وڈیو لیک کلچر پر پابندی ناگزیر

وڈیو لیک کلچر پر پابندی ناگزیر

سید عارف سعید بخاری، پاکستان 
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com

سوشل میڈیا کی وجہ سے ”وڈیوزلیک کلچر“ مسلسل وسعت پا رہا ہے۔ پہلے ہی رشوت اور سفارش کے باعث ہر شعبے میں متعلقہ تجربے سے نابلد ان پڑھ اور جاہل لوگ سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ عدلیہ، پولیس، میڈیکل، تعلیم، میڈیا اور انتظامیہ میں موجود لوگ ملک و ملت کے ساتھ ساتھ آیندہ نسلوں کی تباہی کی ایک ایسی بھیانک تاریخ لکھ رہے ہیں کہ جس کے اثرات کئی نسلوں کو انسانی حرمت و تعظیم سے کوسوں دور کرکے رکھ دیں گے۔ ہم تو شاید دنیا میں نہ رہیں لیکن قوم سوچ و فکر کی جس ڈگر پر آگے بڑھ رہی ہے، اس کے بد اثرات سے آنے والی نسلیں بچ نہیں پائیں گی. جدید ٹیکنالوجی سے حاصل بے پناہ سہولیات کی وجہ سے ناخواندہ لوگ اس کا غیر ضروری استعمال کرنے میں لگے ہیں۔
پیسہ اہم انسانی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے مسلم امہ خاص طور سے پاکستانی مسلمانوں کو اس طرح ”ڈالر“ کے چکر میں ڈال دیا ہے کہ ناخواندہ اور تعلیم یافتہ عوام و خواص نے ”یو ٹیوب“ پر اپنے اپنے چینلز بنا لیے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں ”اے بی سی“ بھی لکھنی نہیں آتی وہ بھی اپنا چینلز بنا کر دنیا کو بے مقصد اور واہیات خبریں اور وڈیوز دکھا کر ”بی بی سی“ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یو ٹیوب پرویب چینل بنانے کے لیے کوئی پالیسی نہیں۔ نیٹ یوزر جب چاہے اپنا چینل بنا لے۔ اس کے لیے کسی بڑے سیٹ اپ کی ضرورت نہیں۔ بس بندہ ایک قیمتی موبائل یا کوئی کیمرہ خرید لے اور سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے نکل جائے، جہاں کہیں کوئی ظلم کرتا نظر آئے، اس کی فوری وڈیو بناکر بریکنگ نیوز کے طورپر سوشل میڈیا، یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام یا واٹس ایپ پر وائرل کر دے۔ ایسی وڈیوز وائرل ہوتے ہی ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوجاتا ہے۔ مذکورہ وڈیومیں دکھائے گئے ظلم کی بنیاد پر ہر چینل والا نت نئی کہانیاں اور وڈیوز بنا بناکر اپنا اپنا فلسفہ جھاڑنے میں لگ جاتا ہے۔ خواتین اس دھندے سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ جوں ہی کوئی عورت کسی قسم کی وڈیو وائرل کرتی ہے۔ بھائی لوگ سب کام چھوڑ کر اسی وڈیو کو پھیلانے میں لگ جاتے ہیں۔ پڑوسی ممالک میں ہونے والے ظلم کی وڈیوز بھی پاکستان کے ٹیگ کے ساتھ پوسٹ کرنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حقیقت کسی وقت بھی بے نقاب ہو سکتی ہے۔ ہمارا عدالتی سسٹم ایسا ہے کہ کوئی بھی کیس سال ہا سال چلتا ہے اور آخر کار شہادتیں نہ ہونے کی بنا پر ملزم بّری کر دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگ اس وڈیو کلچر کی وجہ سے بدنامی کے اس غار میں دھکیل دیے گئے کہ جہاں سے اُن کی واپسی نہیں ہو سکی یا انھوں نے خودکشی کر لی۔ لیکن آج تک ایسے کسی ظالم شخص کو نشان عبرت نہیں بنایا جا سکا۔
کردار و عمل کو دیکھیں تو ہم خود کسی فرشتے سے کم نہیں۔ لیکن دوسرا ہر بندہ ہماری نظرمیں چور، ڈاکو، شرابی، ناخلف اور بدکار ہی ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم لوگوں کو غلط سمجھتے ہیں تو لوگ ہمیں بھی درست خیال نہیں کرتے۔ معاشرے میں اعتماد ناپید ہو چکا۔ نیکی اور ہم دردی کرنے والے کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔ جتنا کوئی کسی سے میٹھے بول بولتا ہے اتنا ہی اسے کمینہ سمجھا جاتا ہے، اور بعض لوگ حقیقت میں ”میٹھے“ (چاپلوس) بن کر انسان کو برباد کر دیتے ہیں۔
اقبال پارک لاہور میں 14 اگست کو ”ٹک ٹاکر خاتون“ کی بے حرمتی کے حوالے سے صرف اس واقعے کی 100 سے زیادہ وڈیوز وائرل کی گئیں۔ جب کہ عائشہ اکرم کے علاوہ بھی دو اور فیملیز کے ساتھ بیہودگی کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔اور اب (نواب شاہ، سندھ) میں ایک خاتون میڈیکل آفیسر کے ساتھ گائناکالوجسٹ لیڈی ڈاکٹر کے حوالے سے وڈیو وائرل کر دی گئی ہے۔ کیا یہی ہمارا کلچر ہے کہ کہیں کوئی ظلم ہورہا ہو تو ہم مظلوم کی مدد کی بجائے فوری وڈیوز بنائیں اور انھیں سوشل میڈیا پر چڑھا کر لوگوں کو ایک نئی بحث میں ڈال دیں۔ فوٹو شاپ سے ہم ایسی ایسی وڈیوز ایڈٹ کرکے سوشل میڈیا پرڈال رہے ہیں کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ المیہ یہ ہے کہ جب تک کسی بوگس وڈیو کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے۔ بندہ ناکردہ جرم کا داغ لیے اس دنیا سے ہی رخصت ہو جاتا ہے۔ کسی بھی واقعہ پر جہاں بیسیوں ”خواجہ سرا“ قسم کے لوگوںکا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے۔ وہاں انسانی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں لیکن شرفا مدد کی ہمت رکھنے کے باوجود محض پولیس کی وجہ سے کسی مظلوم کی مدد کرنے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ اگر مدد کی صورت کوئی انہونی ہوجائے تو اس کا خمیازہ بھی اسی”خدائی خدمت گار“ کو بھگتنا پڑتا ہے۔بارہا ایسا بھی ہو چکا کہ مظلوم کی مدد کے لیے کسی بھی جگہ مداخلت کرنے والے کو ہی گولی مار دی جاتی ہے۔ اور اگر گولی نہ بھی ماری جائے تو پولیس ایسے خدمت گار کو انعام دینے کی بجائے اسے ہی فٹ بال بنا کر رکھ دیتی ہے۔ صبح شام گواہی کے چکر میں یا پیسے بٹورنے کے لیے خدمت گار کو پریشان کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت سڑکوں پر سسک رہی ہوتی ہے لیکن کوئی مدد کو آگے نہیں بڑھتا۔ ظلم و زیادتی کی وڈیوز بنانا اور انھیں وائرل کرنے کا عارضہ”کوروناوائرس“ سے بھی زیادہ خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ اور یہ ہماری رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، ہر دوسرے فرد کے پاس موبائل بھی موجود ہے۔ لمحے لمحے کی وڈیوز بنائی جا رہی ہیں اس کے باوجود انسانیت سسک رہی ہے۔ حوا کی بیٹی لٹ رہی ہے، بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کی عزتیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ بعض لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کمروں میں اپنے اپنے کاروبار کا ایسا ڈھونگ رچا رکھا ہے کہ جس کا مقصد ملازمت کے لیے آنے والی بچیوں کی عزتوں سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے نام نہاد اداروں کے مالکان کے تمام تر کرتوتوں سے پولیس اور اداروں والے اچھے سے آگاہ ہیں۔ لیکن اس کا کیا علاج، کہ یہ لوگ خود انہی عیاش لوگوں کی مدد سے اپنی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والی لڑکیوں کی وڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل کرنے کا دھندہ بھی عروج پر پہنچ چکا ہے۔ دفاتر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے وڈیوز نکال کر وائرل کر دی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ظلم و زیادتی کے حوالے سے وڈیوز بنانے اور انھیں وائرل کرنے کے دھندے پر پابندی لگائی جائے اور اسے بھی ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔ معاشرے کی اسلامی و اعلا اخلاقی اقدار کو ان ناہنجار لوگوں سے بچانے کے لیے ایران، سعودی عرب اور افغانستان کی طرز پر فوری سزاؤں کا ایسا نظام لانا ہوگا کہ کسی کو بھی اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انسانیت کا جنازہ نکالنے کی جرات نہ ہو، قومیں اپنے کردار و عمل سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہم ایک مسلم ملک کے باشندے ہیں لیکن دنیا ہمارے پر ہنس رہی ہے۔ اور ہم دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر جعلی و اصلی وڈیوز کے ذریعے ملک وملت کی جگ ہنسائی کا سامان کر رہے ہیں۔آخر کب تک ہم اللہ کے عذاب سے خود کو بچائیں گے۔

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: عورت کی عزت اور تماش بین معاشرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے