شادی شدہ اور کنوارے

شادی شدہ اور کنوارے

ایس معشوق احمد

ہمارے ہاں جو عمل بیک وقت مقبول اور بدنام ہے وہ شادی ہے۔ جو اس پل صراط کے پار گیا جنت پائی اور جو ابھی پار کرنے کا سوچ رہا ہے وہ بھی جنت میں ہی ہے۔ شادی شدہ افراد شادی کرنے کے بعد اتنے خوش ہوتے ہیں جتنے کنوارے شادی سے پہلے ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ شادی شدہ بہتر ہے یا کنوارا۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ کس کو فاتح قرار دیا جائے، کون خسارے میں اور کون فائدے میں ہے۔ دونوں فریقین کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا. نتائج حیران کن ہی نہیں بل کہ پریشان کن نکلے۔ اتنا ہی نہیں دونوں سے رائے لی گئی کہ بہترین زندگی کنواروں کی ہے یا شادی شدگان کی، لیکن کسی کی رائے پر کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بعض حضرات شادی کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے اور اسے برا سمجھ کر اس برائی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دو دو تین تین مرتبہ اس مہم کو سر کرتے ہیں لیکن کنواروں کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں کہ شادی مت کرنا۔ گویا وہ کنواروں کو بے وقوف، احمق اور پاگل سمجھتے ہیں۔ خود قلعے کو فتح کرنے کے بعد یہ مشورہ دینا کہ جنگ مت کرنا دوسرے کو بے وقوف ہی سمجھنے کے مترادف ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ آج کل جھوٹ کا چلن عام ہے کسی پر بھی بھروسہ آسانی سے نہیں کرنا چاہیے اگر کوئی کہہ دے کہ زہر سے انسان مر جاتا ہے تو بھروسہ نہیں کرنا چاہیے خود کھا کر دیکھ لینا چاہیے۔

جو غیر شادی شدہ ہیں اس کا مطلب وہ آزاد اور کنوارے ہیں. کنوارا احمق ، بے وقوف اور ناتجربہ کار ہوتا ہے. کیوں کہ اس نے شادی کے فوائد ، بیوی کی ناراضگی، روٹھنا منایا، تلخیاں اور طنزیہ لہجہ نہیں دیکھا ہوتا۔ شادی کی عمر ہوجائے تو جان بوجھ کر کنوارا رہنے والے کو لوگ بیمار اور پاگل سمجھتے ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ یہ ہرگز درست نہیں کہ کنوارا پاگل ہے مطمین، خوش اور ہشاش باش شخص پاگل نہیں ہوسکتا۔ پاگل ہونے کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ کوئی ترازو ایسی نہیں بنی جو یہ ناپ کر بتائے کہ کنوارا خوش ہوتا ہے یا شادی شدہ۔ کچھ لمحات دونوں کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جب یہ دونوں خوش ہوتے ہیں اور کچھ پل ایسے ہوتے ہیں جو بیوی کے ساتھ گزار کر انسان فرحت محسوس کرتا ہے۔ شادی شدہ بندے کی زبان پر ایک نصیحت ہمشیہ ہوتی ہے اور اس کا پرچار وہ جہاں موقع ملے کر لیتا ہے کہ شادی نہیں کرنا۔ لیکن خود اس پر وہ عمل نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر کم سے کم ہمیں تو بھروسہ نہیں کہ جس کے منہ میں سگریٹ ہو اور وہ اس کی برائیاں بھی کر رہا ہو کہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے۔ کنوارا بادشاہ ہوتا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شادی شدہ غلام ہوتا ہے۔ مرزا سے پوچھا گیا کہ بادشاہ اور غلام میں کیا فرق ہے. قربان جاؤں اس کی ذہانت و فطانت پر اس نے تاریخی جملہ کہا کہ جو فرق کنوارے اور شادی شدہ میں ہوتا ہے۔ دو ہی زمانے بادشاہی اور بے فکری کے ہوتے ہیں، بچپن اور جوانی کے وہ دن جو کنوارے گزرے ہوں۔شادی کے بعد میاں بیوی میں ان بن ہو جائے تو طلاق کی نوبت آتی ہے جو رسوائی اور بدنامی کا سبب بنتا ہے۔ کنوارے کو رسوائی کا غم ہے نہ بدنامی کا خوف. وہ شادی کرے تو کھٹکا لگے ورنہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔۔۔!

بندہ کنوارا مر جائے تو قوی امکان ہے کہ جنت میں جائے. کیوں کہ وہ اپنی ماں کوزبان درازی، واہیات خیالات اور ان گالیوں سے بچاتا ہے جو وہ ساس بہو کی مہابھارت کے موقع پر اپنی بہو کو دینے جارہی تھی۔ اتنا ہی نہیں وہ ماں کے تقدس اور مرتبہ کو بھی پامال ہونے سے بچاتا ہے. نہ وہ شادی کرتا ہے اور نہ ہی وہ آفت گھر میں آتی ہے جو اس کی ماں کو گالیاں دیتی، کوستی ، ناروا سلوک کرتی اور لعن طعن کرتی ہے۔ گویا وہ ماں اور بیوی دونوں کو مغلظات اور زبانی برائی سے بچاتا ہے۔ نہ بیوی کی طرف داری کرتا ہے نہ ماں کی پاس داری۔ بیوی کے جذبات کو ٹھیس نہیں لگتی اور ماں کا احساس بھی برقرار رہتا ہے کہ میں نے انسان ہی جنا تھا اور یہ انسان ہی نکلا۔ مرزا کہتے ہیں کہ گناہ کا بوجھ جتنا کم ہو اتنا انسان ہلکا اور صاف و پاک ہوتا ہے اور گناہوں سے پاک انسان جنت ضرور جاتا ہے۔

سائنس اور بیوی میں بڑی مماثلتیں ہیں. دونوں نئی نئی چیزوں کی کھوج اور جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں۔ سائنس سے بڑی تحقیق بیوی کی تحقیق ہوتی ہے، جس میں لاگت کم آتی ہے لیکن وہ دریافت سامنے آتی ہے جو سائنس کے حد کمال سے باہر ہے۔بیوی شوہر کے کارناموں کی کھوج میں لگ جائے تو روز نئی نئی ایجادات سامنے آتی ہیں۔ سائنس کی تحقیق میں کمیاں اور خامیاں ہوسکتی ہیں، بیوی کی تحقیق میں نہیں۔ جہاں سائنس کی نظر نہیں جاتی وہاں بیوی اور ساس کی نظر جاتی ہے۔ اس تحقیق سے صرف ایک ہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے وہ ہے کنوارا۔ مزرا کہتے ہیں بیوی کی مار اور زبان کے وار سے صرف ایک مخلوق بچی رہتی ہے وہ ہیں کنوارے. شادی شدہ پر بیوی ایسی نظر رکھتی ہے جیسے سرحد پر فوج دشمن کی ہر حرکت اور عمل پر نظر رکھتی ہے۔

کنوارے سے خوش قسمت شخص کوئی نہیں کہ اسے نہ بیوی کی فرمائشیں پوری کرنی پڑتی ہیں نہ ہی بچوں کی مانگیں۔ یہ دونوں سے آزاد اور بے نیاز ہوتا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ بیوی اور شیطان کبھی راضی نہیں ہوتے۔ بندہ گناہوں میں کتنا ہی لت پت کیوں نہ ہو شیطان مزید گناہ کرنے کے لیے بندے کو ضرور ورغلاتا ہے۔ بیوی کا بھی یہی حال ہے، کتنی ہی اس کی فرمائشیں پوری کی جائیں راضی نہیں ہوتی بلکہ مزید فرمائشوں کی لسٹ مرتب کرکے تیار رکھی ہوتی ہیں۔ کسی کسی کے نصیب اچھے ہوتے ہیں ۔ایسے خوش نصیبوں سے اللہ راضی ہوتا ہے اور انھیں بیوی سمجھ دار ملتی ہے۔ شادی شدہ بندے کو بیوی بچوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ان کی ہر جائز مانگ پوری کرنی پڑتی ہے، لیکن کنوارا ان فکروں سے آزاد ہے۔ ہم نے پہلے سال کے سوا کسی شادی شدہ بندے کو کنوارے سے خوش نہیں دیکھا۔ ہر چیز کی حقیقت تب آشکار ہوتی ہے جب اس سے نزدیکی اور آشنائی بڑھتی ہے۔ کنوارا شخص شادی کے اسرار و رموز سے تب تک واقف نہیں ہوتا جب تک خود اس آگ میں نہ کود جائے۔ البتہ شادی شدہ بندے کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ یہ بتا سکتا ہے کہ زندگی کا اصل لطف کنوارا رہ کر اداس اور اندھیری اکیلی راتوں میں گزر بسر کرنے میں ہے یا شادی کی رنگین اور چمک دار رینوں میں نین ملانے میں۔ مزرا کہتے ہیں کہ ہر کام کرنا چاہیے تاکہ تجربہ حاصل ہو بھلے ہی وہ شادی ہی کیوں نہ ہو۔

بہت سارے افراد مجبورا کنوارے ہوتے ہیں اور بعض مرد حادثاتی طور پر شادی شدہ۔ من پسند جیون ساتھی مل جائے تو کنوارے کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ اس کے دوست احباب دعوت کا لطف لیں۔ شادی شدہ کہلانے کے لیے سب سے ضروری ہے دلہن. جب قبول و قرار کے بعد باضابطہ اور باقاعدہ مرد اپنا چین و سکون عورت کے نام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے تو اس ضابطے کو شادی کا نام دیا جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد مرد سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لیتا، یہ وہم ہی نہیں بلکہ غلط فہمی بھی ہے۔ بیوی، بیوی ہوتی ہے اور وہ قدرتی معاملات میں دخل نہیں دیتی. انسانی معاملات کو اپنے اختیار میں لیتی ہے۔کنوارا کہلانے کے لیے یہ شرط نہیں کہ دلہن کا انتظام اور نکاح کا اہتمام کیا جائے۔ ہر شخص کنوارا ہوتا ہے جب تک اس کی شادی نہ کی جائے. ہر شخص شادی شدہ نہیں ہوسکتا۔ مرزا کہتے ہیں کہ کنوارا ہونے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بیوی سے مار کھانے کی نوبت نہیں آتی۔

انسان کسی حال میں مطمئن نہیں رہتا. کنوارا ہے تو اس کے پاس لاکھوں ارمان اور ہزاروں سپنے ہوتے ہیں جو پورے ہوجائیں تو خوش ہونے کے بجائے نئے ارمانوں کا گھر سجا لیتا ہے۔ بڑے بڑے ارمانوں کے سوا اس سجاوٹ کی مزید تزئین کے لیے چھوٹی چھوٹی امنگیں اور آرزوئیں دل میں بسا لیتا ہے۔ جو کنوارے ہیں ان کا ارمان شادی کا ہوتا ہے اور وہ ہر دوشیزاہ کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ جب ان کے یار دوستوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں تو وہ اکثر عالم تنہائی میں یا باتھ روم میں، نہاتے ہوئے یہ گانا گاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ___
میرا یار بنا ہے دلہا اور پھول کھلے ہیں دل کے
میری بھی شادی ہوجائے دعا کرو سب مل کے
جب دعا قبول ہوجاتی ہے اور ارمان پورے ہوجاتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے جب شادی ہونے کے بعد ارمانوں کی آگ کچھ سرد پڑ جاتی ہے تو ان کی زبان سے یہی نکلتا ہے کہ
شادی کرکے پھنس گیا یار اچھا خاصا تھا کنوارا

کہتے ہیں ہر کام یاب انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور کام یاب ترین انسان کنوارا ہوتا ہے. کیوں کہ پریشان انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ کنوارا انسان اچھا صوفی بن سکتا ہے یا اچھا دیوانہ۔ بہت سارے صوفیاے کرام کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے شادی نہیں کی۔ وارث شاہ ہو یا بھلے شاہ یہ ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے شادی کی ہو۔ ہاں البتہ عشق میں مبتلا رہنے کے واضح ثبوت ہیں جو ہر کنوارے کا حق ہے۔ جتنے بھی عشقیہ قصے مشہور ہیں وہ سب کنواروں کے ہیں۔ اچھا عاشق کنوارا ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اچھا کنوارا اچھا شوہر بھی ثابت ہو۔ مرزا کہتے ہیں کہ کنوارے کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنی محبوباؤں کا ذکر کر سکتا ہے اور اس ذکر سے جان کو خطرہ نہیں ہوتا. شادی شدہ محبوبا کا ذکر کرے تو سر پھوٹنے کے قوی امکان ہے۔

کنوارا گھر سے نہیں بھاگتا، ہاں شادی شدہ گھر سے بھاگ کھڑا ہو کر سکون کی تلاش میں نکل سکتا ہے۔شادی شدہ گھر سے تنگ ہوکر بھاگ جائے تو ٹالسٹائی بن سکتا ہے۔ شیخ سعدی کا نام رہتی دنیا تک لیا جائے گا لیکن اس کی بیگم کا سراغ نہیں ملتا۔ عمر خیام نے عشقیہ رباعیاں بیوی کے لیے نہیں لکھی۔ گویا ہر شعبے میں ایسے افراد موجود ہیں جنھوں نے شادی شدہ زندگی کے بجائے غیر شادی شدہ طرز زندگی کو اہمیت دی۔ مرزا کہتے ہیں کہ بڑے لوگوں کو حق ہے کہ وہ جیسے چاہیں زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ عام لوگ جب تک بیوی سے بحث مباحثہ نہیں کرتے، اس سے لڑتے جھگڑتے نہیں، بچوں کی کلکاریاں نہیں سنتے، ساس کی نصیحتیں نہیں سنتے، سالے کا تذکرہ نہیں کرتے ان کو روٹی ہضم نہیں ہوتی۔اس لیے بہترین ہاضمے کے لیے شادی ضروری ہے.
***
ایس معشوق کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: دوزخ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے