تنویر احمد تما پوری کے افسانہ رومانہ کا تجزیہ

تنویر احمد تما پوری کے افسانہ رومانہ کا تجزیہ

نثارانجم
زیر مطالعہ افسانہ ایک رومانی فینتاسی fantasy ہے۔ یہاں دو تہذیبوں کے اختلاط میں بنتی اور گہناتی ہوئی محبت کی شدت کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
قاری لمحے بھر کے لیے راوی کے نیورون میں بنتی ان تصویروں کےچھلا وے کو دیکھ سکتا ہے۔ اعصاب پر کسی کردار سے انسیت کی انتہا جہاں نفس فرضی تصویروں کے ذریعہ apprehension
فریب نظری پیدا کرتا ہے. جب کہ آس پاس ایسی چیزوں کو نہ صرف ہم دیکھتے ہیں بل کہ آوازیں بھی سنتے ہیں۔ اسے نفسیات میں Hallucination کہتے ہیں۔ زیر مطالعہ افسانے میں راوی کی اس نفسیاتی شدت کو نہیں دکھایا گیا ہے۔ سب کچھ نارمل سالگ رہا ہے۔ پھر یہ فریب نظری کا panic episode کیوں کر۔۔۔۔۔
بہر حال مذکورہ افسانہ رومان سے رشتہ ازدواج تک، وصال سے جدائی تک کا ایک نیا رومانٹک سافٹ وئئر ہے جس کا app زندگی کے پلے اسٹور سے
End use licence agreement
(EULA)
کی رضامندی کے بعد انسٹال کیا گیا ہے۔ رومانہ اس افسانے کی ہیروئین ہے، جو راوی کی زندگی کے email میں ایک ری ڈائیرکٹ الیکٹرونک میل کی طرح کسی Gps لوکیشن ٹریکنگ گلچ کی وجہ سے آدھمکی ہے اور روم میٹ بن گئ ہے۔ پھر دھیرے دھیرے دو دلوں سے رشتوں کے ریشم کی ڈور کسی جذبے کی طرح باہر نکلتے رہتے ہیں۔ دو قریب آتے ہوۓ دلوں کی اچھی اور فطری مرقع کشی کی گئ ہے۔
"کبھی کبھی مسکرا بھی لیتی تو لگتا بندوق کی نال پر دستخط کررہی ہے۔"
فطری اصولوں پر پنپنے والی محبت کو پوری جزئیات نگاری کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ایسا کرنے میں اسلوب میں انشائیہ رنگ colour pallet جیسا آگیا ہے جو بے جوڑ نہیں لگتا البتہ افسانے کو رومانیت کے احساسات سے مالا مال ضرور کرتا ہے۔
"چندا ماما کی طرح دور ہی سے درشن دیتی رہی اور میرے سارے چندرائین نامراد لوٹتے رہے. "
محبت کے ان ابتدائی مراحل کے دوران رشتوں کا یہ مشرقی ایپی سوڈ چائے کافی سے شروع ہوکر ” مارٹینی" اور "وڈکا" تک پہنچتا ہے۔ مغربی آب و ہوا میں پرورش پانے والی مشرقی قدروں کو سینے سے چمٹاۓ رکھنے والی رومانہ مارٹینی سے برانڈی تک پہنچ گئ۔
افسانہ نگار نے رومانی سر مستی کے بیان میں لفظ کے وقار اور قلم کی عصمت کا خوب خیال رکھا ہے۔لغزشوں سے اور عریانیت سے بچنے کا یہ اہتمام دیکھیں۔
"خواب ناک سی خوش بو، سب نے مل کر دماغ پر چڑھے رومان کو ایڑ لگادی۔ برانڈی بے لگام ہوگئی۔ میری دست درازیاں، اس کی نیم دل مزاحمت ۔ بہی کھاتے کھل ہی جاتے مگر وہ رومانہ تھی۔"
دو کلچر کے ترجمان محبت کو نظام شمشی کا مرکز مان وہ ایک دوسرے سے رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی surfing کے دوران ایک پڑاؤ وہ آتا ہے جب تصادم فکر سے اس ریشم کی مضبوط گانٹھ ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔ رشتوں کی ڈور سرکنے لگتی ہے۔ یہیں سے افسانے میں ایک فسوں پیدا ہوتا ہے اور انتہا پر افسانے کے بین السطور
میں وہ کھلتا ہے جواس افسانے کا اصل مقصود ہے، جب رومانہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوجاتی ہے۔
"وہاں رومانہ کا نام و نشان نہیں تھا۔ تاہم جا بجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی تھیں۔ صابن، شیمپو اور دیگر لوشنوں کے باوجود رومانہ کی خوش بو کو میں الگ سے محسوس کررہا تھا۔ نیلگوں روشنی میں بسی اس کے جسم کی خنکی یہیں کہیں اس کی موجودگی کی گواہی دی رہی تھی۔"
رومانہ، رومان اور اسلوب میں شگفتہ شعری آہنگ کا شاہ کار ہے۔ جسے نئے تراکیب، انشائیہ فکری گل بوٹے، مشرقی نین و نقش کے آئینہ خیال میں شباب اور رس سے گوندھ کر مشرقی قوام میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ تصویر دیکھیں:
"اس کی مشرقی حیا راستے کا روڑہ تھی اور عین وقت پر جاگ گئی۔ لہذااس کا بیڈروم اس رات بھی کنچن چنگا کی چوٹیوں کی مانند صاف ستھرا، یخ بستہ اور مقدس ہی بنا رہا۔"
رومان سے ازدواجی زندگی تک، رشتوں کی شیرینی سے اس کی کڑواہٹ تک، حسین حقائق سے فنٹاسی fantasy تک کے واقعات کو دل آویز انشائیہ پیرایہ اظہار میں بیان کیا گیا ہے۔
ایک رومانی جوڑے کی شگفتہ، تمثیلی پیراۓ میں تعارف کرایا گیا ہے ۔
یہاں از دواجی زندگی میں در آئی نا چاقی indifferences بھی ہے۔ جو دل کی سرزمین پر رومانی سافٹ ویئر انسٹال کرتے وقت accept the cookies کی اجازت سے رشتوں میں ترشی آگئ تھی۔ رشتوں کی ری سائیکل بن، غصہ، نفرت، انا کے فضلے سے بھرا ہو ہے۔ انا کے لیے ایک معمولی سی بات کتنی اہمیت اختیار کرگئی کہ دونوں کے بیچ گہری کھائی بن گئی۔ سطح اور کھائی کی دوری کو پاٹنے کے لیے راوی نے کوششیں کی تھیں لیکن رومانہ بھی اپنے موقف پرڈتی رہی۔
اب کافی دیر ہوچکی تھی. راوی کے اندر کا مشرقی مرد جاگ اٹھا ۔ "پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک تھپڑ"۔۔۔
محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ جو زبان اورکلچر کے تقاضوں سے اوپر اٹھ کراپنی نمو خود کرتا ہے۔ رومانہ کلچرڈ ہے. مغرب میں فکری آبیاری کے بعد بھی کئ معاملوں میں اپنی مشرقی روایتوں کے احترام میں پکی ہے. خصوصا جنس کے معاملے میں مشرق کلچرڈ ہے لیکن مارٹینی اور برانڈی سے انکار نہیں کرتی۔ یہاں دونوں کرداروں میں محبت کا جذبہ اسی بلندی پر ہے۔ تہذیبی تصادم اور اختلاط فکر نے عارضی طور پر محبت کے چاند کو گہنا دیا تھا لیکن روحانی چاہت سے ہنوز روشنی چھن کر آتی تھی. چاہت کی وہ چاندنی ہی تھی جو بجھنے کے بعد بھی کسی کے لاشعور میں ٹمٹمٹا رہی تھی جس کے جسم کی خوش بو کی موجودگی کو محسوس کررہا تھا۔
ایک اچھے افسانے پر مبارک باد.
افسانہ یہاں پڑھیں : رومانہ
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ کریں : کریم لگا بسکٹ اور چوینٹیاں: تاثرات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے