سرسید نے طرزِ تحریر ہی نہیں بلکہ ہندستان کے طرزِ احساس کو بھی بدلا ہے : پروفیسر احمد القاضی(مصر)

سرسید نے طرزِ تحریر ہی نہیں بلکہ ہندستان کے طرزِ احساس کو بھی بدلا ہے : پروفیسر احمد القاضی(مصر)


شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام آن لائن بین الاقوامی توسیعی خطبے کا انعقاد

نئی دہلی (۹/ ستمبر): سرسید نے صرف طرزِ تحریر ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے طرزِ احساس کو بھی تبدیل کیا ہے۔ ان کے اس طرز کو صحیح معنوں میں سائنٹفک طرز قرار دیا جاسکتا ہے۔ جدید علمِ کلام کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔ سرسید کی زندگی، شخصیت اور فکر و عمل سبھی کچھ حقیقت پسندی اور روشن خیالی سے عبارت ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے عرب قلم کاروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام منعقدہ آن لائن بین الاقوامی توسیعی خطبے میں معروف ترجمہ نگار، عربی اردو کے محقق اور دانشور جامعہ ازہر، مصر کے استاذ پروفیسر احمد محمد احمد عبدالرحمٰن المعروف بہ احمد القاضی نے ’سرسید احمد خان کل اور آج : احمد امین کی تحریروں کی روشنی میں‘ کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے سرسید شناسی کے حوالے سے کرنل گریہم، منشی سراج الدین سے لے کر خلیق احمد نظامی، اصغر عباس، شان محمد اور افتخار عالم خان تک کی تحقیقات کا از سرِ نو جائزہ لینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرسید جیسا عبقری اور دیوقامت قائد برصغیر نے شاذ و نادر ہی پیدا کیا ہو۔ مہمان خصوصی پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے مہمان مقرر پروفیسر احمدالقاضی کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ خطبہ صحیح معنوں میں وقیع اور بلیغ تھا۔ اس خطبے سے سرسید شناسی کے کئی مخفی گوشے روشن ہوتے ہیں۔ انھوں نے احمدالقاضی کی اردو پر ماہرانہ دسترس اور لب و لہجے پر مسرت آمیز حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی گفتگو سے اس کا بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ توسیعی خطبے کے کنوینر ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے پروفیسر احمدالقاضی اور خطبے کے موضوع کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر احمدالقاضی ہند عرب تہذیب و ثقافت کے گہرے رمز شناس ہیں۔ ان کے تراجم، کتابیں اور لیکچرز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہند و عرب کلچر کے مایۂ ناز سفیر ہیں۔ اظہارِ تشکر میں ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے سرسید اور ان کے کارناموں کو نوآبادیاتی مطالعات کی روشنی میں دیکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ سے لے کر جامعہ تک کے اس تاریخی سفر کو استعمار شناسی کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ یہ پر مغز خطبہ سرسید کے حوالے سے عرب دانشوری کے نقطۂ نظر کا بہترین ترجمان ہے۔ خطبے کا آغاز شعبے کے طالب عالم حافظ عبدالرحمٰن کی تلاوت سے ہوا۔ اس موقع پر پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر کوثرمظہری، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر محمد خالد انجم عثمانی اور ڈاکٹر شاداب تبسم سمیت درجنوں ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات شریک ہوئے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے