افغانستان میں طالبانی حکومت کا قیام

افغانستان میں طالبانی حکومت کا قیام

محمد شمشاد
اشرف غنی کے افغانستان چھوڑنے کے بعد طالبان نے کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا ہے۔ یوں بیس برس محیط ایک ایسا افسوسناک تجربہ اپنے انجام کو پہنچ گیا جس میں لاتعداد ہلاکتوں کے علاوہ جنگ جوئی پر دو ہزار ارب ڈالرخرچ ہوا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی حفاظت افغان فوج کو کرنا تھی۔ تاہم آنے والے دنوں میں امریکہ کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ تین لاکھ فوج کیوں کاغذی پتلے ثابت ہوئی۔
طالبان نے کابل کے قریب پہنچ کر پر امن طریقے سے اقتدار حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ خبروں کے مطابق اس کے بعد طالبان کا ایک وفد مذاکرات کے لیے کابل کے صدارتی محل پہنچا جہاں قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی نے دیگر زعما کے ساتھ اس وفد سے انتقال اقتدار کے سوال پر بات چیت کی۔ اس دوران صدر اشرف غنی خاموشی سے اپنے قریبی ساتھیوں کے ہم راہ تاجکستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ ان سے منسوب ایک آڈیو پیغام کے حوالے سے ایک خبر نشر کی گئی جس میں انھوں نے کہا کہ خوں ریزی روکنے اور امن قائم رکھنے کے لیے انہوں نے کابل چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ عبداللہ عبداللہ نے ایک آڈیو پیغام میں اس مشکل وقت میں ملک چھوڑنے پر اشرف غنی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے وہ تاریخ کے گناہ گار ہیں اور ان سے اللہ ہی حساب لے گا۔
کچھ دنوں قبل ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ سابق افغان بادشاہ امان اللہ کی عزت کرتے ہیں جب کہ وہ بھاگ گئے تھے لیکن میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ اشرف غنی نے یہ الفاظ ایسے وقت میں کہا تھا جب طالبان کے قدموں کی چاپ کابل کے قریب سنائی دینے لگی تھی. اس وقت وہ خود کو ایک جنگجو کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ امریکی آشیر واد سے کابل پر براجمان اشرف غنی نے صدارتی محل میں بلا روک ٹوک داخل ہونے والے طالبان سے محفوظ راستہ مانگا اور سابق افغان بادشاہ امان اللہ خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کابل ہی نہیں افغانستان کو چھوڑ کر بذریعہ ہوائی جہاز تاجکستان پہنچے پھر وہاں سے میڈیا ذرائع کے مطابق اپنی اہلیہ زولا غنی، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب اور صدارتی آفس کے ڈائریکٹر جنرل فضل فضلی کے ہم راہ عمان چلے گئے۔ طالبان کا تمسخر اڑانے والے فیلڈ مارشل رشید دوستم بھی چوری چھپے ازبکستان پہنچنے میں کام یاب ہو گئے. 
جب طالبان کابل شہر میں داخل ہوئے توکابل کے شہریوں نے  ہر جانب سے طالبان کا استقبال کیا اور کسی ایک کونے میں بھی انھیں لڑائی کی نوبت نہیں آئی حتی کہ کابل کی فتح یابی کی خوشی میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کو بھی سختی سے روک دیا گیا۔ طالبان نے کابل کی پر امن فتح کے بعد ملا شیریں کو کابل کا گورنر مقرر کر دیا۔ واضح رہے کہ ملا شیریں طالبان رہنما ملا عمر کے قریبی ساتھی ہونے کے علاوہ طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ اس کے بعد طالبان رہ نما ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ کابل میں تمام سفارت خانوں، سفارتی مشیروں، بیرونی اداروں، رہائش گاہوں اور غیر ملکی شہریوں کو طالبان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انھوں نے انہیں تحفظ کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ وہ کابل میں پورے اعتماد کے ساتھ رہیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اسلامی امارت فورسز کو کابل سمیت دیگر شہروں کی سکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
طالبان رہ نما ملا عبدالغنی برادر نے کابل کی فتح پر افغان قوم کو مبارک باد کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی پوری مسلم امت بالخصوص کابل کے شہریوں کو فتح پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے یہ کام یابی حاصل ہوئی ہے. اللہ کا ہر وقت عاجزی کے ساتھ شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ کسی غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان کا اصل امتحان اور آزمائش اب شروع ہوئی ہے کہ وہ کیسے افغان عوام کی خدمت کرتے ہیں اور دنیا کے لیے ایک ایسی مثال بنتے ہیں، جس کی باقی دنیا پیروی کرے۔
طالبان نے محض کابل کو فتح ہی نہیں کیا بل کہ وہ تمام ضروری کام بھی شروع کر دیے جن کو انتظامی طور پر فی الفور کرنا چاہیے تھا۔ طالبان رہ نما نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ وسیع تر مشاورت سے کیا جائے گا اور طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اور ان کے معاونین افغانستان میں ہیں اور کابل میں سکیورٹی انتظامات کے بعد وہ یہاں آئیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق صدر اشرف غنی اور ان کے حکومتی عہدیداروں کے کابل چھوڑنے کے بعد کابل میں کوارڈینیشن کونسل قائم کی گئی جس میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، اعلی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ جب کہ میڈٰیا ذرائع کے مطابق افغانستان کے تاجک رہ نما صلاح الدین ربانی، یونس قانونی، احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، ہزارہ رہ نما استاد محقق، کریم خلیلی، استاد عطا نور کے بیٹے خالد نور اور افغان قومی اسمبلی کے سپیکر رحمانی خصوصی پرواز سے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
طالبان کی پیش قدمی اور آسان فتح پردنیا بھر سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ تاہم بہت سے ممالک کو افغان فوج کے اس طرح سرینڈر کرنے پر سخت تشویش لاحق ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ طالبان کو بطور افغانستان حکومت تسلیم نہیں کرنا چاہیے اور افغانستان کی صورت حال پر نیٹو اور اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا جانا چاہیے۔ یورپین یونین کے فارن ریلیشن کے کو چیئر کارل بلیت نے کہا کہ یہ غم اور دکھ کا دن ہے۔ جب کہ دنیا کے مختلف حصوں سے بہت سے لوگوں نے افغان عوام کی مدد اور ایک بہتر جمہوری مستقبل کے لیے دعائیں کی ہیں اور طالبان سے امید کی ہے کہ اب ان کے ذریعہ کوئی غیر انسانی حرکت نہیں ہوگی جس کے بارے میں ان کے مخالفین پروپگنڈہ کر تے آرہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ طالبان افغان کی تعمیر نو کے لیے اس بار سخت محنت کریں گے. 
اب سوال یہ ہے کہ افغان فوج کا ہتھیار ڈال دینا اور طالبان کا بہ آسانی افغانستان کے تمام علاقوں سمیت کابل کو کسی خون خرابے کے بغیر فتح کرلینا طالبان کی بہترین جنگی حکمت عملی تھی، یا یہ سب کچھ کسی طے شدہ معاہدے کا حصہ ہے۔ اگر یہ طالبان کی کام یابی ہے تو کیا اس خطے میں باہم جڑے ہوئے جہادی افغانستان یعنی طالبانی حکمراں، انقلابی ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان، سعودی عربیہ، امریکہ، مغربی ممالک اور انڈیا کو منظور ہوں گے؟ کیا امریکہ افغانستان میں چین، روس، ایران اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو قبول کر لے گا؟ کچھ تو ہے جو اس سیاسی آئس برگ کی تہہ میں چھپا ہوا ہے جو نظر نہیں آ رہا مگر وجود رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وقت آنے پر کیا سامنے آتا ہے. 
حرف آخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت طالبان کابل کے تخت پر براجمان ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کا اصل امتحان شروع ہو چکا ہے کہ وہ خود کو کس طرح دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور وہ کس طرح دنیا کے لیے قابل قبول ہو پاتے ہیں۔ کس طرح ایک ایسی حکومت تشکیل دیتے ہیں جو افغانیوں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کو قبول اور منظور ہو۔ بہر حال جو بھی ہے ایک بات تو طے ہے کہ طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد کم سے کم ہندستان کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کے دن شروع ہو گئے ہیں اور پاکستان اپنے حالیہ موقف اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔ بہتری کی امید کے ساتھ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے حالات کس کروٹ جاتے ہیں۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ طالبان شعوری طور پر پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں کہ تنہا ڈمرو بجانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے ساتھ مل کر چلنا ہی بہترین اور امن پسند راستہ ہے. 

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: مسئلہ فلسطین اور مسلم ممالک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے