طالبان کی واپسی

طالبان کی واپسی

مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ

بیس سال کی مسلسل جد وجہد اور سفارت کاری کے بعد طالبان نے دوبارہ افغانستان کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے، قطر سمجھوتے کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کا راستہ صاف ہو گیا تھا، امریکہ کو واپسی کی جلدی تھی، اس لیے اس نے اپنے ہی ذریعہ مقررہ مدت سے پہلے افواج کو بلالیا، یہ ایک بڑی طاقت کی شرم ناک ہار تھی، امریکی افواج کے لوٹتے ہی طالبان نے پیش قدمی شروع کر دی اور عالمی تاریخ میں سب سے تیز رفتار اقدام کر تے ہوۓ صرف دس روز میں مختلف صوبوں کو فتح کرتی ہوئی کابل تک پہنچ گئی، اور بغیر کسی خون خرابہ کے کابل فتح ہو گیا، اشرف غنی اور ان کے رفقا نے ملک سے فرار ہونے میں عافیت محسوس کی اور اب انھوں نے ابو ظہبی میں سیاسی پناہ لے لی ہے۔
دنیا حیران ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا، امریکہ اور اس کی میڈیا اندازے لگاتی رہی کہ ابھی کابل پہنچنے میں چھ ماہ لگیں گے، پھر تین ماہ کا دعویٰ کیا گیا، پھر دس دن کا، طالبان کی پیش قدمی نے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے، اور اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، اسباب کے درجہ میں بیان کیاجاتا ہے کہ چوں کہ عوام اور افواج دونوں اشرف غنی حکومت کی مخالف ہو گئی تھی، اس لیے طالبان کو نہ تو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی فوجی مدافعت کا، افغانستان کے وار لارڈ (war lord) نے بھی بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے، ان میں سب سے بڑا نام ہرات کے گورنر اسماعیل خاں کا ہے، انھوں نے نہ صرف ہتھیار ڈال دیے؛ بل کہ انھوں نے طالبان کی حمایت بھی شروع کر دی، اس قسم کے وار لارڈ مختلف ریاستوں اور قبائل میں تھے، انھوں نے بھی طالبان کو خاموش حمایت دی اور بالآخر طالبان نے کابل پر اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔
دوسری طرف طالبان کی قوت کا بڑا مرکز ان کا وہ ایمان و یقین تھا کہ حق کی لڑائی میں اللہ کی نصرت اور مدد یقینی آتی ہے، عزم و حوصلہ سے بھر پور ان کی حکمت عملی نے بھی ان کا ساتھ دیا، مغربی میڈیا چلا چلا کر کہتا رہا کہ طالبان دہشت گرد ہیں، اور ان کی جیت سے علاقہ میں دہشت گردی کو فروغ ملے گا، داعش اور القاعدہ کو اپنے پاؤں جمانے کا موقع ملے گا، علاقہ میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا، لیکن افغان عوام نے کسی کی نہیں سنی اور اس نے طالبان کو پاؤں پسارنے دیے، یہاں تک کہ ان کے قدم کا بل تک پہنچ گئے۔
طالبان بھی بہت احتیاط کے ساتھ بیانات دے رہے ہیں، انھوں نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے، دوست تو دوست تھے، دشمنوں کو بھی انھوں نے امان دے دی اور دنیا جانتی ہے کہ طالبان جب کسی کو امان دیتے ہیں تو کس قدر اس کی پاسداری کرتے ہیں، انھوں نے اپنی پہلی حکومت بیس سال پہلے اسی لیے گنوائی تھی کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو اپنے یہاں پناہ دیا تھا، اور امریکہ کے اس مطالبہ کو سختی سے رد کر دیا تھا کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ امان دیے ہوئے شخص کو دوسرے کے حوالہ نہیں کر سکتے، طالبان نے تمام مذاہب کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات بھی کہی ہے، ملک کے سیاسی لیڈران کے ساتھ مذاکرات بھی شروع کیا ہے، خواتین کو شرعی حدود و قیود کے ساتھ کام پر جانے اور تعلیم جاری رکھنے کی بھی اجازت دی ہے، اس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ہندستان پاکستان کے تنازع سے وہ اپنے کو الگ رکھے گا، عالمی برادری کے ساتھ وہ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرے گا۔
یہ اور اس قسم کے دوسرے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے اپنے کو پہلے سے بہت کچھ بدلا ہے، اور سخت گیری کا وہ مزاج باقی نہیں ہے، جو پہلے دور حکومت میں اس کی شناخت بن گئی تھی، یہ دور بقائے باہم کے مطابق حکمرانی کا ہے، اور طالبان نے اسے اچھی طرح سمجھ لیا ہے، پھر بھی مغربی اور یورپین ممالک کو اطمینان نہیں ہے، ان میں سے کئی” انتظار کرو اور دیکھو" کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور طالبانی حکومت کے ملکوں کے قبول کرنے کا عمل انتہائی سست ہے، البتہ چین نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، روس کا رویہ بھی نرم نظر آتا ہے، اگر ان دونوں ممالک نے منظوری دے دی تو طالبان کی قوت مضبوط ہوگی۔
طالبان کے خلاف ماحول بنانے میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈیا مسلسل لگا ہوا ہے، چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی خبر کو نمایاں کرکے شائع کیا جا رہا ہے، جلال آباد کی ایک خبر کو اس طرح شائع کیا گیا، جیسے ملک میں بغاوت ہو گئی ہو۔ افغانستان رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا چھیالیسواں بڑا ملک ہے، اتنے بڑے انقلاب کے بعد چھوٹے چھوٹے واقعات کوئی معنی نہیں رکھتے، لیکن میڈیا کو طالبان کی شبیہ خراب دکھانی ہے اس لیے اس قسم کے بیانات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
افغانستان کی عوام انتہائی غیور واقع ہوئی ہے، اس نے دنیا کی تین بڑی طاقتوں، برطانیہ، روس اور امریکہ کو دھول چٹا دیا ہے، آئندہ بھی اگر کسی نے اس قسم کی حرکت کی تو اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، کوئی طاقت ان کی غربت کو سکوں سے خرید نہیں سکتی، یہ انھوں نے ثابت کر دیا ہے، ہمیں مستقبل میں طالبان حکومت سے اچھی امید رکھنی چاہیے، اللہ کرے یہ انقلاب افغانستان میں امن وچین کا ذریعہ بن جائے اور برسوں سے جاری قتل وغارت گری کے خاتمہ کا یہ پیش خیمہ ثابت ہو۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: سال نو کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے