شہزاد احمد اور سید فخرالدین بلے (داستانِ رفاقت)

شہزاد احمد اور سید فخرالدین بلے (داستانِ رفاقت)

ظفر معین بلے جعفری

(ولادت: 16۔اپریل 1932. امرتسر)
(وفات: یکم۔اگست 2012. لاہور)
 جناب شہزادؔ احمد صاحب سے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے گھریلو اور بے تکلفانہ مراسم تھے۔ رات گئے بھی وہ ہمارے ہاں تمام تر تقریبات میں، نجی محافل میں شریک رہتے لیکن عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی طبیعت ٹھکانے نہیں رہتی۔ اکثر تو ان کی حالت اس قدر بگڑ جاتی تھی کہ میں نے ان کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ سے مخاطب ہوکر یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ ”بلےصاحب لگتا ہے اب کوچ کا وقت آگیا ہے ایک تو تکلیف کی شدت میں کمی نہیں ہورہی اور دوسرے سانس اکھڑ اکھڑ جارہا ہے۔ آپ میں بہت حوصلہ ہے وی ون ( V.1) سے وی فائف(V.5) تک مکمل طور ڈیمجڈ کا ای سی جی دیکھ کر بھی آپ کا وی سکس (V.6) پر ہی اتنا دار و مدار رکھنا کہ سگریٹ نوشی تو کیا برج یا شطرنج کی بازیوں میں بھی کمی نہیں آئی اور آرام کرنے اور ایک دو گھنٹے سے زیادہ سونے کا تو آپ کی زندگی کی لغت میں تصور بھی نہیں ہے۔

قوت ارادی( Will Power ) کی ایسی مثال مشکل سے ہی ملے گی، بلے صاحب آپ کو دیکھ کر تو دل کرتا ہے اچھل کر اپنی مصروفیات میں کود پڑوں۔ آپ کو دیکھ کر مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے اور میں خود سے مخاطب ہوتا ہوں کہ شہزاد احمد اپنے تمام تر موخر منصوبوں کو پھر سے شروع کردو“

شہزاد احمد شہزاد صاحب اپنی اسی علالت کے دوران معروف ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر کمال کے بھی زیرِ علاج رہے اور انھوں نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی تقلید میں ادویات اور دیگر ہدایات سے کہیں زیادہ انحصار قوت ارادی پر کرنا شروع کردیا ۔ البتہ سگریٹ نوشی سے توبہ کرلی اور سونے اٹھنے اور آرام کرنے کے اوقات مقرر کرلیے۔ عارضہ قلب میں مبتلا ہونے سے قبل وہ ٹی ہاؤس یا وزیرآغا ہاؤس۔ یا والد گرامی کی اقامت گاہ پر رات گئے ادبی نشستوں یا محافل اور تقریبات میں موجود ضرور نظر آتے تھے لیکن بعدازاں انھوں نے رات دس یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس بجے کی حد مقرر کرلی تھی ۔

مجھےاچھی طرح سے یاد ہے کہ جب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش کے احترام میں ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد آگئے تھے اور ان کی پوسٹنگ وزارت مذہبی امور میں تھی ۔
بیک وقت تین جرائد
ماہنامہ ہم وطن اسلام آباد
ماہنامہ اوقاف اسلام آباد
ماہنامہ یاران وطن اسلام آباد
کے بانی مدیر اعلا کی حیثیت سے ان کی مصروفیات حد درجہ بڑھ چکی تھیں۔ گویا کہ رات دن ایک تھا۔ہم لوگ اسلام آباد و راولپنڈی سیٹلائٹ  ٹاؤن راولپنڈی رہاٸش پزیر تھے. وہاں بھی جناب شہزاد احمد صاحب کا آنا اور قیام فرمانا اور اس حوالے سے بہت سی یادیں، باتیں اور واقعات حافظے میں محفوظ ہیں۔ متعدد بار تو ان کی آمد احمد ندیم قاسمی صاحب یا ڈاکٹر وزیر آغا صاحب یا پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل صاحب کے ہم راہ ہوا کرتی تھی۔ غالباً اس وقت شہزاد احمد صاحب .R.C.P روٹی کارپوریشن آف پاکستان میں اہم عہدے پر فائز تھے۔

سرگودھا میں قیام کے دوران جب والد گرامی عارضہ قلب کا شکار ہوئے تو جہاں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، جاوید احمد قریشی، ڈاکٹر آغا سہیل، عطاالحق قاسمی اور بریگیڈیئر ضمیر جعفری اور صدیق سالک، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ آپا، محمد طفیل(نقوش والے)، مختار مسعود علیگ اور برہان فاروقی علیگ، پرویز بزمی، طفیل ہوشیارپوری، شبنم رومانی، محترمہ ادا جعفری پھپو، محسن بھوپالی، یزدانی جالندھری، میرزا ادیب، آئی۔اے۔ رحمن، عباس اطہر، حضرت وقار انبالوی اور حضرت علامہ غلام شبیر بخاری جیسی عظیم المرتبت ہستیوں میں جناب شہزاد احمد صاحب بھی شامل ہیں کہ جو محض ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی عیادت کے لیے دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر سرگودھا پہنچے تھے۔

شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹر حافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952ء میں نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ’’صدف‘‘ 1958ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ’’جلتی بجھتی آنکھیں‘‘ 1969ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ’’پیشانی میں سورج’‘ پر انھیں ہجرہ(اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔

1992 میں سید فخرالدین بلے صاحب کی قاٸم کردہ عالمی شہرت کی ادبی تنظیم ”قافلہ“ کے زیر اہتمام جناب شہزاد احمد صاحب کا ساٹھ سالہ جشن ولادت نہایت عالی شان طریقے سے منایا گیا۔ سید فخرالدین بلے صاحب کی رہاٸش گاہ پر ہر ماہ کو قافلہ کا پڑاؤ ڈالا جاتا تھا۔ اس قافلہ پڑاؤ کی دھوم پوری اردو دنیا میں مچی ہوٸی تھی اور یہ لاہور میں ادبی و علمی روایت و رواج اور رحجان کا حصہ تھی۔ احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، ڈاکٹر آغا سہیل، الطاف فاطمہ، ڈاکٹر خورشید رضوی، منور سعید، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، جاوید احمد قریشی، مرتضی برلاس، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انور سدید، پرتو روہیلہ، عبدالعزیز خالد، صدیقہ بیگم، نورین طلعت عروبہ، نسرین قریشی، سیما پیروز، پیروز بخت قاضی، اسرار زیدی، اشفاق نقوی، اصغر ندیم سید، علامہ غلام شبیر بخاری، برہان فاروقی، سرفراز سید، جاوید طفیل، طفیل ہوشیارپوری، اسلم کولسری، منصور آفاق اور شہزاد احمد جیسی نابغہ روزگار شخصیات سینکڑوں کی تعداد میں باقاعدگی سے قافلہ پڑاؤ میں شرکت کو ایک اعزاز سمجھتی تھیں۔
قافلہ کے ماہانہ پڑاؤ کی گونج اخبار جہاں، اخبار خواتین، فیملی، جنگ، نوائے وقت، مشرق، امروز، پاکستان اور ڈان جیسے قومی جراٸد و اخبارات اور ہفت روزہ آواز جرس کے شماروں میں سناٸی دیا کرتی تھی۔ اسلم کولسری اکثر اس صوفے پر براجمان ہوتے تھے کہ جو دیوار پر آویزاں آنس معین کے پورٹریٹ کے فریم کے نیچے رکھا ہوتا تھا اور شہزاد احمد اکثر اسلم کولسری کے مد مقابل تشریف فرما ہوتے تھے. ایک روز شہزاد احمد نے اسلم کولسری سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے آپ نے تو اپنی نشست بھی مخصوص کر رکھی ہے۔ ان کی اس بات کے جواب میں اسلم کولسری نے فرمایا کہ آنس معین کے زیر سایہ بیٹھ کر یوں سمجھ لیجے کہ آنس معین کی فکر انگیز شاعری سے فیض پاتا ہوں اور بلے صاحب اور آپ سب کو دیکھنا اور سننا اور زیادہ اچھا لگتا ہے۔ یہ سن کر شہزاد احمد مسکرائے اور کہا کہ میں جس سیٹ پر بیٹھتا ہوں مجھے یہ نشست اس لیے پسند ہے کہ آنس معین کو شریک قافلہ پڑاؤ سمجھتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ آنس معین بھی داد دینے والوں میں شامل ہے۔ بل کہ کبھی کبھی تو جب آنس معین کی جانب داد طلب نظروں سے دیکھتا ہوں تو یقین کریں کہ آپ سب سے بڑھ کر آنس معین داد دیتے ہیں. جب کہ عام طور پر جب
آنس معین کی شاعری کے تناظر میں اس پورٹریٹ کو دیکھتا ہوں تو لگتا یہی ہے کہ جیسے آنس معین کہہ رہا ہو کہ

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
( آنس معین )

1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انھیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ 1949،50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔

شہزاد احمد ہمارے بابا جانی سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم ”قافلہ “ کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ میں قافلے کے پڑاؤ کی روایت کو لاہور کی تاریخِ ادب کا روشن باب سمجھتا ہوں، بے شک شہزاد احمد سے ہمارے والد گرامی کا قلبی، ذہنی اور فکری ہم آہنگی کا عجیب بل کہ مثالی تعلق تھا. شہزاد احمد خود کو اعلانیہ طور پر سید فخرالدین بلے کے کام اور کلام کا مداح کہا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سید فخرالدین بلے سے فلسفے، نفسیات، علم الکلام، تاریخ، تصوف اور تنقیدی موضوعات پر گفتگو کرکے مزہ آجاتا ہے۔ ان کا اپنا زاویۂ نگاہ تھا۔ وہ دوسروں کی عینک سے حالات و واقعات کامشاہدہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں بھی ان کے گہرے مطالعے کی غمازی کرتی نظرآتی ہیں۔ شہزاد احمد سید فخرالدین بلے کے دنیا سے چلے جانے پر بے حد دکھی دکھائی دیے اور کہا کہ ان کے ساتھ میرے تعلقات نصف صدی کا قصہ نہیں، اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ بلے بھئی بلے۔ ان کے گھر سجنے والی شعری اور ادبی محفلیں تاریخِ لاہور کا ایک باب ہے۔افسوس! اس زمین نے ایک اور آسمان کو اپنے اندر اتار لیا ہے. ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کو مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔"

شہزاد احمد نے جہاں بحثیت شاعر، محقق اور تنقید نگار کے حوالے سے اپنی صلاحتوں کو تسلیم کروایا وہیں نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کیے اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انھیں انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958ء، نقوش ایورڈ 1989ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997ء بھی مل چکا ہے۔ ماہنامہ ’’بیاض‘‘ لاہور ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام سے ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر چکا ہے۔

مجلس کے سربراہ کی حیثیت سے شہزاد احمد کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہوگی اور انھوں نے جس طرح چیلنج سمجھ کر اس ذمہ داری کو نبھایا ۔
شہزاداحمد کا انتقال 80 برس کی عمر میں یکم اگست 2012 بمطابق 12۔رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ شہزاد احمد کے سوگواران و پس ماندگان میں دو بیٹے اور تین بیٹاں شامل ہیں۔

انھوں نے شاعری کے علاوہ فلسفہ اور سائنس پر بہت کام کیا اور کتابیں لکھیں، مشہور کتابوں میں
”ادھ کھلا دریچہ“
”پیشانی میں سورج“
”جلتی بجھتی آنکھیں“
شامل ہیں۔
انھوں نے متعدد سائنس کی کتب کے ترجمے بھی کیے۔ سائنسی مضامین پر ان کی کتاب 1962ء میں شائع ہوئی۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کے ایڈیٹر بھی رہے۔

جناب شہزاد احمد شہزاد صاحب کا منتخب کلام

شاہ کار غزل 1 : شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے
کتنے بے درد ہیں یہ لوگ زمانے والے

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں
کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی
کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟
آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی
غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری
اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی
خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

کس کو معلوم کہ دن بھر کے تھکے ہارے ہوئے
شام کو اپنے لہو میں ہیں نہانے والے

کیا بتائیں تجھے کیا چیز ہے یہ تشنہ لبی
خشک ہو جاتے ہیں دریا نظر آنے والے

جو بچاتے نہیں کل کے لیے اک دانہ بھی
وہی درویش ہیں عقبیٰ کے خزانے والے

درِ مولا پہ پڑے ہیں تو بڑے ہیں شہزاد
یہ پرندے نہیں اڑ کر کہیں جانے والے

غزل نمبر 2. : شہزاد احمد

رخصت ہوا تو، آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے، یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوش بو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

غزل نمبر ۔ 3 : شہزاداحمد

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اِک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سُناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مُجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا راہ میں آتا کیا ہے

زخمِ دل جُرم نہیں توڑ بھی دے مہرِ سکوت
جو تُجھے جانتے ہیں اُن سے چُھپاتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چُراتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے اُلجھنے والے
تُو مُجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے

چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے
دُھوپ میں بیٹھ کے اب بال سُکھاتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اُٹھا ابرِ کرم
بُجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں ترا کُچھ بھی نہیں ہوں مگر اِتنا تو بتا
دیکھ کر مُجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے

تیرا احساس ذرا سا تری ہستی پایاب
تُو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے

تُجھ میں کس بَل ہے تو دُنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتا کیا ہے

تیری آواز کا جادو نہ چلے گا اُن پر
جاگنے والوں کو شہزادؔ جگاتا کیا ہے

غزل نمبر 4. : شہزاد احمد

گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں

ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں

جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں

جہاں میں کوئی بھی شے بے سَبب نہیں ہوتی
سَبب کوئی بھی ہو، اِنکار ہم سُنیں گے نہیں

عجب نہیں کہ ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں

کِسی بھی خوف سے کیوں چھوڑدیں تِری قُربت
کہیں بھی جائیں، اِس الزام سے بچیں گے نہیں

جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں

ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں

غزل نمبر 5. : شہزاد احمد

تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے

انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آ آ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے

بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے

کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے

آخر کسی کشش نے انھیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک نہ آئے تھے آکر پلٹ گئے

پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آسکی
پس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اَٹ گئے

بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے

اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے

پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے

کچھ سرد تھی ہوا بھی نظر کے دیار کی
کچھ ہم بھی اپنے خول کے اندر سمٹ گئے

ہر سُو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخِ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے

شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے

غزل نمبر ۔ 6. : شہزاد احمد

یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے

دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے

سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے

اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے

اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے

شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے

نظم : شہزاد احمد

ہم اور ہوا
گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا
میری بھی تقدیر رہا ہے
تم نے بھی دُنیا دیکھی ہے
پھر بھی جب ہم ملتے ہیں
بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں
تم کہتی ہو
آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا
میں کہتا ہوں
میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے
تم کہتی ہو
میرا دل دوشیزہ دھرتی جیسا ہے
میں کہتا ہوں
میں اس دوشیزہ دھرتی کی پہلی بارش ہوں
لیکن ہم پہ ہوا ہنستی ہے
پیار سے آکے لپٹ جاتی ہے
اور کہتی ہے
میں بھی پہلی بار چلی ہوں۔

غزل نمبر 7. : شہزاد احمد

کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیارِ بے خودی میں اب تیرے قابل ہو گیا ہوں میں

سرِ محفل بہ اندازِ تغافل دیکھنے والے
تیری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں

بگولوں کی طرح اڑتا پھرا ہوں شوقِ منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاکِ منزل ہو گیا ہوں میں

میری ساحل نشینی انتظارِ سیلِ بے پایاں
انھیں ڈر ہے کہ اب پابندِ ساحل ہو گیا ہوں میں

تمھاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ قائل ہو گیا ہوں میں

میری سب زندگی شہزاد اسی عالم میں گزری ہے
کبھی ان سے کبھی غم سے مقابل ہو گیا ہوں میں

غزل 8. : شہزاد احمد
چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی

وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی

وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی

بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی

غزل 9. : شہزاد احمد
حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے

مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے

اے میرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاد
سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دِیا لگتا ہے

شہزاد احمد اور سید فخرالدین بلے ۔ داستان رفاقت
(ایک طویل مضمون سے اقتباس)
آپ یہ بھی ملاحظہ فرمائیں : مسعود اشعر ملتانی اور سید فخرالدین بلے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے