اردو کے فروغ میں مدارس کا کردار

اردو کے فروغ میں مدارس کا کردار

ڈاکٹر ابرار احمد
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
پونا کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس، پونے

ہندستان کے طول و عرض میں پھیلے مکاتب و مدارس نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں جو اہم کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اردو کی ابتدا سے لے کر آج تک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اردو زبان و ادب کی کوئی ایسی صنف اور کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں مدارس کے علما اور فضلا پیش پیش نظر نہ آرہے ہوں۔ ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، داغ دہلوی، میر تقی میر، مرزاغالب، خواجہ میر درد، حکیم مومن خاں مومن، مولوی نذیر احمد، علامہ راشدالخیری، مولاناالطاف حسین حالی، مولاناشبلی، مولانامحمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، مولاناابوالکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی، ابوالحسن علی میاں ندوی، وحیدالدین سلیم یہ سبھی اردو زبان وادب کے ادیب، شاعر و نقاد مدارس کے ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے بیش تر اردو کی کئی صنفوں میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔
مدارس آج بھی اردو زبان و ادب کو کئی لحاظ سے فروغ دے رہے ہیں۔ اردو رسم الخط کی حفاظت، اردو زبان کی تعلیم، اردو کو نئی نسلوں تک پہنچانا، اردو کو بین الاقوامی زبان بنانا، اردو کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کرنا، دیگر علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرنا، اردو رسائل و مجلات کو شائع کرنا، غرض یہ کہ مدارس ہر سطح پر اردو کوفروغ دینے میں مشغول ہیں۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں دیگر زبانوں کو تیزی سے اپنے اندر ضم کرتی جارہی ہیں۔ ایسے میں زبانوں کا وجود باقی رکھنا بہت ہی جاں فشانی کا کام ہے۔ آج اردو زبان جن مسائل سے دوچار ہے ان سے ایک اہم مسئلہ اس کے اپنے وجود اور رسم الخط کا ہے۔ یہ مسئلہ اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن آج بھی ہمارے یہاں بڑی خاموشی اور چالاکی سے اردو کو رومن اور دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اشتہارات میں یہی کام کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے اردو صرف سمعی یا بول چال کی زبان بنتی جارہی ہے۔ یہ ایک ایساعمل ہے جس سے اردو کی شناخت اور اس کی انفرادیت ختم ہوسکتی ہے۔ کسی بھی زبان کا رسم الخط اس زبان کی پہچان یا اس کے جسم پر جلد کے مانند ہوتا ہے جس کے تبدیل کرنے سے جسم کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے بالکل اسی طرح زبان کے رسم الخط کو بدلنے سے زبان کا وجود بھی خطرے میں پڑجاتاہے۔ اس تناظر میں جب ہم اردو کے مختلف اداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اردو رسم الخط کے تحفظ میں مکاتب اور مدارس نے جو عملی کام کیا ہے وہ اردو کے کسی ادارے نے نہیں کیا ہے۔اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آج اردو زبان کو پوری معنویت اور اس کی اصل شناخت کے ساتھ اگر کسی ادارے نے زندہ رکھا ہے تو وہ مدارس و مکاتب ہیں۔ مدارس کی ان خدمات کا اعتراف اردو داں طبقہ بھی کرتا ہے اس سلسلے میں مظفر حنفی لکھتے ہیں۔
”اردو کی جسے ہم جنم بھومی یا اردو کا خاص علاقہ کہتے ہیں۔ میری مراد اترپردیش ہے، غالباً ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ خراب صورت ِحال اسی کی ہے۔ہوسکتا ہے میری اس بات سے بہت سے عمائدین ادب خفا ہوں لیکن یقین جانئے مجھے صد فیصد اس بات کا احساس ہے کہ اگر مدارس نے اترپردیش میں اردو کو سہارا نہ دیا ہوتا تو غالباً وہاں سے بالکل ہی اردو کاجنازہ اٹھ گیا ہوتا، اب بھی سسکتی ہوئی صورتِ حال ہے لیکن بہر حال جوکچھ بھی اردو باقی رہ گئی ہے بالخصوص اترپردیش میں وہ مدارس کی وجہ سے ہے۔“ (ماہنامہ جام نور دہلی، مارچ  ٢٠٠٤ء،ص: ٢٧)
تعلیمی و تدریسی عمل میں زبان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی و تدریسی عمل کی کامیابی و ناکامی کا سارا دار و مدار طلبا اور اساتذہ کے درمیان مؤثر ابلاغ پر منحصر ہوتا ہے اور مؤثر ابلاغ اسی وقت ممکن ہے جب کہ موزوں و مناسب زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی زبان ہے جو بچوں کی ذہنی و علمی آموزش کے لیے سب سے زیادہ مفید و کار آمد ثابت ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی دل چسپی کو جماعت کی سرگرمیوں میں برقرار رکھ سکتی ہے۔
بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکیں۔ اس بات پر تمام ماہرین ِتعلیم متفق ہیں کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں ہی تعلیم دینی چاہیے۔ مادری زبان میں تعلیم دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچے آزادانہ طورپر اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں. ان کے اظہار میں برجستگی اور بے تکلفی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو جس خوش اسلوبی اور روانی سے اپنی مادری زبان میں ادا کرسکتے ہیں اور دوسرے علوم و فنون کو جتنی آسانی سے مادری زبان میں سمجھ سکتے ہیں کسی دوسری زبان میں جسے کہ وہ خود نہ بولتے ہوں اور نہ سمجھتے ہوں ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم دینے کا ایک فائدہ یہ ہوتاہے کہ استاد کو فوراً فیڈبیک مل جاتا ہے کہ بچوں نے مضمون کو کتنا سمجھا کتنا نہیں سمجھا. پھر وہ اس کی بنیاد پر مناسب تدابیر اختیار کرتا ہے جس سے کہ آموزش بہتر ہو۔ مزید یہ کہ اس سے بچے میں تخلیقی و اختراعی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم دینے سے بچوں کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی پوری طرح ابھرنے کا موقع ملتا ہے. 
اہل مدارس نے انھیی تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ابتدائی درجات سے لے کر آخری درجات تک کے تمام مضامین کی افہام و تفہیم کے لیے اردو کو ہی ذریعۂ تعلیم کے طور پر اختیار کیا تاکہ بچوں کی ذہنی نشوونما فطری ماحول میں ہوسکے۔ یہ مکاتب و مدارس کے نظام تعلیم کا ہی طرۂ امتیاز ہے کہ یہاں کے طلبا صد فی صد اردو خواں ہوتے ہیں۔ جہاں تک اردو میڈیم اسکولوں کا معاملہ ہے تو ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ نہ صحیح طریقے سے اردو لکھ پاتے ہیں اور نہ ہی صحیح تلفظ کے ساتھ اردو بول پاتے ہیں۔ اسی لیے مسلمان ان اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواتے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نئی نسلیں اردو سے ناواقف ہوگئیں اور اردو صرف ادب کی زبان بن کر رہ گئی۔ ایسے میں مدارس ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں عملی طورپر اردو زبان کے فروغ کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
مدارس میں اردو محض ذریعۂ تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے پورے نظام تعلیم میں اسے ایسی مرکزیت حاصل ہوتی ہے کہ طلبا کو زبان و بیان پر اچھی خاصی گرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ مدارس میں زبان کی تعلیم اس کے لسانیاتی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر دی جاتی ہے جس سے قواعد اور گرامر کی سطح پر طالب علم کی لسانی بنیادیں مستحکم ہوجاتی ہیں، جس کے نتیجے میں عربی و فارسی الفاظ کے مصادر و مشتقات کا بڑی حد تک اصولی علم بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اور یہی علم آگے چل کر طلبا کی لسانی و ادبی استعداد میں مددگار ثابت ہوتا ہے. جب کہ اس کے بالکل برعکس اسکولوں و کالجوں میں اردو زبان کی تعلیم کی حالت اتنی دگر گوں ہے کہ یہاں کے طلبا پر زبان کی کئی خصوصیات معمہ بنی رہتی ہیں اور زبان کے کئی گوشے تاریکی میں رہتے ہیں. اس قسم کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نہ صحیح تلفظ کے ساتھ بات کر پاتے ہیں اور نہ ہی کسی مفید علمی اضافے کا ذریعہ بن پاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو وہ اتنی فاش غلطی کر جاتے ہیں جس کی توقع مدارس کے ابتدائی درجات کے طالب علم سے بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔ مدارس میں زبان کی تعلیم اور اس کے لسانی استحکام کے تعلق سے پرفیسر ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں۔
”مدارس میں یوں تو براہ راست اردو زبان یا ادب کی تدریس نہیں ہوتی مگر قواعد اور گرامر کی سطح پر طالب علم کی لسانی بنیادیں جس قدر مستحکم ہوجاتی ہیں، اسی صلاحیت کے باعث اردو کے لسانی پس منظر کے طور عربی اور فارسی الفاظ سے مصادر اور مشتقات کا اصولی علم بھی حاصل ہو جاتا ہے۔صفت، موصوف، مضاف، مضاف الیہ، اسم، ضمیر، فاعل، مفعول، امر اور نہی، اس طرح کے سبھی قواعدی اصطلاحات دراصل طالب علم کو صرف و نحو سے پوری طرح باخبر کردیتی ہیں۔ یہی باخبری اس کی اردو کی لسانی اور ادبی استعداد میں ہمیشہ معاون ثابت ہوتی ہے۔“ (ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی،شمارہ ۵، مئی ٢٠١٣ء،ص: ٢٠)
اردو میں زبان و بیان، اسلوب اور تکنیک کی سطح پر جو تنوع اور رنگارنگی نظرآتی ہے وہ مدارس ہی کی مرہون منت ہے۔ مدارس سے تعلیم یافتہ علما و فضلا کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے اردو کو نئے اسالیب دیے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد، سر سید احمد خاں، مولوی نذیر احمد، مولانا ابوالکلام آزاد، سید سلیمان ندوی اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ جنھوں نے لطافتِ بیان اور سلاستِ زبان سے اپنی تحریروں کا رشتہ عوام و خواص کے دل و دماغ سے براہ راست جوڑ دیا ہے۔ مدارس نے اردو نثر میں نئے نئے تجربات کرکے اردو کے اسالیب میں توسیع اور تنوع پیدا کیاہے۔
تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی اہل مدارس کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، امتیاز علی خاں عرشی، قاضی عبدالودود، پروفیسر مختارالدین آرزو، نیاز فتح پوری، رشید حسن خاں، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر عبدالکلام قاسمی یہ وہ نام ہیں جو تحقیق و تنقید کی دنیامیں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اردو کی نئی لفظیات، تراکیب، تشبیہات، استعارات، تلمیحات، مترادفات، مصطلحات مدارس کے فیض یافتگان کی ہی دین ہیں اورصرف یہی نہیں کہ انھوں نے اردو کی لفظیات اور تراکیب میں اضافہ کیا بلکہ اردو زبان کو دیگر علوم و فنون و موضوعات سے آشنا بھی کیا ہے جو یقیناً اردو کی فکری، لسانی اور معنوی ثروت میں گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس سے اردو زبان کو فکری تحرک اور توانائی حاصل ہوتی ہے۔
اردو کی ترویج و اشاعت میں مدارس کارول اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے کہ ان کے ذریعے اردو ہندستان کی ان ریاستوں میں فروغ پارہی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ یہ مدارس کا ہی فیض ہے کہ دیگر لسانی معاشروں (کنڑ، تمل، تلگو، اڑیہ، بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، پنجابی) سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی اردو لکھنے پڑھنے پر اس طرح قادر ہوتے ہیں کہ گمان ہوتاہے کہ ان کی مادری زبان اردو ہے۔ اس طرح سے مدرسوں کے توسط سے اردو ایسے ایسے دور دراز علاقوں میں پھل پھول رہی ہے جہا ں دوسرے ذرائع سے اردو کو پہنچانا مشکل تھا۔
اردو زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے اور بیرون ممالک میں اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا میں جو کردار مدارس نے ادا کیا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔مدارس کا یہ فیض صرف ایشیائی ممالک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ یورپی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔بیرون ممالک میں اردو کی ترویج و اشاعت کا کام مدارس دو سطحوں پر انجام دے رہے ہیں۔ پہلی سطح یہ ہے کہ ہندستانی مدارس میں دوسرے ملکوں کے طلبا تعلیم کی تحصیل کے لیے آتے ہیں. وہ دینی تعلیم کے ساتھ اردو میں اتنی استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ اپنے ملکوں میں اردو کے ترجمان اور اردو کتابوں کو اپنی قومی زبان میں منتقل کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنے اپنے ملکوں میں اردو زبان کے خاموش ترجمان بن جاتے ہیں۔ دوسری سطح یہ ہے کہ مدارس سے فارغ علما و فضلا کی ایک بڑی تعداد جو غیر ممالک میں مقیم ہے انھوں نے دیار غیر میں جو مدارس، اسلامک سنٹر اور مساجد قائم کیے اس میں دیگر زبانوں کے ساتھ اردو زبان کی تعلیم کا بھی انتظام کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو دیار غیرمیں بھی مذہبی، سماجی اور ثقافتی شناخت کا ذریعہ بن گئی۔ جنوبی افریقہ اس کی زندہ جاوید مثال ہے، جہاں اردو کو Riligious Lingua Franca کی حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر حبیب الحق ندوی اپنے مضمون ”افریقہ میں اردو“ میں یوں رقم طراز ہیں:
”ڈربن میں پانچ عظیم مراکز ہیں جہاں اردو ذریعۂ تعلیم ہے۔ درجنوں مدارس ہیں جن کے اساتذہ زیادہ تر ہندوستانی مدارس، مثلاً دیوبند، راندھیر، ڈابھیل کے فارغین ہیں۔“
افریقی ممالک کے متعدد شہروں خاص طور پر جوہانس برگ میں اردو بو لنے اور سمجھنے والے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس میں جہاں ہندستانی تاجروں کا رول ہے وہیں مدارس کا بھی ہے۔ مدارس کے فارغین نے جوہانس برگ میں کئی بڑے مدرسے قائم کئے ہیں۔ ان میں دارالعلوم زکریا جوہانس برگ، جامعہ اسلامیہ آزادول جو ہانس برگ، دارالعلوم مسیح الامت روشنی جوہانس برگ، دارالعلوم نیوکاسل وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ افریقی ممالک کے علاوہ برطانیہ، امریکہ، سری لنکا، ترکی، ایران، افغانستان، نیپال، یمن، لبنان، انڈونیشیا، ملیشیا، تھائی لینڈ، برما اور بنگلہ دیش میں ایک قابل لحاظ تعداد مدارس سے فارغ ایسے علما و فضلا کی ہے جو نہ صرف اردو بولتی سمجھتی ہے بلکہ اردو کی اشاعت کی پوری کوشش بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے جو بھی ادارے قائم کیے اس میں اردو کی تعلیم کو لازمی رکھا۔ اس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیرون ممالک میں اردو کو فروغ دینے اور اردو کو عالمی زبان بنانے میں مدارس اور اس کے فضلا کابہت اہم رول رہا ہے۔ اگر مدارس نہ ہوتے تو اردو زبان کادائرہ بہت ہی محدود اور سمٹا ہوتا۔
اردو صحافت کو نیا معیار، مزاج اور نئے نقش عطا کرنے میں اربابِ مدارس نے اہم کردار نبھایا ہے۔ مدارس سے شائع ہونے والے رسائل و مجلات اس کا بین ثبوت ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر مظفر حنفی کے ایک انٹرویو کا اقتباس نقل کرتاہوں جس سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مدارس نے اردو صحافت کو مضبوط و توانا بنانے میں کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔
”اردو کی اشاعت اور اس کے فروغ میں مذہبی صحافت و ادب کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ آپ کے علم میں شاید ہے یا نہیں، میں آپ کو بتاؤں کہ ہندوستان میں ہر سال جتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں، نیشنل کونسل برائے فروغ اردو زبان کے لیے میں 1976سے ان کا تعارف نامہ تیار کرتا ہوں، جس کی ایک جلد (Volume) چار پانچ سو صفحات پر مشتمل ہوتی ہے، اس طرح 22جلدیں میں نے تیار کی ہیں۔ کم وبیش ہندوستان میں چھپنے والی تمام کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں مجھے واجبی واجبی معلومات ہے۔ اس کتابیات کو تیار کرتے ہوئے مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ عام طور پر اردو کے حوالے سے ہم لوگ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ اردو کتابوں کا ایڈیشن بہت مختصر ہوتاہے، اس کی اشاعت بہت محدود ہوتی ہے اور وہ بکتی نہیں ہے۔ اس میں استثنائی صورت یہ ہے کہ مذہبی کتابیں اردو میں سب زیادہ بکتی ہیں اور تقریباً ایک ایک کتاب کے پانچ پانچ چھ چھ ایڈیشن سال میں نکلتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی ادب نے بہر حال اردو زبان کو مضبوطی اور توانائی بخشنے میں بنیادی رول اداکیا ہے۔“ (ماہنامہ جام نور دہلی، شمارہ دسمبر ٢٠٠٣ء، ص: ٣٠)
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کی ہمہ جہت ترویج و اشاعت میں جو کردار مدارس نے ادا کیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ مدارس کے علاوہ جتنے بھی اردو کے ادارے ہیں ان سب نے اردو زبان کے مقابلے اردو ادب کوفروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان سے نئی نسلوں کا رشتہ منقطع ہوگیا اور اردو ادب کی زبان بن کر مخصوص حلقوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اہل اردو پر یہ مدارس کا کرم ہے کہ اس نے اردو کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کر کے اردو زبان کو نئی نسلوں تک پہنچایا۔ محبان اردو کو مدارس کی ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اتنی گراں قدر امانت کو آنے والی نسلوں میں بہ حسن و خوبی منتقل کیا۔ اگر مدارس نے اردو کے فروغ کے لیے یہ عملی اقدامات نہ اٹھائے ہو تے تو اردو محض ادب کی زبان اور سمعی زبان بن کر رہ جاتی۔
***
ڈاکٹرابراراحمد کی یہ نگارش بھی پڑھیں : شفق سوپوری کی ناول نگاری (نیلیما کے خصوصی حوالے سے)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے