مولاناکلیم صدیقی: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

مولاناکلیم صدیقی: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

یوپی سمیت کئی ریاستوں میں آنے والے چند مہینوں میں الیکشن ہوں گے، اس کے لیے سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں، یوپی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے، دہلی کا راستہ اسی یوپی سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی دہلی کو فتح کرنے کے لیے یوپی فتح کرنا ضروری ہے، مرکز اور یوپی میں اس وقت ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے، جو مسلم دشمنی کے لیے بھی پہچانی جاتی ہے، بلکہ مسلم مخالف ایجنڈا ہی اس پارٹی کا خاص مقصد ہے، اس حکومت کی کار کردگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کی کارکردگی بالکل صفر ہے اور بھارت کی تاریخ میں یہ حکومت سب سے ناکام اور ناہل حکومت ثابت ہوئی ہے، ایسے میں بی جے پی حکومت کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے فرقہ وارانہ منافرت کا کھیل ان کا سب سے کامیاب ایجنڈا ثابت ہوا ہے، اقتدار میں واپسی کے لیے یہ پارٹی طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے، تاکہ لوگوں کو گم راہ کرکے اپنی کرسی بچائی جاسکے، 2014 کے بعد سے تو یہ کھیل پورے ملک میں مسلسل کھیلا جارہا ہے”تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو" کی پالیسی پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے، انگریز بہادر بھی اسی پسندیدہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر ملک کو غلام بنانے میں کامیاب ہوئے تھے اور ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، آس کے بعد اس ایجنڈے کو موجودہ حکومت نے اپنا لیا، جب جب ملک کی کسی بھی ریاست میں کوئی الیکشن سر پر آتاہے تو اس ملک کا مسلمان خاص طور پر حکومت کے نشانے پر ہوتاہے، اور حکومتی مشنریاں دل کھول کر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا ثبوت پیشں کرتی ہیں، ایجنسیوں کو مسلط کردیا جاتاہے کہ پوری طاقت کے ساتھ وہ مسلمانوں کا شکار کریں، اس حکومت کے پاس ایسا کوئی کام تو ہے نہیں کہ جسے دکھا اور بتاکر وہ لوگوں کے درمیان جا سکے اور ووٹ حاصل کرسکے، چنانچہ پروپیگنڈہ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا اس حکومت کے لیے سب سے آسان کام ہے، اور یہ کام بی جے پی حکومت خوب اچھی طرح سے کررہی ہے، کہنے کو تو ہمارا ملک جمہوری ہے لیکن چند سالوں سے جمہوریت کی دھجیاں دل کھول کر اڑائی جارہی ہے، تازہ معاملہ مولانا کلیم صدیقی کا ہے جن کو 21 ستمبر کی رات میں، یوپی کے میرٹھ شہر سے پولس نے بغیر کسی پیشگی اطلاع اور نوٹس کے اٹھالیا، مولانا کلیم صدیقی کا وطنی تعلق مظفر نگر سے ہے جو مغربی یوپی کا حصہ ہے، وہی مظفرنگر جہاں گذشتہ دنوں کسان لیڈروں نےاپنی مہاپنچایت میں، ایک ساتھ "اللہ اکبر اورہرمہادیو" کانعرہ لگایا تھا، اور اس کی گونج دور تک سنی گئی تھی، اسی مظفرنگر میں2013 میں مسلم مخالف بھیانک فسادات ہوئے تھے، حیوانیت کا ننگا ناچ ناچا گیا تھا، اسی شہرسے کلیم صدیقی صاحب کا تعلق ہے، وہ ایک مذہبی شخصیت کی حیثیت سےمتعارف ہیں، مظفر نگر کے”پھلت” نامی ایک گاؤں میں ایک دینی و مذہبی ادارہ چلاتے ہیں، یہ ادارہ "شاہ ولی اللہ ٹرسٹ” کے تحت چلتاہے جس کے وہ چیئرمین ہیں، اس کے علاوہ وہ گلوبل پیس فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں، مولانا کلیم صدیقی پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام پولس نے لگایا ہے، اور یہ کہ انھوں نے غیر ممالک سے اس کام کے لیے فنڈ جمع کیا، ان کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے منتقل کیے گئے، مولانا کلیم صدیقی پہلی شخصیت نہیں ہیں جن پر اس طرح کا الزام لگاکر انھیں گرفتار کیا گیاہو، اس سے قبل ڈاکٹر ذاکر نائک پر اسی طرح کا الزام عائد کیا گیا، ابھی حال ہی میں عمر گوتم اور مفتی قاضی کو بھی اسی معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، ڈاکٹر ذاکر نائک تو کئی مہینوں سے ہندستان سے باہر زندگی گذار رہے ہیں، لیکن عمر گوتم اورمفتی قاضی ان دنوں جیل میں ہیں، مولانا کلیم صدیقی کو راتوں رات اے ٹی ایس(اینٹی ٹیررازم اسکواڈ) کے ذریعہ گرفتار کرنے کے بعد، اے ٹی ایس نے پریس کانفرنس کیا اور کہا کہ "مولانا کلیم صدیقی نے حوالے کے ذریعے غیر قانونی طورپر تبدیلی مذہب کےلیے فنڈ جمع کیا ہے، اب تک اس معاملے میں 11 لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے، اس معاملے کی مزید تحقیق کے لیے اے ٹی ایس نے 6 ٹیمیں تشکیل دی ہے، مولاناکلیم صدیقی نے ایک ٹرسٹ بھی بنایا ہے جس کی آڑ میں یہ غیرقانونی طور پر مذہب تبدل کراتے ہیں، ان کے ٹرسٹ میں باہر ممالک سے فنڈنگ کی جاتی ہے، اس ٹرسٹ میں ایک سے پانچ کروڑ ملک بحرین سے آیا ہے، تین کروڑ کی فنڈنگ کے ثبوت اب تک ملے ہیں مزید تحقیقات جاری ہیں، کلیم صدیقی یوٹیوب کے ذریعے تبدیلی مذہب کرنے اور لوگوں کو اس ریکٹ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے، وہ پندرہ برسوں سے مذہب تبدیل کرا رہے تھے، اس کے علاوہ انھوں نے ہی اداکارہ ثناء خان کا نکاح مولوی انس کے ساتھ پڑھایا تھا" یوپی کے اے ڈی جی پرشانت کمار گوتم نے اس پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ 20 جون کو غیر قانونی مذہب تبدیلی مذہب کا گروہ چلانے والے لوگ گرفتار کے گئے تھے، عمر گوتم اور ان کے ساتھیوں کو برطانوی تنظیم نے تقریباً 57 کروڑ روپے کی فنڈنگ کی تھی، جس کے خرچ کی تفیصلات پیش کرنے سے وہ قاصر رہے، اس تعلق سے مولانا کلیم صدیقی کے علاوہ دیگر 10 افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں، جن میں سے 6 کے خلاف فرد جرم عائد کی جاچکی ہے، جب کہ 4 کے خلاف تفتیش جاری ہے" یہ ہے اے ٹی ایس کی پریس کانفرنس کا خلاصہ، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں سچائی، محبت، تعلیم اور بھائی چارے کا پرچار کرنا اور ان کی تبلیغ و تشہیر کرنا جرم ہے؟ ملک میں جس وقت مسلمانوں کی حکومت تھی، اس وقت مسلمان چاہتے تو جبرا مذہب تبدیل کراسکتے تھے، اور اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کھل کر کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کبھی نہیں کیا، اب جب کہ ملک میں جمہوریت کاقانون نافذ ہے اور بات بات میں جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ حکومت سے لے کر نیچے تک جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے، مسلمانوں کی ماب لنچنگ کا سلسلہ جاری ہے، ان سے زبردستی ایک خاص مذہب کے نعرے لگوائے جارہے ہیں، تاریخ کو مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے، مسلم مخالف شدت پسندی عروج پر ہے، مسلمانوں کے لیے اس ملک کی سرزمین تنگ کی جارہی ہے،
ہرطبقے کے مسلمان موجودہ حکومت کے تعصب، ناانصافی اورظلم وستم کاشکار ہیں کیا ایسے میں کوئی مسلمان جبراً تبدیلی مذہب کرا سکتاہے؟ پھر اس طرح کا الزام چے معنی دارد؟ ایک ایسے وقت میں جب کہ یہاں نہ عام مسلمان محفوظ ہے، نہ مسلم ادارے محفوظ ہیں اورنہ ہی مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی قیادت محفوظ ہے، پھر ایجنسیوں کی جانب سے اس طرح کے سوالات قائم کرنا کیا یہ منظم اورمنصوبہ بند سازش نہیں ہے؟ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کا پلان نہیں ہے؟ پھر دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کا کیامطلب ہے؟ کیا یہاں ٹرسٹ بنانا، غریب و مجبور اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا اورغریب بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا غیر قانونی ہے؟ اگر یہ واقعی غیر قانونی ہے تو جن لوگوں نے پی ایم کیئر فنڈ بنایا وہ کیوں مجرم نہیں؟ اگر غیر ملکی فنڈنگ غیر قانونی ہے تو پی ایم کیئر فنڈ کی بھی جانچ ہونی چاہئے، اس کے علاوہ کئ ہندو تنظیمیں بھی ملک میں غیرقانونی فنڈنگ کرتی ہیں. آخر ان کی جانچ کب ہوگی؟ آریس ایس بھی دنیا بھر کے ممالک سے فنڈ اکٹھا کرتا ہے اس پر کارروائی کب ہوگی؟ اگر مذہب کی تبدیلی کے لیے ذہن سازی کرنا، لوگوں کو سچ بات بتانا، امن و محبت کی تعلیم دینا جرم ہے تو پھر کسی مسلمان سے جبرا مذہبی جملہ کہلوانا، گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا، اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لیے انھیں مجبور کرنا، لوجہاد کے نام پر ملک میں اودھم مچانا، کھلے عام ہندو دھرم کے اپنانے پر لاکھوں روپے دینے کا اعلان کرنے والے لوگ آخر کیوں مجرم نہیں ہوسکتے؟ کیوں ان پر کارروائی نہیں ہوسکتی؟ اے ٹی ایس ایسے لوگوں کو راتوں رات کیوں نہیں اٹھاتی؟ کیا اس ملک کا سارا قانون صرف یہاں کے مسلمانوں کے لیے ہے؟ دوسرے لوگ اس قانون سے مستثنیٰ ہیں؟
مودی کے نئے بھارت میں مسلمانوں کا قائم کردہ کوئی ادارہ محفوظ نہیں رہ سکتا، آپ نے دیکھا نہیں کہ چند دن قبل دارالعلوم کی ایک شاندار عمارت "شیخ الہند لائبریری" پر کس طرح حکومت کے لوگوں نے غلط نظر ڈالی، اس عمارت کے بارے میں کئی ایک فرضی الزام عائد کئے گئے، حکومت کے اعلیا عہدے داروں نے کئی بار دارالعلوم کادورہ کیا، اور تفتیش کے نام پر انتظامیہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی، ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہواہے، ممبر پارلیمنٹ اعظم خان کا قائم کردہ”جوہر یونی ورسٹی" کو کس طرح تہ تیغ کیاگیا، اسے برباد کردیا گیا، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ بھی اس سنگھی حکومت کی نظروں میں کھٹک رہاہے، اس کے علاوہ ملک بھر کے اور بھی کئی ادروں پر حکومت کی نظر ہے، ایک طرف عام مسلمانوں کو ماب لنچنگ کا شکار بنایا جارہا ہے، تو دوسری جانب مسلمانوں کے ادارے اور ان کی مذہبی و سیاسی شخصیات کو چن چن کر بے دست وپا کیا جا رہا ہے، ڈاکٹر شہاب الدین کو آپ نے دیکھا کس طرح انھیں مارا گیا، مختارانصاری، عتیق احمد، اعظم خاں ان کا حال آپ کے سامنے ہے، یہ حکومت پڑھے لکھے مسلمان کو بھی برداشت نہیں کرسکتی، جسٹس عقیل قریشی، اورڈاکٹر کفیل خان وغیرہ بھی حکومت کی ناانصافی اورظلم وجور کا شکار ہوئے، جسٹس عقیل قریشی کو کس طرح سپریم کورٹ میں جج بننے سے روکا گیا یہ بھی آپ نے دیکھا، ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کے ساتھ دہلی میں کیا کچھ نہیں ہوا یہ بھی آپ نے دیکھا، اب مذہبی شخصیات بھی حکومت کی لسٹ میں شامل ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائک، مفتی سمیع، انظرشاہ قاسمی، مفتی عبدالرحمن اڑیسہ، عمر گوتم، مفتی قاضی اور اب کلیم صدیقی پر حکومت کاعتاب نازل ہوچکاہے، اب پھر کس کی باری ہے؟ ملک میں اتناسب کچھ ہونے کے باوجود بعض مذہبی شخصیات کا یہ بیان کہ "آرایس ایس اپنی سوچ بدل رہاہے، وہ اپنی فکر میں تبدیلی پیداکررہاہے" کیا اس طرح کے بیان سے مسلمانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ مسلمانوں کی پریشانیاں کم ہوجائیں گی؟ حکومت چن چن کر مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالتی رہےگی، ان کی زندگیاں بربادکرتی رہے گی اور ہماری مسلم تنظیمیں ایسے لوگوں کامقدمہ لڑتی رہیں گی، آخرکب تک ہم مقدمہ لڑتے رہیں گے؟ کیا اس کے علاوہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جوتحریک جامعہ ملیہ اور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے شروع ہوئی جو بعد میں”تحریک شاہین باغ” میں گذشتہ سال تبدیل ہوگئی، اس کے نتیجے میں پورے ملک سے ہزاروں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا، ان میں کچھ کو رہاکیا گیاہے لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی جیلوں میں قید ہیں، جب انھیں گرفتار کیا جارہا تھا اس وقت کتنی مسلم تنظیمیں اور مسلم قائدین نے ان کی حمایت میں آواز بلندکی؟ کتنے لوگوں نے اتحادکا مظاہرہ کیا؟ کتنی مسلم تنظیموں نے احتجاج کے دوران ان طلبا کاساتھ دیا؟ آخر ہم کب بیدار اور متحد ہوں گے؟ اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کریں گے؟ کیایہ سوچنے کا وقت نہیں ہے؟ یاد رکھیے بزدل قوم کے ساتھ کبھی اللہ کی مدد شامل نہیں ہوتی، کامیابی اسی قوم کو ملتی ہے جو مسلسل اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہے، آج ہم بزدل ہوچکے ہیں، ہمارے قائدین مصلحت پرستی اور بزدلی کاشکارہیں، وہ حکومت کی ناانصافی کےخلاف آواز اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں توانھیں اب اپنی باری کاانتظار کرنا چاہیے، بدقسمتی یہ ہےکہ پورے ملک میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایساقائد بھی نہیں جو قوم کوآواز دے اور پھرقوم ان کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے نکل پڑے، کچھ لوگ ہیں تو انھیں قوم سے زیادہ اپنے مفاد کی فکر ہے یا پھر وہ خوش فہمیوں کی جنت میں ہیں، ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل بھی نہیں ہے، حالات آنے والے دنوں میں مزید خراب ہوں گے، تب تک اپنی اپنی باری کا انتظار کیجئے، مولانا کلیم صدیقی کا واقعہ ہم سے مخاطب ہوکر یہی پیغام دے رہاہے بقول شاعر کہ:

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں


(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :امارت شرعیہ سازشوں کے نرغے میں!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے