شائستہ مفتی منفرد لہجے کی معتبر شاعرہ اور افسانہ نگار

شائستہ مفتی منفرد لہجے کی معتبر شاعرہ اور افسانہ نگار

انتخاب کلام و تعارف : ظفَر معین بَلّے جعفری

شائستہ مفتی شعر و ادب کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ یہ الگ بات کہ ان کے فن کی مختلف جہتیں ہیں۔ مصوری میں بھی ان کے کمالات کا اعتراف کیا جا چکا ہے اور شاعری اور افسانہ نویسی میں بھی. قارئین کی دل چسپی کے لیے محترمہ شائستہ مفتی کے کلام سے انتخاب پیش خدمت ہے۔

غزل : شائستہ مفتی

مٹی جیسے خواب ہمارے، مٹی میں مل جائیں گے
ہستی کے سامان یہ سارے مٹی میں مل جائیں گے

اٹھے گی اک لہر سی جل میں، دریا میں کھو جائے گی
جیون کے یہ دھوپ کنارے مٹی میں مل جائیں گے

تنکا تنکا جوڑ کے چڑیا گھونسلہ بنتی رہتی ہے
آگ لگی تو جنگل سارے مٹی میں مل جائیں گے

عشق کیا ہے، عشق بھی لوگو سچے موتی جیسا ہے
جھل مل کرتے سارے تارے مٹی میں مل جائیں گے

ساٹھ بہار کے دن تھے اپنے، ساتھ بھی اپنا اتنا تھا
کوچ کریں گے اور بنجارے مٹی میں مل جائیں گے

شام ڈھلی تو ڈھونڈنے نکلی تجھ کو اپنی دھیان کی رو
صبح تلک یہ سب ہر کارے مٹی میں مل جائیں گے


غزل : شاٸستہ مفتی

جنوں کی راہ سے اپنا گزر تو ہونا تھا
اُدھر جو حال تھا ان کا اِدھر تو ہونا تھا

چلی تھی سیلی ہوا بے قرار تھیں موجیں
سکوتِ شب میں یہ ساحل بھنور تو ہونا تھا

بہت سے دوست تھے اور شہر بھی شناسا تھا
تمھارے شہر میں یوں در بدر تو ہونا تھا

وہ ایک اشک کا قطرہ، نمک ہی تھا لیکن
مگر جو دل پہ گرا تھا، اثر تو ہونا تھا

نہ پوچھ کیسے پتا چل گیا زمانے کو
تھا عشق مشک کا قصہ، خبر تو ہونا تھا

غزل : شائستہ مفتی

اس ریگ زارِ زیست کا عنصر نہیں ہوں میں
اک خواب ہوں کہیں بھی مکرر نہیں ہوں میں

اک سوچ کا ثمر ہوں جو بکھری ہوں چار سو
کہنے کو آفتاب کا منظر نہیں ہوں میں

سج کر سنور کے کیوں میں دکھاؤں جناب کو
گھر میں سجا ہوا کوئی زیور نہیں ہوں میں

وادی میں گونجتے ہوئے نغمے کا ساز ہوں
سر بستہ ایک راز ہوں صرصر نہیں ہوں میں

درویش کی منڈیر پہ جلتا ہوا چراغ
منزل نشاں نہیں، کوئی رہ بر نہیں ہوں میں

اس شہرِ بے اماں میں وفا کی نہ تھی امید!
تیرے گمان و وہم پہ ششدر نہیں ہوں میں

مقدور بھر تو یاد رکھا ہے تمھیں حضور
بھولا ہوا خیال ہوں ازبر نہیں ہوں میں

غزل : شائستہ مفتی

اے دوست تیرے ہاتھ میں دستار دیکھ کر
دل بجھ گیا ہے آج یہ سنسار دیکھ کر

بادل کی طرح تیر رہا ہے تمام شہر
میں تھم گئی ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر

اب کیا گلہ کریں کہ مرے ہم سفر تھے آپ
رستہ بدل کے چل دیے پر خار دیکھ کر

اک چاند آگہی کا مرے گھر اتر گیا
روشن ہوئی نظر ترے افکار دیکھ کر

آئینۂ خیال کی محفل سے اٹھ کے آج
خود سامنے کھڑے ہیں وہ اصرار دیکھ کر

گر حوصلہ کریں تو سمندر بھی پار ہوں
طوفان رخ بدلتے ہیں پتوار دیکھ کر

اب کیا سناؤں ان کو، فسانہ طویل ہے
عجلت میں چل دیے ہیں جو سرکار دیکھ کر

غزل : شائستہ مفتی

زندگی یونہی بے وجہ سی ہے
ان دنوں کچھ خفا خفا سی ہے

گھر سے نکلے تھے سوچ کر کچھ ہم
راستوں میں تری صدا سی ہے

دیر تک جاگتے ہیں اور شب بھر
یاد آنکھوں میں اک گھٹا سی ہے

جا رہی ہے بہار ، جانے دیں
روٹھنے کی چلی وبا سی ہے

یوں نہیں ہے کہ غم سے بوجھل ہیں
اک کمی ہے جو اک خلا سی ہے

غزل : شائستہ مفتی

زندگی میں وہ اب جمال کہاں
سُر کہاں اور سُر میں تال کہاں

کن سرابوں کو چھو کے آئے ہو؟
چشمِ آہو کہاں ، غزال کہاں

یاد کرنے پہ یاد آتے ہیں
ہیں ترے خواب اور خیال کہاں

ڈھونڈتی ہے نگاہِ شوق جنھیں
میرے یارانِ خوش خصال کہاں

جانے تم کس لیے پشیماں ہو
عرض کیا اور عرضِ حال کہاں

ان کو دیکھے سے جو دھڑکتا تھا
دل کی دھڑکن میں اب دھمال کہاں

رات اب قمقموں سے روشن ہے
سر پہ تاروں بھرا وہ تھال کہاں


آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

نظم : شاٸستہ مفتی

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفان بلا

یہ جو طوفان کہ اس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے
ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے

ان کہی کوئی کہانی، کوئی جلتا آنسو
آ کے دامن پہ ٹھہرتا ہوا بے کل شکوہ

چپ سی سادھی ہے مرے بت نے
مگر آنکھوں میں

مرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح
جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے

دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا
میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں

اپنے خوابوں کے محل خود ہی جلا دیتی ہے
اپنے ٹوٹے ہوے پر خود ہی چھپا دیتی ہے

اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے
خود ہی اپنے لیے لکھتی ہے سزاؤں کی کتاب

اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لرزش سی ہے پیروں میں ،تھکن سانسوں میں
کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو میری سانسوں میں

آج لازم ہے کہ چپ چاپ گزر جائے شام
کوئی آہٹ ہو نہ دستک، نہ ہی چھلکے کوئی جام

آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے
آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے

پھر نیا دن نئی مسکان جگا لائے گا
شب کا طوفان کناروں سے اتر جائے گا

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

نظم : وجدان
شائستہ مفتی

رات کی جادوگری ہے کہ مصور اب تک
ہاتھ میں برش لیے
رنگوں کو تکتا جائے

کون سے رنگ ترے عارض و لب جیسے ہیں؟
زلف کی کالی گھٹا کیسے بنائی جائے؟؟

رات کی جادوگری ہے کہ ستاروں سے پرے
اب بھی امکان کا اک دیپ کہیں جلتا ہے
دل ہے ویران مگر ساز مدھر بجتا ہے
آتی جاتی ہوئی سانسوں سے نگر سجتا ہے

رات کی جادوگری ہے کہ وہ شاعر اکثر
جانے کس دھن میں
ترا نام پکارے جائے
اپنی چاہت کا یقیں سب کو دلائے جائے

کتنے اسرار ابھی رات کے سر باقی ہیں؟؟
اور یہ روگ کے مارے ہوئے فنکار سبھی
اپنی چاہت کا لیے کاسہ بھٹکتے جائیں

دور ہی دور تجھے، صرف تجھے
اپنے وجدان سے تجھ کو ہی
پکارے جائیں

رات کی جادوگری یاس کی قندیلوں سے
لمحہ لمحہ ترا احساس جگاتے جائیں

دھیان کے پنے پہ لکھا ہے
ازل سے ترا نام
راستے سب تری چوکھٹ سے
ملاتے جائیں

نظم : عقیدت
شائستہ مفتی

عقیدت آبگینوں کی طرح
آنکھوں میں رہتی ہے

وفا کے کنج میں
خوشبو کی صورت
سانس لیتی ہے

بہت خاموش لمحوں میں
یہ اکثر گنگناتی ہے

کبھی رفتار بن کر
کہکشاں میں جھلملاتی ہے

عقیدت آرزو بن کر
نشاطِ جستجو بن کر
کبھی دل میں مچلتی ہے
کبھی یہ رقص کرتی ہے

میں لفظوں کے گھنے جنگل سے
دل کش پھول چنتی ہوں

اجالا پھیلنے سے کچھ ذرا پہلے
ذرا ہولے
تری دہلیز پر خاموش سی
دستک میں دیتی ہوں

عقیدت کے معطر پھول رکھ کر
لوٹ آتی ہوں

نظم : تقدیر
شائستہ مفتی

خدا کے ہاتھ پہ بکھری ہوئی لکیروں میں
میں خود کو ڈھونڈ رہی ہوں
بڑے ہی صبر کے ساتھ
نہ جانے کتنے جنم اور اب بھی باقی ہیں

افق کے پار ستارہ ہے ؟ یا کوئی امید؟؟
بکھرتے خواب نئی منزلوں کی ہیں تمہید ؟؟

خدائے عجز مجھے دیکھتا ہے
ہر لحظہ۔۔

مری تھکن سے وہ واقف ہے
میرا محرم ہے۔۔

مرے عروج کے رستے میں
اک زوال بھی ہے

میں اس کے لمس کو
محسوس دل میں کرتی ہوں

رضا ہو اس کی جہاں
سر جھکائے رکھتی ہوں

خدا کے ہاتھ پہ بکھری ہوئی لکیروں میں
سہج سہج کے میں رستہ تلاش کرتی ہوں

سفر یہ روح کا اب اور کتنا باقی ہے۔۔؟؟
محبتوں کے حساب اور نفرتوں کے عذاب
ضرب ، نفی کی یہ تقسیم کون کرتا ہے؟
حسابِ عمر ، خسارے کو کون لکھتا ہے؟

خدا کے ہاتھ پہ جنگل ہے ان لکیروں کا
ہر اک لکیر میں کچھ نت نئے مظاہر ہیں

میں دور شام کے منظر میں اب بھی باقی ہوں
کہ آنے والی نئی روشنی سے شاکی ہوں

تمام رستے اسی موڑ پر ٹھہرتے ہیں
جہاں پہ کن کی صداؤں کا شور ہے اب بھی

خدا کے ہاتھ پہ ٹپکا ہے اشکِ تر میرا
مرا وجود ہے بے انت اک سفر میرا

ہر اک لکیر سے بچ کر میں گم شدہ ہو جاؤں
خدا کے ہاتھ پہ تھک ہار کر کہیں سو جاؤں

تعارف : آئیے اب جانتے ہیں محترمہ شائستہ مفتی کے حوالے سے ان کی زندگی کا احوال خود انہی کی زبانی ۔

‎نام : شائستہ مفتی
تاریخ پیدائش: ۲۱ ستمبر‎، کراچی میں زندگی کا سفر شروع ہوا.

مشترکہ خاندانی نظام میں پرورش پائی۔ میں اپنے دادا، ڈاکٹر مقرب حسین مفتی کے بہت قریب رہی۔ انڈیا کے شہر میرٹھ سے خاندانی وابستگی ہے. میرا اپنے دادا سے رشتہ میری پہلی درسگاہ رہی۔ پہلی کہانی گیارہ برس کی عمر میں بچوں کے ایک رسالے میں چھپی۔ لکھنے کا شوق شاید تب سے ہے جب سے میں نے قلم پکڑنا شروع کیا۔ جب ہوش سنبھالا تو گھر میں سب کو کچھ نہ کچھ پڑھتے دیکھا۔ امی رات کو سونے سے پہلے کہانیاں سناتی تھیں۔ امی کہانیاں سناتے ایسی منظر کشی کرتیں کہ آنکھوں کے سامنے سماں بندھ جاتا تھا۔ تخیل نے پرواز کرنا امی کی کہانیوں سے ہی سیکھا ہے۔

‎ میں نے بائیوکیمسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابسطہ رہی ہوں۔ شہید حکیم محمد سعید کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے۔ جب بیت الحکمۃ نیا نیا بنا تو میں چند بانی اساتذات میں شامل تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ہمدرد پبلک اسکول کو بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے۔ ہمدرد میں زندگی کے یادگار دن گزارے ہیں۔

‎ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے مجھے جاب چھوڑنی پڑ گئی۔ بچے کچھ بڑے ہوئے تو اپنے پرانے شوق پر توجہ دینا شروع کی۔ شاعری کے ساتھ آئل پینٹنگز بنانے کا بھی شوق ہے۔ اپنی دوسری اور تیسری کتاب کا ٹائٹل بھی میں نے خود پینٹ کیا ہے۔

‎ تین کتابیں چھپ چکی ہیں دو کتب شاعری کی ہیں ہوا کے ہاتھ اور محبتوں کے شہر میں۔
تیسری کتاب افسانوں کی ہے ” چاک اور چراغ"
"چاک اور چراغ “ میں افسانے اور نظمیں شامل ہیں

‎ادب کے ماحول کی بھیڑ چال سے بہت نالاں ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ انسان یا تو سیاست کر سکتا ہے یا پھر تخلیقی کام، دونوں کام ایک ساتھ ممکن نہیں۔ کام صرف رہ جاتا ہے باقی تو سب خس و خاشاکِ زمانہ ہے.

‎ میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں بانو قدسیہ، کرشن چندر، ٹیگور اور بہت سے لکھاری ہیں۔ عالمی ادب بھی شوق سے پڑھتی ہوں. ترکی کے لکھاری اورہان پامک اور ایلف شفق بہت پسند ہیں. گبریل گاشیا مارکیوز کی تحریریں بہت پسند ہیں۔

‎ ادب ہر گز جمود کا شکار نہیں، پل پل بدلتی دنیا میں ادب کی صورتیں ضرور مختلف ہو سکتیں ہیں جو کہ ایک لازمی امر ہے، مگر ادب پھل پھول رہا، ذریعہ ابلاغ ضرور مختلف ہے۔

‎ قوم کے مزاج میں زوال پذیری شاید انتہا پسندی کی وجہ سے ہے۔ ہولے ہولے رہنا تو شاید ہمیں آتا ہی نہیں۔ صبر اور استقامت سے کام لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جذباتی باتیں معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہوتیں ہیں۔

‎ زندگی کے بارے میں میرا نظریہ ہے کہ زندگی ایمان داری سے گزارنی چاہیے۔ حالات جو بھی ہوں ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں. ‎ نئی نسل کو صرف ایک پیغام دینا چاہوں گی کہ راستی کے راستے پر رہیں اور اپنے جداگانہ انداز کو اپنائیں۔ اپنے اندر کے انسان کو پہچانیں۔ معاشرہ صرف اس وقت پر امن ہو سکتا ہے جب ہم انسانیت کو اہمیت دیں گے. انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے.

ظفر معین بلے جعفری کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :شہزاد احمد اور سید فخرالدین بلے (داستانِ رفاقت)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے