امارت شرعیہ سازشوں کے نرغے میں!

امارت شرعیہ سازشوں کے نرغے میں!

✒️سرفرازاحمد قاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

پٹنہ شہر کے پھلواری شریف محلے میں امارت شرعیہ نامی ایک ادارہ قائم ہے، جو اپنی سوسالہ قدیم اور روشن تاریخ رکھتاہے، اس ادارے کا قیام 1921میں حضرت مولانا ابوالمحاسن، محمد سجادؒ کے ہاتھوں عمل میں آیا، وہی اس کے بانی ہیں، یہ ادارہ ایک عظیم مقصد کے تحت قائم کیاگیا، اس ادارے کے قیام کا مقصد کیاتھا؟ اسے کیوں قائم کیاگیا؟ اس کو سمجھنے کے لیے آپ یہ اقتباس پڑھیں ” 1857 میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہی مسلمانوں کے اقتدار کاخاتمہ ہوگیا تو علمائے کرام نے اس نازک گھڑی میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی طرف توجہ فرمائی، بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی تحریک خلافت اورتحریک جنگ آزادی نے پورے ملک میں ایک عام بیداری کی لہر پیداکردی، 1919میں امارت شرعیہ کے بانی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے جو اس وقت جمعیة علمائے ہند کے ناظم اعلی تھے، امارت شرعیہ فی الہند کی تجویز پیش کی، بعض اسباب کی بنا پر کل ہند امارت شرعیہ کا قیام عمل میں نہیں آسکا، تو بالآخر حضرت مولانا ابوالمحاسنؒ نے صوبائی سطح پر اس کے قیام کی کوشش شروع کردی اور پوری قوت سے اس دینی فریضہ کی طرف علما کو متوجہ کیا اور اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی ان نیک کاوشوں کو قبول فرمایا اور مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، مولانا سیدشاہ بدرالدین قادریؒ صاحبان کی حمایت و تائید سے 19 شوال، مطابق 26جون 1921 کو امارت شرعیہ بہار کا قیام درج ذیل مقاصد کے تحت عمل میں آیا۔
1. منہاج نبوت پر نظام شرعی کا قیام تاکہ مسلمانوں کے لیے صحیح شرعی زندگی حاصل ہوسکے۔
2. اس نظام شرعی کے ذریعے جس حدتک ممکن ہو اسلامی احکام کو بروئے کار لانا اوراس کے اجراء و تنفیذ کے مواقع پیداکرنا۔ مثلاً عبادات کے ساتھ مسلمانوں کے عائلی قوانین، نکاح، طلاق، میراث، خلع، اوقاف وغیرہ احکام کو ان کی اصلی شرعی صورت میں قائم کرنا۔
3. ایسی استطاعت پیدا کرنے کی مستقل جدوجہد جس کے ذریعے قوانین خداوندی کونافذ اور اسلام کے نظام عدل کو قائم وجاری کیاجاسکے۔
4. امت مسلمہ کے جملہ اسلامی حقوق و مفادات کا تحفظ اوران کی نگہ داشت۔
5. مسلمانوں کو بلا اختلاف مسلک محض کلمہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر مجتمع کرنا، تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام اورحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت پر عمل کریں، اور اپنی اجتماعی قوت "کلمة اللہ " کو بلند کرنے پر خرچ کریں۔
6. مسلمانوں کو تعلیم، معاش اور ترقی کے میدان میں اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی نظام تجارت کی روشنی میں رہ نمائی دینا۔
7. عام انسانی خدمت کے لیے رفاہی اور فلاحی ادارے قائم کرنا۔
8. مسلمانوں کے حقوق، شریعت کے احکام اور اسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے مقاصد شرع اسلام کی تکمیل کی خاطر، اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہندستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح و آشتی کا برتاؤ کرنا، ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا اور تعلیم اسلامی”لاضرر وضرار فی الاسلام” کی روشنی میں ملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اور ہر ایسے طریق کار و تحریک کی ہمت شکنی کرنا جس کا مقصد ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان و مال، عزت و آبرو، تصورات و معتقدات پر کسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہو اور ایسی تمام تحریکات کو قوت پہنچانا جن کا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان ومال، عزت و آبرو کا احترام کرنا ہو اورفرقہ وارانہ تعصب و منافرت کو دور کرنا ہو”
(تعارف وخدمات امارت شرعیہ)
یہ ہے اس عظیم ادارے کا دستور اور اس کے قیام کا مقصد جسے آپ نے اوپر ملاحظہ کیا، اب اس عظیم ادارے اور اس کی دیکھ ریکھ، اس کے نظام کو چلانے کے لیے اور اس کے جملہ امور کی نگرانی کے لیے اس کا ایک امیر شریعت منتخب کیا جاتا ہے، جس کے ماتحت تین قسم کی کمیٹی کام کرتی ہے۔
1. ارباب حل وعقد، یہ کمیٹی علما و مشائخ، اصحاب علم و دانش، سماجی اور فلاحی کام کرنے والے اہل الرائے و با اثر افراد اور منتخب نقباے امارت شرعیہ پر مشتمل ہوتی ہے، یہ مجلس امارت شرعیہ کی ترقی، اس کے استحکام اور مسلمانوں میں سمع و طاعت کا جذبہ پیدا کرنے اور ملت اسلامیہ کی فلاح و تقویت پر کام کرتی ہے، جن کے موجودہ ارکان کی تعداد 800 سے زائد ہے، یہی کمیٹی امیر شریعت کا انتخاب بھی کرتی ہے۔
2. مجلس شوری، یہ بھی امارت شرعیہ کی نمائندہ کمیٹی ہے، جس کے ارکان مجلسِ ارباب حل وعقد ہی سے منتخب کیے جاتےہیں، اس مجلس میں نائب امیر شریعت، چیف قاضی امارت، مفتی امارت شرعیہ، ناظم امارت شرعیہ، ناظم بیت المال، اور نمائندہ مبلغین بحیثیت عہدہ مجلسِ شوری کے رکن ہوتےہیں، جن کی تعداد اس وقت 101ہے، اس مجلس کا سال میں کم ازکم ایک اجلاس ضرور ہوتاہے، جس میں ملی مسائل کے ساتھ ساتھ جملہ شعبہ جات امارت شرعیہ کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے، اور پورے سال کے آمد و صرف کا حساب و کتاب بھی پیش کیا جاتاہے، نیز آئندہ مالی سال کے اخراجات کا بجٹ برائے منظوری پیش کیاجاتاہے، مزید پورے سال کے پروگرام بھی طے کیے جاتے ہیں، یہ کمیٹی ادارے کی ہیئت حاکمہ کہلاتی ہے۔
3. مجلس عاملہ، یہ 31 ارکان پر مشتمل کمیٹی ہوتی ہے جو مجلس شوری کے فیصلوں کے نفاذ، امارت شرعیہ کی ترقی و استحکام اور عملی منصوبوں پر غورکرتی ہے، نائب امیر شریعت، چیف قاضی، ناظم امارت، ناظم بیت المال بحیثیت عہدہ اس کے رکن ہوتے ہیں، عام حالات میں مجلس عاملہ کے دواجلاس ہوتے ہیں، البتہ حسب ضرورت ناظم امارت شرعیہ، امیر شریعت کے مشورے سے عاملہ کا اجلاس طلب کرتےہیں۔
(سوانح حضرت امیر شریعت ص183)
امارت شرعیہ میں جوشعبے اس وقت کام کررہے ہیں ان میں دارالقضاء و تربیت قضاء، دارالافتاء، شعبہ دعوت و تبلیغ، شعبہ تنظیم، تحفظ مسلمین، شعبہ تعلیم، بیت المال، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، مولانا محمد سجاد ہاسپٹل، دارالاشاعت، وغیرہ یہ وہاں کے اہم شعبے ہیں، اس وقت وہاں 500 سے زائد ملازمین کام کررہے ہیں، امارت شرعیہ میں اب تک 7 امیر شریعت منتخب ہوئے اور 7 نائب امیر شریعت نامزد کیےگئے، یہ ہے اس ادارے کی مختصر تفصیل، امارت شرعیہ اس وقت عملی طور پر تین ریاستوں کے مسلمانوں کی رہبری و رہ نمائی کرتاہے، بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ، ان تینوں ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے، اور عملی طور پر اس کا دائرہ کار بھی یہی تینوں ریاستیں ہیں، اس ادارے نے اپنے زمانہ قیام سے اب تک مختلف نشیب و فراز اور حالات کو دیکھا اور بڑی حکمت کے ساتھ اسے برداشت کیا، جس کی وجہ سے آج بھی یہ ادارہ متحد ہے، لیکن دشمنوں کی نظریں اب بھی ان پر ٹکی ہوئی ہیں، کیسے اس ادارے کا وقار ختم کیاجائے، اور اس کی تقسیم کی جائے، گذشتہ 5/6 ماہ سے ملت کا یہ عظیم سرمایہ افراتفری کا شکار ہے، اسے توڑنے اور اس کی عظمت کو پامال کرنے کی ایک بے ہودہ کوشش کی جارہی ہے، اسی سال 3 اپریل کو امیر شریعت سابع کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد اب یہ ادارہ ایک آزمائشی مرحلے سے گذر رہاہے، یہ کہانی تب شروع ہوئی جب امیرشریعت مولانا ولی رحمانی صاحبؒ کے انتقال سے تین چار دن قبل ،نائب امیرشریعت کی نامزدگی کی خبر پراسرار طریقے سے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی، حالانکہ یہ خبر اتنی اہم تھی کہ امارت شرعیہ سے جاری کیاجاتا، باضابطہ لیٹرشائع کیاجاتا اور اس کی اطلاع لوگوں کو دی جاتی، 30مارچ کو جب یہ خبر عام ہوئی کہ دارالعلوم وقف کے ایک استاذ کو نائب امیر شریعت کے طور پر نامزد کردیا گیا، تو میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے امارت کا لیٹر ہیڈ مل جائے، لیکن میں اس کے حصول میں ناکام رہا، حالانکہ اتنے بڑے ادارے کا ذمہ دار کسی کو بنایاجائے اور ادارے کی جانب سے کوئی آفیشل بیان جاری نہ ہو ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ خبر جس دن عام ہوئی اس کے چاردن بعد یعنی 3 اپریل کو امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحبؒ اس دارفانی سے کوچ کرگئے، یہ واضح رہے کہ امیر شریعت نے 18 مارچ کو کووڈ ویکسن لی تھی، جس کے بعد سے مسلسل انکی طبیعت بگڑتی گئی، یہاں تک کہ انھیں آئی سی یومیں داخل کیا گیا، جب وہ آئی سی یو میں تھے اسی درمیان یعنی مارچ 30 مارچ کو نائب امیرشریعت کی نامزدگی کی خبر عام ہوئی، ممکن ہے امیر شریعت نے آئی سی یو میں نائب امیر شریعت کو نامزد کردیا ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت امیر شریعت نے نائب کو نامزد فرمایا اس وقت کوئی نہ کوئی تو ان کے پاس موجود رہاہوگا، جب یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ کم ازکم دوگواہ تو اس وقت حضرت امیر شریعت کے پاس ضرور رہے ہوں گے، پھر وہ گواہان کہاں ہیں؟ دوسری بات امیر شریعتؒ نے امارت شرعیہ کا نائب نامزد فرمایا تو یہ ضروری تھا کہ اس کے لیے امارت شرعیہ کا لیٹر ہیڈ استعمال کیاجاتا یا پھر اسے کتاب الاحکام میں جگہ دی جاتی، کیا یہ کتاب الاحکام میں موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو پھر اسے عام کرناچاہئے تھاکہ شکوک و شبہات دور ہوں، اسی افراتفری کے عالم میں جب نائب امیر شریعت نے غیر شرعی اور غیردستوری طریقے پر، امیر شریعت کے انتخاب کا اعلان کردیا تو لوگوں میں بے چینی فطری تھی کہ ایک شرعی ادارے میں غیرشرعی الیکشن کرانے کا مطلب کیا ہے؟ یہ آواز جب زوردار طریقے سے اٹھنے لگی تولوگوں کے شبہات میں اضافہ ہونے لگا، چنانچہ سوشل میڈیا پر نائب کی نامزدگی کے ثبوت کا مطالبہ ہونے لگا، ایسے میں ثبوت کےطور پر امیر شریعت کا ایک قدیم لیٹر ہیڈ جاری کیا گیا، اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ امیر شریعت مرحوم کا قدیم لیٹر کیوں جاری کیا گیا؟ کیا ان کا نیا لیٹر ہیڈ ختم ہوگیا تھا؟ یا ان کے پاس امارت شرعیہ کا کتاب الاحکام اور آفیشل لیٹر ہیڈ نہیں تھا؟ کیا اتنا اہم کام امیر شریعت اس طرح کی غیر ذمہ داری سے کرسکتے تھے، بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ امیر شریعت جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ کسی کام کی انجام دہی سے پہلے وہ بہت غور و فکر اور ہفتوں بلکہ مہینوں مشورہ کرتے تھے تب جاکر کسی نتیجے پر پہنچتے تھے، چنانچہ جب یہ قدیم لیٹر ہیڈ ایک گروپ نے جاری کیا تو لوگوں کے شکوک وشبہات مزید گہرے ہوگئے کہ یہ نامزدگی جعلی اورفرضی ہے. مزید یہ سوالات بھی قائم کئےگئے۔
1. تقرر نامہ پر مولانا ولی رحمانی صاحبؒ کا اصل دستخط نہیں ہے۔
2. لیٹرپیڈ امارت کا ہونا چاہیے جو نہیں ہے۔
3. امیرشریعت کےذاتی لیٹرہیڈ پر خانقاہ کا تقرر کہلاۓ گا نہ کہ امارت کا۔
4. لیٹرپیڈ کافی قدیم ہے جو حضرت کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس لیٹر پیڈ پر مولانا ولی رحمانی صاحب امیر شریعت کا(عہدہ)درج نہیں ہے۔
5. نئے لیٹرپیڈپہ مولا نا ولی رحمانیؒ امیرشریعت ہیں بلکہ دیگر تنظیموں کاعہدہ بھی اس پرچھپاہواہے وہ لیٹرپیڈ ہوناچاہئے۔
6. بہ فرض محال اگر اس پہ مولانا ولی رحمانیؒ کا دستخط ہے تو دوسرے اراکین کے دستخط کی ضرورت کیوں پڑی؟
7. تقررنامہ کی تاریخ اور اعلان کی تاریخ میں بڑا وقفہ ہے, آخر اتنی تاخیر سے اعلان کیوں کیاگیا؟
8۔ یہ نامزدگی امارت کے کتاب الاحکام میں کیوں درج نہیں؟
9 اس لیٹر ہیڈ پرجو تحریرہے یہ تحریر بھی امیر شریعت کی نہیں ہے، کیونکہ امیرشریعت مرحوم کی تحریر میں جوسلاست اورروانی ہوتی تھی اس سے یہ تحریر خالی ہے۔
نوٹ: اصل میں جعلی اور فرضی حیثیت کو چھپانا تھا اس لیے دیگر اراکین امارت سے دستخط کرایا گیا"
یہ وہ سوالات ہیں جوسوشل میڈیا پر اب بھی گشت کررہےہیں، کیا یہ سوالات قابل توجہ نہیں ہیں؟ ان کا جواب کون دےگا؟
امیرشریعت مرحوم کے انتقال اور ان کی تدفین کے بعد جس تیز رفتاری کے ساتھ ڈرامائی انداز میں نائب امیر شریعت کا استقبال امارت شرعیہ میں کیاگیا یہ تو پھر غنیمت تھا، لیکن ہوا یہ کہ امارت کی سیٹ سنبھالتے ہی نائب صاحب نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کردی، اپنے اختیارات کا غلط استعمال شروع کردیا، ایک مخصوص فرد کو امیر شریعت بنانے کے لیے انھوں نے لابنگ شروع کردی، اس کے لیے مختلف اضلاع کادورہ بھی کیا، لوگوں کی ذہن سازی کی، کئی ایک ارباب حل وعقد کے اراکین کو ورغلایا اورگمراہ کیا، ان سے ایک مخصوص فردکی حمایت میں دستخط کروائے، جون کے آخری ایام میں انھوں نے یعنی دستور میں دیے گئے اپنے تین ماہ کی مدت اختیارات سے 10دن قبل انھوں نے شوری کی ایک آن لائن میٹنگ بلائی، اور ان اراکین میں جو ان کے حمایتی تھے ان کو میٹنگ کے درمیان باقی رکھا گیا اور جو اراکین غیرحمایتی تھے ان کا کنکشن کٹ کردیاگیا، جس پر اراکین نے احتجاج بھی درج کرایا، اس میٹنگ میں شرکا نے ان سے کہا کہ”جب تک امیر شریعت کا انتخاب نہیں ہوجاتا تب تک آپ کام کرتے رہیں، اور جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوجائے آپ اراکین شوری کی آف لائن میٹنگ بلائیں تاکہ نئے امیر شریعت کے انتخاب کے معاملے میں غور و فکر کیاجاسکے، لیکن انھوں نے اسی میٹنگ میں ایک 11رکنی سب کمیٹی تشکیل دے دی جس میں اپنے چنندہ لوگوں کو شامل کیا گیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس سب کمیٹی میں امارت شرعیہ کا صدر مفتی بھی شامل ہونے کے قابل نہ رہا جنھیں نظر کردیاگیا، جب کہ اوپر آپ نے تین کمیٹی کانام پڑھا ان میں سے ہر کمیٹی میں صدرمفتی شامل رہیں گے دستور کے مطابق، پھر نائب امیر نے انھیں نظر انداز کیوں کیا؟پھر اس سب کمیٹی کی آڑ میں انھوں نے غیر دستوری اورغیر شرعی طریقے سے امیر شریعت کے انتخاب کااعلان جاری کردیا، حالانکہ ان سے کہا گیا تھا کہ حالات معمول پرآنے تک آپ کام کرتے رہیں، پھر انھوں نے امیر شریعت کے انتخاب کے لیے جلدبازی سے کام کیوں لیا؟ جب انھوں نے 10اگست کاغیردستوری اورغیر شرعی اعلان کرہی دیا تو پھر ان سے مختلف وفود نے ملاقاتیں کیں اوران سے کہاکہ امیر شریعت کا انتخاب دستور کے مطابق شفاف طریقے سے ہوناچاہئے، سارے وفود کو انھوں نے جھوٹی یقین دہائی کرائی کہ” آپ اطمینان رکھیں سب کچھ دستور کے مطابق ہوگا اورشفاف طریقے سے ہوگا ان شاءاللہ" لیکن یہ اس کے خلاف کرتے رہے، امارت کی آفس سے جھوٹی خبریں، فرضی تحریریں اخبارات کو بھیجی گئیں، دوسرے لوگوں کی پگڑی اچھالی گئی اور یہ تماشا دیکھتے رہے، لوگوں نے بار بار ان سے کہا کہ امیرشریعت کے انتخاب کے لیے جو آپ نے نئے طریقہ کا اعلان کیاہے یہ بالکل مناسب نہیں ہے، اسے واپس لیجئے، ابھی کوئی جلدبازی نہیں ہے آپ کام کرتے رہئے، لیکن یہ مصر ہوگئے کہ نہیں سب کچھ دستور اورشریعت کے مطابق ہورہاہے، یہ معاملہ جب بڑھاتو مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ایک بیان اخبار کو جاری کیا جس میں اس مجوزہ اورمقرر کردہ طریقہ انتخاب کو غیر دستوری اورغیر شرعی بتلایاگیا، مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب کےخلاف امارت کے لیٹر ہیڈ کاغیرضروری استعمال کرتےہوئے آفس سکریٹری کے ذریعے ان کے خلاف بیان جاری کروایا۔
اس کے بعد پھر امارت شرعیہ کے صدرمفتی نے بھی مدلل انداز میں غیردستوری اورغیرشرعی ہونے کافتوی دیا، جس کے بعد ہلچل مچ گئی، پھر اس کے بعد گیارہ رکنی کمیٹی کے کئی لوگوں نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دےدیا، لیکن نائب صاحب ٹس سے مس ہونے کانام نہیں لے رہےتھے، جولائی کے اخیر میں اراکین شوری پر مشتمل ایک معزز وفد نے ان سے امارت شرعیہ جاکر آفس میں ملاقات کی، میمورنڈم دیا، حالات سے آگاہ کیا اور الیکشن کی تاریخ واپس لینے کا مطالبہ کیا، بڑی جدوجہد کے بعد انھوں نے الیکشن کی تاریخ منسوخ کرنے کا اعلان تو امارت کے لیٹر ہیڈ پر کیامگر بغیر دستخط کے، اللہ اللہ کرکے الیکشن کی تاریخ منسوخ تو ہوگئی لیکن اسی درمیان ایک گروپ نامنیشن کے لیے امارت شرعیہ آدھمکا، آخر یہ لوگ کون تھے جو الیکشن کی تاریخ ملتوی ہونےکے باوجود نامنیشن کرانے کےلیے امارت کی آفس میں حاضر ہوئے؟ پھر چنددنوں کےوقفے کے بعد یہی گروپ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے رات کے تقریبا دس بجے کئی گاڑیوں میں بھر کر امارت پر قبضے کے لیے حاضر ہوا، لیکن ان لوگوں کومین گیٹ پرہی روک لیاگیا اورامارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، پھلواری شریف کی عوام نے بالآخر وہاں سے ان لوگوں کو کھدیڑ دیا اوریہ لوگ وہاں سے مجبوراً بے نیل ومرام واپس ہوگئے، خبر یہ بھی آئی کہ جس گاڑی سے یہ غنڈے لوگوں کا گروپ رات میں امارت پرقبضہ کرنے آیاتھا انھیں گاڑیوں میں سے ایک گاڑی میں صبح شمشاد رحمانی صاحب امارت پہنچے، توکیا اس سے یہ سمجھاجاناچاہیے کہ یہ گروپ شمشاد رحمانی صاحب کےاشارے پرکام کر رہا ہے؟
ایک کام انھوں نے یہ بھی کیا کہ بغیر شوریٰ کی میٹنگ بلائے اور ان سے مشورہ کیے انھوں نے اپنی من مانی مرضی سے ارباب حل وعقد میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو شامل کردیا، الزام یہ بھی ہے کہ اپنے ایک بھائی کو جو غالبا ابھی طالب علم ہے انھیں بھی رکنیت دے دی گئی ہے، نیز کئی لوگوں کی رکنیت کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔واللہ اعلم
بہار میں لاک ڈاؤن چل رہاتھا، اگست میں جب لاک ڈاؤن ختم ہوگیا تو شوریٰ کے ایک مؤقر وفد نے شمشاد رحمانی صاحب سے ملاقات کے لیے انھیں فون کیا اور وقت مانگا کہ اب لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ہے ہم لوگ آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، کب ملاقات ہوگی؟ شمشاد رحمانی صاحب نے اراکین شوری سے کہا کہ آفس میں اطمینان کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی ہے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ ہمارے گھر پر آجائیں تاکہ وہاں اطمینان اورسکون سے بات ہوسکے، چنانچہ ان کی خواہش اور شدید اصرار پر اراکین شوری کا وفد جس میں پٹنہ شہر کی معزز شخصیات شامل تھیں، ان کے گھرپر پہونچا اوران سے ملاقات کی، حالات کی سنگینی سے انھیں واقف کرایا اوران سے کہا گیا کہ اب لاک ڈاؤن ختم ہوچکاہے، آپ کاکیا ارادہ ہے؟ اب آپ جلد ازجلد ہفتہ دس دن یا پندرہ دن میں شوری کی آف لائن میٹنگ بلالیں، تاکہ امیر شریعت کے انتخاب کے مسئلے پر غور و فکر کیاجاسکے، انھوں نے اس کے جواب میں صرف اتنا کہاکہ سوچ کر جواب دوں گا، لیکن کوئی جواب نہیں دیا، معزز اراکین ان کے جواب کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی جواب نہ آیا تو کئی دنوں کے بعد ایک دن پھر اراکین شوری نے مولانا شبلی صاحب کو فون کیا کہ ہم لوگ ملاقات کے لیے آنا چاہتے ہیں، کب آئیں؟ شبلی صاحب نے شمشاد رحمانی صاحب سے اراکین کی بات کرائی، اراکین نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو شمشاد صاحب نے کہا کل 3 بجے آپ حضرات آفس میں تشریف لائیں، یہ کہہ کر فون کٹ کردیاگیا، دوسرے دن وقت مقررہ پر اراکین کا یہ وفد آفس پہنچ گیا. دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد شمشاد صاحب کو کئی لوگوں نے فون کیا لیکن انھوں نے کسی کافون اٹھایا اور نہ ہی کوئی جواب دیا، شبلی صاحب نے بھی آفس سے فون کیا لیکن انھوں نے ان کا فون بھی رسیو نہیں کیا، امارت کے ملازمین سے معلوم ہوا کہ آج نائب صاحب امارت آئے ہی نہیں، خیر وفد نے میمورنڈم مولانا شبلی صاحب کے حوالے کیا اور واپس ہوگئے یہ کہہ کر کہ میمورنڈم کاجواب دیجئے گا، دوسرے دن شمشاد رحمانی صاحب نے پریس کو بیان جاری کیا کہ میرافون سیلنٹ میں تھا، میں نہیں دیکھا اور میں بھول گیاتھا وغیرہ وغیرہ.
جب اراکین شوری ناامید ہوگئے کہ نائب امیر صاحب نہ کوئی جواب دیتے ہیں، نہ ملتے ہیں اور نہ بات کرناچاہتے ہیں تو اب کیا کیا جائے؟ چنانچہ اسی پر غور کرنے کے لیے شوری کے معزز اراکین نے میٹنگ بلائی اور اس میں یہ طے ہواکہ چونکہ تین مہینے سے زائد کاعرصہ گذر چکاہے اس لیے ان کا اختیار ختم ہوگیا اب نائب امیر، امیر شریعت کا انتخاب نہیں کراسکتے کیونکہ دستور کے مطابق ان کے پاس تین مہینے کاہی وقت ہے، چنانچہ شوری نے پہل کی اور دستور میں دیے گئے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے غور و خوض کے بعد 10 اکٹوبر کو امیر شریعت کے انتخاب کے لیے تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیاہے، یہ خبر عام ہوتے ہی نائب امیر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ”میٹنگ بلانے کا اختیار مجھے ہے میرے علاوہ کوئی میٹنگ نہیں بلاسکتا، اس طرح کی میٹنگ کا امارت شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں". وغیرہ وغیرہ
سوال یہ ہے کہ کیا نائب امیر شریعت شوری سے اوپر ہیں؟ اور کیا وہ ہرچیز سے مبرا ہیں؟ کیا وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں؟ ان کے اختیارات لامحدود ہیں؟ اتنی ساری چیزیں آخر انھیں کس نے فراہم کردی؟ کیا وہ منتخب شدہ امیر ہیں؟ جب کہ دستور کے مطابق منتخب شدہ امیر شریعت بھی شوری کے مشورہ کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں لے سکتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ منتخب شدہ امیرشریعت کو دستور کے مطابق جو اختیارت حاصل ہیں، کیا وہ سارے اختیارات مثل امیر یعنی نائب امیر کوحاصل ہوں گے؟
گذشتہ تقریباً چھ مہینے سے امارت شرعیہ کو کم زور کرنے اور عوامی سطح پر اس کی شبیہ بگاڑنے کی منظم کوششیں عروج پر ہیں، ملازمین کے علاوہ مقتدر علما کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں، فرضی نام سے تحریریں لکھوائی جارہی ہیں، عزتوں کو سربازار نیلام کیاجارہاہے، سوشل میڈیا پر الزام تراشی کا طوفان بدتمیزی کاسلسلہ جاری ہے، آخر ایسے عناصر کا مقصد کیاہے؟ ان ساری چیزوں پر غور کرنے کے بعد کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ملت اسلامیہ کا یہ عظیم اور قدیم ادارہ سازشوں کے نرغے میں ہے؟ ایک ایسا ادارہ جس نے قوم کی تعمیرمیں اہم اور مثالی کردار ادا کیا ہے کیا ہم انھیں اتنی آسانی سے برباد ہوتاہوا دیکھ سکتےہیں؟ کیاہم ان کے تحفظ کےلیے سنجیدہ ہیں اورکوئی لائحہ عمل ہمارے پاس ہے؟ سوچئے گاضرور.

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی پڑھیں :آسمان چھوتی مہنگائی اور بے شرم حکومت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے