امیر شریعت کا دائرۂ کار

امیر شریعت کا دائرۂ کار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ میں امیر شریعت کی حیثیت کلیدی اور نظام امارت میں نقطۂ مرکزی کی ہے، وہ ایک ایسا محور ہے جس کے گرد امارت کے سارے کام گردش کرتے ہیں، اس کی حیثیت تمام مسائل و معاملات میں فیصل اور پالیسی ساز کی ہے، اس کے با وجود اسے امیر شریعت بن کر رہنا ہے، آمر(ڈکٹیٹر) بننے کی گنجائش نہیں ہے، وہ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جو شرعی تقاضوں کے خلاف ہو، مثلا وہ کسی کو وعدہ خلافی پر آمادہ نہیں کر سکتا، خواہ وہ امارت شرعیہ کا ملازم اور کارکن ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ امیر شریعت سے کارکنوں کا رشتہ آقا اور غلام والا نہیں ہے، ہر مامور آزاد ہے اور وہ اپنی مرضی سے کسی سے بھی کوئی وعدہ اور معاہدہ کر سکتا ہے، بشرطے کہ اس کا تعلق امارت سے نہ ہو، اور مفاد امارت کے خلاف نہ ہو، اگر امیر شریعت کوئی ایسا حکم دیں گے تو اس میں سمع وطاعت ضروری نہیں ہوگا کیوں کہ خالق کی معصیت کے ساتھ مخلوق کی اطاعت کے کوئی معنی نہیں، اسی کو لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ امیر شریعت کی بیعت یہاں اطاعت فی المعروف میں کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امیر شریعت کے اختیارات غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ جس طرح چاہے مامور کے ساتھ معاملہ کرے، بلکہ اس کے اختیارات محدود ہیں، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے قیام امارت کے وقت ہی امیر کے اختیارات اور دائرہ کار پر سہ نکاتی فارمولہ طے کیا تھا، جسے اس وقت کے اکابرین کی تائید حاصل تھی، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے لکھا تھا:
’’۱۔ امیر کے اختیارات محدود ہوں گے وہ ایسے مسائل کو نافذ کرے گا جس سے بلا فرق و امتیاز پوری امت مسلمہ کی فلاح وبہبود متصور ہو۔ ۲۔ امیر شریعت کو ایسے فروعی مختلف فیہ مسائل کے اجرا و تنفیذ سے کوئی تعلق نہ ہوگا جو اجتماعی زندگی کے لیے ضروری نہیں ہیں، وہ مسائل مختلف فیہ میں بحث و مذاکرہ کو نہیں روکے گا، لیکن جنگ و جدال اور شر و فساد کو روکنے اور دفع کرنے کے لیے کوشاں رہے گا۔ ۳۔ امیر شریعت کا ہر عمل و خیال تمام فرقۂ اسلامیہ کے لیے واجب الاتباع نہیں ہوگا، اگر کسی ذی علم کی تحقیق امیر شریعت کی تحقیق کے خلاف ہو اور اس بنا پر وہ مسئلہ خاص میں امیر کی اتباع نہ کرے تو کوئی حرج نہیں اور نہ اس بنیاد پر بیعت اتباع ختم ہوگی۔‘‘ (امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب)
ان تمام امور پر میں فرق وامتیاز وہ شخص نہیں کر سکتا جس کی نظر نصوص شرعیہ قرآن و احادیث پر نہ ہو، فقہ واصول فقہ کی جزئیات وکنہیات سے نا واقف ہو، اسی لیے بانی امارت شرعیہ نے امیر کے جو اوصاف بیان کیے اس میں امیر شریعت کا عالم باعمل ہونا، متقی اور پر ہیز گاری کے ساتھ طبقہ علما میں علمی حیثیت سے ایک حد تک با وقار ہونے کو لازم قرار دیا، یہ بھی لکھا کہ مشائخ طریقت میں صاحب بصیرت، حق گو، حق بیں اور بے باک ہو، مادی طاقت سے وہ مرعوب نہ ہو، انھوں نے لکھا کہ مسائل حاضرہ میں بھی ایک حد تک بصیرت کے ساتھ رائے دے سکتا ہو، لا پروائی اور خود رائی کے مرض سے پاک ہو۔
ابو المحاسن مولانا محمد سجاد صاحب ؒ نے جو اوصاف امیر بیان کیے ہیں، اس کی روشنی میں دستور امارت شرعیہ میں لکھا ہے کہ: ’’(۱)عالم با عمل ہو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی اور حقائق کا معتد بہ علم رکھتا ہو اور اعتراض و مصالح شریعت اسلامیہ و فقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شریعت پر عمل پیرا ہو۔(۲) سیاسیات ہند وسیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہو چکا ہو۔ (۳)ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام وخواص کے ایک اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔ (۴) حق گو، حق شنو، جری اور صاحب عزیمت ہو۔ (۵) فقہی تعبیر میں اس کی ذات کو مایزول بہ مقصود الامارۃ سے تعلق نہ ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امیر شریعت اغراض و مصالح شریعت کے خلاف عوام و خواص کو کوئی حکم نہیں دے سکتا ہے، کیوں کہ وہ امیر شریعت تنفیذ شریعت کے لیے بنا ہے نہ کہ احکام شریعت کی ان دیکھی کے لیے، اگر ایسی نوبت آگئی کہ امیر بننے کے بعد بھی اس کے لیے مصالح المسلمین سے متعلق احکام کا صدور اور اس کی تنفیذ دشوار ہو تو اسے اس عہدہ سے الگ ہوجانا چاہیے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مقاصد امارت فوت ہوتا ہے، تمام امراے شریعت نے ہر دور میں اصول اور دستور کی پاس داری کی. چنانچہ مولانا سید شاہ بدر الدین قادری ؒ نے اسی دائرہ کار کو سامنے رکھ کر اپنے گشتی مراسلہ میں لکھا کہ ’’ تمام مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ امارت کا مقصد کیا ہے، خدمت و حفاظت اسلام، بقائے عزت وناموس دین، اجراء احکام شرعیہ جو بجز اجتماعی قوت کے ممکن نہیں ہے، ان مقاصد و مصالح شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر میں اسی نوع کے احکام جاری کروں گا، جس سے حیات اجتماعی کو تعلق ہو اور وہ ایسے احکام ہوں گے جو مسلمانوں کی کسی جماعت کے خلاف نہ ہوں—- ہمارا فرض ہوگا کہ کسی مسلمان کوکسی قسم کی تکلیف نہ پہونچے۔‘‘ (امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب)
بانی امارت شرعیہ کو اس بات کا احساس تھا کہ امارت شرعیہ کی تحریک کو اختلاف مسلک کے نام پر بھی سبوتاز کرنے کی کوشش کی جائے گی اس لیے انھوں نے امیر شریعت کے دائرہ کار کی تعیین کے ساتھ اختلاف مسلک پر بہار کے بیالیس ممتاز علماے کرام کے دستخط سے ایک رسالہ ’’اختلاف مسلک اور امارت شرعیہ‘‘ کے نام سے شائع کرایا جسے امارت شرعیہ کی پالیسی کا اعلان سمجھنا چاہیے۔ اس رسالہ میں مولانا نے لکھا کہ :
’’مختلف مسائل میں جن کی ضرورت اجتماعی زندگی اور اسلامی تمدن میں نہیں، امیر شریعت بحیثیت امیر شریعت نفیاً یا اثباتا کوئی حکم جاری نہیں فرمائیں گے، ان مختلف فیہ مسائل میں ہر مسلمان آزاد ہے، اپنی تحقیق یا اپنے اساتذہ و شیوخ کی تحقیق کی بنا پر جس مسلک کو چاہے اختیار کرے اس قسم کی آزادی جس طرح مامورین اور تمام مسلمانان بہار کے لیے ہے اسی طرح خود امیر شریعت اور کارکنان امارت کے لیے بھی ہے۔ (اختلاف مسلک اور امارت شرعیہ)
اکابر امارت شرعیہ اور امراے شریعت کا ہر دور میں یہی طریقہ کار رہا ہے، چنانچہ امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے سامنے ان کے امیر بننے کے بعد کتاب الاحکام امیر شریعت پیش کیا گیا تو آپ نے لکھا :
’’کارکنان امارت کا فرض ہے کہ وسعت نظر اور فراخ دلی سے کام لیں، پوری یک جہتی کے ساتھ مقصد عظیم پر نظر جماتے ہوئے فروعی اور جزوی اختلاف سے دامن بچاتے ہوئے آگے بڑھیں اور جب تک کسی مسلک وخیال سے کفر و اسلام کا اختلاف نہ ہو رواداری ترک نہ کریں۔‘‘
دستور امارت شرعیہ میں دفعہ ٧؍ اور ۸؍ میں لکھا ہے کہ ’’امیر کے تمام احکام جو شریعت کے مطابق ہوں گے، مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت ہوں گے۔ جو شخص علماء کرام اور اعیان ملت کے اتفاق رائے یا کثرت آرا سے امیر شریعت منتخب ہوجائے اس کی معروف شرعی میں اطاعت کرنی اور یہ اطاعت نصب امیر کے بعد مسلمانوں پر لازم وواجب ہوگی۔ (دستور امارت صفحہ ۹)
دستور میں یہ بھی صراحت ہے کہ اگر امیر شریعت سے کھلے کفریہ اعمال کا صدور ہو یا اعمال میں اس قدر بے راہ روی آگئی ہو کہ ’’محارم متفق علیہا‘‘ کا ارتکاب کرنے لگے اور تنبیہ کے بعد بھی باز نہ آئے تو وہ مستحق عزل ہوگا۔‘‘
امیر شریعت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کو ان کے مسلک میں آزاد رکھتے ہوئے باہم متحد رکھنے کی کوشش کرنا‘‘
مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کی تحریروں اور دستور کے دفعات جو اوپر نقل کیے گیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دائرہ کار محدود ہے اور وہ کسی بھی ایسے حکم کے اجرا سے پر ہیز کرے گا جس سے مسلمانوں میں انتشار اور خلفشار کا اندیشہ ہو، اس کی اطاعت معروف میں کی جائے گی اور اگر وہ شرعی تقاضوں کے خلاف حکم دے گا تو اس میں سمع و طاعت ضروری نہیں ہوگی، امیر شریعت کا عالم با عمل اور نصوص شرعیہ سے واقف ہونا ضروری ہوگا۔ تاکہ حکم دیتے وقت، معروف اور منکر میں بغیر کسی تاویل کے تمیز کر سکے۔
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی پڑھیں:کتاب: درس علم النحو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے