جنگ آزادی کے انجان ہیروز اور قومی تحریک

جنگ آزادی کے انجان ہیروز اور قومی تحریک

محمدقمرانجم قادری فیضی
6393021704

اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب ہورہا تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں، انگریز جب ہندستان پہنچے تھے تو تاجر کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا تھا، لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، وہ نے اپنوں کی کم زوری اور آپسی نا اتفاقی سے فائدہ اٹھا کر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے اور ہندستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کام یاب و کامران ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کو بے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندستانیوں کے دلوں میں آزادی وطن کا جذبہ پیدا ہوا، اور یہ بات بھی ناقابل تردید ہے کہ
ہندستان کی آزادی کی کہانی، تاریخ وطن سے محبت کرنے والوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ اسلحے، بارود کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جد و جہد آزادی اور جنگ آزادی میں سبھی لوگوں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بل کہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ اور جنگ آزادی میں ہندو مسلم سبھوں نے مل جل کر قربانیاں دیں ہیں، تب جاکر یہ ملک آزاد ہوا ہے. ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور پھر ان کے خلاف جد و جہد آزادی کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلی جد و جہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزند ٹیپو سلطان نے 1780 ء میں شروع کی اور 1790ء میں پہلی مرتبہ فوجی استعمال کے لیے حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے میسوری ساختہ راکٹس کو بڑی کام یابی سے نصب کیا۔ حیدر علی اور ان کے بہادر فرزند نے 1780ء اور 1790ء میں برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹس اور توپ کا مؤثر طور یہیں سے استعمال کیا تھا.
ہندستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے متبنیٰ فرزند کے لیے سلطنت و حکمرانی کے حصول کی خاطر لڑائی لڑی لیکن ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی گم نام ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857ء کو "چن پاٹ" کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔
مولوی احمد اللہ شاہ جنھوں نے ملک میں پہلی جنگ آزادی منظم کی تھی۔ اور جنگ آزادی میں بے شمار مجاہدین آزادی نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں ہندو مسلم مجاہدین سبھی شامل تھے۔ برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریزی حکومت کے خلاف جد و جہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی اُس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک ممتاز عالم دین تھے اور ہندستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ شراب کی دوکانات کے خلاف مہاتما گاندھی نے دھرنے اور گھیراؤ مہم چلائی اس میں صرف 19 لوگوں نے حصہ لیا، ان میں بھی ہندو مسلم سبھی شامل تھے۔
آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر پہلے ہندستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی مضبوط اور شدت کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ان کی وہی لڑائی 1857ء کی غدر کا باعث بنی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے رنگون، برما (میانمار) میں بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری کے بعد کتاب تاثرات میں لکھا تھا ’’اگرچہ آپ (بہادر شاہ ظفر) کو ہندستان میں زمین نہ مل سکی، آپ کو یہاں (برما) میں سپرد خاک ہونے کے لیے زمین مل گئی۔ آپ رنگون (ینگون) میں مدفن ہیں لیکن آپ کا نام زندہ ہے۔ میں ہندستان کی پہلی جنگ آزادی کی نشانی و علامت بہادر شاہ ظفر کو خراج عقیدت و گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں، وہی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نقطۂ آغاز تھا۔
ایم اے ایم امیر حمزہ نے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج) (INA) کے لیے لاکھوں روپے بطور عطیہ پیش کیا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ تھے۔ اب اس مجاہد آزادی کا خاندان انتہائی غربت و کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے.
ہندستانی، میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی کو بھی نہیں جانتے ہوں گے. یہ وہی شخص ہے جس نے اپنی ساری دولت ایک کروڑ روپے انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کردی تھی۔ اس دور میں ایک کروڑ روپے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت سارے اثاثے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کردی تھی. شاہنواز خاں ایک سپاہی، ایک سیاست داں اور انڈین نیشنل آرمی میں چیف آفیسر اور کمانڈر تھے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی قائم کردہ آزاد ہند کی جلاوطن کابینہ کے 19 ارکان میں 5 مسلمان تھے۔ بی اماں نامی ایک مسلم خاتون نے جنگ آزادی کے لئے 30 لاکھ روپے سے زائد رقم کا گراں قدر عطیہ پیش کیاتھا۔ تامل ناڈو میں اسمٰعیل صاحب اور مرودانایاگم نے مسلسل 7 برسوں تک انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، ان دونوں نے انگریزوں میں خوف و دہشت پیدا کر رکھی تھی۔ ہم تمام وی او سی (کیالوٹیا ٹامل زبان) کو جانتے ہیں وہ پہلے ملاح ہیں جنھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو فقیر محمد راٹھور کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے اس جہاز کا عطیہ دیا تھا۔ جب وی او سی کی گرفتاری عمل میں آئی. محمد یٰسین کو برطانوی پولیس نے وی او سی کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے پر گولی مار دی۔
تریپورہ کلارن (کوڈی کٹی کمارن) نے ہندستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ کمارن کے ساتھ دیگر 7 لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا. وہ تمام کے تمام مسلمان تھے جن کے نام یہ ہیں۔ عبداللطیف، اکبر علی، محی الدین خان، عبدالرحیم، باوو صاحب، عبداللطیف اور شیخ بابا صاحب وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں،

ہندستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ :
انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کئے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی نے ہندستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے، وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیش تر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ جنگ آزادی کا آغاز 1857ء میں بنگال میں دمدم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا تھا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخواست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔ 09 مئی 1857ء کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اور دہلی کے مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔
بہادر شاہ ظفر رنگون میں :
جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ 1858ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ دہلی، لکھنؤ، کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آگئے تھے.
جنگ آزادی کا نعرہ "انگریزوں کو ہندستان سے نکال دو” تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کو انگریز حکومت سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے نا آشنا تھے۔

(ہندوستان کی آزادی کے لیے انقلابی تحریک)
انقلابی تحریک برائے آزادی:
ہندستان زیر زمین انقلابی جماعت کے اقدامات پر مشتمل ایک حصہ ہے۔ موہن داس گاندھی کی سربراہی میں عام طور پر پر امن سول نافرمانی کی تحریک کے برخلاف حکمران برطانویوں کے خلاف مسلح انقلاب پر یقین رکھنے والے گروہ اس زمرے میں آتے ہیں۔ انقلابی گروہ بنیادی طور پر بنگال ، مہاراشٹر، بہار، متحدہ صوبوں اور پنجاب میں مرکوز تھے۔ مزید گروہ پورے ہندستان میں بکھرے ہوئے تھے۔
آندھرا پردیش :
ایالاواڈا نرسمہا ریڈی (وفات: 22 فروری 1847ء) ایک سابق ہندستانی تلگو پولیگر کے بیٹے تھے، جو 1846ء میں بغاوت کا مرکز تھا ، جہاں آندھرا پردیش رائل سیما ریجن میں کرنال ضلع میں 5000 کسان برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی (ای سی) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں انگریزوں کے ذریعہ متعارف کرائے گئے روایتی زرعی نظام میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ وہ تبدیلیاں، جن میں ریوٹواری سسٹم کا تعارف اور ریونیو کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی دیگر کوششیں شامل رہی ہیں، ان کی فصلوں کو ختم کرکے اور انھیں غریب بنا کر نچلے درجے کے کاشت کاروں کو متاثر کیا۔
اکا دکا واقعات کے علاوہ، 20 ویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ 1905 کے بنگال کی تقسیم کے دوران میں انقلابی فلسفوں اور تحریک نے اپنی موجودگی کو محسوس کروایا ۔ بظاہر، انقلابیوں کو منظم کرنے کے ابتدائی اقدامات ارویبندو گھوش، اس کے بھائی بارین گھوش ، بھوپندر ناتھ دتہ ، لال بال پال اور سبودھ چندر ملک نے اپريل 1906 میں جب جوگانتر پارٹی کی تشکیل کے وقت اٹھائے تھے۔ جوگانتر کو انوشیل سمیتی کے داخلی دائرہ کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا ، جو پہلے ہی بنیادی طور پر فٹنس کلب کے طور پر بنگال میں موجود تھا۔
بنگال انوشیلان سمیتی :
پرمتھاناتھ میترا کی قائم کی گئی یہ تنظیم ایک بہت منظم انقلابی انجمنوں میں سے ایک بن گئی تھی، خاص طور پر مشرقی بنگال میں جہاں ڈھاکہ انوشیلا سمیتی کی متعدد شاخیں تھیں اور انھوں نے بڑی سرگرمیاں انجام دیں تھیں، جوگینتر شروع میں ہیگناہ کے پالماچ کی طرح کولکاتہ انوشیلا سمیتی کے اندرونی حلقے کے ذریعہ تشکیل دیا گیا تھا۔ 1920 کی دہائی میں، کولکاتا دھڑے نے عدم تعاون تحریک میں گاندھی کی حمایت کی اور بہت سے رہنماؤں نے جو کانگریس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ انوشیلان سماتی کی پانچ سو سے زیادہ شاخیں تھیں۔ امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہندستانیوں نے غدر پارٹی قائم کی تھی.
بارین گھوش مرکزی رہ نما تھے۔ انھوں نے باگہ جتن سمیت 21 انقلابیوں کے ساتھ مل کر اسلحہ اور دھماکا خیز مواد جمع کرنا شروع کیا اور بم تیار کیا۔ جوگینترکا ہیڈ کوارٹر / A 93 بووبازار سٹریٹ، کلکتہ میں واقع تھا.
اس گروپ کے کچھ سینئر ممبروں کو سیاسی اور فوجی تربیت کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔ ان میں سے ایک، ہیمچندر کانونگو نے پیرس میں اپنی تربیت حاصل کی۔ کلکتہ واپس آنے کے بعد اس نے کلکتہ کے نواحی علاقے مانیکتلا میں ایک باغ گھر میں مشترکہ دینی اسکول اور بم فیکٹری قائم کی۔ تاہم، کھودی رام بوس اور پرافولا چکی (30 اپریل 1908) کے مظفر پور کے ضلعی جج کنگز فورڈ کوقتل کرنے کی کوشش کے بعد پولیس تفتیش کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں بہت سارے انقلابی گرفتار ہوئے۔
1910/ میں جتیندر ناتھ مکھرجی (باگہ جتن)
باگھا جتن جوگنتر کے اعلیٰ قائدین میں شامل تھے۔ اسے ہاوڑہ شیپ پور سازش کیس کے سلسلے میں متعدد دیگر رہ نماؤں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا، ان پر الزام یہ تھا کہ انھوں نے حکمران کے خلاف فوج کی مختلف رجمنٹ کو بھڑکایا تھا۔
جوگانتر نے، دوسرے انقلابی گروہوں کے ساتھ اور بیرون ملک ہندستانیوں کی مدد سے، پہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا زیادہ تر انحصار ہندستانی ساحل پر جرمن اسلحہ اور گولہ بارود کی خفیہ لینڈنگ پر تھا۔ اس منصوبے کو ہندو جرمن سازش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم، منصوبہ بند بغاوت عمل میں نہیں آئی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جوگانتر نے عدم تعاون تحریک میں گاندھی کی حمایت کی اور ان کے بہت سے قائدین کانگریس میں تھے۔ پھر بھی، اس گروہ نے اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھیں، ایک قابل ذکر واقعہ چٹاگانگ کے اسلحہ خانے کا تھا ۔
اترپردیش:
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن ترميم،
بھگت سنگھ، سکھدیو تھاپر اور شیوارام راج گرو
ہندستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن (ایچ آر اے) کا قیام اکتوبر 1924 میں اتر پردیش کے کانپور میں رام پرساد بسمل، جوگیش چیٹرجی، چندرشیکھر آزاد، یوگیندر شکلا اور سچندر ناتھ سانیال جیسے انقلابیوں نے کیا تھا۔ پارٹی کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے لیے مسلح انقلاب کا اہتمام کرنا اور ایک وفاقی جمہوریہ ریاستہائے متحدہ انڈیا کا قیام تھا۔ کاکوری ٹرین ڈکیتی اس گروہ کے ذریعہ بغاوت کا ایک قابل ذکر فعل تھا۔ کاکوری مقدمہ اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل، روشن سنگھ، راجندر لہڑی کو پھانسی دینے کا باعث بنا۔ کاکوری کیس اس گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ تاہم، گروپ کو جلد ہی چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں اور بھگت سنگھ، بھاگتی چرن ووہرا اور سکھ دیو جیسے ممبروں کے ساتھ 9 اور 10 ستمبر 1928 کو دوبارہ منظم کیا گیا تھا اور اس گروپ کو اب ہندستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے) کا نام دیا گیا تھا۔
لاہور میں 17 دسمبر 1928 کو بھگت سنگھ ، چندر شیکھر آزاد اور راج گورو نے لالہ لاجپت رائے پر مہلک لاٹھی چارج میں ملوث ایک پولیس اہلکار سینڈرز کا قتل کر دیا۔ بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت نے سنٹرل قانون ساز اسمبلی کے اندر بم پھینکا۔ اس کے بعد اسمبلی بم کیس کی سماعت ہوئی۔ بھگت سنگھ، سکھدیو تھاپر اور شیو رام راج گرو کو 23 مارچ 1931/کو پھانسی دے دی.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں؟ (قسط اول)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے