کتاب : زاویۂ نظر کی آگہی

کتاب : زاویۂ نظر کی آگہی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ

زاویہ نظر کی آگہی، سید محمود احمد کریمی بن مولوی عزیز احمد بن اکابر علی عرف کنکن عاجز بن ہزیر علی بن راحت علی بن محمد کالن بن محمد زین بن محمد قیام الدین بن محمد یتیم کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، ان کی رہائش سینا پت کالونی لال باغ دربھنگہ میں ہے، کتاب کا انتساب پروفیسر مناظر عاشق ہر گانوی کے نام ہے، جن کی کئی کتابوں کا انھوں نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔
زاویۂ نظر کی آگہی کا آغاز کوائف سے ہوتا ہے، جس میں تین مضمون خود سید محمود احمد کریمی کے ضروری باتیں ، مختصر سوانحی خاکہ اور شجرہ نسب کے عنوان سے ہے، ان مضامین میں کریمی صاحب نے اپنا خاندانی پس منظر اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز اور کتابوں کے ترجمہ کے سلسلہ میں توضیحی اشاریے دیے ہیں، جو قاری کو کتاب کے مصنف سے قریب تر کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو منثور بھی ہے اور منظوم بھی. اس گوشے میں عبد المنان طرزی، شاہد حسن قاسمی تابش، عبد الاحد ساز، ڈاکٹر احسان عالم، منصور خوشتر، صفی الرحمن راعین، ابرار احمد اجراوی کے تاثرات کو جگہ دی گئی ہے، جس کی وجہ سے سید محمود احمد کریمی کے شخصی کوائف، ادبی مقام اور ان کی خدمات سے ہماری واقفیت میں اضافہ ہوتا ہے، یہ سلسلہ صفحہ سینتالیس تک پھیلتا چلا گیا ہے ۔
اصل کتاب کا آغاز صفحہ ۴۸ سے ہوتا ہے اور ۱۴۴ پر جا کرکتاب ختم ہوتی ہے، اسے مقالے کا عنوان دیا گیا ہے، جس میں شیخ مجدد کے تصور توحید، اقبال کے تصور خودی، اقبال کی تخلیقی قوت، دورہا باید، دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کا تخیل، ظفر کی شاعری زنداں میں، تنقید کے ضمن میں، تعلیم کی افادیت، ’’حملہ کے وقت‘‘ تجزیہ ، پیغمبر پور اسٹیٹ کی ادبی وثقافتی خدمات، درد دل مسلم اور علامہ اقبال کا پیغام عمل کل بارہ مقالے ہیں، ان میں بعض مقالے ادبی ہیں، بعض تاریخی، بعض تعلیمی اور بعض تنقیدی، یہ ایک کشکول ہے جس میں کریمی صاحب نے ہر طرح کے اپنے مضامین و مقالے کو جمع کر دیا ہے، جس طرح غالب کے یہاں مسائل تصوف میں بھی بات بادۂ و ساغر کہے بغیر نہیں بنتی، کریمی صاحب کے یہاں بھی مضامین میں کچھ نہ کچھ تنقیدی رنگ پایا جاتا ہے، اس رنگ کو ہم جمالیاتی تنقید سے تعبیر کر سکے ہیں۔
کریمی صاحب نے ایل ایل بی کیا ہے، وکیل ہیں، اس لیے انھیں بات کہنے اور رکھنے کا ڈھنگ آتا ہے، دس برس تک وہ یونی ورسیٹی میں استاذ بھی رہے اور سولہ برس تک روز پبلک اسکول میں تدریس سے جڑے رہے، انگریزی میں مہارت تامہ ہے اور ہر فن کے مروجہ الفاظ کو انگریزی میں منتقل کرنے پر قادر ہیں، اسی خاص صلاحیت کی وجہ سے متنوع موضوعات کی کتابوں کو انگریزی کا جامہ پہنانے میں وہ کامیاب ہوئے، ایک طرف انھوں نے قصیدہ بردہ اور سورۃ یٰسین شریف کا ترجمہ انگریزی میں کیا تو دوسری طرف مناظر عاشق ہرگانوی کے ناول، ’’شبنمی لمس‘‘ مولانا احمد رضا خان کی ’’حدائق بخشش‘‘، مناظر صاحب کی کتاب ’’ہر سانس محمد پڑھتی ہے‘‘، ڈاکٹر امام اعظم کی کتاب ’’قربتوں کی دھوپ‘‘ کل سات کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، ظاہر ہے ہر موضوع کی لفظیات (وھکبلری) الگ الگ ہے اور سب کے متبادل انگریزی الفاظ پر قدرت سید محمود احمد کریمی کے فن ترجمہ نگاری کا کمال ہے۔
ترجمہ کے علاوہ ان کے اندر ادبی ذوق بھی بدرجہ اتم ہے، اقبال کو انھوں نے پڑھا ہے اور ان کی فلسفہ خودی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، زاویۂ نظر کی آگہی میں بھی کئی مضمون علامہ اقبال پر ہیں، جو ان کی اقبال شناشی کا عمدہ نمونہ ہیں، ڈاکٹر منصور خوش تر نے لکھا ہے۔
’’محمود احمد کریمی کے مقالات نہایت دل کش، سلیس اور سادہ ہو اکرتے ہیں، پیش کش کا انداز نہایت دل چسپ اور لائق توجہ ہے، عبارت صاف، رواں اور سلیس ہے۔ (صفحہ ۳۵)
کتاب کے نام ’’ زاویہ نظر کی آگہی‘‘ پر تھوڑا ذہن ٹھٹھکا تھا، پھر بات سمجھ میں آگئی کہ زاویۂ نظر تو مصنف، مؤلف کا ہوتا ہے، جب نقاد اس کے در وبست سے واقف ہوتا ہے تو اسے آگہی کہتے ہیں، جس طرح پس ساختیات کا عمل کرنے والا شاعر کے الفاظ کے معنی و مفہوم تک ہمیں لے جاتا ہے، اسی طرح تنقید ہمیں مصنف کے زاویہ نظر سے آگہی بخشتا ہے، اس لیے یہ نام ٹھیک ہی ہے۔
کتاب بہار اردو سکریٹریٹ کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے، قیمت ایک سو پچاس روپے ہے، پٹنہ میں بک امپوریم سبزی باغ اور دربھنگہ میں نولٹی بکس قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے کا غذ، طباعت اور جلد سازی میں اپنے معیار کو باقی رکھا ہے، اس لیے اس کا ٹائٹل قوت بصارت کو تازگی پہنچاتا ہے اور مضامین ذہن ودماغ کو مہمیز کرتے ہیں۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو:سابق امراے شریعت میں انتخابی طریقۂ کار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے