کیا ہم اسی کو آزادی کہتے ہیں؟

کیا ہم اسی کو آزادی کہتے ہیں؟

حبیب الرحمن
پچڑا، دیناج پور

لوگ کہتے ہیں، ہم سنتے ہیں، اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ہم مان بھی لیتے ہیں کہ پندرہ اگست ۱۹۴۷ کو وطن عزیز ہندستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا ہے، اب ہم بےخوفی کے ساتھ جو چاہیں کریں، جہاں چاہیں جائیں، جو پیشہ اختیار کرناچاہیں کریں، آزاد ہندستان کی فضا اب ہمارے لیے سازگار ہوگئی ہے، اب راہ چلتے ہمیں کوئی پریشان نہیں کرے گا، ہماری عزت و آبرو، جان ومال، سب محفوظ رہیں گے، ہمارے حقوق ہمیں مکمل طور پر ملتے رہیں گے، ہمارے ساتھ کوئی بھید بھاو والا معاملہ نہیں ہوگا، سب کے لیے یکساں قوانین وضوابط ہوں گے، جس کی پاس داری ہر ایک کو کرنی ہوگی، مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی کوئی نارواسلوک روارکھاجائے گا، کیوں کہ بقول راحت اندوری مرحوم:
سبھی کاخون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے 
ہمارے اکابر نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس ملک کو آزاد کیا ہے، تاکہ اس کی آنے والی نئی پود چین و سکون کے ساتھ زندگی کے شب وروز بتا سکے، انھیں کسی طرح کی کوئی کلفت کاسامنانہ کرنا پڑے، مگر افسوس ! ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد تو ہوگیا، مگر اپنوں ہی سے آزاد نہ ہوسکا، جو مظالم کل تک گورے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ڈھاتے تھے، آج وہی ظلم و ستم ہمارے اپنے ہی ہم پر کررہے ہیں، جن کے ساتھ مل کر ہم نے آزادی کی جنگ لڑی تھی، ایک ساتھ مل کر جن کے ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی تھیں، آج وہی کینہ توز اور کھا جانے والی نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ہی تن تنہا اپنے دم خم پر انگریزوں کو رفوچکر ہونے پر مجبور کیا تھا، یہ سچ ہے کہ اگر ہمارے باپ داداوں نے ملک گیر سطح پر تحریک نہ چلائی ہوتی، اپنی جانیں جوکھم میں نہ ڈالی ہوتیں، اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا نہ لگایا ہوتا، اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ نہ کیا ہوتا، تو یقینا اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے کبھی بھی گلوخلاصی نہ ملتی، تاریخ کے اوراق شاہد ہیں، کہ جب بھی اور جس وقت بھی اس ملک کو غیروں سے خطرہ لاحق ہوا ہے، مسلمانوں نے ہی آگے بڑھ کر اپنی جان کی پروا کیے بغیر ملک کی حفاظت کی ہے، آج اسی کو پاکستان جانے کی دھمکی دی جارہی ہے، جس کو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے تقسیم کے وقت ٹھکرا دیا تھا، اور اپنے ہی وطن میں رہنے کو ترجیح دی تھی، واقعی یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ آج ہمیں دھمکی دینے والے وہی لوگ ہیں، جن کے باپ داداوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹنا اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھا تھا، ان کی موافقت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیاتھا، یاپھر یہ کہہ لیجیے کہ اپنی بےتوفیقی کا بھرپور ثبوت پیش کرکے ان کے ڈر سے گپ چپ، اور دم بخود تھے –

آرایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار کا حصہ لینے سے انکار

جب بابائے قوم مہاتماگاندھی نے ۱۹۳۰میں مختلف طرح کے سرکاری قوانین توڑنے کے لیے عوامی ستیہ گرہ یا مہم کا آغاز واعلان کیا تھا، جس کو بڑی عوامی تائید بھی حاصل ہوئی تھی، لیکن ہیڈگیوار نے ہرجگہ اطلاع بھجوائی کہ سنگھ اس ستیہ گرہ میں حصہ نہیں لے گا، لیکن جس کو حصہ لینا ہو، وہ انفرادی حیثیت میں ایسا کرسکتاہے، انفرادی طور پر حصہ لینے کی بات انھوں نے اس لیے کہی تھی، تاکہ عوامی طور پر آرایس ایس کو کسی نقصان کاسامنانہ کرناپڑے، تو یہ ہے ان کی اصل حقیقت، ملک کو آزاد کرنے کی خاطر خون پسینہ ہم نے بہایا، لیکن گھر کے گوشوں کونوں، کھدروں اورڈربوں میں دبکے بیٹھے رہنے والے افراد ہی آج ہم سے ثبوت مانگ رہے ہیں، کہ ہم یہاں کے ہیں یانہیں ؟ انھیں اگر صحیح طور سے معلوم نہیں ہے، تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہیں کے ہیں، یہیں پیداہوئے، اور تادم واپسیں یہیں رہیں گے، اور ایک دن یہیں پیوند خاک ہوجائیں گے، ان شاء اللہ ، اس لیے ہم سے کسی چیز کا ثبوت نہ مانگو، ہماری داستان سننی ہو تو سب سے پہلے اپنے دماغ کی بتی روشن کرکے تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرو، از خود تمہارے ذہن ودماغ کے دریچے واہوجائیں گے، ان شاء اللہ، جب تک وطن عزیز کے ایک ایک فرد کو ان کا حق صحیح طور پر نہیں ملے گا، یا نہیں مل جاتا، ہر ایک کے مذہب کو عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھا نہ جائے گا، ہمیں یہ کہنے کا ذرہ برابر بھی حق نہیں بنتاہے کہ ہندستان آزاد ہوگیا ہے، کیا آزادی اسی کانام ہے کہ کوئی حق بولے تو اس پر بھی مقدمہ درج کرواکے انھیں پس دیوار زنداں کردیاجائے، فرضی مقدمات اور جھوٹے کیسز میں پھنسوا کر عمر عزیز کے لمحات کو ضائع کردیاجائے، اور جب طویل عرصہ گزر جائے، اس کے بعد پھر انھیں باعزت بری بھی کر دیاجائے، اس عمرعزیز کا حساب کون دے گا ؟ جو جیل میں کٹی. مذہب کے نام پر دنگے فساد کروایاجائے ، اور اقلیتوں کو آئے دن نقصانات کا سامنا کرنا پڑے، آئے دن ان کے ساتھ مارپیٹ اور زدوکوب کے واقعات پیش آتے رہیں، طاقت کے کس بل پر ملک میں فیصلے ہوں، کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں ؟ اگر اسی کو آزادی کہتے ہیں، تو ایسی آزادی نہ تو کل ہمیں منظور تھی، اور نہ آج منظور ہے، اور نہ ہی آئندہ منظور ہوگی. جب ملک ان مذکورہ چیزوں سے قطعی طور پاک صاف ہوجائے گا ، ہرایک کو مساوی طور پر ان کے حقوق ملتے رہیں گے، راحت و چین کے ساتھ ہرایک کو رہنے دیاجائے گا، تو حقیقتا وطن عزیز ہندستان اسی دن آزاد سمجھاجائے گا –

***

صاحب تحریر کی دوسری نگارش: تعلیم ہی کام یابی کی کنجی ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے