وائرس

وائرس

ڈاکٹر ذاکر فیضی

معصوم نے قاتل کی جانب موبائل بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”بھیّا……..م…….می…….میری……ماں سے کہنا…….میں مرگیا۔“ یہ الفاظ اداکرتے ہوئے اس نے اپنے جسم کی تمام طاقت کو موبائل پکڑے ایک ہاتھ اور دونوں آنکھوں میں سمیٹ لیاتھا۔ مگر یہ جملہ پورا ہوتے ہوتے اس کی ساری طاقت ختم ہوچکی تھی، البتہ اس کی معصومیت اور زندگی بھر کی محرومی اس کی آنکھوں میں یکجا ہوگئی تھی اور قاتل سے التجا کررہی تھی کہ اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو پہنچادے۔
معصوم محض تین برس کی عمر میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا تھا۔ اس کی ماں سادگی پسند، نہایت شریف عورت تھی۔ شوہر کے اچانک انتقال کے بعد ساس نندوں کے جھگڑوں سے عاجز ہوکر اس نے سسرال کا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اپنے اکلوتے غریب بھائی کے یہاں جانا اس کی خود داری کے خلاف تھا۔ تب اس نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا۔ اپنے بچے کی اچھی پرورش کے لیے اس نے بڑی محنت کی۔ گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وہ دوپہرتک ایک مقامی پرائیوٹ اسکول میں ٹیچنگ کرتی، شام کو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی اور رات کو آس پاس کے لوگوں کے کپڑے سیتی تھی۔ کوئی دوسری شادی کا مشورہ دیتا تو وہ انکار کردیتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بچے کو کسی کا سوتیلا پیار ملے۔ اس نے اپنی ساری خوشیاں، ہرطرح کے احساسات و جذبات کو اپنے بیٹے پر قربان کردیا تھا۔ مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے اس نے اپنے بیٹے کو انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم کانوینٹ میں دلائی تھی۔
اس کا بیٹا بھی بہت سیدھا، شریف اور حسّاس طبیعت کا مالک تھا۔ وہ اپنی ماں کی قربانیوں کو سمجھتا تھا، وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ سمجھ دار تھا۔ بہت زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے وہ دبلا پتلا اور کم زور تھا۔ پارٹ ٹائم نوکری تو وہ اپنی بی کام کی پڑھائی کے درمیان بھی کرتا تھا، مگر اب گریجویشن مکمّل ہونے کے بعد چند مہینوں سے فل ٹائم نوکری کررہا تھا۔ وہ اپنی ماں کو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتا تھا۔ ماں کا اتناخیال رکھتا تھا کہ ’فسادات کے موسم‘ میں بھی جب شہر میں کرفیو جیسے حالات اور ہرطرف تناؤ ہوتا، تب بھی وہ اپنی ماں کی دوا لینے نکل جاتا تھا۔ گلی کوچوں کی خاک چھانتا، کسی نہ کسی میڈیکل اسٹور کو تلاش کرہی لیتا تھا۔ مگر اتنی سخت جدوجہد کی زندگی جینے کے باوجود اکیس 21 سال کی عمر میں بھی معصوم کی آنکھوں سے معصومیت یوں جھانکتی تھی جیسے وہ ابھی بھی دوتین برس کا بچہ ہو۔
جب سے معصوم ایک فیکٹری میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ مقرر ہوا تھا، تب سے ماں صرف ایک ہی خواب دیکھ رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو دولہا بنے دیکھ سکے۔ جب کہ معصوم کے دل میں اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنا نے کی ننّھی سی خواہش نے جنم لیا تھا۔
7 ، جنوری کی سرد رات تھی۔ دس بجے کا وقت۔ کچھ دیر پہلے ہی تیز بارش ہوکر رُکی تھی۔ سواری نہیں ملنے کی صورت میں معصوم فیکٹری سے پیدل ہی گھر کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ یوں تو شام سات بجے تک گھر واپس آجاتا تھا، مگر تنخواہ ملنے والے دن اکثر دیر ہوجاتی تھی۔ اس کو اپنے گھر پہنچنے کے لئے سٹی بس میں بیٹھ کر پُل سے گزرنا ہوتا تھا۔ یہ پل ایک ریلوے کراسنگ پر تھا۔ پیدل کی وجہ سے وہ آج پل کے نیچے سے گزررہا تھا، تب ہی، ایک سُنسان مقام پر، گھات لگائے دو سائے اچانک اس کے سامنے آگئے۔ ایک نے پیچھے سے مضبوطی سے اسے پکڑلیا۔ دوسرے نے اس کے پیٹ پر چاقو کی نوک کا دباؤ ڈالتے ہوئے گندی سی گالی دی اور بولا۔ ”سالے! آج تو تنخواہ لایا ہوگا۔۔۔۔چل نکال!“
”نہیں۔۔۔ میرے پاس کچھ نہیں!“ معصوم کو خیال آیا اگر تنحوہ چلی گئی تو مکان کا کرایہ اور ماں کی دوا کا کیا ہوگا؟
”ابے…..تیری……نکالتاہے یا ڈال دوں تیری……..“ اس نے چاقو کی نوک چبھائی۔ معصوم خوف سے جھٹپٹانے لگا۔ ”ابے۔۔۔ بھا۔۔۔جلدی کر۔۔۔“ قاتل نے با ئیں ہاتھ سے اس کے بالوں کو کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔۔”دیکھ جلدی کر ورنہ جان سے مار دیں گے۔“ معصوم خوف اور دہشت سے کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ معصوم کچھ بولے قاتل نے ایک زوردار گھونسا، اس کے چہرے پر رسید کیا، جو اس کی ناک اور آنکھ کے درمیان لگا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ الفاظ جو معصوم کی زبان پر آنے والے تھے حلق میں ہی اٹک کر رہ گئے۔
جو لڑکا معصوم کو پیچھے سے دابے ہوئے تھا، وہ اپنے ساتھی سے بولا۔ ”ابے جلدی کر۔۔۔۔ کوئی آجائے گا ورنہ“
”تو تو ایسے نہیں مانے گا۔“ یہ کہتے ہوئے قاتل نے چاقو کا ایک بھرپور ہاتھ معصوم کے پیٹ میں کیا۔
”کھَچ“ کی آواز کے ساتھ تیز دھار چاقو معصوم کی آنتوں کو چیرتا ہوا، ہلکا سا گھوما اور ایک جھٹکے سے اوپر کھینچتا ہوا، دوسرے جھٹکے سے باہر نکل آیا۔ معصوم کے حلق کی دل خراش چیخ پل سے گزر رہے ٹریفک کی بے ہنگم آواز میں کہیں کھوگئی۔ وہ زمین پر گر پڑا۔ معصوم نے تیزی سے باہر آتے ہوئے خون کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سوچا۔ اگرمیں مرگیا تو ماں کو کون بتائے گا کہ وہ مرگیا۔
قاتل کا دوست معصوم کی جیبوں سے پیسے نکالنے میں مصروف تھا اور قاتل اس کے ہاتھ سے وہ موبائل چھیننے کی کوشش کررہا تھا، جو معصوم نے سختی سے دونوں ہاتھوں سے اپنے زخم پر داب رکھا تھا اور سوچتا تھا کہ ان دونوں کے جانے کے بعد وہ ماں کو فون کرے گا۔
قاتل کا دوست جب معصوم کی جیب سے پیسے نکال چکا تو قاتل سے بولا۔ ”ابے چھوڑ۔۔ جلدی بھاگ۔ کوئی آجائے گا۔۔ لگتاہے یہ مرنے والا ہے۔“
یہ کہہ کر دوست سڑک کی طرف بڑھ گیا۔ قاتل بھی تیزی سے پلٹا اور دوست کے پیچھے دوڑنے ہی والا تھا کہ معصوم نے آواز دی۔۔۔ ”’اے بھیّا سنو!“ قاتل نے پلٹ کر دیکھا، موبائل جو وہ معصوم سے چھین نہیں پایا تھا، معصوم کی جانب بڑھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔”بھیّا…… میر……میری……ماں سے….کہنا…….میں مرگیا۔“
خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور اسی بہاؤ میں اس کی نبض ڈوبتی جارہی تھی. معصوم کو احساس ہوچلا تھا کہ وہ خود ماں کو فون نہیں کرسکتا۔ دم توڑتے ہوئے معصوم کو صرف اسی بات کی فکر تھی کہ ماں کو اس کی موت کی خبر کون دے گا؟ وہ تو انتظار ہی کرتی رہے گی۔
معصوم کا ذہن آہستہ آہستہ گہرے اندھے کنویں میں گرتا جارہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا وہ بہت لمبی گہری اندھی سرنگ میں تنِ تنہاچلا جارہا ہے اور چاہ کر بھی اپنے قدم نہیں روک پا رہا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بچپن میں ایک بار ماں اس سے کھیل بند کرکے پڑھنے کو کہہ رہی تھی تو وہ سن کر بھی نہیں سن رہا تھا اور چاہ کر بھی کھیل بند نہیں کر رہا تھا۔
سڑ ک کے کھمبے کی دھندلی روشنی میں قاتل نے معصوم کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کی ناک کے آگے اپنی انگلی لگائی۔ ناک سے ہوا نہیں آرہی تھی۔۔ پھر اس نے لاش کی آنکھوں میں جھانکا۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں معصومیت سے کہہ رہی تھیں۔۔۔۔ ”میری ماں کو ضرور بتا دینا کہ میں مرگیا۔“
قاتل نے لاش کے ہاتھ سے موبائل لینا چاہا کہ تب ہی اس کا دوست آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہواقاتل کو وہاں سے لے گیا۔۔۔ مگر موبائل وہیں رہ گیا۔۔۔ ان دوآنکھوں کے پاس۔
قاتل کا دوست، قاتل سے کہہ رہا تھا۔۔ ”سالا اپنی موت خود مرا ہے راضی سے پیسے دے دیتا تو…….“
مگر قاتل کو نہ کچھ سنائی دے رہا تھا اور نہ ہی کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ سوائے ان دو پتھرائی آنکھوں کے، جو اس سے التجا کررہی تھیں کہ اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو پہنچادے۔ دو آنکھیں اور ایک جملہ سائے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ وہ اس سائے کو جتنا نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا تھا، اتنا ہی اس کے حصار میں کستا جارہا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ راہ زنی کرتے ہوئے ان دونوں سے پہلے کبھی قتل نہ ہوا ہو۔ مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی مرنے والے نے اس سے کہا ہو۔۔ اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو پہنچادے۔
قاتل کا دوست قاتل کی حالت کو کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔ اس لیے قاتل کا ہاتھ پکڑ کر تیز تیز چلتاہوا، اس مقام پر پہنچا، جہاں ایک چائے کی دوکان پر اس کی موٹر سائیکل کھڑی تھی۔ دوست نے گاڑی اسٹارٹ کی اور قاتل سے بیٹھنے کو کہا۔۔ مگر وہ گم صم ادھر اُدھر دیکھنے لگا تو دوست نے دوبارہ کہا تب وہ اپنے خیالوں میں کھویا گاڑی پر بیٹھ گیا۔
قاتل کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ دوست نے قاتل کو اس کی گلی کے موڑ پر اتارا۔۔۔ ”چل گھر جا آرام کر۔۔ کوئی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ کل فلم چلیں گے“۔
یہ کہتے ہوئے دوست نے گاڑی آگے بڑھادی۔۔ قاتل کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہا، پھر ہونقوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ وہ دالان میں پڑے پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔ قاتل کی ماں نے اس سے کھانے کو پوچھا تو اسے لگا جیسے وہ معلوم کر رہی ہے۔۔۔ ”اور تو نے اس کی ماں کو فون کر کے بتا دیا نا کہ اس کا بیٹا مر گیا ہے۔“
اس خیال کے آتے ہی اس کو دل مالش ہونے لگا اور اس نے منھ بھر بھرکر الٹیاں کرنی شروع کر دیں۔ ماں دوڑکر آئی اور جلدی جلدی اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ”ارے کیا ہوا تجھے؟۔۔۔ کہاں سے آرہا ہے؟۔۔۔ تونے آج پھر پی کیا؟“
اس نے پاگلوں کی طرح دائیں طرف دیکھا۔۔ کمرے کے فرش پر اسے اپنی ماں کا عکس نظر آیا۔۔ اسے لگا یہ اس کی ماں کا عکس نہیں بل کہ معصوم کی ماں ہے جو اس سے پوچھ رہی ہے۔۔۔۔ کیا ہوا میرے بچےّ کو؟
اس خیال کے ساتھ ہی اسے ایک جھٹکا اور لگا، اسے پھر الٹی ہوئی۔۔ اس کی آنکھیں ابل پڑیں۔۔ آنکھوں میں پانی آجانے سے، اسے صحیح سے دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔
ماں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو آواز دی اور اس کی مدد سے قاتل کو اس کے بستر تک پہنچایا۔ گھر میں یہی تین افراد تھے، قاتل کا باپ دوسرے شہر میں نوکری کرتا تھا اور کئی کئی مہینے میں اس کا گھر آنا ہوتا تھا۔ قاتل پر لحاف ڈالتے ہوئے ماں بولی۔۔
”کتنی بار کہا ہے آوائی توائی مت پھرا کر۔۔جانے کیسے کیسے دوست بنا لیے ہیں کم بخت نے۔“
الٹی ہونے سے اسے چند لمحوں کے لیے راحت محسوس ہوئی۔۔ اس نے اپنے منھ پر لحاف ڈال کر سونے کی کوشش کی۔۔ مگر نیند اس کی آنکھوں سے دور بہت دور تھی۔ معصوم کی آنکھیں اس کی آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دن سے قاتل نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔ نہ ہی وہ بالکل سو پایا تھا۔ کھانے پینے بیٹھتا تو اسے دودھ، چائے، سالن کے برتن میں معصوم کی آنکھیں نظر آتیں اور روٹی میں معصوم کا چہرہ دکھتا تھا۔۔ ڈاکٹر کے کہنے پر زبردستی کھانے کی کوشش کرتا تو اسے الٹی ہوجاتی تھی۔۔ ٹی وی دیکھنے بیٹھتا تو ٹی وی اسکرین پر جو بھی کردار نظر آتا، اس سے ایک ہی ڈائیلاگ سنائی دیتا۔۔ ”میری ماں سے کہنا میں مرگیا۔“
سڑک پر گزر رہے ٹریفک یا کسی مشین کی آواز سے وہ چونک جاتا اور خوف زدہ ہوکر چیخنے لگتا تھا۔ وہ سب سے کہنا چاہتا تھا کہ اس کی ماں کو بتادو کہ وہ مرگیا ہے۔ اس کی ماں کو تلاش کرو۔ اس کی ماں یہاں سے تھوڑی دوری پر کہیں رہتی ہے، مگر ان جملوں کے بجائے اس کے حلق سے عجیب و غریب آواز یں نکلتی تھیں اور بدن اکڑنے لگتا تھا۔
موبائل اس سے دور رکھا جا نے لگا تھا۔ جب بھی اس کی نگاہ کسی موبائل پر پڑتی تو اسے شدید دورہ پڑتا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ لگاتار جاگتے رہنے سے اور کھانا پینا نہیں ہونے سے اس کے دماغ میں زبردست خشکی ہوگئی ہے اور دل کم زور ہوچکا ہے جس کی وجہ سے موبائل سے نکلنے والی ترنگوں کو یہ برداشت نہیں کرپا رہا ہے۔ شروع شروع میں تو نیند کی گولیوں یا انجیکشن سے اس پر کچھ دیر کے لیے غنودگی سوار ہوجاتی تھی مگر اب ان کا بھی اثر نہیں ہورہا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے مکمّل روٹھ چکی تھی۔
اس کی تیمار داری اور دیکھ بھال ماں اور چھوٹا بھائی کر رہے تھے۔ ان پندرہ دنوں میں اس کا باپ بہ مشکل ایک دن کے لیے گھر آیا تھا۔ اور بیوی کو تسلی دے کر چلا گیا تھا۔ قاتل کی ماں پنڈتوں، مولویوں، اُوجھاؤں سے تعویذ وغیرہ بھی لائی تھی۔ روحانی علاج کرنے والوں کا ماننا تھا کہ اس پر کسی بری آتما کا سایہ پڑگیا ہے۔
اس کا مرض دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اور وزن گھٹتا ہی جا رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا تھا۔۔ ”مجھے نہیں پتہ۔ مجھ سے مت پوچھو۔۔ میں کیا جانوں۔ یہاں سے جاؤ۔ جاؤ۔ ہاں فوراً جاؤ۔ میں نہیں جانتا ہاں۔“ قاتل کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے معصوم کی ماں اس کے پاس آئی ہے اور پوچھ رہی ہے۔۔ ”بیٹا میرے بچے کو کہیں دیکھا ہے۔ وہ بالکل تمھاری ہی عمر کا ہے۔ تمھاری ہی طرح دکھتا ہے۔“ کبھی کبھی گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ کو دیکھتا رہتا…. اچانک آئینے میں اسے خود کا چہرہ معصوم کا چہرہ معلوم ہوتا اور اس کی اپنی ہی آنکھیں اس سے التجا کرنے لگتی تھیں کہ ماں سے کہنا میں مرگیا۔۔۔ اور پھر وہ سیدھا اپنی ماں کے سامنے کھڑا ہوجاتا اور کہتا۔۔۔ ”میں مرگیا۔۔۔۔ میں مرگیا ماں۔“
قاتل کی ماں تڑپ جاتی اور سینے سے لگا کر پیار کرنے لگتی۔۔ سمجھانے کی کوشش کرتی۔۔کہتی۔۔ ”مریں تیرے دشمن بیٹا!“۔۔ یہ سن کر اس کا دورہ شدّت اختیار کرجاتا اور وہ اپنے بال نوچنے لگتا۔
ایک مہینے سے ذہنی اذیتیں جھیل رہا قاتل ہفتہ بھر سے اسپتال کے بسترپر لیٹا لگاتار چھت کے بند پنکھے کو گھورے جارہا تھا۔ اس کے چلنے پھرنے کی سکت ختم ہوچکی تھی۔ وہ بہت لاغر ہوچکا تھا۔ گلوکوز کے سہارے اس کے جسم میں غذا پہنچانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ آنکھیں جو پنکھے پر ٹکی ہو ئی تھیں، اس کے تمام چہرے پر صرف وہی نمایاں تھیں۔ پہلی بار دیکھنے والے کو لگتا تھا کہ اس کا تمام جسم، اس کی ساری طاقت، اس کی خواہشیں اور سب ارمان آنکھوں میں سمٹ آئے ہیں۔ لگاتار پنکھے کو گھورتے رہنے سے سب فکر مند تھے۔ ڈاکٹر کا مشورہ تھا اس کا ذہن پنکھے سے ہٹاؤ۔ والدین، پڑوسی اس کا ذہن پنکھے سے ہٹاکر کسی اور طرف لگانا چاہتے تھے تاکہ اس کا دل بہل جائے، تو وہ چند لمحوں کے لیے اپنی نگاہیں پنکھے سے ہٹا کر ان کو دیکھتا اور پھر پنکھے کی طرف نگاہیں جما لیتا تھا۔
اس کے ارد گرد ماں، باپ، بھائی، پڑوسی وغیرہ کھڑے تھے اور اس کی بیماری پر تبصرہ کر رہے تھے کہ تب ہی اس کا دوست آیا۔۔ قاتل کی نگاہ چھت کے پنکھے سے اتر کر اپنے دوست پر گئی تو پھر وہیں مرکوز ہوکر رہ گئی۔۔ قاتل نے کوشش کی کہ وہ اپنے دوست سے کہے کہ اس کی ماں کو بتادے کہ وہ مرگیا۔۔ مگر الفاظ اس کے دماغ میں کہیں گم ہوکر رہ گئے۔

Dr.Zakir Faizi
House no I- 10, Muradi Road,Batla House, Okhla,
N,Delhi-110025
email: rafufaizi@gmail.com
Mob: 08750469113
ذاکر فیضی کا یہ افسانچہ بھی پڑھیں : کپڑوں میں پیشاب کرنے والے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے