امیرشریعت سابع : حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ

امیرشریعت سابع : حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے ساتویں امیر شریعت ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کے نامور صاحب زادے، ممتاز عالم دین، تصوف وتزکیہ کی دنیا کی عظیم شخصیت، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، رحمانی تھرٹی اور رحمانی فاؤنڈیشن کے بانی، جامعہ رحمانی مونگیر اور درجنوں اداروں کے سرپرست، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کا ۳؍اپریل دن کے ڈھائی بجے پٹنہ کے پارس ہوسپیٹل میں انتقال ہو گیا. اناللہ وانا الیہ راجعون، تجہیزو تکفین ۲۱؍ شعبان ۱۴۴۲ھ مطابق ۴؍ اپریل۲۰۲۱ء بروز اتوار بوقت سوا بارہ بجے خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، نماز جنازہ حضرت صاحب کے خلیفہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محفوظ عمرین رحمانی نے پڑھائی، لاکھوں کا مجمع حضرت صاحب کے اس آخری سفر کا چشم دید گواہ رہا، امارت شرعیہ کے ذمہ داران، کارکنان اور قضاۃ حضرات بھی اس آخری سفر میں شریک ہوئے، سرکار نے بھی رسمی اعزاز میں کوتاہی نہیں کی، جنازہ کی نماز سے قبل ترنگا اوڑھاکر گارڈ آف آنر پیش کیاگیا، بعد نماز مغرب تعزیتی اجلاس خانقاہ رحمانی کی تاریخی جامع مسجد میں ہوا، جس میں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت، مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، مولانا ابو طالب رحمانی، مولانا خالد ندوی غازی پوری، مولانا مفتی نذر توحید مظاہری وغیرہ کے ساتھ راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ) نے بھی خطاب کیا، مولانا عمرین محفوظ رحمانی کی پُر اثر اور رُلا دینے والی دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا، حضرت کے پس ماندگان میں دو صاحب زادے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، جناب حامد ولی فہد رحمانی اور ایک صاحب زادی ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی( ولادت : ۵؍جون ۱۹۴۳ ء) بن امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی (۱۹۱۲۔۱۹۹۱) بن مولانا سید محمد علی مونگیری (۱۸۴۶۔۱۹۲۷) کی تعلیم اور تربیت ابتدا میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی، مولوی حبیب الرحمن اورماسٹر فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے نامور والد کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا، جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور۱۹۶۴ء میں دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے. ۱۹۶۷ء میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ انھوں نے جامعہ رحمانی میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا، ۱۹۶۹ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے، ۱۹۷۰ء میں ایم اے کیا، ۱۹۷۴ ء میں ودھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی، حج وعمرہ کا پہلا سفر ۱۹۷۵ ء میں ہوا، اسی سال کویت بھی تشریف لے گئے، ۱۹۷۹ء کا سال روس کے سفر، ۱۹۸۴ ء روزنامہ ایثار پٹنہ کی اشاعت، ۱۹۸۵ء بہار ودھان پریشد کے ڈپٹی چیر مین، ۱۹۹۱ء خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی، ۲۰۰۵ء نائب امیر شریعت کی حیثیت سے نامزدگی اور ۱۹۹۶ء کو رحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ سے مولانا کی حیاتی تقویم میں خاص اہمیت حاصل ہے، جب کہ ۱۹۸۹ء جان لیواحملہ، ۱۹۹۱ء والد امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور ۱۹۹۵ والدہ کی وفات، ۱۹۹۶ء بیٹے خالد رحمانی کی حادثاتی موت اور ۲۰۰۸ بھائی محمد وصی کی موت کی وجہ سے غم والم کا سال رہا، ۲۰۱۰ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ۔
آپ کی تالیفات وتصنیفات میں مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم، خیر مقدم، شہنشاہ کونین کے دربار میں، حضرت سجاد۔ مفکر اسلام، یادوں کا کارواں، آپ کی منزل یہ ہے، بیعت عہد نبوی میں، تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد رسائل موجود ہیں، جو آپ کی فکری بصیرت، تحریری انفرادیت، سیاسی درک اور درد ملت کی شاہد ہیں، ان کے علاوہ بے شمار مضامین و مقالات جو مختلف اخبارات و رسائل میں طبع ہوئے، ابھی جمع نہیں کیے جا سکے ہیں۔
حضرت مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی، خانقاہ رحمانی، جامعہ رحمانی مونگیر، ودھان پریشد، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شرعیہ، درجنوں مدارس کی سر پرستی اور رحمانی تھرٹی کے حوالہ سے ان کی خدمات کے نقوش واضح اور دوپہر کے آفتاب کی طرح روشن ہیں۔ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی تھے. جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے تھے، استقلال، استقامت، عزم بالجزم اور ملت کے مسائل کے لیے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت تھی، وہ ایک اصول پسند انسان تھے اور دوسروں کو بھی اصول پسند؛ بل کہ اصولوں پر عامل دیکھنا پسند کرتے تھے، مزاج میں سنجیدگی تھی؛ لیکن موقع بہ موقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انھیں خوب آتا تھا، مولانا کے اوپر کام کا بوجھ بے پناہ تھا، عمر کی آٹھویں دہائی میں صحت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، ان کی قوت ارادی مضبوط اور کام کے تئیں لگن اتنی مستحکم تھی کہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے بہت لوگوں کو پسینہ آنے لگتا تھا۔
امارت شرعیہ کے ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی (۱۹۴۳ء تا۲۰۲۱ء) نوراللہ مرقدہ کا انتخاب ارریہ میں ۲۹؍نومبر ۲۰۱۵ء کوعمل میں آیا تھا، ۳؍اپریل ۲۰۲۱ء کو حضرت کے وصال کے بعد یہ دور اختتام کو پہنچا، اس کے قبل حضرت صاحب ۳؍اپریل ۲۰۰۵ء کو نائب امیر شریعت نام زدہوئے تھے، اس حیثیت سے دس سال سات ماہ انھوں نے خدمات انجام دیں، ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء سے ۲۸؍ نومبر تک وہ چھٹے امیر شریعت کے انتقال کے بعد سے امیر شریعت کے انتخاب تک ’’مثل امیر شریعت‘‘ امارت شرعیہ کی خدمات انجام دیتے رہے، کیوں کہ دستور امارت شرعیہ کے مطابق امیر شریعت کے وصال کے بعد نائب امیر شریعت ’’مثل امیر شریعت ‘‘ ہوتا ہے اور اس کا حکم امیر شریعت کے حکم کی طرح نافذ العمل ہوتا ہے۔ اس کے قبل ۲۲؍ شعبان ۱۳۷۶ تا ۳؍ رمضان ۱۴۱۱ء مسلسل چونتیس (۳۴) سال وہ چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست و بازو بن کے امارت کے کاموں کو آگے بڑھانے میں لگے رہے۔ امیر شریعت کے لیے حضرت صاحب کا انتخاب اس لیے قطعا نہیں ہوا تھا کہ وہ چوتھے امیر شریعت کے صاحب زادہ تھے، بل کہ اس کے پیچھے نصف صدی کی ان کی تاریخی خدمات تھیں۔
ساتویں امیر شریعت کا دور مسعود پانچ سال چار ماہ چھ دن رہا، امارت شرعیہ کی تاریخ میں امیر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ کا دور امارت سب سے کم تین سال تین ماہ ستائیس دن ہے، اس کے بعد ساتویں امیر شریعت کا دور ہے، اس مختصر دور میں حضرت نے امارت شرعیہ کے استحکام، تحفظ اور بقا کے لیے متعدد اقدام کیے، تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لیے ہرضلع میں صدر سکریٹری اورفعال کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا، بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی عمل میں آئی، تاکہ تنظیم وتبلیغ کے کاموں کو زمینی سطح پر وسعت دی جاسکے، اس کے لئے دربھنگہ، مدھوبنی، مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن، سیتامڑھی، مظفرپور، سوپول، سہرسہ، مدھے پورہ میں دو دو روز قیام کرکے آپ نے امارت شرعیہ کے تنظیمی کاموں کو مضبوطی عطا کی، جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو وسعت دینے کے لیے انتقال سے ایک ہفتہ قبل پانچ روز قیام کیا تھا اورمختلف سطح پر کام کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کو آخری شکل دی تھی، اس سلسلے کا آخری پڑاؤ اڈیشہ تھا، رمضان بعد اس کی ترتیب بنی ہوئی تھی لیکن موت نے اس کا موقع نہیں دیا، دارالقضاء کے کاموں کوو سعت بخشی اوراب ارسٹھ(۶۸) دارالقضاء کام کررہے ہیں، تعلیمی میدان میں امارت پبلک اسکول کے مبارک سلسلہ کا آغاز کیا، گریڈیہہ کے بن کھجنجو اور پسکا نگری رانچی میں نیے اسکول کھولے گئے، امارت انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد اربا رانچی میں ڈالی گئی، پہلے سے چل رہے تمام تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے سلسلے میں ضروری اورمناسب اقدامات کیے گئے، طلبا وطالبات کے لیے الگ الگ نظام بنایا گیا، بنیادی دینی تعلیم کے فروغ، عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور اردو کی بقا و تحفظ اورترویج و اشاعت کے لیے پورے بہار اورجھارکھنڈ میں تحریک چلائی گئی اور ضلعی سطح تک کی تعلیمی تنظیم قائم کی گئی، بہار میں اس کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوچکا تھا کہ اس عظیم حادثہ فاجعہ کی وجہ سے اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا، بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے خود کفیل نظام تعلیم کے جامع منصوبہ کو جو اکابر امارت نے بہت پہلے ترتیب دیا تھا، تھوڑے اضافہ کے ساتھ نظام تعلیم کے راہ نما اصول کے نام سے شائع کراکر بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ میں تقسیم کرایا گیا، اردو کو داخلی سطح پر مضبوط اورسرکاری سطح پر حقوق کی یافت کے لیے اردو کارواں کا قیام عمل میں آیا، جس نے حضرت صاحب کی توجہ سے دو ماہ کے اندر ہی اپنی ایک شناخت بنالی، حضرت امیر شریعت ؒ کے اس جملہ نے کہ’’ اردو کو اب دودھ پینے والے مجنوں کی ضرورت نہیں، خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے‘‘، ضرب المثل کی شکل اختیار کرلی۔ دفتری کاموں میں تیزی لائی گئی، اور جمود و تعطل کو دور کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی، امارت شرعیہ کے دوسرے تعلیمی اور تکنیکی اداروں، خدمت خلق کے شعبوں کو چوکس، مستعد اور مزید نفع بخش بنانے کا کام کیا گیا.
دفتری کاموں سے الگ ملی معاملات میں بھی ساتویں امیر شریعت کے دور میں مثالی کام ہوا، ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو گاندھی میدان میں ’’دین بچاؤ دیش بچاؤ‘‘ کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھاکہ گاندھی میدان مسلمانوں سے بھر دیا گیا تھا، سیاسی لوگوں کی نیندیں اس تاریخی کام یابی سے اڑگئی تھیں اور سیاسی سطح پر اس کے بڑے مثبت اوردیرپا اثرات مرتب ہوئے تھے، بڑی سیاسی پارٹیوں کے راہ نماؤں نے اس عظیم کام یابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب سیاسی قیادت بھی آپ کے ہاتھ ہے، حضرت صاحب نے دلت مسلم اتحاد کے لیے بھی زمینی سطح پر کام کیا اوران کے راہ نماؤں کے ساتھ کئی میٹنگیں کیں۔
سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے مرحلہ کے سامنے آنے کے پہلے ہی آپ کی دور رس نگاہوں نے آنے والے طوفان کا اندازہ لگا لیا تھا اورکاغذات وغیرہ کی تیاری کے لیے امارت شرعیہ نے مہم کا آغاز کردیا تھا، پھر جب سی اے اے کا معاملہ آیا تو حضرت کی مضبوط قیادت میں پورے ہندستان میں تحریک چلائی گئی اوربہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ میں قائم تقریبا تمام احتجاج ومظاہرہ کی سرپرستی امارت شرعیہ نے کی، تین طلاق کے مسئلہ پر پورے ہندستان میں جو تحریک چلائی گئی اس میں امارت شرعیہ کی فعال اور مضبوط شراکت رہی، خواتین کے اتنے کام یاب جلوس نکلے جس کی مثال ہندستانی تاریخ میں نہیں ملتی، دستخطی مہم کی کام یابی کا سہرا بھی حضرت امیر شریعت کے سر جاتا ہے۔
حضرت ہی کے دور مسعود میں امارت شرعیہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا، سرکاری طورپر اسے رجسٹرڈ کرایا گیا، رقومات کی منتقلی (کیش لیس) چیک کے ذریعہ ہونے لگی، بیت المال کے پورے نظام کو سرکاری ضابطے اوردستور کے مطابق کیا گیا، اورانکم ٹیکس میں چندہ دہندگان کو رعایت دینے کے لیے کئی سرکاری ضابطوں پر عمل کیاگیا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ سامنے آیا تو حضرت نے تفصیل سے اس کا جائزہ لیا، اہل علم کو بلاکر اس پر میٹنگ کروائی اور ترمیمات سرکار کو روانہ کیا، سرکاری سطح پر اس مسودہ کو آخری شکل دی گئی اورسرکار نے منظور کرلیا توپھر سے حضرت نے اس کی خامیاں اجاگر کیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ طویل قانونی مسودہ کا اردو میں ترجمہ کراکر لوگوں تک پہنچایا گیا، بہار اور جھارکھنڈ کے خصوصی مشاورتی اجتماع کے صدارتی خطاب میں اس پر نقد کیا اوراس کی خامیاں لوگوں تک پہنچائیں۔
اس پانچ سالہ دور امارت میں شعبہ نشر و اشاعت سے کئی معیاری کتابیں طبع ہوئیں، ان میں لڑکیوں کا قتل عام، اصلاح معاشرہ کی شاہ راہ ،حضرت سجاد مفکراسلام، مسلم پرسنل لا اورہندوستان، قانون قضاء کی شرعی و تاریخی اہمیت، خطبات جمعہ، حج اورعیدین کے احکام ومسائل، مساجد کی شرعی حیثیت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب کو انتہائی معیاری بنانے پر آپ نے خصوصی توجہ دی، مضامین کے انتخاب، اداریے، سیٹنگ، کاغذ و طباعت تک پر آپ کی نگاہ رہتی تھی اوربڑی شدت سے ہر ہفتے اس کا انھیں انتظار رہتا تھا، انتقال سے چند گھنٹے قبل آپ نے نقیب کے کاغذ وغیرہ کے بارے میں اپنے رفقا سے دریافت کیا، آکسیجن لگے رہنے اور آئی سی یو میں داخل ہونے کے باوجود ان کی خواہش نقیب کے تازہ شمارہ کو پڑھنے کی تھی، جس کی اجازت ڈاکٹروں نے نہیں دی، نقیب بارہ صفحات پر آتا تھا، اسے سولہ صفحات کا کیا، خود حضرت ایک زمانہ میں نقیب کے مدیر رہ چکے تھے اوراصغر امام فلسفی کے دور میں نقیب کا کام حضرت کے ذمہ رہا، جناب شاہد رام نگری کے دور میں ان کو ضروری مشورے دیا کرتے تھے، بل کہ اداریوں پر اکثر و بیش تر عنوان حضرت ہی کے منتخب کردہ ہوتے تھے۔
امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒپورے ہندستان ؛ بلکہ عالم اسلام میں بھی اپنی ملی تعلیمی، سماجی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے تھے، جرأت کردار، استقامت علی الحق اور ملت کی سر بلندی کے لیے ہردم سرگرم عمل رہنے والی اس عظیم شخصیت نے اپنی خدمات کے گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت، امارت شرعیہ، رحمانی تھرٹی، رحمانی فاؤنڈیشن، خانقاہ رحمانی، جامعہ رحمانی مونگیر، ودھان پریشد کی ممبری اور اس کے نائب صدر ہونے کی حیثیت سے آپ کی خدمات و قیع بھی ہیں اور وسیع بھی، جس کام کو ہاتھ میں لیا، پورا کر کے چھوڑا، پریشانیاں آئیں، طوفان اٹھے، موجوں نے سمت سفر کو بدلنا چاہا، لیکن حضرت صاحب کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی، جان کو خطرہ لاحق ہوا، زندگی میں غم والم کے مراحل آئے، بیماریاں اور جسمانی اعذار کی وجہ سے مہینوں صاحب فراش رہنا پڑا؛ لیکن ہر حال میں ملت کی فکر دامن گیر رہی، معاشرہ کی اصلاح کی جدوجہد جاری رہی، پرسنل لا بورڈ پر ہونے والے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا، جسٹس کاٹجو نے اپنے فیصلے کی اصلاح کی، حکومت اور سرکاری عہدیداروں کو آر ٹی ای، وقف ایکٹ، ڈائرکٹ ٹیکسز کوڈ جیسے موضوعات پر گھٹنے ٹیکنے پڑے، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صد سالہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ کی بہار میں قانون و انتظام کی بگڑتی صورت حال پر سخت تنبیہ کی، حضرت نے ثابت کردیا کہ قوت مڑ جانے کا نام نہیں، موڑ دینے کا نام ہے، انھوں نے اقبال کے مرد مومن کی صفت ’’زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز‘‘ پر عمل کرکے ملت کے لیے عمدہ مثال پیش کی، جب لوگ ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘ ‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے، حضرت مولانا نے ملت کے مفاد میں طوفان کے رخ موڑنے کی مسلسل، مربوط اور منظم جد و جہد جاری رکھی۔ پورے ہندستان نے ان امور میں آپ کی جرأت وعزیمت کا لوہا مانا۔ آپ کے پانچ سالہ دور امارت میں امارت شرعیہ نے ہر اعتبار سے ترقی کے نئے رکارڈ قائم کیے۔
اللہ رب العزت کو جس انسان سے جو کام لینا ہوتا ہے، اس کے لیے قدرت و صلاحیت، طاقت و استقامت اور رجال کار بھی فراہم کرتا ہے، ملک و ملت کی ہر دور میں یہی تاریخ رہی ہے۔ حضرت مولانا کو بھی اللہ تعالی نے موثر گفتگو، بے مثال خطابت، لا جواب نثر نگاری کی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا، ان کی گفتگو مدلل، تحریر باوزن، اور تقریر ’’ان من البیان لسحرا‘‘ کی تصویر ہوتی تھی، سنتے رہیے اور سردھنتے رہیے، قوت سماعت بھی لطف اندوز اور قوت عمل بھی متحرک اور بیدار اور ان سب کے ساتھ تصوف وتزکیہ کے ماہر اور حسن کردار کا مظہر جس کی وجہ سے لوگوں پر خاص اثر اور کیف طاری ہوتا تھا، اور لاکھوں کا مجمع آپ کی گفتگو سننے اور آپ کی ایک جھلک پانے کے لیے بے چین رہتا تھا ۲۹ / نومبر ۲۰۱۵ کو التمش ملیہ کالج زیرو مائل ارریہ میں منعقد اجلاس عام کومثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے. جس میں محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ سرد موسم میں آپ کی تقریر سننے کے لیے دیر رات تک جمے رہے اور ہلنے کا نام نہیں لیا. ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا اٹھ جانا علمی، ملی، تعلیمی سیاسی اور سماجی اعتبار سے بڑا خسارہ ہے.
یہ بھی پڑھیں : امیر شریعت سادس :حضرت مولانا سید نظام الدین رح

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے