غضنفر کے افسانہ "تصویر تخت سلیمانی" کا تجزیاتی مطالعہ

غضنفر کے افسانہ "تصویر تخت سلیمانی" کا تجزیاتی مطالعہ

نثار انجم

زیر مطالعہ افسانے میں ققنس پرندے کا ذکر ہے۔ ققنس کو سمجھے بغیر ہم تفہیم کی کلید تک نہیں پہنچ سکتے
ہما ،عنقا اور قنقس خیالی پرندے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا کی پہاڑیوں میں ایک عجیب وغریب پرندہ ہے۔ جو نہ نر ہے نہ مادہ۔یہ سارے جنگل میں ایک ہی ہوتا ہے قدیم یونانی، مصری اور چینی قصوں اور روایتوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔اس کی عمر طویل ہوتی ہے. یہ تقریبا ۱۴ سو سال تک زندہ رہتا ہے۔ ۔ قنقس کے بارے میں یہ مشہور ہے كہ بہت خوش رنگ اور خوش آواز پرندہ ہے ہے۔ اس كی چونچ لمبی ہے اور جس میں ہزاروں سوراخ ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہر سوراخ سے ایک راگ نكلتا ہے۔ یہ ہر قسم کا راگ گاتا ہے۔
اس کی آواز ایسی رسیلی ہوتی ہے کہ جب اپنی مستی میں مست ہوکر راگ الاپتا ہے جنگل کے تمام پرندے اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور جھرمٹ بنا لیتے ہیں
گیت سنتے ہیں پرندوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وارفتگی میں یہ ہے مرغ بسمل کی طرح لوٹنے لگتے ہیں اور آسانی سے ققنس کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس کی آواز سنتے ہی جنگل میں کہرام مچ جاتا ہے۔ لیکن افسانے میں 365 راگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ پانچ خصوصی راگ وہ ہیں جس پر افسانے کی بنا رکھی گئ ہے۔ جب یہ مرنےکےقریب ہوتا ہے تو وہ جنگل سے خوشبودار سوكھی لكڑیاں جمع كركے ان پر بیٹھ جاتا ہے اور پروں كو پھڑپھڑاتے ہوئے خوش الحانی سے رنگا رنگ راگ الاپتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی منقاروں سے جوش کے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ گانا شروع کرتا ہے۔ وہ ایسا گیت گاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی چونچ سے چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں ۔گاتے گاتے
اس كی چونچ سے دیپک راگ نكلتا ہے تو لكڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور ققنس اس میں جل كر راكھ ہوجاتا ہے۔ پھر خدا كی قدرت سے راكھ بارش کے پانی میں بھیگتا ہے پھر اس میں سے خود بخود انڈا پیدا ہوجاتا ہے اور كچھ مدّت كے بعد اس انڈے میں سے پھر ققنس پیدا ہوتا ہے یعنی ققنس کی جگہ ققنس أجاتا ہے۔
یہ مشکل ہے کہ ہر آدمی صاحب نثر ہوجائے۔ علامتی افسانہ کہنے کے لیے بھی vision چاہیے۔ عالمی سماجی، سیاسی معاشرتی ادراک رکھنے والے کے ذہن میں ہی علامتیں اپنی عبا اتارتی ہیں استعارے اپنا پر کھولتے ہیں کہانی تن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ افسانے کی قرات کے بعد یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں ایک بھی بھرتی کا لفظ نہیں ہے۔ ہر لفظ کا جواز یہاں موجود ہے۔
دوسرا یہ کہ کی نثر میں خشکی نہیں ملتی نثر میں قلقل کرتی روانی ہے۔ ہر جملے کو بامعانی اور تخلیقی ڈیکورم کے أداب سکھاۓ گۓ ہیں۔ یہ لفظوں کی حسن کاری ہے کہ جملے حسن کی چاشنی میں گھل گئے ہیں۔ مصنف نے یہاں کہنے کی بجائے دکھایا ہے نقشہ کھینچا ہے کبھی دیوار پر ٹنگی تصویر بولتی ہے کبھی تصویر پر ٹنگی ارجن کی طرح شعوری أنکھیں اپنی مدعا کا اظہار کرتی ہیں۔ کہانی کا بیشتر حصہ ققنس کی شبیہ اور عمل میں دکھایا گیا ہے یہاں بھی کہانی کہی نہیں گئی دکھائی گئی ہے۔
ہم جیسے ہی افسانوی حرم میں داخل ہوتے ہیں ہمیں دو پینٹنگز نظر آتی ہیں۔ ایک سامنے کی دیوار پر دوسرا بالکل اس کے برعکس دوسری دیوار پر۔ ایک پینٹنگ آنے والے کے لیے ہے۔ دوسرا جو وہاں موجود ہے پینٹنگ اس کی آنکھوں کی پتلی کے سامنے ہے تصویر اس کے تصور میں ہے کہ وہ کتنی بلندی پر جا سکتا ہے کتنی اونچائی پر پرواز کرسکتا ہے. ارجن کی طرح ہمیشہ اس کی نظر اس تصویر پر رہتی ہے جس میں تخت ہے۔
"وہ تصویر سامنے کی دیوار پر عین دروازے کے اوپر آویزاں تھی۔ اس تصویر میں ایک سفید ریش بزرگ ہیرے اور موتیوں سے جڑا تاج پہنے ایک مزین تخت پر جلوہ افروز تھے۔
تخت کے پائے سفید پوش جنات اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ بزرگ کے سر پر پرندوں کا ایک غول اپنے اجلے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھا۔ تخت کے آگے پیچھے چرند اور درند کھڑے تھے۔"
یہ وہی علامتی شخص ہے جس نے ایک وہ خود اپنی أگ میں جل کر راکھ ہوجا تاہے۔پھر مینھ برستا ہے اسی راکھ سے ققنس کی ترقی یافتہ نسلیں پیداہوتی ہیں۔ دوسری پینٹنگ اس کے لیے بنائی گئی ہے جو اس گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ امن کے پرندوں کی علامتی تصویر ہے۔ شاخ زیتون کی ٹہنیوں پر بیٹھا سبز خطے کی أبادی والی اس سر زمین کے خطے میں اترنے کے انتظار میں جہاں خون سے گیلی زمین نہ ہو۔
ممصنف نے تصویر کی پینٹنگ مکمل کر دی اب کہانی شروع ہوتی ہے اب کچھ ذکر ہوتا ہے بزرگ کی اس بے چینی کا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ سامنے کی دیوار پر جو پینٹنگ ہے وہاں ایک تخت ہے سلیمان کا وہ سلیماں کی طرح ساری دنیا پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ سلیماں کے تخت کے نیچے چرند پرند و دیگر جانور خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ آج جس کے پاس بھی تخت سلیمانی ہے اس کے برعکس ہے ۔ققنس اس سفیر ریش والے شخص کا tools ہے. 
ققنس ایک پرندہ ہے۔ جب اسے بھوک لگتی ہے تو پہاڑ پر جاتا ہے ۔اس کی آواز اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ لوگ اس کا الاپ سن کر کھینچے چلے آتے ہیں اور وہ انہیں چٹ کر جاتا ہے سیاسی تناظر میں ققنس سیاسی مدبر کی علامت ہے۔ جو عوام کا من موہنے کے لۓ خوش الحاں راگ الاپتے ہیں۔
لیکن یہاں ققنس کے پروں کے حدود میں پورا گلوب ہے۔یہاں ققنس عالمی سیاست کے silence of tower پر بیٹھا ہے ۔اس کا مشن سر سبز خطے میں دیپک راگ گانا ہے تاکہ اس کہ منقار سے نکلنے والاسر أگ کی بارش برساۓ اس طرح کہ دور دور تک اس گلوب حیات پر کوئی سر سبز خطہ نہ رہے۔
عالمی جنگوں کو سامنے رکھ لیں جو لڑیں گئی تھیں کیسی تباہی ہوئی ۔شہر کی اس تاراجی کے بعد اسے بچانے کی کوششیں بھی شروع ہوگئیں۔أبادکاری کا بگل بج گیا۔ ہم سے کہا گیا کہ پانی بھیجیں ،پیڑ پودے اور اپنے لوگ بھیجیں۔
یہ یہی کرتے ہیں کہ ایک ملک کو تباہ کر دیتے ہیں دوسرے ملک سے اسے أباد کر نے rehabitate کے لیے کہتے ہیں کہ وہ بھی کم ہو جائیں اور ان کا سرمایہ بھی کم ہو جائے۔
قصہ مختصر یہ کہ اس سوچ اور ذہنی پرواز کا قصہ ہے جو اپنی حکمتِ عملی سے سارے عالم پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ کائنات کے ایک ایک خطے پر مسلط ہو جانا چاہتا ہے جو جدید، کیمیائی اسلحوں کا ایسا ققنس بنانا چاہتا ہے جو ختم ہو تو اس کے خاکستر سے بے شمار ققنس نکل آئیں اور اس کے اس تصور کی ٹھوس صورتیں ہم پچھلی مختلف جنگوں میں دیکھ چکے ہیں۔
یہ ایک ایسا کامیاب علامتی افسانہ ہے کہ ذرا سی توجہ پر جس کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ جانا پہچانا اسلوب لگتا ہے۔ ایسی بلیغ اور معنی خیز علامتیں وہی استعمال کر سکتا ہے جسے زبان و بیان پر مکمل عبور ہو اور جس کی نگاہ موضوع کے اندرون تک بھی پہنچتی ہو۔ یہ ایسی علامتی کہانی ہے جو ماضی اور حال کی صورت حال کو تو سمیٹتی ہی ہے،مستقبل کے حالات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔
اتنی کامیاب،معنی خیز اورپختہ زبان میں لکھی گئی کہانی کے لیے اس کے خالق کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

***
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں :پھندنے : ایک تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے