جلال عظیم آبادی: اس وبا میں وہ بھی گزر گئے!

جلال عظیم آبادی: اس وبا میں وہ بھی گزر گئے!

بے وطن کر دیا مجھ کو بھی ضرورت نے جلال
ورنہ کیوں خاکِ وطن تجھ سے کنارا ہوتا

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
ایسے لوگ زیادہ نہیں جو اپنے نام اور وطن کی خوش بو کے ساتھ دور دیس میں آباد ہوئے اور پھر دونوں کے حقوق ایمان داری سے ادا کرتے رہے۔ جلال عظیم آبادی کا خاندان اور آبا و اجداد کا وطن تو ضرور اطرافِ عظیم آباد رہا مگر ان کی پیدائش موجودہ بنگلہ دیش اور سابق مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ تعلیم و تربیت کے لیے وہ اپنے پُرکھوں کے وطن عظیم آباد آئے اور جب یہاں سے واپس ہوئے تو سیّد محمد جلال الدین تبدیل ہو کر جلال عظیم آبادی بن چکا تھا۔ ابھی عمرِ عزیز کے انھوں نے ستّر برس بھی پورے نہیں کیے تھے۔ صحت اور خوش لباسی سے تو وہ دس برس اور کم معلوم ہوتے تھے۔کورونا وبا کے دوران کئی بارفون سے ان سے باتیں ہوئیں۔ بزمِ صدف کے متعدد آن لائن مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ بزمِ صدف کی کویت شاخ کے قیام کے سلسلے سے جو عالمی مشاعرہ منعقد ہوا، اس کی انھوں نے صدارت فرمائی تھی۔ دسمبر کی کسی تقریب میں آمنا سامنا ہوا تو وہ اُسی طرح بشّاش نظر آئے اور اتنی ہی محبت سے خیریت پوچھتے رہے۔ بنگلا دیش کی بزمِ صدف کے قیام کے موقعے سے ان کی خوشی دیکھنے لائق تھی اور وہ بار بار ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے اور اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے رہے۔
ڈھاکا کے پچھلے سفر سے واپسی کے بعد ہمیں ایک روز ایک کال آیا۔ دوسری طرف سے آواز آئی کہ ڈھاکا سے میں جلال عظیم آبادی بول رہا ہوں۔ نام سے تو میری واقفیت تھی مگر یہ نعمتِ غیر متوقّع نہ جانے کیسے حاصل ہو گئی؟ میں نے دریافت کیا کہ میرا فون نمبر کہاں سے ملا تو انھوں نے پروفیسر محمود الاسلام کا ذکر کیا اور بتایا کہ انھی سے دورانِ گفتگو میرے بارے میں اطّلاعات ملیں اور پھر انھوں نے مجھے دعائیں دینے کے لیے فون کیا۔
ڈھاکا میں دبستانِ عظیم آباد کی وہ پہچان ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی یہ بہت موزوں تھا کہ عظیم آباد کے ہم جیسے نو آموزوں سے وہ براہِ راست تعلّق پیدا کریں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں پٹنہ کے کالج آف کامرس میں صدر شعبۂ اردو ہوں، اس وقت وہ اپنی یادوں میں کھو گئے۔ انھوں نے فخر اور محبت کے ملے جلے جذبے سے اس بات کی اطلاع دی کہ میرے کالج سے ہی انھوں نے بی۔ایس سی۔ کرنے کے بعد رختِ سفر باندھا۔ اب بھی مجھ سے ان کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت کا ایک سبب یہ رشتہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کے مادرِ علمی میں مَیں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتا ہوں۔ انھوں نے اُس زمانے کے اپنے بعض اساتذہ اور شعبۂ اردو کے بارے میں تذکرہ کیا۔ جلال عظیم آبادی سے یہ رابطہ آنے والے دنوں میں مستقل صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ انھوں نے از راہِ محبت اپنے ایک رشتے دار کے ہاتھوں اپنا شعری مجموعہ ’کہکشاں‘ میرے گھر پر بھجوایا۔ کسی خاص موقعے سے وہ ضرور اپنی خیریت بتادیتے تھے اور ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازتے رہتے تھے۔ کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے کبھی وہ ہندستان آئے تو ضرور فون کریں گے اور خیریت کے طلب گار ہوں گے۔
جلال عظیم آبادی کا خانوادہ ادب اور مذہب دونوں حوالے سے بے حد زرخیز رہا ہے۔ ان کے بزرگوں میں مولانا مناظر احسن گیلانی، سید سلیمان ندوی اور سہیل عظیم آبادی کی خاص اہمیت ہے۔ موجودہ صوبہ بہار کا ضلع نالندہ (بہارشریف) ان کا آبائی وطن ہے مگر ان کے والدین تقسیم ملک کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں 1952 ء میں جلال عظیم آبادی کی پیدایش ہوئی۔ والدین نے ڈھاکے میں اپنا کاروبار قائم کرلیا تھا۔ جلال عظیم آبادی نے ڈھاکا اور پھر عظیم آباد میں تعلیم کے بعد اسی کاروبار سے خود کو منسلک کرلیا۔ ایک مدّت تک وہ جاپان بھی رہ چکے تھے۔
ڈھاکا سے انھوں نے ’ادب‘ نام سے ایک رسالہ بھی شایع کیا تھا۔ ان کے مجموعۂ کلام میں غزلیں، نظمیں، قطعات و رباعیات جیسی صنفوں میں طبع آزمائی نظر آتی ہے جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انھوں نے مشقِ سخن سے قدرتِ کلام تک کا سفر طے کیا ہے۔ بنگلادیش کے سے می نار میں جب اُن سے ملاقات ہوئی تو ہرگز ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہم لوگ پہلی بار مل رہے ہیں۔ ان سے فون پر اتنی بار گفتگو ہوئی تھی کہ ان کی آواز اور ان کے مزاج کو بھی ہم سمجھ چکے تھے۔ بنگلادیش کے مشاعرے کی مجلسِ صدارت میں وہ موجود تھے۔ عمر کے مقابلے ان کی خوش پوشی ان کی بے پناہ سلیقہ مندی کی غمّاز ہے۔ ان کا ترنّم کلاسیکی شاعروں کے انداز و اطوار کا واضح اشاریہ ہے۔ کلام میں بھی کلاسیکی رنگ غالب ہے، اس لیے اس پہ ترنّم کا وہ انداز بہت لطف دیتا ہے۔ غالباً انھیں مشاعروں میں بھی خاص طور سے اسی لیے بلایا جاتا تھا کہ وہ ایک مخصوص ادا سے اپنا کلام پیش کرتے تھے۔
جلال عظیم آبادی کی قرابت داریاں عظیم آباد کے مختلف محلّوں اور علاقوں میں ہیں۔ ہر مہینے ہمیں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور ملتا ہے جو جلال صاحب کا تذکرہ کرے گا اور ان سے فون پر ہوئی گفتگو کے دوران میرے ذکر کی تفصیل بتائے گا۔ ان کے ہم عصر اور ادبی دوست بھی اطرافِ عظیم آباد میں کم نہیں ہیں۔ جلال ڈھاکا میں بیٹھے ہوئے اپنے سارے متعلّقین، دوست اور آشنا سے جُڑے رہتے تھے۔ ڈھاکا کے سے می نار کے بعد بزمِ صدف کے افتتاحی پروگرام میں بھی وہ شامل ہوئے اور اپنی مادری زبان کی حفاظت اور توسیع و ترقی کے لیے وہاں سرگرم ہیں۔ ادبی طور پر ان کی شخصیت کا ایک خاص وقار بھی قائم رہتا ہے۔ ہمارے لیے تو وہ اس وجہ سے بھی غنیمت معلوم ہوتے تھے کہ ڈھاکا میں ان کی ذات سے وہاں ایک عظیم آباد بستا ہے۔ اُن کے شعری مجموعے پر علقمہ شبلی اور نوشاد نوری نے اپنے تاثرات رقم کیے تھے۔
پچاس برس کی مدّت میں ان کا ایک ہی شعری مجموعہ شائع ہو سکا۔ ’کہکشاں‘ عنوان سے ٢٠٠٤ میں یہ پہلی بار شائع ہوا۔ ٢٠١٨ میں اس شعری مجموعے کا چوتھا ایڈیشن منظرِ عام پر آیا۔ غالباً کار و باری مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنی بکھری ہوئی تحریروں کودوسرے اور تیسرے مجموعے کی شکل نہ دے سکے۔ ڈھاکا میں اردو زبان کی کتابوں کی اشاعت کی اپنی مشکلات ہیں؛ غالباً اس سے وہ عہدہ بر آ نہیں ہو سکے۔ ان کے وارثین کے لیے یہ لازم ہے کہ اب باقی ماندہ کلام کو بھی جلد از جلد شائع کرائیں۔
جلال کے شعری مجموعے میں ساٹھ غزلیں ہیں۔ بے شک وہ منتخب کلام ہے اور اس بات کا غمّاز ہے کہ مشقِ سخن کا ایک طویل عرصہ شاعر کو ثمربار بنا گیا ہے۔کلاسیکی عشقیہ رنگ تو ہے ہی مگر عہدِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر زندگی کی بدلتی ہوئی کیفیتوں کو قید کرنے کی وہ بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہجر و وصال کے موضوعات میں بھی نئے عہد کے انسانوں کا سوز بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ یہیں بے وطنی اور بار بار کی ہجرت اور مسافرت کا درد بھی ان کے اشعار میں ایک کرب ناک فضا قائم کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ سے سرگوشی کر رہا ہے۔ کوئی ہم زاد ہے جو اس سے مل کر اس کے درد کو ہلکا کر رہا ہے۔ چند ملے جلے اشعار قارئین ملاحظہ کریں:
ہم مسافر تھے، ذرا چین تو لینے دیتے
زندگی دینے کے احسان جتانے آئے
یادیں کچھ ماضی کی پیہم
دل کو کر دیتی ہیں مدھم
اک اور زخم اگر کھا گئے تو کیا غم ہے
ہمارا درد سے رشتہ بہت پرانا ہے
دیے جلتے ہیں روشنی کے لیے
اور ہم جل رہے ہیں کسی کے لیے
باقی سبھی رستوں میں ہے انسانوں کا جھرمٹ
منزل کا مگر راستہ سنسان بہت ہے
پاس رہتا ہے کبھی دور چلا جاتا ہے
غیر تو غیر ہے، سایہ بھی تو ہرجائی ہے
کیوں تلاطم ہے ندی میں، جاننا چاہیں اگر
آپ کو بھی بیچ دریا میں اُترنا چاہیے
گھر کی یاد آتی ہے کیوں تھکے مسافر کو
اجنبی ٹھکانوں میں رات جب بتاتے ہیں
بے وطن کر دیا مجھ کو بھی ضرورت نے جلال
ورنہ کیوں خاکِ وطن تجھ سے کنارا ہوتا
جلال عظیم آبادی کے یہاں غزلوں کے ساتھ نظموں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ پتھر، عورت، خود کفیل، شہد، بیساکھ، اکیسویں صدی کا ماتم، پردیسی شوہر کے نام بند لفاف وغیرہ قابلِ توجہ نظمیں ہیں۔ مجموعے کے بعد کی ان کی ایک نظم ’بہاری ہیں بہاری‘ بہت پُر اثر اور موضوع کے اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے قطعات، رباعیات اور حمد و نعت بھی اس بات کے ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ان کے یہاں قادر الکلامی موجود ہیں۔
جلال عظیم آبادی کی شخصیت میں جو رکھ رکھاؤ، تہذیبی اور ثقافتی ذوق اور جو مجلسی توجّہ تھی، اس کی وجہ سے خاصی مدّت سے ڈھاکا کے اردو بولنے والوں کے بیچ ان کی ایک مرکزیّت قائم ہو چکی تھی۔ نئے شعرا اور ایسے اسکالرس جن کی اردو شعر و ادب میں خاص دل چسپی ہے، ان کے لیے وہ ایک رہ نما کی حیثیت رکھتے تھے۔ عظیم آباد سے تعلّق ہونے کی وجہ سے زندہ ادبی دبستانوں کے اطوار کا وہ بنگلا دیش میں اپنی ذات کی حد تک نفاذ کرنے میں کام یاب رہے۔ ان سے یونی ورسٹی کے اساتذہ بھی حسبِ ضرورت اور حسبِ توفیق مستفیض ہوتے رہے۔ اب ان کے نہیں رہنے پر ڈھاکا کی ادبی محفلیں سونی معلوم ہوں گی۔
غزلیں
جلال عظیم آبادی[مرحوم] ، بنگلا دیش
فریب دے گیا میرا ہی رازدار مجھے
بتاؤ کس پہ ہو اب اور اعتبار مجھے
تو خواب ہی میں سہی مل تو ایک بار مجھے
مریض عشق ہوں تیرا ملے قرار مجھے
ہجوم شوق کو تکتی رہی نگاہ مری
وہی نہ آ سکا تھا جس کا انتظار مجھے
اسی سے خوفزدہ ہوں اسی کی دہشت ہے
اسے نہ ملنا بھی کرتا ہے بے قرار مجھے
وفا و حق و صداقت کی راہ میں چل کر
ملی ہے منزل مقصود سوئے دار مجھے
جلال اس کے خزاں رخ میں وہ کشش ہے کہ
فریب دے نہ سکی شوکت بہار مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی ملی بھی تو ایسی کوئی خوشی نہ ہوئی
جو غم ملا بھی تو آنکھوں میں کچھ نمی نہ ہوئی
جو ہوسکے تو کوئی اور تجربہ کر لو
ہمارے گھر کو جلا کر بھی روشنی نہ ہوئی
مسیحا تم نے مداوا تو کر دیا لیکن
جلا ل درد میں میرے کوئی کمی نہ ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ہوں ساتھ تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے
نیلگوں آنکھ کی گہرائی سے ڈر لگتا ہے
چھیڑ پھر ساز نیا نغمۂ شیریں کوئی
بے سری شام کی شہنائی سے ڈر لگتا ہے
اپنی آنکھوں میں سمندر کا سبب کہہ دیتا
مجھ کو محبوب کی رسوائی سے ڈر لگتا ہے
کھُل نہ جاؤں کہیں دو چار ملاقاتوں میں
اجنبی تیری شناسائی سے ڈر لگتا ہے
جس کی قربت کو تر ستا رہا اک عمر جلالؔ
ناگہاں اُس کی پذیرائی سے ڈر لگتا ہے

صفدر امام قادری کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو : ہندستانی سنیما کا تاج محل خاموش!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے