عورت کی عزت اور تماش بین معاشرہ

عورت کی عزت اور تماش بین معاشرہ

سید عارف سعید بخاری، پاکستان 
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
ایک ہمارا زمانہ تھا کہ جب اومنی بسوں میں کوئی نوجوان کسی عورت سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو وہ خود کو سنبھالتے ہوئے خاموشی سے آگے ہوجاتی۔ اور سارے سفر میں خاموش رہتی کہ کہیں بولی تو اس کا تماشا نہ لگ جائے۔ لیکن جدید ایجادات کے دور میں ”ڈالر“ کمانے کے چکر میں عورتوں کی سوچ کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔وہ زمانہ ایسا تھا کہ کسی نوجوان کی شرارت پر بولنے والی عورت کو ”آوارہ اور بدچلن“ کے القاب سے نوازا جاتا تھا کہ”خاتون اگر اتنی ہی عزت دار ہوتی تو کبھی نہ بولتی بل کہ خاموشی سے سہ جاتی“۔ لیکن اب سوشل میڈیا کی وجہ سے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب جیسی خرافات نے تمام تر اخلاقی و اسلامی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے کی علم بردار خواتین ”ٹک ٹاک“ وغیرہ کے ذریعے بھڑکیلے لباس کے ساتھ اپنے جسم کے انگ انگ کی نمائش کرنے میں لگی ہیں۔ یوں تو سارا معاشرہ ہی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ غریب تو غربت کی وجہ سے شاہد برائی کی دلدل میں جا گرتا ہو لیکن برگر فیملیز کی روشن خیال لڑکیاں جو گل کھلا رہی ہیں انھیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما کررہ جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ ”ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو، باقی ہمارے لیے کوئی عورت نہیں ہوتی بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر ٹکی رہتی ہے“۔لاہور میں یہی کچھ ہوا کہ ایک ”ٹک ٹاکر ماڈل“ کو ویڈیو شوٹ اور اپنے فینز کے ساتھ سیلفیاں بنانے کے دوران نوجوانوں نے فٹ بال بنا ڈالا، اس کے جسم کو نوچا، کپڑے پھاڑ ڈالے، اس طرح تو ہیرا منڈی میں طوائف کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ روایت کے مطابق عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر گرل(ماہ محرم الحرام کے احترام سے بے نیاز) نے پہلے سوشل میڈیا پر اقبال پارک اپنی آمد کی اطلاع دی اور اپنے چاہنے والوں (Fans) کو بھی شرکت کی کھلی دعوت دے ڈالی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے چاہنے والوں سمیت سینکڑوں لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے۔ ہمیں فلموں کی شوٹنگ دیکھنے کا بھی بارہا موقع ملا لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہاں بھی کسی ایک بندے کو یہ جرات نہیں ہو تی کہ وہ کسی اداکارہ سے نازیبا حرکات کرے۔ ایک بات تو طے ہے کہ مذکورہ ٹک ٹاکرصرف ایک کیمرہ مین کے ساتھ تو وہاں نہیں گئی ہوگی۔ یقیناً اس کے ساتھ چار چھ لوگ اپنی ہی ٹیم کے ہوں گے۔ حالات و واقعات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ خاتون کوئی معصوم سی بچی تو تھی نہیں۔ اور نہ ہی وہ پاکستانیوں کے گندے ذہن سے نا آشنا تھی۔ بس کچھ اپنوں کے ساتھ تماش بین بھی آ گئے جنھوں نے اس ڈرامے کو بڑھاوا دیا۔ سوشل میڈیا پر واقعہ کی ویڈیوز اور پوسٹس تسلسل کے ساتھ وائرل کی جانے لگیں۔ لوگوں نے وڈیوز تو بنائیں لیکن موقع پر خاتون کو اس ظلم و زیادتی سے بچانے والا کوئی ایک بھی”محمد بن قاسم“ سامنے نہیں آیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاہد یہ سارا خواجہ سراؤں کا ہجوم تھا۔ کسی ایک مرد کے بچے کو جرات نہ ہوئی کہ وہ خاتون کو بچاتا، ظاہر ہے اس تفریحی مقام پر پولیس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس میں بھی محافظانِ ملت موجود ہوں گے، کوئی مددکو نہ آیا۔ البتہ خاص بات یہ ہے کہ 14 اگست 2021ء کو یہ واقعہ ہوا، اور تقریباً دو تین دن بعد متاثرہ خاتون میڈیا پر نمودار ہوئیں، اپنا دکھڑا سنایا، مگر مچھ کے آنسو بہائے اور لوگوں کی ہم دردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ400 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے بھی واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ انصاف ہوگا، بل کہ انصاف نظر آئے گا۔
”ٹک ٹاکر گرل“ کاسیکورٹی کے بغیر یوں ویڈیوز بنانے کا عمل سراسر بے وقوفی ہے، واقعہ کو کسی طور قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹک ٹاکر بی بی کو یہ بات اچھے سے معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کا پولیس سسٹم اور عدالتی نظام کسی بھی مظلوم کو انصاف نہیں دے سکتا۔ اوّل تو پولیس ہی کیس بگاڑدیتی ہے، رہی سہی کسر وکلا صاحبان اور عدلیہ نکال دیا کرتی ہے۔ اس واقعہ میں ملوث 20 کے قریب لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن کسی ایک بھی فرد کو اگر سزا مل جائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گی، کیوں کہ جرم کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ ہجوم میں ہونے والی واردات میں وکلا صاحبان صرف ایک نکتے پر کسی بھی ملزم کو بّری کروا سکتے ہیں کہ جائے وقوعہ پر چوں کہ لوگوں کا جم غفیر تھا، اس لیے کسی بھی ایک شخص یا اشخاص کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ جرم اسی سے سرزد ہوا ہے۔ ٹک ٹاکر کیس میں مدعیا نے 400 نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ کٹوایا لیکن بعد ازاں کیس ختم کرنے کی درخواست دینے اورتحقیقاتی رپورٹ میں خاتون کا ازخود رچایا گیا سارا ڈرامہ بھی بے نقاب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ البتہ خاتون کو اس کام سے فائدہ اٹھانے کا موقع ضرور ملا ہے۔ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس کے چاہنے والے (تماش بینوں) کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، دوسرا یہ کہ موصوفہ اس از خود لگائے گئے ڈرامے کی آڑ میں اپنی زندگی کے لیے خطرات کا واویلا کرکے امریکہ، برطانیہ یا فرانس وغیرہ کی شہریت حاصل کر سکتی ہیں۔ شنید ہے کہ خاتون کے والدین بھی اس کی اس مادر پدر آزادی سے ناخوش ہیں۔ خاتون کو خوش ہونا چاہیے کہ والدین اوربہن بھائی ناراض ہیں تو کیا ہوا۔ایک بڑی دنیا اس کی ”فین“ ہے۔
اسلام نے عورت کا نامحرم لوگوں سے ملائم گفتگوکرنے کو بھی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ یہ کیسی مسلمان ٹک ٹاکر ہے کہ جو غیر محرموں کے ساتھ سرعام پیار محبت (Flying Kiss) کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ میری نظر میں دنیا کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں ایسے کام کر جائے کہ وہ خود تو مرجائے لیکن اس کا گناہ نہ مرے۔ سچ تو یہ ہے کہ خاتون ٹک ٹاکر کی سبھی ویڈیوز اس کی موت کے بعد بھی موجودرہیں گی اور انھیں دیکھ کو جہاں لوگ گناہ کا ارتکاب کریں گے وہاں یہ سارا گناہ بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دنیا مغربی مادر پدر آزاد سوچ سے بتدریج بیزار ہوتی جارہی ہے۔ کتنے ہی لوگ اپنی زندگی سے توبہ تائب ہو چکے۔کتنے ہی غیر مسلم مذہب تبدیل کرنے مسلمان ہو چکے ہیں۔ ادھر ہمارے ملک کی یہ عزتیں یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹا گرام سمیت سوشل میڈیا پر موجود سہولیات سے ڈالر کمانے کے چکر میں اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہیں۔ والدین اپنے ایسے بچوں اور بچیوں سے لا تعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ کتنی ہی روشن خیال خواتین ماری جا چکی ہیں۔ بعض خواتین کو میڈیا پرسنز بھی اس قسم کی خرافات کی ترغیب دے کر اپنے”یوٹیوب چینلز“ کی ریٹنگ بڑھانے کی سازش کرتے ہیں۔ یہ میڈیا پرسنز اپنی ماؤں بہنوں کو باہر نہیں آنے دیتے لیکن خود دوسروں کی بہو بیٹیوں کو نچا کر پیسے کماتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہوں گے جنھیں روزِ محشر سب سے پہلے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ معاشرے کو بگاڑنے میں ان لوگوں کا بھیانک کردار دنیا کے سامنے ہے۔ ہماری یہ سوچ و فکر پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا سامان کر رہی ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ ہمیں اسلام بھول چکا ہے، ہمیں صرف اسلام آباد یاد ہے۔ ہم پیسہ کمانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ہمارے لیے حرام حلال برابر ہو چکا۔ جسم دکھا کر پیسہ کمائیں یا جسم بیچ کر ڈالر اکٹھے کریں۔ اب ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنے انجام سے بے خبر سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ گوشت کھاتے وقت ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ یہ حلال بھی ہے یا نہیں۔ لیکن شراب پیتے ہوئے، حرام کھاتے ہوئے، لوگوں کی بہو بیٹیوں کو نچاتے ہوئے یا انھیں ننگا کرتے ہوئے ہمیں سب کچھ بھول جاتا ہے کیوں کہ ہمارا مطمح نظر پیسہ اور ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ ہمیں اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی ملک وملت کی بدنامی سے کوئی سروکار۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔آمین
***

صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو: یوم عاشور اور مسلمان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے