سماجی تباہ کاریاں

سماجی تباہ کاریاں

الطاف جمیل ندوی، کشمیر

کسی بھی سماج سوسائٹی کو پنپنے کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر اس کام سے بچ کر رہے جس کے سبب سوسائٹی میں مشکلات کا سامنا کرنا لازم ہوجائے. اسلام نے اس سماجی معاشرتی نظام کی تعلیم دی ہے کہ کیسے ایک معاشرہ یا سوسائٹی اپنی بقا کو دوام بخش سکتی ہے اور کیا اسباب ہیں جن کے سبب معاشرے سوسائٹیاں تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں اور نفرت و عناد کی وہ دیواریں تعمیر ہوجاتی ہیں جن کا سامنا کرتے کرتے انسان اپنی اصلیت سے دور بہت دور ہوتا جاتا ہے اور معاشرے سوسائٹیاں درندوں کی آماجگاہ ہونے کا تصور پیش کرتی ہیں. کیا کبھی ہم نے اس طرف توجہ دی کہ ہمارا معاشرتی نظام کس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے اور کیوں؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ چلیے کچھ باتیں عرض کرنے کی جسارت کر ہی دیتا ہوں آج کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ اور ہمارے جو دعوے ہیں ان میں کتنی صداقت ہے؟ کہیں ہم بے خبری یا اپنی انا اور خود غرضی کے سبب معاشرے اور سوسائٹی کو تباہ و برباد کرنے کے ذمہ دار تو نہیں؟ گر ایسا ہے تو یقین جانیے اللہ کی نظر میں ہم اہل ایمان کے بجائے اس گروہ سے ہیں جنھیں رب مخاطب کرکے کہتا ہے کہ زمین پر فساد برپا کرنے والے مجھے پسند نہیں ہیں یا اس بات کے مکلف تو نہیں بن جاتے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اہل زمین پر رحم نہیں کرتے آسمان والا بھی ان پر رحم نہیں کرتا. رکیے اب میں آپ کو اصل ہدف کی اور لے جانے کے لیے کچھ محفلوں میں لے چلتا ہوں. اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور کیسے؟ صرف برائیوں کی بات کرتا ہوں. آپ ان برائیوں کے ذمہ دار کی تلاش ازخود اپنے آس پاس کرسکتے ہیں. تو سوچئے کچھ باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.
سب سے بڑی سماجی برائی
یہ بھی ایک سماجی برائی ہے جس میں ہماری اکثریت مبتلا ہے. وہ ہے فضول قسم کے رسم و رواج کا فروغ دینا. جس میں سر فہرست شادی بیاہ کی تقریبات ہیں. جہاں کی شاہ خرچیوں اور سماج میں بڑا بننے کی دوڑ نے ہمیں مختلف تباہیوں میں مبتلا کیا. ہر شادی بیاہ کی تقریب کے لیے اب ضروریات میں کچھ چیزیں کچھ اس طرح سے شامل کی ہیں کہ جن کا پہلے پہل کہیں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا. مثال کے طور پر پہلے مختلف ناموں سے چھوٹی چھوٹی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے. جن پر پچاس پچاس ہزار تک یا اس سے زیادہ خرچہ آتا رہتا ہے اور دونوں خاندان والے ان تقریبات کو کرنا لازمی سمجھتے ہیں. جن کا تذکرہ کسی بھی جگہ نہیں ملتا. پر کشمیری اسے انجام دینا فرض سمجھتے ہیں ورنہ آپس میں نہیں بنتی. پھر یوم شادی پر لڑکے والوں کا ایک بڑا گروہ ساتھ لے کر دلہن والوں کے گھر جانا. جس کے سوا لڑکے والے مانتے ہی نہیں اور اپنے مہمانوں کی عزت و تکریم کرنے کے لیے لڑکی والوں کے گھر انھیں ساتھ لے جاتے ہیں اور دعوت طعام کرنا سعادت سمجھتے ہیں.
لڑکی والوں پر لازم ہے کہ لڑکے کے ساتھ آئے بھکاریوں کی خوب خاطر و مدارات کریں. اب جہاں جتنا زیادہ بڑا گوشت کا لفافہ مل جائے وہ لڑکی والے اتنے ہی اچھے اور پیارے لگتے ہیں، گر کہیں لفافہ بھر نہیں گیا تو شادی میں آئے لوگ اس دعوت پر مختلف فقرے کستے ہیں.
پھر پھرسال نامی تقریب پر بھی ایک اور جماعت آدھمکتی ہے کہ لائیے ہم تو شادی میں نہ آسکے اس لیے اب آگئے ہیں. ان کا لفافہ اور ان کا پیٹ بھرتے بھرتے لڑکی والوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں. پر کیا کریں یہ کرنا لازم ہے، جو ہم نے بنایا ہے. اس برائی کو انجام دیتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں. کوئی ان تقریبات کا پتہ پوچھے تو کہا جاتا ہے کہ زمانے کے ساتھ چلنا پڑھتا ہے. یا سوسائٹی میں عزت کا مدار اسی ذلالت پر مبنی ہے جس کے سبب ہزاروں غریب لڑکیاں شادی کی عمر سے گزر گئیں اور ہزاروں گھر اجڑ گئے. بیٹیوں کے زنا و بد کاری کو فروغ ملا. پر ہم ہیں کہ صرف زبانی زبانی ان سب باتوں کی برائی تو کرتے ہیں پر ان سے بچنے کی سعی کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.
چلئے بازار چلتے ہیں
بازار میں ہورہی کچھ زیادتیاں
بازار سے جو فٹ پاتھ لوگوں کے چلنے کے لیے بنایا گیا ہے اب دیکھئے کہ اس پر جناب دکاندار صاحب نے قبضہ کر لیا ہے. جو سڑک بچی تھی وہاں کسی مسٹر نے اپنی گاڑی کھڑی کرکے انسان کے چلنے کی راہ مسدود کردی ہے. جو جگہ اس کے ماسوا ہے اس پر کسی غریب ریڑی والے نے اپنی غربت کا خاتمے کرنے کے لیے ریڑھی لگا رکھی ہے اور میونسپٗلٹی کے سرفراوش اس پر زور آزمائی کرتے ہوئے اپنی چودراہٹ کا سکہ جماتے ہوئے سینہ پھلا کر چل پڑتے ہیں. تماشہ تو تب ہوتا ہے جب یہ ریڑھی کا مالک انھیں سو دو سو دے کر سلام دعا کرکے رخصت کرتا ہے اور پھر سے چلاتا ہے اپنے مال کو فروخت کرنے کے لیے. دکاندار مونچھوں پر تاؤ دے کر خریدار کی مسکراہٹ کو غائب کردینے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے. ہاں یہ اور بات ہے کہ اب مونچھیں بھی غائب ہوتی جارہی ہیں. اس لیے مختلف قسمیں کھا کر یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم پارسا ہیں جناب. تو اس بازار کی تباہی و بربادی راہ، چلنے والوں کی مشکلات، گراں بازاری اور غربت کا ذمہ کس کے سر ڈالیں؟ اس پر سوچنا ہمارا کام ہے. کہیں ہم ہی سماج کو برباد کرنے کے در پر تو نہیں. کیچڑ سے لبریز ان بازاروں کے کوچے تب اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں جب بارش کے کچھ ہی قطرے ان سڑکوں کو تالاب بنا دیتے ہیں. اور اس تالاب میں شامل کیچڑ جب کسی کے لباس فاخرہ کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے تب یاد آتا ہے کہ ہم بازار میں چلے جارہے ہیں.
سوچیے کہ چین چاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سڑکوں کے رکھ رکھاؤ میں کس قدر تعاون کرتے ہیں. اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں وہ ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں کہ ایک شخص زرق برق لباس زیب تن کیے جوں ہی کہیں پر سڑک کے بیچوں بیچ کسی قسم کی گندگی دیکھتا ہے تو انتہائی سادگی کے ساتھ اپنی گاڑی کنارے پر کھڑی کرکے اس گندگی کو اٹھا کر پاس پڑے اس ڈرم میں ڈال دیتا ہے جو وہاں اسی غرض سے رکھا ہوتا ہے کہ آسپاس پڑی گندی چیزیں اس میں ڈال دی جائیں. ہر شہری اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے اس کو ادا کرنے میں چابک دستی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہم ہیں کہ ان ممالک کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں اور اپنے ہاں کی حکومت پر لعن طعن کرکے دل کی بھڑاس نکال دیتے ہیں. تو کیا ہم نے کبھی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا اور اپنے حصے کا کام ازخود کیا؟ بنا کسی کے بتائے یا کسی اعلان کے اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی حکومتی کارندہ کسی بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے مائک لیے اعلان کر رہا ہوتا ہے اور ہم ہوتے ہیں کہ اس کا اعلان جائے بھاڑ میں، یہ کیا ہمیں بتائے گا، ہم سمجھ دار ہیں اور اسی سمجھ داری نے ہمیں تباہی کی اور دھکیل دیا ہے. ارے بھائی ٹھیک ہے کہ آپ حکومت کو نہیں مانتے پر اچھائیوں یا فلاحی کاموں میں تعاون کرنے میں کیا حرج ہے؟
اب چلیے بستیوں کی اور
سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے ہیں، جہاں کیچڑ گندا پانی ہر راہ چلتے کا استقبال کرتے ہیں، کبھی کبھار تو ان گڑھوں سے کسی گاڑی کی تیز رفتاری کی مار سے اچھل کر کسی بھی راہ گیر کے لباس فاخرہ کا رنگ بھی بدلنے سے نہیں ہچکچاتے. تو کیا تھوڑی دیر سوچا ہے کبھی اس کا سبب کیا ہے؟ گھروں سے نکلنے والے استعمال شدہ پانی کو بجائے کسی صحیح جگہ ٹھکانے لگانے کے ہم سڑکوں پر چھوڑنے کی ترکیب جو اختیار کرکے عقل کل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور اس گھر کے اہل خانہ کو اپنی اس بدی پر ناز بھی رہتا ہے کہ ہم نے کمال کردیا کہ راستہ برباد کردیا. دوسرا المیہ کہ جتنا ممکن ہوسکتا ہے ہم راستے کی زمین پر قبضہ کرنا عین ثواب کا کام سمجھ کر راستوں کے کناروں کو کو ریدیتے رہتے ہیں یا اپنے صحن میں اضافہ کرنے کے لیے اس کی حدود کو اپنے صحن میں شامل کر کے بدترین کام کرنے سے باز نہیں رہتے اور سر پیٹتے ہیں کہ ارے بھائی اب چلنے پھرنے کے لیے راستے بھی نہیں جو کہ دراصل ہم نے ہی قبضہ کر لیے ہوتے ہیں اور واعظ دوسروں کو سناتے ہیں کہ راہوں کو مستقل ہونا چاہئے.
پانی کو تباہ کرنے کی کاوشیں:
اسلام نے پانی کی قدر و منزلت بتائی ہے اور اس کے ضیاع پر نکیر کی گئی ہے. پانی اللہ تعالی کی وہ نعمت ہے جس کی حاجت ہر جاندار کو ہے، خواہ وہ چوپائے ہوں کہ انسان. چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑے سے بڑے جان دار کے لیے لازمی حصہ ہے زندہ رہنے کے لیے. درختوں کو بھی اس کی احتیاج ہے اور چھوٹی بڑی گھاس سے لے کر زراعت پیدا کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی پیداوار کے لیے پانی روح کی حیثیت رکھتا ہے. آج سے بہت سال پہلے کشمیر میں گاؤں گاؤں شہر شہر میٹھے پانی کے چھوٹے بڑے ذخیرے ہوا کرتے تھے. جنھیں ہم کشمیری زبان میں ناگ کے نام سے پکارتے تھے. پرانے زمانے کے لوگ جنھیں ہم نے بڑھاپے کے آخری پڑھاؤ پر دیکھا کہتے تھے کہ ہم انہی پانی کے بہتے سوتوں پر صبح سویرے جاکر ہاتھ منہ دھوتے اور اسی پانی سے نہایا بھی کیا کرتے تھے. خواتین صبح ہی صبح مٹکے لے کر یہاں منہ ہاتھ دھو کر پانی کے مٹکے بھر کر گھر پہنچ جاتیں اور طلوع آفتاب سے پہلے پہلے ہی نماز ادا کرکے صبح کی چائے تیار کرلیتیں. مرد فارغ ہوکر آتے تو چائے کی چسکیاں لیتے. پھر پانی کے ان پیارے چشموں کو تباہ کرنے میں زمین کے مالکان نے بڑی ہی ہوشیاری سے کام کیا اور اس چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے پر فصل پیدا کرنے کے لیے ہل چلا دیے. ایسے ہی گاؤں شہر وہ چھوٹی چھوٹی ندیاں ہوا کرتی تھیں. پر اب پہاڑی علاقوں کے سوا ان کا کوئی نام و نشان ہی کہیں نہیں ملتا. گر کہیں نالہ یا ندی موجود ہے کسی گاؤں میں تو اس میں ہر گاوں کا فرد گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگانا اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کار بد کو انجام دینے کے لیے سبقت لے لیتا ہے. اب گھروں سے نکلنے والی تمام قسم کی گندگی و غلاظت اسی میں ڈالی جاتی ہے. اب ذرا اس بہتے دریا جسے گر ہم ایگریکلچر کی شاہ رگ کہیں تو بے جا نہ ہوگا، اس کے کناروں پر گندگی کے ساتھ ساتھ اب تعمیرات بھی کھڑی کی جارہی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ اس کا رقبہ اپنی ملکیت بنائی جارہی ہے. اس کا پانی پینے کے قابل ہی نہیں بلکہ بہت سی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے. اس بہتے دریا کا نظارہ کسی بھی آباد شہر میں کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر تباہ و برباد حالت میں ہے. اس دریا کی اپنی تاریخی اہمیت و افادیت ہے. پر کیا کیا جائے کہ اسے ہم نے اس قدر برباد کردیا کہ شاید آنے والی نسلوں سے کہا جائے گا کہ آپ تحقیق کریں کہ دریائے جہلم کا میٹھا پانی کہاں بہتا تھا اور اس کی زمیں کہاں ہے. وا حسرتا ہم کیسی قوم ہیں؟ ہم کیسے باسی ہیں اس وطن کے کہ اپنے ہی ہاتھوں ہم تباہیوں اور بربادیوں کی راہیں بنا رہے ہیں.
اس پر لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ ہم کیسے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تباہی اور بربادی کے دروازے کھول رہے ہیں. فی الحال کچھ ہی باتیں عرض کیں جو ہم سب جانتے ہیں، صرف یاد دہانی کے لیے یہ سب کچھ لکھ لیا. امید کرتا ہوں کہ کوئی صاحب قلم اس کے علاوہ مسائل پر بات کرے گا یا زندگی رہی تو از خود میں لکھنے کی سعی کروں گا.
یار زندہ صحبت باقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے