ڈوڈو کی محنت رنگ لائی!

ڈوڈو کی محنت رنگ لائی!

آبیناز جان علی، ماریشش 

1680سے پہلے موریشس میں بہت سارے ڈوڈو تھے۔ ڈوڈو صرف موریشس میں پایا جاتا تھا۔ یہ ایک بھاری بھرکم پرندہ تھا۔ اس کے بازو چھوٹے تھے لیکن مضبوط تھے۔ وہ اڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کی گردن اونچی تھی اور اس کی دم چھوٹی تھی۔ اس کے گھنگریالے پر بھورے اور سرمئی رنگ کے تھے اوراس کی دم سفید تھی۔ اس کی مضبوط ٹانگیں پیلی تھیں۔ اس کی موٹی چونچ میں کالے، نیلے اور ہرے رنگ تھے۔ اس کا سینہ چھوٹا تھا۔ اس کی چھوٹی دم پروں کا ایک گچھا تھا۔ وہ پھل اور کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہتا تھا۔ ڈوڈو جزیرے کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اٹھاتا ہواخوشی خوشی موریشس میں رہتا تھا۔ ان دنوں موریشس ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ ڈوڈو یہاں وہاں جنگل میں گھومتا رہتا۔ یہ پرندہ بہت پرسکون تھا۔ وہ کسی سے جھگڑا نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت بڑا تھا۔ وہ تقریباً تین فٹ اونچا تھا۔ اس کا وزن تقریباً بیس کلو کا تھا۔ یہ کہانی اس زمانے میں پیش آئی جب 1598میں جہازران موریشس میں آنے لگے۔ ۔
ایک بار ایک ڈوڈو نے کچھ عجیب و غریب آوازیں سنیں۔ اس نے پہلے کبھی بھی ایسی آواز نہیں سنی تھی۔ اس نے سمندر کی طرف دیکھا تو بڑے بڑے آدمی نظر آئے۔ اب تک ڈوڈو نے خود سے بڑا جاندار نہیں دیکھا تھا جو اس کی طرح دو ٹانگوں پر چلتا تھا۔ ڈوڈو کو دیہ دیکھ کر وحشت ہوئی کہ وہ آدمی اس کے دوستوں کو جان سے مار رہے تھے۔ بے چارے ڈوڈو نہ تیر سکتے تھے اور نہ ہی اڑ سکتے تھے۔ اس اثنا میں شکاری انھیں آسانی سے پکڑ لیتے۔
”آج رات ہم ڈوڈو کا گوشت کھائیں گے۔“ ڈوڈو نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا۔
”یہ گوشت تو بالکل بدمزہ ہے۔“ کسی اور آدمی نے کہا۔
”کیا کیا جائے؟ اس جزیرے میں کھانے کے لیے اور کیا ہے؟“
یہ منظر دیکھتے ہی ڈوڈو ڈر گیا۔ اب وہ بالکل اکیلا پڑ گیا۔ ڈوڈو جنگل میں آہستہ آہستہ چلتا گیا۔ بہت جلد اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ وہ پانی کی تلاش کرنے لگا۔ اس نے یہاں وہاں دیکھا لیکن کوئی ندی نظر نہیں آئی۔ ڈوڈو نے یہ بھی غور کیا کہ جنگل سے درخت کم ہونے لگے ہیں۔ زمین زیادہ صاف ہوگئی ہے۔ بے چارہ ڈوڈو اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ یہ درخت اسے تازہ پھل دیتے تھے۔ ان پھلوں سے ڈوڈو اپنا پیٹ بھرتا تھا۔ ستم بالائے ستم جنگل کی کٹائی سے کم بارش ہونے لگی ہے۔ یہاں امرود کے پیڑ ہوا کرتے تھے۔ اب وہ بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ ڈوڈو کو کھانے کی تلاش میں دور جانا پڑے گا۔ ڈوڈو نے کئی دنوں سے پیٹ بھر کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اب کرے بھی تو کیا کرے۔ وہ زمین پر اپنی ٹانگیں گھسیٹتے گھسیٹتے چلتا گیا۔ اس کے دل کی ڈھڑکنیں تیز ہوتی گئیں۔
”یہ مجھ پر کیسی مصیبت آگئی ہے۔ میرے مالک میری مدد کر۔“
اسی وقت ڈوڈو کو پانی کا شور سنائی دیا۔ وہ شور بڑے پتھروں کے درمیان سے آرہا تھا۔ ڈوڈو نے فوراً ان دو بڑے پتھروں کے درمیان دیکھا۔ اسے پانی کا ایک چشمہ نظر آیا۔ وہ خوش ہوا۔ وہ پتھر کے اوپر چڑھا۔ ڈوڈو نے غور کیا کہ پانی کا چشمہ بڑے پتھر وں کے بالکل نیچے تھا۔ ڈوڈو نے پانی پینے کی کوشش کی لیکن اس کی چونچ اتنی موٹی تھی کہ وہ پانی تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اب ڈوڈو سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے۔ تب اسے ایک اچھا خیال آیا۔ وہ آس پاس دیکھنے لگا اوراپنی چونچ میں چھوٹی کنکریاں اٹھانے لگا۔ پھر ایک ایک کر کے بڑے پتھروں کے درمیان پھینکنے لگا۔ ڈوڈو کو کئی چکر لگانے پڑے۔ اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ پھر بھی ڈوڈو نے ہمت نہیں ہاری۔ آخرکار پانی کی سطح اوپرتک پہنچنے لگی اور ڈوڈو نے اس طرح اپنی پیاس بجھائی۔
ڈوڈو کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔ ڈوڈو ایک پرسکون جگہ میں رہتا تھا جہاں کھانے پینے کی چیزیں آسانی سے مل جاتی تھیں۔ اس لیے وہ اپنی حفاظت کرنا نہیں جانتا تھا۔ اس کہانی میں ڈوڈو نے صبر سے کام لیا۔ پریشانی کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اوروہ محنت کرتا گیا۔ اس کے آس پاس خطرہ تھا۔ خوف کے باوجود وہ کام کرتا گیا۔ اس کی محنت رنگ لائی۔ وہ جو چاہتا تھا، اسے مل گیا۔
تاریخ رقم کرنے والوں کا ماننا ہے کہ ڈوڈو پرندے کو آخری بار 1668میں دیکھا گیا تھا۔ جہاز رانوں کو جب موریشس میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ملا تو وہ جہازی ڈوڈو کا شکار کرکے ایک ایک کر کے کھانے لگے۔ جب جہاز راں جزیرے میں آباد ہونے لگے تو جنگل کو صاف کیا گیا۔ اس طرح ڈوڈو کو کم کھانا ملنے لگا۔ ڈوڈو کا مادہ صرف ایک انڈا دیتی تھی۔ جہاز ران اپنے ساتھ نئے جانور لائے۔ جزیرے میں چوہے، بلیاں، کتےّ، سور اور بندر بھی آگئے۔ یہ جانور معصوم ڈوڈو کے انڈوں کو کھاجاتے اور ان کے بچوں پر حملہ کرتے۔ آخرکار بے چارا ڈوڈو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔ ڈوڈو کا معدوم ہوجانا آدمی کو خبردار کر رہا ہے کہ اسے اپنے ماحول کی اور قدرتی چیزوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔

آبیناز جان علی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: کون صحیح اور کون غلط؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے