سابق امراے شریعت میں انتخابی طریقۂ کار

سابق امراے شریعت میں انتخابی طریقۂ کار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ کے سات امراے شریعت اب تک ہوئے ہیں، جن میں چار امراے شریعت مولانا سید شاہ بدر الدین قادری، مولانا سید شاہ محی الدین قادری ، مولانا عبد الرحمن اور مولانا سید نظام الدین صاحب رحمہم اللہ کا انتخاب پھلواری شریف، پٹنہ ہی میں ہوا، جب کہ مولانا سید شاہ قمر الدین ، مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی اور مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہم اللہ کا انتخاب علی الترتیب ڈھاکہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول اور دار العلوم زیرو مائل ارریہ میں ہوا، پہلے، دوسرے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں امراے شریعت کے انتخاب میں لوگوں کی نظریں انھی پر ٹکیں جو بعد میں امیر شریعت منتخب ہو گئے، البتہ تیسرے اور چوتھے امراے شریعت کے انتخاب میں ارباب حل و عقد کی جانب سے کئی نام سامنے آئے، جن میں سے ایک پر بعد میں اتفاق ہو گیا، انتخاب امیر میں جو طریقۂ کار ماضی میں اختیار کیا گیا اس کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔
۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۶؍ جون ۱۹۲۱ء کو امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا، پہلے امیر شریعت کے انتخاب کے لیے مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کی صدارت میں بعد نماز عصر دوسری مجلس علما، مشائخ اور ارباب حل وعقد کی منعقد ہوئی، یہ مجلس مغرب کی نماز کے بعد پھر سے شروع ہوئی اور نو بجے رات میں مولانا سید شاہ بدر الدین قادری ؒ کو پہلا امیر شریعت منتخب کیا گیا، اور مولانا نے حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کے اصرار پر اس ذمہ داری کو قبول کر لیا، تذکروں میں علما، مشائخ کے ساتھ جو ارباب حل وعقد کا ذکر آتا ہے، اس کی حقیقت آج کل کے ارباب حل وعقد کی طرح نہیں تھی، انتخاب کے لیے جو مجلس استقبالیہ بنتی تھی وہ بڑے علما کے مشورے سے کچھ اہم لوگوں کو مدعو کر لیا کرتی تھی، انہیں ارباب حل وعقد کا نام دے دیا جاتا تھا، یہ با ضابطہ کوئی انتخابی کمیٹی نہیں تھی، امیر شریعت اول ۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ سے ۱۶؍ صفر ١٣٤٣ھ انتقال تک اس عہدہ پر فائز رہے، حضرت کے وصال کے بعد مولانا سید شاہ محی الدین قادری (جنھوں نے امارت کے قیام کے وقت سے ہی مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کے دست و بازو بن کر کام کیا تھا، اور سفر وحضر میں ان کے ساتھ رہے تھے، امارت شرعیہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی اہمیت لوگوں تک پہنچانے کے لیے قیمتی اوقات صرف کیے تھے) کو ۹؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو صرف اٹھائیس دن بعد امیر شریعت ثانی منتخب کیا گیا، انتخاب کے لیے دعوت نامہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے جاری کیا تھا، انتخاب کی تاریخ کی تعیین کے لیے ۱۹؍ صفر ۱۳۴۳ھ کو جمعیت علماے بہار کے ارکان منتظمہ، امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے ارکان اور معزز علما کو جن کا تعلق بہار سے تھا مدعو کیا گیا اور اسی میٹنگ میں امیر شریعت ثانی کے انتخاب کے لیے ۸ ،۹؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو انتخابی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا، اجلاس کی صدارت حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کو کرنی تھی، لیکن علالت طبع کی وجہ سے وہ تشریف نہیں لا سکے، ان کا قیمتی علمی خطبہ جو حضرت کی علمی گہرائی اور گیرائی کا غماز ہے ان کے صاحب زادہ مولانا سید شاہ لطف اللہ صاحب نے پڑھ کر سنایا، اجلاس میں خطبہ استقبالیہ اور خطبہ صدارت کی پیشی کے بعد ڈیڑھ سو لوگوں کو منتخب کیا گیا جو غور و فکر کے بعد دوسرے امیر شریعت کا انتخاب کریں گے، چنانچہ یہ ایک سو پچاس لوگ اسی دن سہ پہر تین بجے خانقاہ مجیبیہ میں پہنچے اور اجلاس عام کو فیصلہ سنایا کہ مولانا سید شاہ محی الدین قادری دوسرے امیر شریعت منتخب ہوئے، اجلاس کے شرکا نے اعلان کے بعد بیعت امارت کی اور عہد کیا کہ معروف کاموں میں ہم امیر شریعت کی سمع وطاعت کریں گے، امیر شریعت ثانی کو اللہ تعالیٰ نے کام کا طویل موقع عنایت فرمایا، ۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۶ھ کو حضرت امیر شریعت ثانی کے وصال سے یہ منصب جلیلہ پھر خالی ہو گیا، المیہ یہ رہا کہ بانیٔ امارت شرعیہ کی وفات بھی ہو چکی تھی اور مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کے دست راست مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، انتخاب امیر شریعت کے لیے جگہ اور تاریخ کی تعیین ہونی تھی؛ چنانچہ مجلس عاملہ جمعیت علماے بہار، مجلس شوریٰ امارت شرعیہ اور اکابر علما کا اجلاس ۳۰؍ اپریل ۱۹۴۷ء کو امارت شرعیہ کے پہلے قاضی مولانا نور الحسن صاحب کے دولت کدہ پر منعقد ہوئی اور انتخاب امیر شریعت ثالث کے لیے ۱۳، ۱۴ ؍ رجب ۱۳۶۶ھ مطابق ۴ ،۵؍ جون ۱۹۴۷ء بروز بدھ، جمعرات متعین کیا گیا اور پہلی بار انتخاب امیر کے لیے پھلواری شریف سے باہر ڈھاکہ موجودہ ضلع مشرقی چمپارن کا فیصلہ لیا گیا؛ لیکن پورے صوبہ میں دفعہ ۱۴۴؍ لگنے کی وجہ سے یہ اجلاس ۶، ۷؍ شعبان ١٣٦٦ھ مطابق ۲۶، ۲۷؍ جون ۱۹۴۷ ء کی تاریخ کا اعلان ہوا، اجلاس میں جمعیۃ علما، مسلم تنظیموں، مسلم لیگ، جمعیۃ المؤمنین وغیرہ کے صدر اور سکریٹری صاحبان کو بھی مدعو خصوصی بنایا گیا تھا، کل چھ سو دعوت نامے علماے کرام ، اکابر و مشاہیر مشائخ کے نام بھیجے گئے تھے، انتخابی اجلاس کی صدارت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کو کرنی تھی؛ لیکن وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے نہیں تشریف لا سکے، اور انھوں نے حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کو اپنا قائم مقام نامزد کیا؛ لیکن وہ بھی موٹر کے ایک حادثہ میں بری طرح مجروح ہو گئے اور نہ آسکے، ایسے میں اس انتخابی اجلاس کی صدارت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ناظم جمعیت علماء نے فرمائی، یہ پہلا موقع تھا جب اجلاس میں منصب امارت کے لیے مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی، مولانا سید نو رالحسن قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا سید شاہ قمر الدین صاحب خانقاہ مجیبیہ، مولانا سید سلیمان ندوی کل چار اسماء گرامی پیش کیے گئے، مجلس استقبالیہ نے اپنی طرف سے حضرت مولانا ریاض احمد صاحب چمپارن اور مولانا عبد الصمد رحمانی کے نام کا اضافہ کیا، اس طرح کل چھ نام امیر شریعت کے لیے پیش ہوئے، اجلاس نے نو آدمی کی الگ سے ایک کمیٹی اس ہدایت کے ساتھ بنا دیں کہ وہ ان چھ افراد میں سے کسی کو امیر شریعت منتخب کرکے اجلاس کو بتادیں، ان حضرات نے مولانا سید شاہ قمر الدین صاحب کے نام پر اتفاق کر لیا، مولانا اجلاس میں موجود نہیں تھے، دوسرے دن رات کے اجلاس میں وہ پھلواری شریف سے تشریف لے گئے، ایک اندازہ کے مطابق پچیس ہزار کے مجمع نے حضرت امیر شریعت ثالث سے بیعت سمع وطاعت کیا، اور امارت شرعیہ کا کارواں آگے بڑھتا رہا، امیر شریعت ثالث ۳۰؍ رجب ۱۳۷۶ ھ کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، انتخابی اجلاس کی تاریخ اور جگہ کی تعیین کے لیے کارکنان امارت شرعیہ، جمعیت علماے بہار کی مجلس عاملہ حضرت مولانا محمد عثمان غنی صاحب مفتی و ناظم امارت شرعیہ کی صدارت میں ۲۶؍ رجب ۱۳۷۶ھ مطابق ۲۷؍ فروری ۱۹۵۷ء کو خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، تاریخ کی تعیین میں دشواری یہ پیش آ رہی تھی کہ بہار اسمبلی کا الیکشن ہونا تھا اور زمانہ انتخاب میں ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے کی وجہ سے اجلاس بلانا دشوار تھا، مولانا محمد عثمان صاحب شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ نے ہمت جٹائی اور مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں انتخابی اجلاس کی دعوت دی، نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانی نے اکابر کے مشورہ سے اس دعوت کو قبول کر لیا اور ۲۱؍ ۲۲؍ شعبان ۱۳۷۶ھ مطابق ۲۴، ۲۵؍ مارچ ۱۹۵۷ء کی تاریخ مقرر ہو گئی، سات سو افراد کے نام دعوت نامے جاری کیے گئے، کوئی مجلس ارباب حل وعقد تو اس وقت تھی نہیں، چنانچہ مدعوئین کے ناموں کے انتخاب کے لیے ایک بورڈ تشکیل دی گئی، جس میں نائب امیر شریعت، قاضی شریعت، ناظم امارت شرعیہ اور جمعیۃ علما کے مخصوص ارکان کو رکھا گیا، ناموں کی فراہمی اور انتخاب کے لیے مبلغین امارت شرعیہ کی خدمات لی گئیں، کیونکہ زمینی سطح پر سب سے مضبوط رابطہ علاقہ میں ان کا ہی رہتا ہے۔ ۲۴؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو انتخابی اجلاس کی صدارت مولانا ریاض احمد صاحب چمپارن نے فرمائی اور نائب امیر شریعت نے اعلان کیا کہ ’’آپ حضرات آزادی کے ساتھ امیر شریعت جیسے اہم منصب کے لیے ایسے بزرگوں کا نام پیش کریں جو اس ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی سنبھال سکیں، چنانچہ اجلاس کے شرکا نے چار نام پیش کیے، مولانا سید شاہ امان اللہ صاحب، سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ، مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر، مولانا سید شاہ نظام الدین خانقاہ مجیبیہ اور مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت، حضرت نائب امیر شریعت نے اپنا نام واپس لے لیا اور فرمایا کہ سب نام ایسے ہیں جن کا احترام بہار کے لوگوں کے دلوں میں ہے، اس لیے مجلس میں ناموں کی وجہ سے ترجیح پر بحث نہ ہو، ایک سب کمیٹی بنا دی جائے جو ان ناموں میں سے کسی کے نام پر اتفاق کرکے بتادے، اجلاس کو اس کمیٹی کا فیصلہ منظور ہوگا، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جو دہلی سے مشاہد کی حیثیت سے تشریف لائے تھے فرمایا کہ وجہ ترجیح پر بحث نہ ہو، مگر محرک یا مؤید صاحب ایساکر سکتے ہیں کہ اپنے پیش کردہ ناموں کے متعلق بغیر تقابل کے ان کے اوصاف حمیدہ اور اہمیت پر روشنی ڈال سکتے ہیں، اس تجویز کی روشنی میں مولانا مقبول احمد صدیقی اور مولانا عبد الرحمن ہر سنگھ پوری صاحب نے اپنے ذریعہ پیش کردہ ناموں کے سلسلے میں وضاحت فرمائی کہ وہ کیوں اس منصب کے اہل ہیں اور ان کے انتخاب سے کیا فائدہ ہوگا۔
نو ارکان پر سب کمیٹی بنائی گئی، جس نے بحث و تمحیص کے بعد مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کے نام پر اتفاق کر لیا، بعد نماز مغرب اجلاس عام میں مولانا سید شاہ عون احمد قادری ؒ نے کمیٹی کی تجویز پڑھ کر سنائی، اجلاس نے منظوری دی، منتخب امیر شریعت اعلان کے بعد تشریف لائے، انھیں اس کی اطلاع دی گئی، حضرت امیر شریعت رابعؒ نے اجلاس میں امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے لیے ارکان کے نام پیش کرنے کو کہا، کل اٹھائیس نام آئے، حذف واضافہ کے بعد حضرت نے بتیس ناموں کا اعلان کیا، اجلاس نے بیعت سمع و طاعت بھی کی، حضرت امیر شریعت نے طویل عرصہ تک امیر کی حیثیت سے کام کیا، خوش قسمتی سے ان کو دو عظیم انسان نظامت اور قضا کے لیے مل گئے، مولاناسید نظام الدین اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، پورے دور امارت میں ان کے اس طرح معاون و مددگار بنے رہے کہ یہ دور امارت شرعیہ کا کام کے پھیلاؤ اور وسعت کی وجہ سے زریں دور کہا جاتا ہے ۔
۶؍ رمضان ۱۴۱۱ھ مطابق ۱۹؍ مارچ ۱۹۹۱ء کو آپ بھی بار گاہ ایزدی میں حاضر ہو گئے، اس دوران مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نائب امیر شریعت کا بھی ۴؍ مئی ۱۹۷۳ء کو انتقال ہو گیا تھا، حضرت مولانا عبد الرحمنؒ ان کے انتقال کے بعد ۱۶؍ جون ۱۹۷۳ء سے نائب امیر شریعت نامزد ہو چکے تھے، امارت شرعیہ کے چاروں امیر شریعت کا دور انھوں نے پایا تھا، اس لیے امیر شریعت خامس کے لیے اکابر علما کی توجہ ان کی طرف گئی، چنانچہ ۱۴؍ رمضان المبارک ۱۴۱۱ھ مطابق ۳۱؍ مارچ ۱۹۹۱ء کو صرف بارہ روز کے وقفے سے مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ان کو بہ اتفاق امیر شریعت منتخب کر لیا گیا، حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ نے ان کا نام پیش کیا اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے ان کی تائید کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کیا، بعد میں شرکاے اجلاس نے بھی بیعت کی۔ اب تک امراے شریعت کے انتخاب کے لیے کوئی باضابطہ مجلس نہیں تھی، مدعو کرنے کے لیے کوئی اصول بھی نہیں تھا، بڑی حد تک یہ ذمہ داروں کی صواب دید پر تھا کہ کس کو بلایا جائے یا کس کو نہ بلایا جائے، امیر شریعت خامس کے دور میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے امیر شریعت کے سامنے یہ تجویز رکھی؛ چنانچہ باضابطہ مجلس ارباب حل وعقد کی تشکیل عمل میں آئی، اس کو دستور کا حصہ بنایا گیا اور اس کی ذمہ داریاں طے کی گئیں، جن میں ایک اہم کام امیر شریعت کے عہدہ کے خالی ہونے کے بعد نئے امیر شریعت کا انتخاب ہے۔ پہلی بار باضابطہ مجلس ارباب حل وعقد کے ارکان نے چھٹے امیر شریعت کے انتخاب میں حصہ لیا اور یکم نومبر ۱۹۹۸ء کو مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کو امیر شریعت منتخب کیا، اس موقع سے بھی مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ نے مولانا سید نظام الدین صاحب کا نام پیش کیا، مولانا محمد قاسم مظفر پوریؒ نے مجمع عام میں تائید کی اور بیعت امارت کیا، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اپنی علالت طبع کی وجہ سے دہلی میں تھے، یہ انتخاب بھی الحمد للہ متفقہ ہوا، جس کے بڑے مثبت اور مفید اثرات مرتب ہوئے، ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں حضرت بھی راہی آخرت ہوئے، چنانچہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو دار العلوم زیرو مائل ارریہ میں ساتویں امیر شریعت کا انتخاب بالاتفاق مجلس ارباب حل وعقد نے کیا، انتخابی اجلاس کے لیے جو مجلس استقبالیہ تھی اس کے صدر مولانا عبد المتین نعمانی تھے، انھوں نے تلاوت کلام پاک، نعت پاک کی پیشی اور تجویز تعزیت کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی ؒکا نام پیش کیا او رسارے مجمع نے ہاتھ اٹھا کر تائید کی۔
۳؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو حضرت کے وصال کے بعد یہ منصب جلیل گذشتہ پانچ ماہ سے خالی ہے، کورونا کی وجہ سے بھی رکاوٹ رہی، اب حالات نارمل ہوچکے ہیں اور مجلس شوریٰ کے نصف سے زیادہ ممبران نے دستور میں دیے حق کے مطابق دس اکتوبر ۲۰۲۱ء کو المعہد العالی کیمپس امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں اجلاس ارباب حل و عقد طلب کر لیا ہے۔ حضرت نائب امیر شریعت نے بھی اس کی تائید و توثیق کر دی ہے۔ اس فیصلہ سے امارت شرعیہ کے تمام محبین و مخلصین میں خوشی کی لہر ہے اور سبھی لوگ اس فیصلہ کو خوش آیند قرار دے رہے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انتخابی اجلاس کو ادارہ اور پوری ملت کے لیے خیر کثیر کا باعث بنائے۔ یہ مضمون انشاء اللہ انتخابی طریقۂ کار کی طرف بھی رہنمائی کرے گا اور امارت کے وقار پر ان شاء اللہ آنچ نہیں آئے گی۔
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:امیر شریعت کا دائرۂ کار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے