بھٹکل کی شادی اور شادی کا کھانا

بھٹکل کی شادی اور شادی کا کھانا

✍️ قمر اعظم صدیقی
بھیروپور، حاجی پور،ویشالی، بہار

٢٠١٨ ء کی بات ہے، تجارت کے سلسلے میں بھٹکل گیا ہوا تھا، بہت ہی خوب صورت شہر ہے اور بہت ہی اچھے لوگ ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی اپنی مقامی زبان ہے۔ آپسی بول چال میں لوگ زیادہ تر اسی زبان کا استعمال کرتے ہیں. ویسے وہاں کے پڑھے لکھے لوگ اردو بھی اچھی بولتے ہیں۔ وہاں کے مسلم مرد حضرات کی اکثریت گلف کنٹری سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ عربی بھی اچھی بول لیتے ہیں۔ بھٹکل کی مہمان نوازی بھی اچھی ہے۔ جن دنوں میرا کاروبار بھٹکل میں ہورہا تھا ان دنوں وہاں کے چار تاجروں سے میں کاروبار کرتا تھا. ان چار تاجروں میں صادق بھائی سے میرے تعلقات زیادہ ہی اچھے تھے۔ جب میں نے ان سے تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا اس وقت ان کی ایک دکان تھی "سیم سیٹی" جس میں لگیج اور فوٹ ویر کی تمام ویرائٹیز دستیاب تھیں. میں "VIVIZA" برانڈ کا کالج بیگ اور لگیج بیگ ان کو سپلائی دیتا تھا۔ بعد میں انھوں نے "مروہ کالیکشن" کے نام سے اپنی ایک دوسری شاپ بھی کھولی جس میں موجودہ ویرائٹیز کے علاوہ خواتین کے کپڑے بھی ایڈ کر دیے- کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے اپنی پرانی والی دکان کو بند کر دیا۔ صادق بھائی بہت ہی با اخلاق اور خوش مزاج انسان ہیں۔ جب انھیں میں اپنے جانے کے متعلق باخبر کرتا تو بہت خوش ہوتے۔ ٹرین لیٹ ہو جانے یا ہوٹل میں ہی تاخیر ہو جانے کی وجہ کر اگر وقت مقررہ پر نہیں پہنچ پاتا تو اس درمیان وہ کئ بار فون کر دیتے۔ پہنچنے پر پر خلوص انداز میں ملتے- فوراً فروٹ جوس اور کھانے کے لیے بھی کچھ منگوا لیتے۔ ان کی اس ادا نے مجھے اس قدر متاثر کیا تھا کہ دوسرے دکانداروں پر انھیں فوقیت حاصل ہوگئی تھی۔
اتنی تمہید اس لیے ضروری تھی کے قارئین یہ جان سکیں کہ ہم دونوں کے بیچ آپسی تعلقات حد درجہ بہتر تھے۔
اب اصل موضوع کی جانب قلم کو جنبش دیتا ہوں. ایک بار کا واقعہ کچھ یوں ہے. ہر بار کی طرح جب تمام دکانداروں سے فراغت کے بعد حسب معمول آخر میں صادق بھائی کی دکان پر پہنچا تو وہی خلوص، وہی پرتپاک انداز استقبال۔ میں بھی صادق بھائی کو اپنے دل کے کافی قریب کر چکا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آپس میں اتنی زیادہ قربت ہو گئ تھی۔ حال احوال دریافت کرنے کے فوراً بعد صادق بھائی نے اپنی جیب سے ایک وزیٹنگ کارڈ سائز کا دعوت نامہ نکالا اور مجھے دیا ۔ اس کارڈ کے ہاتھ میں آنے سے قبل میرے ذہن میں کسی دکان کے وزیٹنگ کارڈ کا خیال آیا کیوں کہ اس سے قبل میں نے اس سائز کا دعوت نامہ نہیں دیکھا تھا۔ پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے بھتیجے کے نکاح اور ولیمہ میں شرکت کی دعوت ہے۔ اس تقریب کو ٣ دن بعد ہونا تھا۔ میرا اسی روز منگلور واپسی کا پروگرام قبل سے طے شدہ تھا۔ اور صادق بھائی کا اصرار تھا کہ میں اسی دن سے ہی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے رک جاؤں۔ پہلے تو میں نے ان سے معذرت چاہی اور کہا کہ آپ کی محبتوں کا شکریہ۔ میری دعائیں شامل رہیں گی میں شرکت نہیں کر پاؤں گا کیونکہ سبھی پارٹیوں کے پاس وقت مقررہ پر پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ نہیں تو پیمنٹ میں دقت ہو جاتی ہے۔ لیکن صادق بھائی نے میری ایک نہیں سنی۔ بہر حال میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ آج مجھے جانے دیں ان شاءاللہ تقریب کے روز میں شامل ہو جاؤں گا۔ تب جاکر انھوں نے مانا۔ بہر حال اس کے بعد حسب معمول وہی فروٹ جوس اور ناشتہ آگیا۔ گھنٹوں بات چیت ہوتی رہی پھر میں نے اجازت لی اور اسی وعدے کے ساتھ کہ تقریب میں شرکت لازمی ہے میں منگلور کے لیے روانہ ہو گیا۔ درمیان کے دو دن میں نے منگلور اور اس کے اطراف میں طے شدہ پروگرام کے مطابق کام کیا. اور تقریب والے دن بھی منگلور میں جن لوگوں سے ملنا باقی رہ گیا تھا جلدی جلدی مل کر کام کو سمیٹتا رہا۔ پھر بھی نکلتے نکلتے تاخیر ہو گئی۔ دوپہر کا کھانا بھی ندارد. اس وقت ٹرین کا کوئی شیڈول نہیں ہونے کی و جہ سے بس سے جانا پڑا – میرے لیے یہ اور زیادہ مصیبت بن گیا۔ اس دن تھکاوٹ بھی بہت زیادہ ہو گئ۔ اسی بیچ با بار صادق بھائی کا فون آنے لگا۔ نڈھال ہو کر شام سات بجے بھٹکل بس اسٹینڈ اترا۔ صادق بھائی نے میرے لیے کسی ہوٹل میں کمرہ بک کرا رکھا تھا جس کی تفصیل میرے واٹس ایپ پر آچکی تھی۔ اسی اڈریس پر ہوٹل پہنچا جلدی جلدی فریش ہو کر تیار ہو گیا، اب صرف آدھا گھنٹا باقی رہ گیا تھا نکاح ہونے میں. اسی بیچ دو بار صادق بھائی کا کال بھی آچکا تھا کہ جلدی آئیے۔ بھوک کی شدت اپنی جگہ تھی لیکن وقت نے اجازت نہیں دی کہ ہوٹل میں جا کر کچھ کھا لوں. بیگ میں بسکٹ کا پیکٹ موجود تھا۔ دو چار بسکٹ کھا کر پانی پی لیا اور فوراً وہاں سے روانہ ہو گیا۔ تقریب گاہ تک پہنچا تو کافی خوش گوار ماحول، فزا میں عطر کی خوش بو۔ معیاری سجاوٹ، اور بہترین جگمگاتی روشنی کا انتظام تھا۔ اور تمام آۓ ہوۓ مہمانوں کا گرم‌ جوشی سے پر خلوص استقبال ہو رہا تھا۔
آنے والے مہمانوں کو عطر پیش کیا جا رہا تھا، اس کے بعد کئ قسم کے شربت اور بہترین قسم، کے پن کھجور پیش کیے جا رہے تھے۔ میں نے بھی دودھ کی بنی ہوئی شربت اور ٢ /٣ پن کھجور قبول کیا۔ تھوری راحت ملی۔ نکاح میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میں بھی صادق بھائی کی تلاش میں تھا کہ ان پہ نظر نہیں پڑ رہی ہے۔ میں نے اس لیے فون نہیں کیا تھا کہ شاید کسی کام میں مصروف ہوں گے۔ کچھ دیر بعد وہ اندر سے تشریف لائے تب ہی ان کی نگاہ مجھ پر پڑگئ۔ گلے سے لگا لیا۔ بہت خوش ہوۓ۔ اپنے بھائیوں اور تمام رشتہ داروں سے ملاقات کروائی۔ اپنے بھتیجے جن کا نکاح ہونا تھا ان سے بھی ملوایا۔ اور سبھوں سے میرے متعلق تعریفی جملے کہتے رہے. میں سن سن کر شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ بہر حال کافی تاخیر سے نکاح ہوا ۔ اس کے بعد چھوہارا تقسیم کیا گیا۔ مبارکبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے بھی نوشے کو اور صادق بھائی کو مبارکباد پیش کی۔ اور پھر کرسی پر اپنی جگہ لے لی۔ دھیرے دھیرے آۓ ہوۓ لوگ واپس ہونے لگے ۔ اور میرا تجسس بڑھتا رہا کہ سبھی لوگ جا رہے ہیں کسی جانب بھی”طعام" کا ا انتظام نہیں دکھ رہا ہے۔ اخیر میں چند ہی افراد بچ گئے تبھی صادق بھائی پاس آکر بیٹھ گئے اور نکاح خوانی کے متعلق پوچھنے لگے کہ اعظم بھائ کیسی لگی آپ کو بھٹکل کی شادی۔ میں نے بھی برجستہ کہا کہ الحمداللہ بہت بہتر میں تو پہلی بار یہاں کی شادی میں شرکت کر رہاہوں اچھا لگا۔ آپ کی محبت نے آنے پر مجبور کر دیا۔ میں دل ہی دل سوچ رہا تھا کہ اب صادق بھائی مجھے کھانے کے لیے ساتھ لے کر جائیں گے۔ تبھی صادق بھائی نے کہا کہ اعظم بھائی یہ تو میرے بھتیجے کا مکان ہے جن کا نکاح ہوا میرے بھائی کی فیملی اسی میں رہتی ہے. اور میرا مکان یہاں سے تھوڑی دوری پر ہے، میں بھی اب نکلوں گا بچے لوگوں کو شامل لے کر ، آپ بھی ہوٹل میں جا کر آرام کیجیے۔ یہ سن کر میں حیران و پریشان ہو گیا۔ کیونکہ شادی کی تقریب میں شرکت کی دعوت اور بغیر کھانا کھلاۓ رخصت وہ بھی باہری مہمان کو- بہر حال میں نے بھی حامی بھر لی کہ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔ میں باہر روڈ پر نکلا ساتھ میں صادق بھائی بھی وہاں تک آۓ اور کہنے لگے کہ ولیمہ کے بعد ہی آپ کو ہوٹل سے رخصت ہو نا ہے۔ کل ظہر کے وقت تشریف لانا ہے۔ میں دل ہی دل بہت کچھ سوچنے پر مجبور تھا کہ آخر کھانا کیوں نہیں کھلایا۔ ابھی بھوکا ہوں اور کل ولیمہ کے لیے اصرار۔ نکاح میں تو بھوکا جا رہا ہوں پتہ نہیں کل ولیمہ کس انداز میں ہوگا؟ آٹو کر کے ہوٹل کے قریب پہنچا تو آس پاس کے تمام کھانے کے ہوٹل بند ہو چکے تھے۔ جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا وہاں بھی کھانے کا انتظام رہتا تھا، لیکن وہاں پر بھی پچھتاوا ہی ہاتھ آیا –
کیونکہ وہاں بھی شٹر ڈاؤن ہو چکا تھا۔ پچھتاوے کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا – بستر پر لیٹ گیا، نگاھ گھڑی کی جانب گئ تو گیارہ بجنے کو تھا۔ ایک لمبی سانس بھری اور خود سے مخاطب ہو گیا کہ اب سوجا ابھی تو پوری رات باقی ہے۔ تھکان کے باوجود نیند غائب تھی کیونکہ دو وقتوں کا بھوکا اور بھاگم بھاگ کی کیفیت اپنی جگہ – تبھی خیال آیا کہ چند بسکٹ موجود ہیں، انھی کو کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ بسکٹ کھانے کے بعد دو گلاس پانی پی لیا تھوڑی تقویت ملی. دل ہی دل سوچتا رہا کہ ہمارے وطن بہار میں تو شادی کی تقریب میں دعوت ملی ہو تو کھانا تو لازمی ہی ہے۔ مگر یہ تو یادگار دعوت رہی۔ پھر سوچتے سوچتے کب نیند آ گئ پتہ ہی نہیں چلا ۔ صبح جلدی نیند سے بیدار ہو گیا ۔ حاجت سے فراغت کے بعد فریش ہو کر بازار کی جانب نکل گیا۔ اس وقت پورے بازار میں صرف چاۓ بسکٹ ہی دستیاب تھا۔ جن ہوٹلوں میں ناشتہ دستیاب ہو سکتا تھا سبھی میں دو گھنٹے کی تاخیر کے بعد یعنی ٨ بجے آنے کو کہا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا چاۓ بسکٹ سے ہی دل کو تسلی دینی پڑی۔ آٹھ بجنے کا انتظار کرتا رہا اور وقت مقررہ پر ہوٹل پہنچ گیا۔ ناشتے میں سبھی کچھ ساؤتھ انڈیا کے حساب کا ہی موجود تھا۔ اڈلی ، ڈوسا یہ سب کھا کر توانائی کا احساس ہوا۔ اس کے بعد میں نے اپنے دکانداروں کو فون لگا کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھٹکل کی شادی تقریب میں کیا سسٹم ہے؟ تو معلوم ہوا کہ نکاح کے پہلے مہمانوں کو شربت، پن کھجور پیش کیا جاتا ہے اور بعد نکاح تمام مہمان رخصت ہو جاتے ہیں۔ اور ولیمہ میں بریانی اس کے ساتھ دال، سلاد پیش کیا جاتا ہے۔ حسب اوقات کچھ لوگ کھانے کے فوراً بعد پھل بھی پیش کرتے ہیں۔ اتنی جانکاری کے بعد مجھے اطمینان ہوا کہ یہاں کا سسٹم ہی یہی ہے ۔ اس وقت سے ظہر تک میں بالکل فری تھا اس لیے جم کر سویا اور پھر بعد نماز ظہر ولیمہ کی تقریب میں حاضر ہو گیا۔ صادق بھائی مہمانوں کو کھلانے میں مصروف تھے- کچھ ہی دیر بعد میرے پاس آگئے اور مجھے کھانے کے ٹیبل تک لے آئے. پھر میں نے اپنی جگہ لی ۔ ایک بی سی پلیٹ میں ایک ساتھ ٣ چار آدمی کے کھانے کا انتظام تھا ۔ صادق بھائی محبت کے ساتھ بریانی لگاتے رہے۔ الحمداللہ بہت ہی لذیذ کھانا تھا، کھا کر مزہ آگیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد صادق بھائی فروٹ کے ٹیبل تک لے گئے۔ وہاں بھی تین چار قسم کے پھل موجود تھے ۔ آم کا سیزن تھا میں نے دو تین پھانک آم کھایا اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد صادق بھائی سے اجازت لی اور ہوٹل پہنچ گیا۔ تھوری دیر آرام کرنے کے بعد منگلور کے لیے روانہ ہو گیا۔

قمر اعظم صدیقی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں : نظر کو روشنی دل کو اجالا کون دیتا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے