جبین دہر پہ یاد حسینؓ باقی ہے!

جبین دہر پہ یاد حسینؓ باقی ہے!

✒️ سرفراز احمدقاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

ماہ محرم الحرام کا شمار ان مہینوں میں کیا جاتا ہے جسے اسلام نے حرمت اور عظمت والا مہینہ قرار دیا ہے، یہ اسلام کا پہلا مہینہ بھی ہے، چار مہینے ایسے ہیں جسے اسلام نے محترم اور باعظمت قرار دیاہے، ان میں ایک تو اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام، رجب المرجب، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہے، یہ چاروں عظمت اورحرمت والے مہینے ہیں، زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کو محترم سمجھاجاتاتھا اور ان میں جنگ و قتال کو حرام جانتے تھے، ظہور اسلام کے بعد ان چاروں مہینوں کی عظمت و حرمت اور فضیلت مزید بڑھ گئی، چناں چہ ارشاد ربانی ہے کہ’ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو’ پھر ان چار مہینوں میں محرم الحرام کو خصوصی فضیلت و اہمیت حاصل ہے، رسول اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا "رمضان کے بعد تمام مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں" ایک دوسری جگہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ”ایام محرم میں سے ایک یوم کا روزہ دوسرے مہینوں کے ایک ماہ کے برابر ہے" (بارہ مہینوں کی بارہ تقریریں)
مولانا غلام نبی کشمیریؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ” بے شک مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں، احادیث و آثار سے عربی مہینوں کی فضیلت وعظمت کا ثبوت ملتاہے، گو بعض مہینوں کو شریعت کے کچھ احکام ومسائل اور اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بعض پر فوقیت حاصل ہے، تاہم ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی اہم واقعہ ضرور رونما ہواہے، جس کا اسلامی تاریخ سے ایک گہرا ربط ہے، دیگر مذاہب میں ایام و شہور کو جو اہمیت حاصل رہی ہے اور حاصل ہے، اس کا تعلق رسم و رواج سے زیادہ ہے اورمذہب سے کم، مگر شریعت اسلامیہ میں ایام و شہور کی ایک مذہبی حیثیت بھی ہے، جس کا ذکر قرآن و حدیث میں واضح طور پر ملتاہے، اس لیے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کس مہینے میں کون سا اسلامی واقعہ پیش آیا. مثلاً رسول اکرم ﷺ کی ولادت، ہجرت، نکاح، آغازِ وحی، شب معراج، نماز کی فرضیت، شب برات، نزولِ قرآن، فرضیت صیام، غزوات، فتح مکہ، حجة الوداع، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پیدائش، نکاح، رخصتی، جہاد، قربانی، حج، شہادت حسینؓ وغیرہ جیسے اہم واقعات کی تاریخی حیثیت کا جاننا ضروری ہے".
دوسرے مہینوں کے علاوہ ایسے بہت سارے اہم واقعات ہیں جو اس ماہ میں پیش آئے، اسی ماہ میں عاشورہ کا روزہ بھی فرض ہوا، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ”رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ سرکارِ دوعالم ﷺ پر فرض تھا لیکن رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد ایک قوم کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور دوسری قوم کی توبہ قبول فرمائےگا"
علما نے لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ نے جب بھول کر شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا پھر اس کے نتیجے میں انھیں اپنی خطا کا احساس ہوا تو کئی برس تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے، توبہ استغفار کرتے رہے، جس دن آپ کی توبہ قبول ہوئی وہ محرم الحرام کا ہی مہینہ تھا، اسی طرح حضرت ادریسؑ کو اسی مہینے میں آسمان پر اٹھایا گیا، حضرت نوحؑ کی کشتی اسی ماہ کی دس تاریخ کو یعنی دس محرم کو جودی پہاڑ پر ٹھہری، حضرت ابراہیمؑ عاشورہ ہی کے دن پیداہوئے، اور اسی دن انھیں تاج نبوت پہنایا گیا، نمرود کے بتوں کو اسی دن حضرت ابراہیمؑ نے توڑا اور اس کی سزا کے طور پر آپ کو جس دن آگ میں ڈالاگیا وہ بھی عاشورہ ہی کا دن تھا، پھر عاشورہ ہی کے دن اللہ تعالیٰ نے آگ کو آپؑ کے لیے گل زار بنادیا، حضرت یونسؑ کو عاشورہ ہی کے دن رب کریم نے اپنی رحمت بیکراں سے مچھلی کے پیٹ سے رہائی عطا فرمائی، حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹے حضرت یوسفؑ کے فراق میں روتے روتے بینائی کھو بیٹھے تھے، وہ عاشورہ ہی کا دن تھا جب یعقوبؑ کی بینائی لوٹ کر آئی، اسی ماہ میں حضرت موسیٰؑ کو عزت و سر بلندی نصیب ہوئی اور اسی دن فرعون دریائے نیل میں لشکر سمیت غرق ہوا، حضرت عیسیٰؑ کو جب یہودیوں نے سولی پر چڑھانے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اسی ماہ میں انھیں آسمان پر زندہ اٹھا لیا، عاشورہ کے دن ہی حضرت داؤدؑ کی دعائے صحت قبول ہوئی، حضرت سلیمانؑ کی سلطنت جب ہاتھ سے نکل گئی تو آپ نے بارگاہ خداوندی میں عجز و انکساری کے ساتھ دعا فرمائی، چناں چہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، اور دوبارہ سلطنت عطا کی گئی، حضرت ایوبؑ جب بیماری میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی، چناں چہ عاشورہ کے دن ہی انھیں ان کی دعا قبول ہوئی اورشفا نصیب ہوئی، یہ تو چند انبیائے کرام کے واقعات تھے جس کا ظہور اسی ماہ میں ہوا، ورنہ ایسے بے شمار واقعات کتابوں میں درج ہیں.
کچھ اور تاریخی واقعات ہیں جو اسی ماہ میں پیش آئے، بیت اللہ پرحملہ کرنے والے سرکش بادشاہ ابرہہ کا عبرت ناک انجام اسی ماہ میں ہوا، کعبة اللہ پر سب سے پہلا غلاف اسی ماہ میں چڑھایا گیا، خلیفہ ثانی حضرت فاروق اعظمؓ کی شہادت اسی ماہ میں ہوئی، حضرت علیؓ و حضرت عثمانؓ کو اسی ماہ میں خلافت کے منصب پر فائز کیا گیا، حضرت امیر معاویہؓ اسی ماہ میں امیر بنے، مہاجرین حبشہ اسی ماہ میں واپس لوٹے، مسلمانوں نے بے شمار ملکوں کو اسی ماہ میں فتح کیا، غزوہ خیبر کی کام یابی و کامرانی اسی ماہ میں حاصل ہوئی، مصر پر عباسیوں کا قبضہ اسی ماہ میں ہوا، قیصر روم کو ذلت آمیز شکست اسی ماہ میں ہوئی، مسجد نبوی کی توسیع اسی ماہ میں کی گئی، شعب ابی طالب میں رسول اکرمﷺ کی محصوری کا آغاز اسی ماہ میں ہوا، رسول اکرمؐ نے حضرت صفیہؓ سے اسی ماہ میں نکاح فرمایا، حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کا نکاح بھی اسی ماہ میں ہوا، حضرت عثمان غنیؓ کا نکاح حضرت ام کلثومؓ سے اسی ماہ میں ہوا، عاملین زکوۃ کا تقرر باضابطہ اسی ماہ میں عمل میں آیا، میزبان رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وفات بھی اسی ماہ میں ہوئی، دمشق پر فاطمیوں کا قبضہ بھی اسی ماہ میں ہوا، دنیا کی سب سے بڑی رصدگاہ بغداد کے اندر اسی ماہ میں تعمیر ہوئی، ایک بدبخت لعین نے حجر اسود کو ہتھوڑے مارکر توڑنے کی کوشش اسی ماہ میں کی، نواسہ رسولؐ کی شہادت کا خونی اور شہرہ آفاق واقعہ سر زمین کربلا میں اسی ماہ میں پیش آیا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جو اسی ماہ میں پیش آئے، سیدنا حسینؓ کا واقعہ شہادت نے بلاشبہ دنیا کو ایک اہم پیغام دیا، اور یہ بتلایا کہ حق کے لیے اپنی جان مال خاندان یہاں تک کہ سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے. اگر آپ چاہتے ہیں کہ حق کا بول بالا ہو، اسلامی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، بغیر قربانی کے انقلاب نہیں آیا کرتا اور نہ ہی حق کا بول بالا ہو سکتا ہے، اسلامی تاریخ کا جن لوگوں نے مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام میں حضرت سیدنا حسینؓ کی شہادت کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے، بل کہ اس قسم کے بے شمار واقعات رونما ہوئے، ہزاروں اور لاکھوں لوگوں نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے اپنے جان و مال کی قربانیاں پیش کیں، تب کہیں جاکر اسلام سرخ رو ہوا اور پوری دنیا میں پھیلا، جنھیں شہادت کا مرتبہ حاصل ہوجاتاہے وہ بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے، خود رسول اکرمؐ نے اپنے لیے شہادت کی تمنا بار بار فرمائی ہے، آپﷺ نے فرمایا "میں چاہتاہوں کہ اللہ کے راستے میں ماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیاجاؤں"
اس طرح کی اور بہت سی روایتیں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اسلام کی راہ میں شہید ہونا یہ بڑے اعزاز کی بات ہے، جب تک ہم بھی صحابہ کرام کی طرح قربانیاں نہیں دیں گے اسلام کبھی غالب نہیں آسکتا، اس امت میں صرف حضرت سیدناحسینؓ شہید نہیں ہوئے بل کہ اس امت میں لاکھوں شہدا موجود ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان شہدا کے کارناموں کو اپنائیں، اور شہادت کی تمنا کریں، ایک حدیث میں ہے کہ شہید کو اللہ تعالیٰ کے ہاں چھ خصوصیات سے نوازا جاتاہے،1. پہلے قطرہ خون پر ان کی مغفرت کردی جاتی ہے، 2. جنت میں اس کو اس کا ٹھکانا دکھایا جاتاہے، 3. عذاب قبر سے محفوظ رہتاہے، نیز قیامت کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہتاہے، 4. اس کے سر پر عزت و عظمت کا تاج رکھاجائےگا کہ جس کا ایک موتی دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا، 5. حورعین میں سے 72 اس کے نکاح میں دی جائیں گی، 6. اس کے ستر رشتہ داروں میں اس کی شفاعت قبول کی جائےگی".
سیدنا حسینؓ کی شہادت ایک عظیم شہادت تھی اور وہ اپنی شہادت پر خوش تھے، اللہ تعالیٰ خوش تھا اور اس کے رسول ﷺ بھی خوش تھے، آپؓ کے مخالفین نے آپ پر بڑا ظلم کیا، انھیں کوئی حق نہیں تھا کہ وہ نواسہ رسولؐ کے مقابلے پر آئیں، سیدنا حسینؓ اگر حکومت بھی طلب کرتے تو انھیں دینا چاہئے تھا، اسلام کی سفید چادر پر شہادت حسینؓ ایک بہت بڑا داغ ہے، یہود و نصاری ہمیں طعنہ دیں گے کہ تم نے اپنے رسول کے نواسے کو قتل کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت حسینؓ سے اہل کوفہ نے غداری کی، اٹھارہ ہزار آدمیوں کی طرف سے ہزاروں خطوط آئے کہ آپؓ حجاز مقدس سے کوفہ آجائیں، ہم بیعت کے لیے تیار ہیں، آپ نے مسلم بن عقیل کو بھیجا. کوفہ والے صبح ان کے ساتھ تھے، شام کو اٹھارہ ہزار کے بجائے 18 آدمی ان کے ساتھ رہ گئے اورغروب آفتاب کے بعد وہ بھی غائب ہوگئے، پھرمسلم بن عقیل شہید کردیے گئے، ادھر حضرت حسینؓ میدان کربلا تک پہنچے تھے کہ سامنے سے عبداللہ بن زیاد گورنر نے مقابلے کے لیے فوجیں بھیج دیں، سخت ترین معرکہ ہوا اوربدبختوں کے ہاتھوں نیک بخت نواسہ رسولؐ شہید ہوگئے، ان کی شہادت نے دنیا کو یہ پیغام دیاکہ ظالم و جابر حکومتیں اور استعماری طاقتیں اگر حق کو دبائیں اور ظلم وبربریت کا مظاہرہ کریں تو آنے والی نسلوں اور اسلام کے نام لیواؤں کو حسینی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہےگی، دنیا ان کے قاتلوں کو یاد نہیں رکھ سکی، لیکن حسینی کردار باقی ہے اوران شاء اللہ قیامت تک باقی رہےگا، بقول شاعر
ستم شعار تو دنیا سے مٹ گئے لیکن
جبین دہر پہ یاد حسین باقی ہے

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: یوپی الیکشن اور سنگھ پریوار کا بدلتا پلان

 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے