بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلے کے لیے متّحدہ محاذ کا قائد کون ہو؟ 

بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلے کے لیے متّحدہ محاذ کا قائد کون ہو؟ 

نریندر مودی اور اُن کی حکومت کی زمینی سطح پر ناکامیوں کے باوجود اُن سے لڑنے کے لیے ہندستان کی سیاسی جماعتیں اب بھی بے فکری میں انتشار کا شکار ہیں۔
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
٢٠١٤ء میں نریندر مودی نے جس اہتمام کے ساتھ انتخابی تشہیر کی اور من موہن سنگھ کی کانگریسی حکومت کو مرکز سے بے دخل کیا، سات برسوں کے بعد بھی اُس کانگریس میں اقتدار کے لیے نہ کوئی جوش نظر آ رہا ہے اور نہ ہی اس بات کے آثار نظر آ رہے ہیں کہ وہ پھر سے حکم رانی کا کوئی خواب بھی دیکھ رہی ہے۔ چند ریاستوں میں تحفے کے طَور پر عوام نے ہر چند کہ کانگریس کو حکومت سونپ دی مگر پہلے دور میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں حکومت گنوا دینے کے بعد دوسری کئی ریاستوں کی حکومتیں یعنی راجستھان اور پنجاب تو سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہیں۔ چین-ہندستان رشتوں پر یا رافیل کے سلسلے کی مالی بدعنوانیوں پر راہل گاندھی کے بیانات یا کورونا کے سلسلے سے حکومت کی ناکامیوں کے بعض امور کے علاوہ گذشتہ سات برسوں میں کانگریس ایک مکمّل طَور سے شکست خوردہ سیاسی پارٹی کے طَور پر ہمارے سامنے ہے۔ خاندانی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ ایک ناکامی پر گھر کا ایک فرد استعفیٰ پیش کرتا ہے اور دوسرے کو ذمّہ داری مل جاتی ہے۔ کہاوت پہلے سے موجود ہے کہ ’گھی کہاں گیا، کھچڑی میں‘۔ عوامی سطح پر یہ بات بھی لوگوں کو خوب سمجھ میں آتی ہے کہ راہل گاندھی، سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی نے مل جل کر کانگریس کی لُٹیا کو ڈُبو رکھا ہے۔
سیاسی مشاہدین کے درمیان اس بات کے لیے چہ می گوئیاں شروع ہو چکی ہیں کہ کانگریس کی عدم کارکردگی اور قومی سطح پر سیاسی امور میں سُستی اور کاہلی صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے نہیں ہے بل کہ کہیں نہ کہیں کانگریس کی اندر ہی اندر پیدا ہوئی اُس سڑاندھ کا اشاریہ ہے جہاں عوامی سیاست ختم ہو جاتی ہے اور اقتدار اور اس کے آس پاس منڈراتے کیڑے مکوڑوں کی جو کیفیت ہوتی ہے، اُسی طرح سے اس سیاسی پارٹی کی کیفیت ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہندستان کی تمام علاقائی پارٹیوں نے گذشتہ تین دہائیوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلہ آرائی میں کانگریس کی قیادت کو آنکھ موٗند کر افضل مانا اور بے چوٗں و چرا اُس کے ساتھ مورچہ بنا کر میدانِ عمل میں رہے۔ مگر حتمی ہار اب اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ یہ کانگریس مرکزی سطح پر جی جان لگا کر اقتدارِ اعلا پر قابض ہونے کا شاید اپنے دل میں کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتی۔ اس وجہ سے سیاسی پارٹی کو بچائے رکھنے کے لیے ایک میکانکی عمل تو جاری رہتا ہے مگر اُس سے آگے راہل گاندھی کو نہیں بڑھنا ہے اور اگر اُن کا چلتا رہ گیا تو غیر فرقہ پرست اتّحادی مورچہ کو وہ مرکز میں کبھی برسرِ اقتدار ہونے بھی نہیں دیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار سے سیاسی طاقت کو کس اندازسے پھلنے پھوٗلنے کے مواقع تلاش کیے جاتے ہیں، اِسے بھارتیہ جنتا پارٹی نے جتنا کر کے دکھایا ہے، اُس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری جماعت کر سکے۔ اس لیے ہزار ناکامیوں کے باوجود صوبائی حکومتوں میں بھی اُن کی طاقت بڑھی اور جیسے تیسے بھی ریاستی حکومتوں کی تشکیل میں انھوں نے کام یابی پائی۔ کانگریس کا تو یہ حال ہے کہ مدھیہ پردیش اور کرناٹک کی حکومتوں کو تو انھوں نے کھو ہی دیا، راجستھا ن میں گہلوت جیسے تجربہ کار وزیرِ اعلا نہیں ہوتے تو وہاں کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل گئی ہوتی۔ پنجاب میں ٹھیک الیکشن سے پہلے کتنے ڈرامے ہوئے، ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ کانگریس کی مرکزی ٹیم اگلی بار اس صوبے میں پھر سے اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے۔ بِہار میں پچھلے برس الیکشن ہوا تو راہل اور سونیا نے تیسرے درجے کے تنظیمی سکریٹریوں کو وہاں کی کمان سونپ دی اور کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہاں کے حسّاس انتخاب میں کانگریس پارٹی اپنی کوئی شناخت رکھتی ہے۔ تقریباً پچاس سیٹوں پر یہ پارٹی ہاری اور حقیقی وجہ یہی ہے کہ وہاں راشٹریہ جنتا دل کی سرکار نہیں بن سکی۔ بنگال میں کانگریس نے آزادانہ انتخاب کا شروع سے راگ الاپا، اس بات کو جانتے ہوئے کہ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمنٹ انتخاب کی طرح سے پورے کَس بَل کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ عوام نے سمجھ داری سے کام لیا اور ممتا بنرجی نے بھی کانگریس کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی۔ اسی وجہ سے وہاں ممتا تو دوبارہ پوری طاقت سے میدان میں آگئیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اپنی کھلی طاقت کا مظاہرہ کیا اور بڑی کام یابیاں حاصل کیں مگر کانگریس کے ہاتھ میں ایک بھی سیٹ نہیں آئی۔
اب چھ سات مہینے کے اندر اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات ہیں۔ ہندستان کے سب سے بڑے صوبے، سب سے زیادہ ووٹر اور سب سے زیادہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی وہاں سیٹیں ہیں۔ اُتر پردیش سے پارلیمنٹ کے لیے اسّی (٨٠) ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ نریندر مودی کو تو یہ بات خوب خوب معلوم ہے کہ اُتّر پردیش میں واضح کام یابی کے بغیر وہ مرکزی حکومت قایم کرنے کے اہل شاید نہ ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ بھی فائدہ ہے کہ اُسی صوبے میں وہ رام مندر بنا رہی ہے اور بابری مسجد کا وجود ہمیشہ کے لیے وہیں ختم کیا گیا۔ ووٹ کی تعداد بڑھانے کے لیے یہ بڑے اوزار ہیں۔ مایاوتی نے الیکشن کے لیے مُہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ارباب بھی گٹھ جوڑ کے لیے تیّاریاں کر رہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے لوکل باڈی کے انتخابات میں زمینی سطح پر اپنے وجود کا احساس کرا دیا تھا مگر ایک کانگریس ہی ہے جس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ آیندہ چھ مہینے میں مُلک کے سب سے بڑے صوٗبے کا انتخاب ہونا ہے اور وہاں موثّر کارکردگی کے بغیر آنکھوں کے سامنے اور اندھیرا چھا جائے گا۔
لالوٗ پرساد یادو ضمانت ملنے کے بعد اپنی صحّت کی مشکلوں کے باوجود دہلی میں حزبِ اختلاف کے افراد سے ملاقات اور غیر فرقہ وارانہ مورچہ بندی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ شَرد پَوار نے بھی قومی سطح پرغیر بھاجپائی پارٹیوں کو یک جہت کرنے کی ابتدائی کوششیں شروع کی ہیں۔ ابھی ممتا بنرجی بنگال سے دہلی آکر کچھ اِسی انداز کا پیغام دینے کی فکر مند ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے دخل کرنے کے لیے قومی سطح پر مورچہ بنانا لازمی ہے۔ کیرل میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کے بعد وجین اور تمل ناڈو میں اسٹالِن علاقائی سطح پر اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اب کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس نہ کوئی جیوتی بسوٗ ہے اور نہ ہی اندر کمار گجرال یا من موہن سنگھ کی طرح کے ایسے اشخاص جن کی شرافت کو قیادت کے طَور پر آزمایا جا سکے۔
ایسے ماحول میں نریندر مودی سے لڑنے کے لیے کسے اور کن لوگوں کو آگے بڑھ کر قیادت کا دعوا پیش کرنا چاہیے اور کن کی قیادت کو قبول کیا جانا چاہیے، یہ سوالات بے حد اہم ہیں۔ شَرد پوار، مایا وتی، اکھیلیش یادو، وِجیَن، اسٹالن، ممتا بنرجی کے ساتھ کانگریس میں موجود علاقائی اور مرکزی قائدین ہیں جن کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ کانگریس میں راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور سونیا گاندھی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا قائد ہو ہی نہیں سکتا۔ اُس کی سڑی گلی روایت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس سے آگے نظر دوڑائے۔ ورنہ تجربے کے مطابق اشوک گہلوت، دانش وری کے نقطۂ نظر سے ششی تھرور اور دِگ وِجے سنگھ ایسے کمزور قائد نہیں جو آگے بڑھ کر مورچہ نہ سنبھال لیں۔ مگر جس پارٹی میں دو برس لگ جائیں، صدر کا انتخاب نہ ہو سکے، اس کا کیا کِیا جائے۔ مغربی بنگال کے انتخاب میں ممتا بنرجی نے جس شیر دِلی سے کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور پوری مرکزی حکومت سے مقابلہ کیا، وہ پورے مُلک کے غیر فرقہ پرست طبقے کو پسندیدہ معلوم ہوا۔ وہ تیسری بار اقتدار میں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں مرکز میں وزارت کا تجربہ بھی اچھا خاصا رہا ہے۔ ان کے بارے میں اب قومی سطح پر یہ سوچا جانے لگا ہے کہ انھیں بنگال سے نکل کر بنگال کے باہر نریندر مودی کی مخالفت کے لیے میدان میں اُترنا چاہیے۔ اِسی طرح جنوبی ہندستان سے اسٹالن اور وِجین یا مہاراشٹر سے اُدھّو ٹھاکرے جیسے افراد کا ایک حلقہ تیّار ہو جِسے یہ بات بتانی ہوگی کہ مُلک میں ہمیشہ کانگریس کی قیادت کے ساتھ ہی حزبِ اقتدار کو قائم نہیں کیا جا سکتا بل کہ کانگریس کو موقع دیا جائے کہ وہ مورچے کا حصّہ رہے یا ضرورت پڑے تو وہ باہر سے معاونت کرے۔ اس کے بغیر اور جتنے پیمانے وضع کیے جائیں گے اُن میں فرقہ پرست جماعت مزید مضبوط ہوگی اور اقتدار پر اُس کا قبضہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے بِہار میں حکومت سازی میں جو تجرِبہ کیا، وہ اُس کی پختہ سیاست کا غمّاز ہے۔ نتیش کمار کو وزیرِ اعلا بنانے میں حکمتِ عملی یہ تھی کہ این ڈی اے میں کوئی خلفشار نہ ہو یا نتیش کمار خود راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مِل کر الگ سے سرکار نہ بنا لیں۔ اس لیے نتیش کمار کو وزیرِ اعلا کی کُرسی بہ ہر طَور پیش کر دی گئی۔ اُتّر پردیش میں بھی آسانی سے مایاوتی اور اکھیلیش یادو کی یک جائی بڑا مشکل کام ہے۔ اس پر مستزاد کانگریس کی ہوا بازیاں۔ وہ جتنی زیادہ سیٹوں پر انتخاب لڑے گی، بھارتیہ جنتا پارٹی اُسی قدر مضبوط ہوگی۔ اس لیے ان دونوں میں اتّحاد کرکے کانگریس کو محض چند سیٹوں پر انتخاب لڑکر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ صوبائی سطح پر ایسی سخت مورچہ بندی کرنی چاہیے کہ فیلڈ میں امِت شاہ، مودی اور یوگی سب کو سبق سیکھنا پڑے۔ مگر یہ مورچہ بندی پرینکا گاندھی کی نقلی قیادت سے بھی نہیں ہوگی۔ اُتّر پردیش میں ہندستان کی تمام ریاستوں کے سیاسی رہ نماؤں کا جم گٹھا کھڑا کرنا ہوگا اور اِن چھ سات مہینوں میں یہ بات ثابت کرنی ہوگی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کے لیے ہندستان کا اپوزیشن تیّار ہے اور یو پی کا انتخاب وہ سیمی فائنل کے طَور پر لڑ رہا ہے۔ یوں بھی کانگریس کے ہاتھ میں نہ اُتّر پردیش میں کچھ خاص ہے اور نہ مرکزی سطح پر کچھ ہے، اس لیے اُس کے پاس کھونے کے لیے کیا ہے مگر وہ چاہے تو اپنی لازمی قیادت کی قُربانی دے کر پورے مُلک کی سیاست کے رُخ کو بدل سکتی ہے۔ اسی قربانی میں سونیا گاندھی نے من موہن سنگھ کی وزارت بنائی اور دس سال تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے دخل رکھنے میں کامیابی مِلی۔ اب ایک بار پھر کانگریس کو اپنے گھر آنگن سے باہر نکل کر مُلک و قوم کے لیے سوچنے کا تاریخی موقع ہاتھ آیا ہے۔ کانگریس کو چاہیے کہ وہ اسے نہیں گنوائے اور صوبائی سطح پر اُبھر رہی آوازوں کی طاقت کو پہچان کر انھیں قیادت سونپ دے۔ اِسی میں ملک کا بھلا ہے۔

مضمون نگار کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔
Email: safdarimamquadri@gmail.com

صفدر امام قادری کی گذشتہ نگارش: جلال عظیم آبادی: اس وبا میں وہ بھی گزر گئے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے