کشن گنج ڈائری

کشن گنج ڈائری

(25 جولائی تا 28 جولائی 2021)

✍🏼 ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بہ جیب، ایک کلیم سر بہ کف

مرشدی و مخدومی مولانا نعیم الدین قاسمی (استاذ کرسینٹ پبلک اسکول، سابق استاذ انسان اسکول کشن گنج) کی زیارت ہوئی۔ ڈاکٹر ظریف احمد اور انجینئر منصور عالم علیگ کی رفاقت میں کسی محفل کا لطف دوآتشہ ہوجانا فطری تھا۔ مولانائے مکرم ایک بلا کے دانش ور ہیں، ان دنوں تصوف و معرفت آپ کی طبیعتِ مبارکہ پر غالب ہے۔ تھوڑی دیر کی صحبت نے ہم سبھوں کو سیراب کردیا۔

__________
خوب صورت شہر کشن گنج میں خوب صورت دوست انجینئر منصور عالم علیگ کے خوب صورت دولت کدے پر ایک خوب صورت عشائیے کی محفل سجی۔ لیکن اس میں ان کا بھلا کیا رول تھا، اصل میں ساری محنت اور محبت ہماری خوب صورت بھابی صاحبہ کی تھی۔ سو میں ان کا تہہِ دل سے شکرگزار ہوں۔ بھابی کی انگریزی ہی نہیں بل کہ صورت، سیرت واخلاق___سبھی کچھ منصور صاحب سے زیادہ خوب صورت ہے۔ مولا سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح خوب صورت ضیافت فرماتی رہیں۔ اس بزمِ طرب میں شامل سبھی خوب صورت احباب اعلا تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے میدانوں کے ماہرین ہیں۔ طعام سے نپٹ کر قیام ایک اور خوب صورت دوست ڈاکٹر ظریف احمد کی عشرت گاہ میں ہوا۔


__________
گزشتہ پچاس برسوں میں جب بھی ایک لفظ ‘دانش ور’ سنا گیا تو کشن گنج والوں کے تصور میں سب سے پہلا چہرہ پرنسپل حنیف عالم صاحب کا آیا۔بچپن میں ان کی انگریزی دانی، یادداشت، ذہانت اور علمیت کے حوالے سے بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ بہت اشتیاق تھا کہ ان کو دیکھوں، ان سے ملوں، بات کروں۔ سو یہ تمنا میرے دو جگری دوست ڈاکٹر ظریف احمد اور انجینئر منصور عالم علیگ کی بدولت بر آئی۔
پرنسپل حنیف عالم صاحب کی عمر تقریباً پچاسی برس ہوگی۔ پارکنسن اور ضعف کے شکار ہوگئے ہیں۔لیکن ان کی قیامت خیز یاد داشت، برجستہ اشعار پڑھنا، بہت سی پرانی باتیں اور بلا کی باغ و بہار طبیعت نے ہمیں سرشار کردیا۔ انھوں نے مجھ سے غائبانہ تعارف اور ابا مرحوم مولانا غلام محمد یحییٰ سے اپنے دیرینہ تعلقات کا بار بار ذکر کیا۔ بے حد شفقت و محبت سے پیش آئے۔
خیال آیا کہ کاش کوئی باذوق نوجوان روزانہ ایک گھنٹہ ان کی باتیں سن کے ریکارڈ کرلیتا تو ان کی ایسی آپ بیتی مرتب ہوجاتی جو یقیناً سیمانچل کی تعلیمی، سیاسی، تہذیبی اور تاریخی دست آویز ہوتی۔
ہم لوگوں کو ایک بات اور محسوس ہوئی اور دل سے دعا نکلی کہ کاش ان عظیم دانش ور اور خوش خلق بزرگوں کی کچھ خو بو نئی نسل میں بھی پیدا ہوجاتی۔


__________
فور جی لیڈر، مین آف دی ایکشن اور وکاس پرش کہلانے والے ماسٹر مجاہد عالم صاحب گرچہ ابھی ایم ایل اے نہیں ہیں، لیکن علاقائی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ایم ایل اے، ایم پی سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ابھی وبا کی دوسری لہر میں انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر جس طرح غریبوں، بے سہاروں کی مدد کی، سب کے بس کی بات نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب ایم ایل اے، ایم پی کے سامنے کسی کام کے لیے فریاد کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو بس ایک مسیج مجاہد صاحب کو بھیج دیتے ہیں اور الٰہ دین کے چراغ سے جنات نکل کر راتوں رات وہ کام کرڈالتا ہے۔ ماسٹر مجاہد عالم صاحب ابھی جے ڈی یو کے ریاستی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ کشن گنج میں ان کی رہایش گاہ پر تعلیمی، سیاسی و سماجی میدانوں میں سرگرم اپنے جگری دوست ڈاکٹر ظریف احمد اور انجینئر منصور عالم علیگ کے ساتھ بہت اچھی نشست ہوئی اور بہت سے مسائل پر مفید تبادلۂ خیال ہوا.


__________
وہ ایک سلونی لیکن پسینے میں نہلا دینے والی گرم نمی آلود شام تھی۔ اس کے باوجود عجیب امنگ اور جوش تھا کہ ہم کشن گنج کے خوب صورت دلوں اور دماغوں سے ملتے چلے جارہے تھے اور بھلا کیوں نہ ہو جب ساتھ میں ڈاکٹر ظریف احمد اور انجینئر منصور عالم علیگ جیسے زندہ دل، مخلص، جوشیلے، با صلاحیت اور باذوق احباب ہوں۔
ہمارے سہ رکنی وفد کا اگلا پڑاؤ گرین ویلی بوائز ہوسٹل کشن گنج کے روحِ رواں خوش دل، تحریکی اور وژنری برادرِ محترم طارق سفیان صاحب کا دارالاقامہ تھا۔
اِدھر کشن گنج میں بوائز اور گرلز ہوسٹلس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ طارق سفیان صاحب کا ہوسٹل دیکھ کر اچھا اس لیے لگا کہ یہ ایک کھلی فضا میں واقع ہے۔ روشنی، ہوا اور پانی کا صاف ستھرا ماحول ہے۔ سامنے ایک میدان بھی ہے۔ یہاں بہترین کھانے پینے، ریڈنگ روم، کھیل کود، ہفتہ وار پروگرام اور کوچنگ کلاسیز کی سہولت مہیا ہے۔ پانچویں کلاس تک کوچنگ یہیں ہوتی ہے۔ چھٹی تا بارہویں تک کے طلبا کے قیام و طعام اور تربیت کی ذمہ داری گرین ویلی کی ہے، لیکن وہ کوچنگ کلاسیز کے لیے آزاد ہیں۔
مجھے طارق سفیان صاحب کی سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ ان کا وژنری ذہن اور مشنری جذبہ ہے۔ انھوں نے کچھ خواب دیکھے ہیں اور اس کو حقیقت بنانے کے لیے میں نے ان کے دامان و گریبان سے سچا جنون بولتا دیکھا ہے اور بھلا کیوں نہ ہو کہ ان کی رگوں میں اپنے وقت کے جینئس، دانش ور اور اسکالراسٹیشن ماسٹر مرحوم نعیم الدین صاحب (بیگنا) کا لہو دوڑ رہا ہے۔
طارق سفیان صاحب اس ہوسٹل کے ذریعے صرف پیسے ہی کمانا نہیں چاہتے ہیں بل کہ وہ ننھی پود کو مستقبل کا توانا شجر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ سیمانچل کے نئے جیالوں کی شخصیت میں اس قدر نکھار پیدا ہوجائے کہ وہ آگے سر سید احمد خان، ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، ڈاکٹر ذاکر ذاکرحسین اور اے پی جے عبدالکلام ہوں۔
عظیم وژن اور مشن زندہ باد
طارق سفیان زندہ باد
گرین ویلی بوائز ہوسٹل کشن گنج زندہ باد

__________
کشن گنج سے روٹا نکلتے وقت شمیم ندوی کو فون کردیا تھا کہ ہم ڈاکٹر ظریف احمد صاحب اور انجینئر منصور عالم علیگ صاحب کے ساتھ دو گھنٹے میں آپ سے ملنے آرہے ہیں. وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ علاقے کے اہلِ علم کا ایک مجمع ہمارے استقبال کے لیے اکٹھا ہے. ایسے ایسے چہرے جو اپنی اپنی جگہ آفتاب و ماہ تاب تھے۔ کوئی قاسمی، کوئی مظاہری، کوئی ندوی، کوئی مدنی، کوئی علیگ، کوئی جامعی اور کئی ممتاز اداروں سے فراغت یافتہ علما، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، افسر، وکیل اور مختلف میدانوں کے ماہرین کی ایسی خوب صورت نشست بہت شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مجھے بے ساختہ قوم کے سب سے بڑے بابا کی یاد آگئی۔ انھوں نے بھی اپنے عہد کے تمام بڑے دماغوں کو ایک جگہ جمع کرلیا تھا، جس کو تاریخ علی گڑھ تحریک کے نام سے جانتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں سیمانچل کی علی گڑھ تحریک اسی خطّۂ روٹا سے بپا ہوگی. میں جب بھی روٹا آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں سیمانچل کے دل میں آگیا. روٹا سیمانچل کا دل ہے اور اس دل کی سلطنت پہ شمیم ندوی کا راج ہے. شمیم ندوی وہ بادشاہ ہیں جن کے سر پہ لعل و جواہر نہیں، علوم و فنون کا تاج ہے۔ شمیم ندوی علم ودانش کے عجیب سنگم ہیں۔ بیک وقت وہ ندوہ، جامعہ، جے این یو اور ڈی یو جیسی چار عظیم دانش گاہوں سے فیض یافتہ ہیں۔
سید عالم ندوی اور شمیم ندوی رام لچھمن کی جوڑی ہے۔ سید عالم ندوی میں مجھے مولانا سجاد نعمانی کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہی علمیت، وہی سیاسی و سماجی بصیرت، وہی جذبہ و خلوص اور وہی خدمتِ خلق کا مشن ان کے دل میں موج زن ہے۔
یہاں کوئی شخص مریم گرلز اسکول اور بھاسا باڑی میں گرامر پبلک اسکول کی کچی دیواروں سے جذبہ و خلوص اور ایثار وقربانی کی خوش بو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مولانا تنویر ذکی مدنی، مولانا محمد اشرف، ایڈوکیٹ کیپٹن عقیل جوہر، اویس قرنی صاحب، مولانا شمشاد، مولانا ذاکر حسین، جعفر صاحب، شاہ جہاں صاحب اور امتیاز صاحب وغیرہ احباب سے مل کر دل باغ باغ ہوگیا۔ یہ سبھی تعلیم، سماج اور سیاست کے میدان میں جنونی خدمات انجام دے رہے ہیں۔


__________
شام گہری ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر ظریف احمد اور انجینئر محمد منصور عالم علیگ کی ہم سفری میں رحمان گنج، مدرسہ اشرف العلوم کی زیارت ہوئی۔بانی و مہتمم مولانا نفیس احمد قاسمی صاحب واقعی نفیس الطبع ہیں۔ ان کا دل کش چہرہ ان کی خوش خلقی اور صالح طبیعت کا آئینہ ہے۔ مدرسہ نہایت پرفضا مقام پرواقع ہے۔ کھلی ہوا، روشنی اور تاحد نگاہ لہلہاتی کھیتیاں___نفیس صاحب اس وبائی دور میں بھی نہایت مطمئن ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تالا بندی کا ان کے ادارے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ تمام تر حکومتی ہدایات کی پابندی کرتے ہوئے تعلیم جاری رہی، اساتذہ کو تنخواہیں ملتی رہیں، دارالاقامہ میں طلبا موجود رہے، اہلِ خیر کی اعانتوں میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ میرے خیال میں فضل وکرم، رحمتوں اور برکتوں کا یہ نزول نفیس صاحب کے خلوص وللّٰہیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔


__________
ایک ایسا تر و تازہ چہرہ جس پہ پہلی نظر اس کی شرافت اور بالیدہ شعور کی گواہی دیتی ہے___وہ ماسٹر محمود ہاشمی ہیں۔
رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا لیکن ڈاکٹر ظریف احمد اور مولانا نفیس احمد قاسمی کے ساتھ ہمارا قافلہ بیرنیاں گاؤں بڑھتا چلاگیا۔ ماسٹر محمود ہاشمی گزشتہ تین برسوں سے گردے کی تکلیف جھیل رہے ہیں۔ ہفتے میں تین دن ڈائلیسس ہورہا ہے۔ لیکن چہرے کی بشاشت اور موہنی سی معصوم مسکراہٹ سے کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے۔ وہ شوگر کے بھی شکار ہیں۔ ماسٹر صاحب اپنے زمانے ميں پٹنہ یونی ورسٹی کے نہایت نمایاں طلبا میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ زندہ دل، خوش مزاج اور مہذب شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے مل کر عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے، ہم سے مل کر ان کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ خدا جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اس سے فریاد ہے کہ ماسٹر صاحب کو جلد مکمل شفا اور صحت بخشے۔


__________
ڈاکٹر ظریف احمد صاحب علاقے کے مشہور ڈینٹسٹ ہیں۔ ان کی جادوئی مسکراہٹ غضب کی ہے۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ وہ اپنی مسکراہٹ سے دراصل اپنے پیشۂ طبابتِ دندان کا پرچار کرتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
رات کے پہلے پہر میں ڈاکٹر ظریف احمد صاحب اور مولانا نفیس احمد قاسمی صاحب کے ساتھ اگلی منزل بہادرگنج میں مفتی جسیم اختر صاحب کی زیارت تھی۔ سیمانچل کی نئی پیڑھی میں جو علما بہت نمایاں ہیں ان میں مفتی جسیم اختر قاسمی صاحب سے مجھے خاص لگاؤ ہے۔ مفتی صاحب بلا کے خطیب ہیں۔ علاقے کا کوئی جلسہ ان کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ مفتی صاحب کی شخصیت میں ہمالیہ پہاڑ کی سی ہیبت و عظمت اور وزن و وقار ہے۔ انکسار، خوش خلقی، تواضع، حق پسندی اور تقویٰ شعاری مفتی صاحب کی امتیازی صفات ہیں۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد معروف اور بزرگ عالم مولانا انوار عالم صاحب کی بیٹی سے شادی کی۔ دارالعلوم بہادرگنج سے بحیثیت استاذ وابستہ ہوگئے۔ مولانا محمد اسرارالحق قاسمی علیہ الرحمہ اور میرے ابا علیہ الرحمہ بھی مفتی صاحب کو بے پناہ عزیز رکھتے تھے۔ میری تمنا ہے کہ دارالعلوم بہادرگنج جیسے سیمانچل کے اہم ادارے کو آئندہ آپ کی قیادت نصیب ہو۔


__________
میرے نزدیک روح کا رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ مستحکم و مقدس ہے۔ مرشدِ روحانی حضرت الحاج جاوید اقبال صاحب علیہ الرحمۃ سے ابا علیہ الرحمۃ کی حیات میں کم ہی ملاقات رہی، لیکن بعد میں 2011 تا 2021 کس قدر فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ اسی طرح ماموں کرنل آفتاب عالم صاحب کی کہانیاں ابا زندگی بھر سناتے رہے۔ ان کو ہم نے 1988 میں دیکھا تھا۔ اس کے بعد ابا انھیں اکثر یاد کرتے اور کہتے تھے کہ ان کا تبادلہ کشمیر ہوگیا تھا، پتہ نہیں اب کہاں ہوں گے۔ 2011 میں ابا دنیا چھوڑ کر چل بسے، لیکن اشارہ کرگئے تھے کہ آفتاب صاحب کو خلافت دینی ہے۔ 2013 کو کراماتی انداز سے اچانک آفتاب صاحب بیگنا آگیے اور پھر یوں ہوا کہ زندگی بھر کی دوری ختم ہوگئی۔ وہ اب مستقل مجھ سے اور ماموں جاوید اقبال صاحب سے رابطے میں آگیے۔یہ کیا ہے؟ صرف روحانی رشتہ۔ وہ رشتہ جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ بالکل یہی ماجرا چھوٹے بھائی متین اقبال کا بھی ہے۔ ان سے شاید دس سال تک رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔ بل کہ کبھی کبھی روٹھنے کا بھی مسئلہ پیش آگیا تھا۔
لیکن روحوں کو دنیا کی کون سی طاقت الگ کرسکتی ہے؟ ابھی کشن گنج میں پھر مل گیے اور ایسے ٹوٹ کر ملے، جیسے دو بچھڑے ہوئے بھائی یوسف اور یامین آج سے پانچ ہزار سال پہلے مصر میں ملے تھے۔ متین اقبال، ان کی اہلیہ ثنا اقبال صاحبہ اور ننھی سی بیٹی آیت نے چند لمحوں میں مجھے وہ عزت اور اپنائیت بخشی، جس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ اس کا تعلق بس جذبہ واحساس کی دنیا سے ہے۔
متین اقبال نے بتایا کہ ان کی اہلیہ آیت گرلز ہوسٹل کی نگرانی کا فریضہ اس سلیقے سے انجام دے رہی ہیں کہ انھیں اس میں ذرا بھی الجھنے کی نوبت نہیں آتی۔ ان کی بیگم ثنا اقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور بی ایڈ کیا ہے اور وہ نہایت باشعور و شائستہ خاتون ہیں۔ متین اقبال نے ہمیں اس کمرے میں بٹھایا جس میں ماموں جاوید اقبال صاحب قیام کرتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر ان کی یادوں کے طوفان نے مجھے گھیرے رکھا۔
افسوس کہ اس سفر میں چھوٹے بھائی مرتضٰی اقبال اور بڑے بھائی مبین اقبال صاحب کی زیارت نہ ہوسکی۔ متین اقبال کی صحت ماشاءاللہ ان دنوں اچھی ہے۔ چہرے پہ عجب نور آگیا ہے۔ ٹرین کا وقت ہورہا تھا، جلدی جلدی ان کے گھر شان دار ظہرانہ تناول کرکے اسٹیشن نکل پڑے، ملاقات تشنہ رہ گئی۔مولا ان تینوں عزیز بھائیوں کو سلامتی کے ساتھ باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔
رہے نام اللہ کا

***
ڈاکٹر خالد مبشر کی دوسری نگارش : چشم کو سونپی گئی خدمتِ خواب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے