قومی اثاثہ جات کی فروخت، مودی حکومت کا ایک اور’ کارنامہ `

قومی اثاثہ جات کی فروخت، مودی حکومت کا ایک اور’ کارنامہ `

✒️سرفراز احمد قاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

مودی حکومت کی گذشتہ سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے اور ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ملکی عوام کی فلاح و بہبود اور تعمیر وترقی کے لیے موجودہ حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ملک کو اور عوام کو کوئی فائدہ ہو، ہاں لیکن ایسے بہت سارے ‘کارنامے` انجام دیے گئے جس سے لوگوں کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے، یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ہے اور حکومت کی من مانی پالیسیوں کی وجہ سے یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا جا رہاہے، عوام کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں، اس کو حل کرنے اور سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کے بجائے’ڈکٹیٹر شپ` کا راستہ اختیار کیا جا رہاہے، ملک کے عوامی مسائل روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، لیکن ایسا لگتاہے کہ حکومت ان ساری چیزوں سے دانستہ طور پر چشم پوشی کررہی ہے، اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ قومی اداروں کو چن چن کر فروخت کرنے کا عمل شروع کردیا گیاہے، "نیشنل مونیٹائیزیشن پائپ لائن" کے نام سے ایک اسکیم شروع کی گئی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے کلیدی شعبوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا جو پہلے سے ہی جاری ہے اس میں مزید شدت پیدا کی جائے گی، جسے ‘رہن اسکیم` کہنا بے جا نہ ہوگا، گویا ملک کو رہن اور گروی رکھنے کا عمل شروع ہوچکا ہے،
اخباری رپورٹ کے مطابق مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رمن کو مودی حکومت نے متعدد اہم شعبوں میں خانگی کمپنیوں کی مداخلت کے منصوبے کا اعلان کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے، سیتارمن کے مطابق نیشنل مونیٹائیزیشن پائپ لائن کے تحت روڈ اور ریلوے اثاثوں سے لے کر ایرپورٹس، پاور ٹرانمیشن لائن، گیس پائپ لائن اور ٹیلی کام کمپنیاں جیسے وسیع شعبوں کا احاطہ کیاجائے گا، اور یہ کمپنیاں پرائیویٹ سیکٹر کے لیے دست یاب ہوں گی، وزیر فینانس کی وضاحت کے مطابق روڈ، ٹرانسپورٹ، ہائی ویز، ریلوے، برقی، پائپ لائن، قدرتی گیس، شہری ہوابازی، جہاز رانی، بندرگاہیں، آبی گذرگاہیں، مواصلات، فوڈ اور پبلک ڈسٹریبیوشن، کان کنی، کوئلہ، ہاؤزنگ اور شہری امور کی وزارتیں اس اسکیم کا حصہ ہوں گی، سیتارمن کا دعویٰ ہے کہ ان سارے عمل سے رقمی قدر پیدا ہوگی اور معیشت کے لیے وسائل ابھر آئیں گے، سوال یہ ہے کہ گذشتہ سات سال میں مودی حکومت نے جتنے دعوے اور وعدے کیے اب تک اس کے برعکس ہی ہوتا رہا اور کوئی ایک بھی ایسا وعدہ اب تک پورا نہیں کیا گیا جو عوامی فلاح و بہبود سے متعلق ہو، پھر وزیر فینانس کی باتوں پر کیسے اعتبار کیاجائے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ نرملا سیتارمن نے مرکزی بجٹ 2021 جب پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا تو اس میں اس اسکیم کے تعلق سے بات کی تھی، اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت مالیات اکٹھا کرنے کے اختراعی طریقے تلاش کررہی ہے، ایک اخبار کے مطابق’ اثاثوں سے رقمی قدر حاصل کرنے کا عمل ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے نئے وسائل اور مالیات اکٹھے کئے جاتے ہیں، تاکہ بنیادی ڈھانچے کے فروغ میں مدد مل سکے`محکمہ سرمایہ کاری اور پبلک اسٹیٹ مینیجمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کم تر استعمال شدہ یا لیت و لعل کے شکار اثاثوں کو قوم کے لیے بہتر طور پر استعمال کرنے کے اختراعی طریقے کو اسٹیٹ مونیٹائزیشن کہتے ہیں، پہلے ہی حکومت نے ملک میں سرکاری ٹیلی کام کمپنیوں کو عملا ختم کردیا ہے، ملک بھر میں نیٹ ورک رکھنے والی بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل کو بتدریج ختم کردیا گیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ان کمپنیوں کے ملازمین کو رضاکارانہ سبک دوشی کے لیے تیار کیا گیا، اور خانگی کمپنیوں کو فروغ دیا گیا، خانگی کمپنیوں کے اشتہار میں وزیر اعظم ہند کی تصویر استعمال کی گئی، جس سے حکومت کی ترجیحات اور اس کے منصوبوں کا پتہ چلتا ہے، اس کے علاوہ اسٹیل کمپنیوں میں ملازمین کی تخفیف کرتے ہوئے انھیں بھی غیر کار کرد بتاکر پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کردیا گیا، حکومت مسلسل اس منصوبے کو آگے بڑھاتی جارہی ہے، جس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ یہ حکومت دھیرے دھیرے "ایسٹ انڈیا کمپنی" کی راہ پر چل رہی ہے، نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن کے آغاز کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کے رہے سہے اثاثہ جات کو خانگی شعبے کے سپرد کرکے ملک کو کنگال بنادیا جائے گا، 70سال میں ملک نے جو انتہائی مشقت اور جان فشانی کے ساتھ قومی ادارے قائم کئے، مودی حکومت ایسے تمام قومی اداروں کو فروخت کرنے پرتلی ہوئی ہے، اور یکے بعد دیگرے ایسے تمام قومی اثاثہ جات کو خانگی اداروں کے حوالے کیا جارہا ہے، موجودہ حکومت کے دور میں کوئی ایک بڑا قومی ادارہ یا اثاثہ قائم نہیں کیاگیا بل کہ جو پہلے سے موجود اثاثہ جات ہیں انھیں بھی فروخت کرتے ہوئے ملک کو کنگال کیا جا رہا ہے، خانگی ادارے اور کمپنیاں برابر مالا مال ہورہی ہیں اور ملک کے عوام کنگال اور مفلوک الحال ہوتے جارہے ہیں، مودی حکومت ملک میں انتہائی مؤثر حکمرانی کے دعوے کرتی ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ ستر سال کے دوران جو کام نہیں کیے گئے تھے وہ کام مودی حکومت کی دو میعادوں میں کیے جارہے ہیں، حقیقتاً اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ ستر سال میں ملک میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی تمام ہی حکومتوں نے ملک کے اثاثہ جات میں اضافہ کیا تھا، حکومت اور عوامی شعبے کو مالا مال کیا تھا، بے شمار ادارے اور کمپنیاں قائم کی گئی تھیں تاکہ ان کمپنیوں اور اداروں سے سرکاری خزانے کو مدد مل سکے، لاکھوں افراد کو روزگار حاصل ہو رہے تھے، حکومتی اداروں کی کارکردگی بھی ٹھیک ٹھاک رہی تھی، کچھ اداروں کی کارکردگی تو بہت شان دار رہی تھی لیکن ایسا لگتاہے کہ مرکزی حکومت تمام قومی اثاثہ جات کو خانگی اداروں اور کمپنیوں کے سپرد کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، حکومت کے مشیر اس ڈھنگ سے یہ کام کررہے ہیں کہ جن کے اثرات کو عام آدمی سمجھنے کےلیے تیار نہیں ہے، ذرائع ابلاغ اور قومی میڈیا بھی اب اپنی ذمہ داریاں شاید فراموش کرچکے ہیں، چاپلوسی اور کاسہ لیسی اب میڈیا اداروں کا بنیادی مقصد بن چکا ہے، حکومت ایک منظم پلان کے تحت اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کررہی ہے اور من مانی فیصلہ کرتے ہوئے قومی اثاثہ جات کو قربان کیا جا رہا ہے، حکومت کے متعدد فیصلوں سے مٹھی بھر کارپوریٹس کو فائدہ پہنچا ہے، جو بی جے پی یا پھر مرکزی حکومت کے حاشیہ بردار ہیں، عوامی شعبے کو بتدریج ختم کرنے کی سمت حکومت اپنے اقدامات سے پیش رفت کرتی جارہی ہے جو بہر حال تشویش ناک ہے، حکومت ہر معاملے کی طرح اس فیصلے پر بھی مدح سرائی میں مصروف ہے، لیکن اپوزیشن لیڈران نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کو فروخت کرنے کے مترادف قرار دیاہے، اس اسکیم کے تحت مودی حکومت نے آئندہ 4 سال کے دوران 6 لاکھ کروڑ روپے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے کہا کہ” سرکاری اثاثوں کو فروخت کرنے کا مودی حکومت کا فیصلہ من مانی اور اسکینڈل ہے، لہذا اس پر بحث ہونی چاہئے، ملک نے ستر سال میں جو کچھ حاصل کیا ہے مودی حکومت نے ایک جھٹکے میں اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تعجب کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں کسانوں، نوجوانوں یا اپوزیشن سے کوئی مشورہ یا اس معاملے پر کسی طرح کا غور وخوض نہیں کیا گیا ہے اور چپ چاپ یہ فیصلہ کرکے ملک کے مستقبل کو اندھیرے میں ڈھکیلا گیا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ مودی حکومت معاشی سطح پر ہمیشہ ناکام ثابت ہوئی ہے، اور اس کی معاشی بد انتظامی کے سبب ملک، معاشی بحران میں پھنستا گیا، لیکن اس بحران سے نکلنے کا جوراستہ تلاش کیا گیا ہے وہ بہت خطرناک ہے اور اس سے ملک کا بھلا ہونے والا نہیں ہے"
کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ میں شدید رد عمل کے طو رپر کہا کہ عوام کی محنت سے بنی ملک کی کروڑوں روپے کی جائیداد موجودہ حکومت اپنے دوستوں کے حوالے کررہی ہے، آزادی کے بعد ملک نے جو دولت بنائی ہے اسے مودی حکومت اپنے دوستوں کے درمیان لٹارہی ہے، یہ سرکار، 70برسوں میں ملک کے عوام کی محنت سے بنائی گئی لاکھوں کروڑ روپے کی املاک اپنے ارب پتی دوستوں کو دے رہی ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت آتم نربھر یعنی خود کفیل کا نعرہ دے رہی ہے لیکن اس نے ملک کو ارب پتی دوستوں پر منحصر کر دیا ہے، کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "مرکزی حکومت نے سب کچھ فروخت کردیا ہے، نوجوانوں سے روزگار چھین لیا گیا، پی ایم مودی صرف اپنے متروں کی مدد کر رہے ہیں،" انھوں نے حکومت کی کئی پالیسیوں کو نشانہ بنایا اور کہا کہ سڑک، ریلوے، برقی، پٹرولیم، پائپ لائن، ٹیلی کام، ویر ہاؤسنگ، کان کنی، ایرپورٹ، بندرگاہ اور اسٹیڈیم وغیرہ یہ سب کس کو دیا جا رہاہے؟ ان سب کو بنانے میں ستر سال لگے ہیں، یہ صرف تین چار لوگوں کو تحفے میں دیا جا رہا ہے، ملک کے عوام کا مستقبل فروخت کیا جارہا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے وقت بھی ایسی ہی اجارہ داری تھی، ہم دوبارہ غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں"
کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے بھی اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ” بی جے پی کے دورحکومت میں ملک کے اثاثہ جات محفوظ نہیں ہیں، ملک کی 6 لاکھ کروڑ کی جائداد کی فروخت کی جارہی ہے، سڑکیں، ریل، کانیں، ٹیلی کام، گیس، ہوائی اڈے، بندرگاہیں، کھیلوں کے اسٹیڈیم، سب کچھ، مودی جی زمین سے آسمان تک سب کچھ فروخت کردیں گے"
قومی اثاثہ جات کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کرنے کا یہ فیصلہ اچانک نہیں لیا گیا ہے بل کہ مرکزی حکومت کی ترجیحات میں ابتدا سے ہی خانگیانے کا عمل شامل ہے، یہ حکومت کا سوچا سمجھا اور منصوبہ بند طریقے سے اٹھایا گیا قدم ہے، آپ کو شاید یاد ہوگا کہ وزیر اعظم مودی نے جاریہ سال کے شروع میں ہی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ”حکومت مالیاتی جنگ اور جدید کاری کے منتر پر آگے بڑھ رہی ہے، اور اسی سلسلے میں تیل، گیس، بندرگاہ، ہوائی اڈے جیسے شعبوں میں تقریباً 100 اثاثوں کے مونیٹائیزیشن کا ہدف رکھا گیا ہے، مودی نے خانگیانے اور جائیداد مالیاتی جنگ سے متعلق ایک ویب نار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے پاس حکومت کے کنٹرول میں بہت ساری صلاحیت سے کم استعمال اور غیر استعمال جائیدادیں ہیں، اس سوچ کے ساتھ ہی قومی اثاثہ مونیٹائیزیشن پائپ لائن کا اعلان کیا گیا ہے، وزیراعظم نے واضح کیا تھا کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، اور ان کی حکومت اسٹریجک شعبوں میں کچھ پبلک سیکٹر کے شعبوں کو چھوڑ کر باقی انٹرپرائز کو خانگیانے کے لیے پرعزم ہے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سرکاری کمپنیوں کو صرف اس لیے نہیں چلانا چاہیے کہ وہ وراثت میں حاصل ہوئی ہیں، بیمار پبلک سکیٹر کو مالی مدد کی فراہمی سے معیشت پر بوجھ پڑتاہے" اس سے حکومت کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حکومت کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم ملک اور ملک کے عوام کے لیے کتنا سودمند ہوگا یا کتنا نقصان دہ ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ماہرین نے اس فیصلے پر تشويش اور کئی طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، حکومت کی ترجیحات اور اقدام سے اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ اس حکومت کو غریبوں، بے روزگاروں اور پریشان حال لوگوں کے مسائل کے حل میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، لاک ڈاؤن وغیرہ کے موقعے پر پورے ملک نے اس کا مشاہدہ کیا، اب جو انتہائی بڑے پیمانے پر حکومت نے خانگی شعبے کے لیے دروازے کھول دیے ہیں، ان پر عوام کو حکومت سے جواب طلب کرنا چاہئے، جو وقت کی اہم ضرورت ہے.
کیوں کہ پارلیمنٹ میں یہ حکومت سوالوں کاسامنا نہیں کرنا چاہتی، طاقت کے بل پر بغیر بحث کے بل پاس کرواتی ہے، حکومت اس اسکیم کے ذریعے 6 لاکھ کروڑ روپے جمع کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اوراس کو کچھ مخصوص شعبہ جات پر خرچ کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، اب تک عوام سے مختلف حیلے اور بہانوں سے ہزاروں نہیں بل کہ لاکھوں کروڑ روپے اینٹھے گئے ہیں، ان کا کوئی حساب کتاب نہیں دیا جا رہا ہے، صرف بھاری رقومات کے پیکج کااعلان کرکے لوگوں کووقتی طور پر خوش کیا جارہا ہے، لیکن حقیقت میں عوام تک کچھ نہیں پہنچ رہا ہے، بل کہ عوامی شعبے کو مزید کنگال کرتے ہوئے پرائیویٹ کمپنیوں اور کارپوریٹس کو نوازا جا رہا ہے، جس کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ عوام کو مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، ورنہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پورے ملک کو گروی رکھ دیاجائےگا۔ملک کی جوحالت اس وقت ہے تاریخ میں اتنی بری حالت شاید کبھی نہیں ہوئی، انتہائی سنگین حالات سے ہمارا ملک دوچار ہے. ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے، اس کا تعیّن تو ہونا چاہیے۔ تاکہ آگے کے لیے ہم کوئی لائحہ عمل طے کرسکیں.

(مضمون نگار کل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
مضمون نگار یہ تحریر بھی پڑھیں :جبین دہر پہ یاد حسینؓ باقی ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے