللہ کی رضا جوئی اور اس کی رحمت طلبی کے بجائے لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرے. یعنی اس غرض سے کرے کہ لوگ اس کو عبادت گزار اور نیکوکار سمجھیں اور اس کے معتقد ہو جائیں. اسی کو ریا کہا جاتا ہے. یہ اگرچہ حقیقی شرک نہیں ہے لیکن ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق اور سخت درجہ کا گناہ ہے. 
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا، مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ شرک اصغر کا ہے. بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ شرک اصغر کا کیا مطلب ہے. آپ نے ارشاد فرمایا ریا ( یعنی کوئی نیک کام لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرنا ۔) 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا اصل مقصد و منشا اپنے امتیوں کو اس خطرہ سے خبردار کرنا ہے تاکہ وہ ہوشیار رہیں اور اس خفی قسم کے شرک سے بھی اپنے دلوں کی حفاظت کرتے رہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان ان کو اس خفی قسم کے شرک میں مبتلا کرکے تباہ کر دے. 
قیامت کے دن دوزخ میں ڈالے جانے کا پہلا فیصلہ ریا کار عالم و عابد، ریاکار مجاہد و شہید اور ریاکار سخی کے بارے میں کیا جائے گا. 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا شخص جس کے خلاف قیامت کے دن دوزخ میں ڈالے جانے کا فیصلہ عدالت خداوندی کی طرف سے دیا جاۓگا ایک آدمی ہو گا جو میدان جہاد میں شہید کیا گیا ہوگا، یہ شخص خدا کے سامنے لایا جائے گا پھر خداوند تعالیٰ اس کو بتائے گا کہ میں نے تجھے کیا کیا نعمتیں دی تھیں، وہ اللہ کی دی ہوئی سب نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا بتا تونے ان نعمتوں سے کیا کام لیا اور کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا، وہ کہے گا میں نے آخری عمل یہ کیا ہے کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا، یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا اور اس طرح میں نے سب سے عزیز اور قیمتی چیز اپنی جان بھی تیری راہ میں قربان کر دی، اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے، تونے تو جہاد میں حصہ اس لیے اور اس نیت سے لیا تھا کہ تیری بہادری کے چرچے ہوں، سو تیرا یہ مقصد حاصل ہو چکا اور دنیا میں تیری بہادری کے چرچے ہولیے. پھر اس کے لیے خداوندی حکم ہوگا اور وہ اوندھے منہ گھسیٹ کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ اور اسی کے ساتھ ایک دوسرا شخص ہوگا جس نے علم دین حاصل کیا ہوگا اور دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی ہوگی اور قرآن بھی خوب پڑھا ہوگا، اس کو بھی خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ تعالی اس کو بھی اپنی بخشی ہوئی نعمتیں بتائے گا، وہ سب کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا بتا تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا اور ان کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ کہے گا خداوندا میں نے آپ کا علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور آپ ہی کی رضا کے لیے آپ کی کتاب قرآن میں مشغول رہا، اللہ تعالی فرمائے گا تو نے یہ بات جھوٹ کہی، تو نے تو علم دین اس لیے حاصل کیا تھا اور قرآن تو اس لیے پڑھتا تھا تاکہ تجھ کو عالم و قاری اور عابد کہا جاۓ، سو تیرا یہ مقصد تجھے حاصل ہوچکا اور دنیا میں تیرے عالم و عابد اور قاریِ قرآن ہونے کا چرچا خوب ہو لیا، پھر اس کے لیے بھی خدا تعالی کا حکم ہوگا اور وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹ کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اسی کے ساتھ ایک تیسرا شخص ہوگا جس کو اللہ تعالی نے دنیا میں بھرپور دولت دی ہوگی اور ہر طرح کا مال اس کو عطا فرمایا ہوگا و،ہ بھی خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ تعالی اس کو بھی اپنی نعمتیں بتائے گا کہ میں نے دنیا میں تجھے یہ یہ نعمتیں دی تھیں وہ سب کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالی اس سے بھی پوچھے گا کہ تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا اور کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا، وہ عرض کرے گا خدا وندا جس جس راستہ میں اور جن جن کاموں میں خرچ کرنا تجھے پسند ہے میں نے تیرا دیا ہوا مال ان سب ہی میں خرچ کیا ہے اور صرف تیری رضا جوئی کے لیے خرچ کیا ہے، اللہ تعالی فرمائے گا تو نے یہ جھوٹ کہا، درحقیقت یہ سب کچھ تو نے اس لیے کیا تھا کہ دنیا میں تو سخی مشہور ہو اور تیری فیاضی اور داد و دہش کے چرچے ہوں، سو تیرا یہ مقصد تجھے حاصل ہو گیا اور دنیا میں تیری فیاضی اور داد و دہش کے چرچے خوب ہو لیے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے بھی حکم ہوگا اور وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹ کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا (صحیح مسلم)
کس قدر لرزا دینے والی ہے یہ حدیث. اسی کی بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت کبھی کبھی بے ہوش ہو جاتے تھے، اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے سامنے یہ حدیث بیان کی گئی تو وہ بہت روۓ اور روتے روتے بے حال ہوگئے، اس حدیث میں جن تین اعمال کا ذکر ہے یعنی علم دین کی تحصیل و تعلیم قرآن مجید میں مشغولیت اور راہ خدا میں جانی اور مالی قربانی، ظاہر ہے کہ یہ تینوں اعلا درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہیں اور اگر اخلاص کے ساتھ یہ عمل ہوں تو پھر ان کا صلہ بلاشبہ اللہ تعالی کی رضا اور جنت کے اعلا درجات ہیں، لیکن یہی اعمال جب دکھاوے اور شہرت کے لیے یا اسی قسم کے دوسرے دنیاوی مقاصد کے لیے کیے جائیں تو اللہ کے نزدیک یہ اس درجہ کے گناہ ہیں کہ دوسرے سب گناہ گاروں ( چوروں، ڈاکوؤں اور زنا کاروں) سے بھی پہلے جہنم کا فیصلہ انہی کے لیے کیا جائے گا اور یہ سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے
اللہ تعالیٰ ریا کاری کی تمام قسموں سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے