ذہن زاد: ایک موضوعاتی مطالعہ

ذہن زاد: ایک موضوعاتی مطالعہ

شاداب اظہر
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی
Email: sadab20202@gmail.com
اردو افسانہ اپنی کم و بیش ڈیڑھ سو سالہ مدت میں مختلف موضوعات کو پیش کر چکا ہے۔ دنیا کی بیش تر زبانوں کی طرح اردو افسانہ بھی کسی طرح کم زور نظر نہیں آتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ بہت سے نقادوں نے فرانسیسی، روسی اور انگریزی افسانوں کو ہی ہمیشہ اپنا معیار بنائے رکھا۔ ہر ملک اور ہر جگہ کی اپنی تہذیب، اپنے مسائل اور اپنی زبان ہوتی ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہو کہ سب ایک ہی طرح اور ایک قواعد پر چل کر کسی بھی ادب یا فن پارے کو تخلیق کریں۔ بہر کیف! عصر حاضر کے نمایاں اردو افسانہ نگاروں میں سر فہرست طارق چھتاری، سید محمد اشرف، مشرف عالم ذوقی، سلام بن رزاق، شموئل احمد، حسین الحق، ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی، شوکت حیات، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر آتے ہیں. میری یہ بات حتمی نہیں ہو سکتی کیوں کہ ابھی میرے مطالعہ کا ابتدائی مرحلہ ہے. ان افسانہ نگاروں کے علاوہ نوجوان افسانہ نگاروں کی فہرست بھی کافی طویل ہے جو موجودہ وقت کے رسائل و اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں. ان میں قارئین کی توجہ کے جو مرکز بنے ہوئے ہیں، ذاکر فیضی، سلمان عبد الصمد، فیضان الحق، عمران عاکف خان، وسیم عقیل شاہ وغیرہ. یہ تمام افسانہ نگار اپنے مختلف اسلوب و موضوعات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔اسی قبیل میں ایک نام توصیف بریلوی کا بھی ہے۔حال ہی میں ان کا افسانوی مجموعہ ”ذہن زاد“ کے نام سے٢٠٢٠ میں منظر عام پر آیا ہے۔ جس میں کل ٢٠/ افسانے شامل ہیں۔ ان تمام افسانوں کا ذکر اس مختصر سے مضمون میں تو نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کے کچھ افسانوں پر مختصراً اظہار خیال کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔
توصیف بریلوی کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ استعاراتی انداز میں اپنی بات رکھنے کا ہنر جانتے ہیں، تبھی کتاب کی بیک سائڈ پر معروف فکشن نگار سید محمد اشرف صاحب موصوف کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ یہ افسانہ نگار دل لگاکر کہانی لکھنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ کسی بھی کہانی کو پڑھتے ہوئے دل پر جبر نہیں کرنا پڑتا۔ استعاراتی کہانیوں کی فہرست میں جیلر، پرندوں کی کہانی، ای سگریٹ اور ٹیشو پیپر وغیرہ ہیں۔ جن کی کہانی میں داخل ہونے سے پہلے عنوان کو ٹھٹھک کر دیکھنا پڑتا ہے۔ اور غور و خوض کے بعد ساری گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
مجموعے کی سب سے پہلی کہانی جیلر ہے۔ جیلر کے ذریعے انسانی کیفیات کو دکھایا گیا ہے۔ جہاں ایک گوشہ نرم تو دوسرا گرم ہے۔ حقیقت میں انسان نرم دل اور سخت دل کا مجموعہ ہے، بظاہر تو کہانی جیلر کے عنوان سے آگے بڑھتی ہے۔ جس کو بیانیہ تکنیک کے ذریعے اختتام کیا جاتا ہے۔ افسانے کی ابتدا میں ایک بات سخت پریشان کرتی ہے کہ واقعی میں وہ جیلر تھا تو اپنے سامنے فرارہوتے ہوئے قیدی کو کیوں نہیں پکڑا؟ اور دوسرا سوال یہ کی اس نے جیل کے تمام قیدیوں کو کیوں کر رہا کر دیا؟
کیا اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ اس کے تمام حسن سلوک کو بالائے طاق رکھ کر اس کے سامنے وہ قیدی کیوں فرار ہوگیا۔ ان سارے سوالوں سے ابھی قاری پریشان ہوہی رہا ہوتا ہے تبھی افسانے کے اختتام سے پہلے اس کے جبیں کی تمام سلوٹیں دراز ہوتی جاتی ہیں۔ افسانے کا اختتام اس عبارت پر ہوتا ہے۔
”کئی دنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد جیلر کتابوں کے جنگل میں پہنچا وہاں کا نظارہ ہی دوسرا تھا۔اس کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں، یہاں آنے کے بعد اس نے کچھ ہی دنوں میں محسوس کیا کہ وہ کسی قید خانے میں آگیا ہے لیکن اس بار وہ جیلر نہیں قیدی ہے“صفحہ نمبر۔١٦
ادیب یا فن کار بہت حساس ہوتا ہے، عام لوگوں کی نگاہ اس چیز کو نہیں دیکھ سکتی جس کو ادیب محسوس کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی نفسیاتی الجھنوں پر بھی اس کی نظر رہتی ہے۔ توصیف بریلوی کے افسانوی مجموعہ میں ایسی کئی کہانیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں، ان کی کہانی’سکون‘ کو پڑھ کر یہی لگتا ہے۔ بھاری بھرکم جسم کی مالکن مٹکی اپنے شوہر سے تسکین نہ ہونے کی صورت میں ہر وقت گالی اور لڑائی کرتی نظر آتی ہے، جب وہ اپنے دیور سے ملاقات کرکے کمرے سے باہر آتی ہے تب اس کے چہرے سے ممتا کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے اور قدرے سکون محسوس کر رہی ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل عبارت سے اس کہانی کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
”سہ پہر کا وقت ختم ہوا چاہتا تھا۔ بچے گلیوں میں شور مچاتے ہوئے کھیل رہے تھے، دونوں دیورانیاں کہیں گئی ہوئی تھیں، مٹکی بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ شاید اپنے کمرے میں تھی لیکن اس کا دیور؟ وہ شاید کہیں باہر گیا ہوگا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ تبھی مٹکی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کا دیور شرٹ پہنتے ہوئے باہر آیا۔ دروازے کا جو حصہ کھلا تھا اس میں سے میں نے دیکھا مٹکی تخت سے اٹھی اور ایک تکیہ اس کے پیروں کے پاس سے گرا۔
جس طرح ایک مصور کئی رنگوں کی مدد سے خالی کینوس پر ایک خوب صورت تصویر بنا دیتا ہے ٹھیک اسی طرح توصیف بریلوی الگ الگ موضوعات اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیات کو اپنی کہانی کا موضوع بناتے ہیں۔ عام طور پر جن کا ذکر سماج کے لوگ نہیں کرنا چاہتے یا اس سے گریز کرتے ہیں، اس کا بھی ذکر کئی کہانیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ عصر حاضر میں بڑھتی ٹیکنالوجی کے ذریعے تباہ و برباد ہوتے بچوں کا ذکر افسانہ ای- سگریٹ میں کیا گیا ہے۔ سائنسی موضوعات پر بھی ان کے یہاں کہانیاں ملتی ہیں۔ اسی طرح ٹیشو پیپر میں اس لڑکے کا خاکہ کھینچا گیا ہے جو اپنی محبوبہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے اوپر غسل فرض کر لیتا ہے۔ عام طور پر یہ برائی ہمارے سماج کا حصہ بنتی جارہی ہے جس میں زیادہ تر جوڑے ملوث ہیں مگر اس سے باز نہیں آتے اور اپنی دنیا وآخرت تباہ و برباد کر رہیں ہیں۔ اسی طرح سے ایک افسانہ خوش بو کا خاکہ ہے جس میں ایک مرد آلات کے ذریعے کھانے کی خوش بو سونگھتا ہے مگر اس کے بعد وہ اپنی بیوی کے بدن کی خوش بو کا متلاشی ہو جاتا ہے۔
اس کہانی میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے دور بیٹھا ہوا انسان بھی پاس ہوگیا ہے۔ مگر اس کا دوسرا منفی پہلو یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ بلا شبہ نئی تکنیک سے ہماری زندگی ہم وار تو ہوئی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہے۔ اسی کے ذریعے معاشرے میں برائیاں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ پہلے موبائل کا استعمال بات کرنے، خبر دیکھنے اور پڑھنے کے لیے کیا جاتا تھا مگر اب…………؟
زیادہ تر طلبا و طالبات کو یہ کہہ کر فون دیا جاتا ہے کہ پڑھنے میں آسانی ہوگی۔ کتابیں بہت مہنگی ہیں. سبھی کتابوں کو خریدا اور گھر میں رکھا نہیں جا سکتا البتہ موبائل لیے جانے کے بعد اسی سے پڑھائی ہوجائے گی. مگر اس کے برعکس سارے کام ہوتے ہیں۔
ماڈرن ازم کی ایک اچھی مثال ہمارے سامنے کہانی کا عنوان ’بلیکش‘ کے ذریعے سے سامنے آتی ہے۔ ہما اور محسن کی ازدواجی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔
توصیف بریلوی کے تمام افسانوں کا اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو ان کے بیش تر افسانے اصلاح سے مملو نظر آتے ہیں۔ مصنف نے اپنے افسانوی مجموعہ کے بارے میں خود یہ کہا ہے کہ یہ تمام افسانے ان کے زمانۂ طا لب علمی کے ہیں۔ بلا شبہ جس کہانی پر مصنف نے قلم اٹھا یا ہے اس کا حق بھی ادا کردیا ہے۔چاہے وہ سائنسی موضوعات ہوں یا سماجی یا پھر انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل ان تمام باتوں کا ذکر اس خوش اسلوبی سے کرتے ہیں کہ اس افسانے کا سحر قاری پر طاری ہوجاتی ہے۔ اور افسانے کے اختتام پر کبھی کبھی فاتحانہ مسکراہٹ تو کبھی گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کی تکنیک پر اگر بات کی جائے تو ان کے یہاں بیانیہ تکنیک، ڈرامائی تکنیک، فلیش بیک وغیرہ استعمال ہوتی ہیں۔ زبان و بیان کا استعمال بہت چابک دستی سے کرتے ہیں. ان کے افسانوں میں تجسس کا رنگ غالب رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے تمام افسانے اور ان کا کہانی پن اسی دنیا کے ہیں جس کی ترجمانی ’ذہن زاد‘ نامی مجموعے میں کی گئی ہے۔ اس دور کے نئے قلم کار کی صف میں توصیف بریلوی نے اپنے ذہن کی اپج سے یقینا ایک نئے زاویے سے کہانی بُن کر پیش کی ہے اور کہانی کو نئی لفظیات سے مزین کر کے نئے مسائل اور موضوعات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ موصوف کے افسانوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی کہانیوں میں مزید رنگ، اسالیب، اور تکنیک دیکھنے کو ملیں گی.

صاحب تحریر کا مختصر خود تعارف :

میرا نام شاداب اظہر ہے۔
میں پرمندہ پور ضلع بلیا اترپردیش سے تعلق رکھتا ہوں۔
میری ابتدائی تعلیم مدرسے سے ہوئی اس کے بعد میں نے ۲۰۱۰ میں حفظ مکمل کرلیا۔
اس کے بعد اعلا تعلیم کے لیے دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ چلا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے عصری تعلیم بھی جاری رکھی۔
گریجویشن میں نے ویر بہادر سنگھ پروانچل یونیورسٹی جونپور سے  کیا۔
اس کے بعد میرا داخلہ الہ آباد یونی ورسٹی میں ہوگیا. وہاں سے ایم اے کی تعلیم مکمل کرکے فی الوقت دہلی یونی ورسٹی دہلی سے ایم فل کر رہا ہوں. 
والد صاحب حکومت اترپردیش میں محمکہ پولس میں ایس آئی کے عہدے پر فائز ہیں۔
لکھنے پڑھنے کی تحریک میرے نانا مولانا منصور صاحب سے ملی۔
افسانہ بھی لکھتا ہوں، اور نئے نئے قلم کاروں کو پڑھنے میں دل چسپی رکھتا ہوں۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے