کتاب: درس علم النحو

کتاب: درس علم النحو

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ

نحومیر ہمارے مدارس میں عربی اول میں عموماً پڑھائی جاتی ہے، کتاب کی زبان فارسی ہے اور فارسی ہندستان میں عموماً متروک ہوچکی ہے، اس لیے فارسی میں لکھی ان کتابوں کی تدریس کے لیے مدارس میں اعدادیہ یا فارسی کے درجات الگ سے رکھے جاتے ہیں؛ تاکہ فارسی میں لکھی گئی کتابوں کے ذریعہ نحو و صرف کے قواعد، اصول اور مبادیات کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبا کے لیے آسان ہوجائے۔
بعد کے دنوں میں درس و تدریس سے وابستہ اساتذہ کرام میں اس خیال نے زور پکڑا کہ کیوں نہ ان کتابوں کو اردو میں منتقل کیا جائے؛ تاکہ مادری زبان میں افہام و تفہیم کا کام کیاجائے؛ چنانچہ کتاب الصرف، کتاب النحو، تمرین الصرف، تمرین النحو، آسان صرف، آسان نحو وغیرہ کتابیں وجود میں آئیں، اور درس و تدریس کا سلسلہ ان کتابوں کے ذریعہ جاری ہوگیا، اسی ذیل میں فارسی کتابوں کو اردو کا لباس پہنانے کا کام بھی شروع ہوا اور نحومیر، علم الصیغہ، میزان، منشعب، فصول اکبری وغیرہ حذف و اضافہ، ترمیم و تنقیح، مشق و تمرین اور تسہیل کے ساتھ ہمارے سامنے آئیں۔ ان کتابوں میں عموماً تعریفات اور امثلہ اصل اور پرانی کتابوں کے باقی رہ گئے، ضرب زید کے ذریعہ بے چارہ زید کبھی مارتا ہے کبھی مار کھاتا ہے، یہ مثال اس قدر عام ہوا کہ لوگوں نے زید نام رکھنا ہی چھوڑ دیا، زید کا غلام اب بھی ہمارے بچوں کو مضاف مضاف الیہ سمجھاتا ہے؛ حالانکہ غلام کا رواج کب کا ختم ہوگیا، اب بچہ غلام کو جانتا ہی نہیں ہے اور ولد سے ہم اسے بدل نہیں پارہے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبا میں کتابوں کو رٹ کر امتحان نکالنے کا مزاج بن گیا. بغیر سمجھے بوجھے "رٹو مل“ ہونے سے کتاب تو نکل جاتی ہے؛ لیکن فن نہیں آتا ہے؛ حالانکہ مقصود کتاب پڑھانا نہیں فن پڑھانا ہے، فن پڑھے گا تو جاری مجری صحیح کی مثال میں ”دلو“ سے آگے بڑھ جائے گا. مرکب منع صرف کی مثال میں بعلبک، معدیکرب اور حضر موت تک محدود نہیں رہ جائے گا۔
اس کے پاس انسانی اسما کی سینکڑوں مثالیں ہوں گی؛ جنھیں وہ مرکب بنائی کے طور پر جانے گا اور پہچانے گا، فن پڑھانے کا یہ فائدہ فوری ہوگا اور اگر اس نے قواعد کو سمجھ کر رٹ لیا تو اسے ان علوم میں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا، فن پڑھاتے وقت طلبا سے قرآن کریم کی آیتوں سے مثال اخذ کرانے سے زیادہ فائدہ ہوتاہے، قرآن کریم سے رغبت بڑھتی ہے اور قرآن مجید سے بہتر مثالیں اور کہاں مل سکتی ہیں، شاید باید کوئی قاعدہ ایسا ہوگا جس کی مثال قرآن کریم میں مذکور نہ ہو، ضرورت شوق پیدا کرنے کی ہے۔
درس وتدریس کا یہ انداز جو ہمارے یہاں رائج ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نصاب فہرست کتب کو کہتے ہیں؛ حالانکہ نصاب فہرست کتب کا نہیں ان ابحاث و موضوعات کا نام ہے، جن کو طلبا کی ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے اساتذہ کو پڑھانا ہے، اب یہ استاذ کا مسئلہ ہے کہ وہ کن کتابوں کی مدد سے بچوں کو صحیح طور سے سمجھا سکتا ہے، کتابیں بذات خود نصاب نہیں ہیں؛ بلکہ مباحث کو سمجھانے کے لیے معاون اور مددگار ہیں، اساتذہ اگر کتاب پڑھاتے وقت مباحث اور اس کی مشق پر توجہ مرکوز رکھیں تو طلبا کی صلاحیتوں کو پر لگ سکتا ہے، میں نے خود بھی بیس سال پڑھایا ہے اس لیے دوران تدریس کے جو تجربات و مشاہدات ہیں وہ کاغذ پر پھیلتے چلے گئے۔
میرے سامنے مولانا مفتی ماہتاب عالم ابو ناصحہ قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ حنفیہ عربی کالج جمیلا گیدر گنج مدھوبنی کی کتاب درس علم النحو ہے، اس میں انھوں نے نحومیر کو اردو قالب میں ڈھالا ہے، مثالیں وغیرہ بھی وہیں سے ماخوذ ہیں، کچھ جگہوں پر اس میں اضافہ بھی درج ہے۔
مفتی ابو ناصحہ قاسمی صاحب پڑھتے لکھتے ہیں، لکھنے کی دلیل تو یہ کتاب ہے اور پڑھے بغیر لکھا نہیں جاسکتا اس لیے معلوم ہوا کہ وہ پڑھتے بھی ہیں، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدرسے میں ہیں اس لیے پڑھاتے بھی رہیں، اس کی دعا کرنی چاہئے۔ یہ بات حفظ ماتقدم کے طور پر لکھ دیاہے؛ کیوں کہ پیش لفظ میں جو کچھ انھوں نے لکھاہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ طلبا کو پڑھاتے بھی ہیں۔
درس علم النحو در اصل حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی سابق ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کی درسی افادات کا مجموعہ ہے، جسے مفتی صاحب نے درس کے وقت قلم بند کرلیا، پھر پڑھاتے وقت اس سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسے مرتب کر ڈالا اب یہ طباعت کے لیے تیار ہے، زبان اگر مزید آسان کرسکیں؛ جن جگہوں پر مثالیں درج نہیں ہیں، اسے درج کردیں؛ جن اصطلاحات کی تعریف درج ہونے سے رہ گئی ہے، اس کو بھی شامل کتاب کرلیا جائے تو اس کتاب کی افادیت بڑھ جائے گی۔
ہمارے استاذ محدث کبیر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ پہلے مرحلہ میں ہی یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ کتاب کس کے لیے لکھی جارہی ہے، اسلوب مثالیں وغیرہ اسی اعتبار سے لانی چاہیے، میرا خیال یہ ہے کہ درس علم النحو اساتذہ کے لیے تو مفید ہے، طلبا کے لیے مزید مفید بنانے کے لیے گراں بار نہ ہو تو اوپر جن امور کی نشان دہی کی گئی ہے، اس کے مطابق اس کتاب پر نظر ثانی کر لی جائے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول عام اور افادہ تام نصیب فرمائے آمین.
صاحب تبصرہ کا یہ تبصرہ بھی ملاحظہ ہو:کتاب: علم تفسیر تاریخ و تعارف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے