رہبر گیاوی : تعارف، نعتیں اور غزل

رہبر گیاوی : تعارف، نعتیں اور غزل

 

نام: محمد قسیم احمد
قلمی نام: رہبر گیاوی(سنجیدہ شاعری کے لئے) اور چونچ گیاوی(مزاحیہ شاعری کے لئے)
جائے پیدائش: آبگلہ، گیا
تاریخ پیدائش: 5جنوری1967ء
عمر: تقریبا 54سال
والدکانام: اظہار احمد
رہائش: مکمل پتہ۔ نزد اردومڈل اسکول، انجان شہید
آبگلہ، گیا (بہار)
تعلیم: پوسٹ گریجویٹ
پیشہ: صحافت
آغاز شاعری: 1987ء
شعری مجموعے: (۱)تصویرِ وقت 2009ء میں (۲)ذرابچ کے2019ء میں
تلمذ: ثمر ٹکاروی اور شجر ٹکاروی
اصناف شاعری: غزل اور قطعات
اعزازات: ثمرٹکاروی ایوارڈ 1994بزم راہی گیا کی جانب سے اور 2010 شوق نیموی ایوارڈ بہاراردو اکیڈمی کی جانب سے
مصروفیات: چیف ایڈمن: بزم اظہار
ماہانہ طرحی مشاعرہ کے انعقاد کے علاوہ مشاعروں میں شرکت
دل چسپی: شاعری، دوستی وغیرہ

نعت شریف
(1)
وجہِ لولاک محمدؐ ہیں صدا ملتی ہے
نورِاحمدؐ سے دوعالم کو ضیاملتی ہے

چوم کر روضۂ اقدس کو ہے آئی شاید
آج اٹھلاتی ہوئی سب سے صبا ملتی ہے

کتنی خوش بخت ہے بستی وہ کھجوروں والی
آمدِ احمدِ مرسل کی صدا ملتی ہے

آؤ آؤ کہ حلیمہ کا گھرانہ دیکھو!
گوشے گوشے میں محمدؐ کی ضیا ملتی ہے

طور سے موسٰی نے پایا ہے کلامِ وحدت
عرش کو خاکِ محمدؐ سے جِلا ملتی ہے

آدم و شیث سے عیسٰی کی مسیحائی تک
سب کے پیکر میں چھپی جانِ ہذا ملتی ہے

فرض کے ساتھ ہی سنت بھی ادا کرتے چلو
سنتِ حق میں چھپی راہِ خدا ملتی ہے

عیسٰی کہتے ہیں کہ اٹھ مرضیِ رب سے مردے
قم باذنی کی مدینہ سے ندا ملتی ہے

زورِ تعریف نہیں مجھ میں، مگر یہ سن لو!
انؐ کی سرکار میں ایماں کو بقا ملتی ہے

نعت کہناہے تو قرآن کو سمجھو رہبر!
بے تکی باتوں سے کب راہِ وفا ملتی ہے
***
(2)

بڑھ کر اب اس سے کوئی بھی تدلیل ہی نہیں
دنیا میں مصطفائی کی تمثیل ہی نہیں

سایہ نہیں جب آپ کا ثانی کہاں ملے
سچ ہے کوئی بھی آپ کا تعدیل ہی نہیں

محشر کے روز سائے میں رکھ لینا یا نبی
رستہ بغیر آپ کے تسہیل ہی نہیں

روشن ہوا ہے آپ ہی کی ذات سے جہاں
اتنا عظیم دنیامیں قندیل ہی نہیں

معراج کے بہانے فلک پر بلا لیا
اللہ کی الفت کی تو تاویل ہی نہیں

موسیٰ بھی تاب لا نہ سکے کوہِ طور کی
پیارے نبی سی اور کی ترسیل ہی نہیں

حق دار کیسے ہوں گے وہ جنت کے سوچیے
جس دل میں ہے رسول کی تحصیل ہی نہیں

آنے کو یوں تو آئے یہاں لاکھوں انبیا
میرے نبی سے کوئی بھی افضیل ہی نہیں

جب خاتم النبی کا لقب آپ کو ملا
رہبر اب ان کے بعد تو تشکیل ہی نہیں

(3)
غزل

روایت سے بغاوت کررہا ہوں
زمانے سے محبت کررہا ہوں

مرادشمن مجھے بھولےگا کیسے؟
اسی کی میں حمایت کررہا ہوں

جو تم چاہو تو سولی پہ چڑھادو
بیاں میں پھر حقیقت کررہا ہوں

یہ شہرِ سنگ ہے جرات تو دیکھو
میں شیشے کی تجارت کررہا ہوں

دوانے پھر رہے ہیں لے کے پتھر
میں شیشے کی حفاظت کررہا ہوں

ابھی تو وقت ہے آنکھیں بھی کھولو
تمھیں میں کچھ ہدایت کررہا ہوں

مرابھائی خفا اس بات پہ ہے
میں دشمن سے محبت کررہاہوں

مرے اشعار سے مجھ کو نہ تولو
تمھاری میں قیادت کر رہا ہوں

رہبر گیاوی
پٹنہ، بہار
8507854206
شاعر کی مزید تخلیق یہاں پڑھیں :کون کہتا ہے تمہیں خوف زمانہ رکھو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے