عید الاضحی: مفہومِ قربانی سے واقف ہونے کا سنہرا موقع

عید الاضحی: مفہومِ قربانی سے واقف ہونے کا سنہرا موقع

✍️ وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

بلا شبہ لفظ ” قربانی" اپنے آپ میں وسیع اور گہرے معانی رکھتا ہے۔ اس کا دائرہ اثر کشادہ اور صدیوں سے انتہائی مقبول و محبوب رہا ہے‌۔ میرا خیال ہے کہ دور حاضر میں بھی کسی سنجیدہ اور ذی علم ذات پر یہ حقیقت ذرہ برابر بھی مخفی نہیں ہو سکتی ہے کہ ” قربانی" اپنے آپ میں کیسے عظیم الشان

اور ایک محبوب عمل ہے۔ یقیناً، آپ اپنے مطالعاتی حدود میں جھانکنے کی کوشش کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے ذہنی دریچے کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود ” قربانی" کی اہمیت و افادیت سے ضرور واقف ہو لیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ اس ایثار کی تفہیم کے لیے اٹھایا گیا آپ کا ہر قدم اخلاص و صداقت کی شاہ راہ سے ہو کر گزرے، جب کسی کام میں بندہ صداقت کے جوہر صرف کرتا ہے تو پھر اس کی قسمت میں سرخ روئی کا ستارہ بھی بہت زور سے چمکتا ہے۔
جی ہاں! دنیا میں جتنے بھی ادیان و مذاہب پائے جاتے ہیں، تقریباً ہر ایک کے یہاں قربانی کا تصور اور ایک Concept پایا جاتا ہے۔ اب وہ چاہے جان کی قربانی ہو، مال کی ہو یا پھر آل اولاد کی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج تک جن لوگوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، بلا شبہ وہ کام یاب و سرخ رو ہوئے ہیں۔ ہم لوگ جس دین و مذہب کے پیروکار ہیں اور جن کے اصول و ضوابط پہ عمل کرنا اپنے لیے سعادت مندی تصور کرتے ہیں، وہ مذہب بھی ہمیں "قربانی" کے خوب صورت مفاہیم سے قدم قدم پر آگاہ کرتا ہے۔ ہاں! مذہب اسلام اپنے ماننے والوں سے ایثار کا پرزور مطالبہ کرتا ہے، جب تک آپ Sacrifice نہیں کریں گے اس وقت تک ایمان کامل کی دولت سے سرفراز نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اب تک جن نفوسِ قدسیہ نے بھی تقرّبِ الہی کا حسن اعجاز پا کر اپنی بلند و بالا قسمت کی ارجمندی پہ اہل دنیا کو متحیر کرنے کا کام کیا ہے، وہ تمام افراد زندگی کے نشیب و فراز میں کہیں نہ کہیں قربانی کے عمل سے ضرور گزرے ہیں۔ کیوں کہ امتحان میں کام یابی کے بعد ہی کوئی قیمتی تمغہ ہاتھ آتا ہے۔
لفظ” قربانی" کی ہئیت و ساخت پہ جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ” قرب" سے مشتق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بندہ مومن فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنْحَرْ پہ عمل کرتا ہے تو وہ تقرب الہی کے منصبِ عظمیٰ پہ سرفراز ہو جاتا ہے۔ تاریخی اوراق پلٹ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربانی کے واقعہ سے آپ جب اپنی آنکھوں کا رشتہ بحال کریں تو قربانی کے اصول، تقاضے اور ضابطوں کے ساتھ اس کے پیچھے پوشیدہ لاتعداد انعام خداوندی کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح عیاں ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ آج سے ہزاروں برس پہلے اللہ کے محبوب پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس طرح ایک خواب کے آگے اپنی جان سے زیادہ عزیز فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو رب کی بارگاہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گیے تھے، وہ اپنے آپ میں بڑا ہی عاشقانہ تھا۔ آپ کا یہ عمل جہاں اخلاص و للہیت کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے وہیں یہ قیامت تک کے مسلمانوں کے جذبے کو دیوانہ وار حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کر دینے کے لیے ابھارتا اور تحریک کی آنچ تیز کرتا رہے گا۔ چاند جیسا لختِ جگر، جو بڑی منت و سماجت کے بعد نصیب ہوا تھا، جو ناز و نعم میں نشو نما پا رہا تھا اور جن کی وجہ سے دو معمر وجود سنِّ ایاس میں بھی کسی ترو تازہ پھول کی مانند شاداب ہو گیے تھے، ان کے لیے اس فرمان خداوندی پہ عمل کرنا ایک بہت ہی مشکل امر تھا، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی مدد سے اس سخت امتحان میں بھی کام یابی حاصل کر لی۔ جب ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند کی گردن پر چھری چلانے کے قریب تھے تو اتنے میں ہی اعلان باری ہوا کہ :” اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا اور یہ فیروز مندی جو اس امتحان میں تم‌ نے حاصل کی یہ تمھاری خوب کاری کا صلہ ہے"۔ واقعی یہ بہت بڑی آزمائش تھی، جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے بڑا ہونے کا اعلان فرمایا اور یہی وہ قوی وجہ ہے کہ جس کے سبب اللہ کریم نے قیامت تک کے لیے امت مسلمہ کو اس "عملِ قربانی” کے لیے پابند بنا دیا۔
ایک موقع پر صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے حضور اکرم ﷺ سے قربانی سے متعلق دریافت فرمایا تو آپ ﷺ نے اسے ابراہیم علیہ السلام کی سنت قرار دیا اور اسے کرتے رہنے کی بھی تاکید فرمائی۔ پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ قربانی کے دنوں میں بندگانِ خدا کا کوئی بھی عمل قربانی سے زیادہ محبوب و مقبول نہیں ہوتا ہے۔ جو جانور بھی اللہ کی راہ میں خلوص دل کے ساتھ قربان کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر بال کے بدلے نیکی و ثواب ہماری جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ” ذبیح اللہ” جیسا معزز لقب یوں ہی تو نہیں مل گیا، بل کہ اس کے پیچھے حکم خداوندی کے آگے صبر و رضا کے سخت امتحان میں با مراد ہونے کا سنہرا عمل کار فرما ہے۔
بلا شبہ قربانی ہر جگہ پسندیدہ اور محبوب عمل ہے۔ مذہب اسلام ہم سے جان و مال کی قربانی اسی لیے طلب کرتا ہے تا کہ ہم دارین کی فوز و فلاح سے کما حقہ ظفریاب ہو سکیں، جو شخص بھی اس فانی دنیا میں مختلف نوعیت کی قربانیوں سے کام یابی کے ساتھ گزر جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے تقرب کی دولت سے مالا مال فرما دیتا ہے۔ جی! ایک مومن کے لیے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ وہ مال کی قربانی کے ساتھ وقت آنے پر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے میں بھی شش و پنج کا شکار نہ ہوں۔ ریاکاری سے دور رہ کر ہر ممکن و جائز قربانی پر عمل در آمد کا درس تو ہمارا مذہب دیتا ہے اور یہ وہ سلسلہ ہے جو آج تک چلا آرہا ہے۔ ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، یہ ان کی قربانیوں ہی کا ثمرہ ہے کہ آج مذہب اسلام کا درست خد و خال ہم تک پہنچا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بھی ان کی قربانیوں اور ایثار کے گہرے نقوش کو فراموش نہ کریں، بل کہ انھیں زندہ رکھنے کے لیے ہر آن مناسب لائحہ عمل تیار کرتے رہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے جس ترقی یافتہ دور میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں، اس میں ایسے بھی روشن خیال پائے جانے لگے ہیں جو عمل قربانی پہ طرح طرح کے اعتراضات کرکے گم رہی و تاریکی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ قربانی میں لگائے گیے خطیر رقم کو کسی عوامی و فلاحی کاموں میں صرف کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور آبادی میں بڑی شد و مد کے ساتھ تبلیغ بھی کرتے پھرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ اپنی روشن خیالی کے نام پر گم رہی و مذہب بیزاری کا چورن فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں اور یہ سب بس ان کا ڈھکوسلہ ہوتا ہے۔ بھلا! جس کی روشن خیالی اسے احکام خداوندی کی ادائیگی تک کے لیے آمادہ نہیں کر سکتی اس سے قوم کی خاطر رفاہی کاموں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
اسی طرح قربانی کے دنوں میں ایک طبقہ ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو اخلاص و وفا کی کنجی سے کوسوں دور ہوتا ہے، وہ ظاہراً قربانی تو کرتے ہیں مگر صرف اور صرف گوشت کھانے کے لیے۔ ان کا اولین مقصد گوشت حاصل کرنا ہی ہوتا ہے، ایسے ہی لوگ محلے بھر میں اپنے قربانی کے جانوروں کی تعریف کرتے پھرتے ہیں اور ریاکاری کے نام پر خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ جب کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی دکھاوے کے لیے نہیں کیا جاتا، بل کہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے کی جاتی ہے۔ اللہ کا یہ واضح فرمان یہی تو اعلان کرتا ہے کہ "اللہ تعالیٰ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بل کہ اس تک تمھاری پرہیزگاری پہنچتی ہے"۔ اب بھلا بتائیں! کہ وہ لوگ جو محض گوشت کھانے کی لالچ میں قربانی کرتے ہیں وہ ثواب سے کیسے یک لخت محروم ہو جاتے ہیں۔ مذہب اسلام تو ہمیں نام و نمود سے دور و نفور کی ہی تاکید کرتا ہے، مگر ہم ہیں کہ عید الاضحی جیسے مبارک موقع پر بھی اس بیماری سے بچ نہیں پاتے۔ یقیناً اللہ ربّ العزت کی طرف سے یہ ہمارے لیے بڑا انعام ہے کہ ” عید الاضحی" کی صورت میں قربانی کے پاکیزہ معانی و مطالب سے روشناس ہونے کا ہمیں خوب صورت موقع فراہم کیا گیا ہے، تاکہ ہم ہر سال اللہ کی راہ میں قربانی کرکے اپنے اندر بھی ایثار کا قابل رشک جذبہ پیدا کر سکیں، ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانیوں سے واقف ہو سکیں اور سنت ابراہیمی کو زندہ کرکے اپنے اور گھر والوں کے لیے دارین کی سعادتیں بٹور سکیں۔
اس لیے ایسے بابرکت موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم خلوص نیت و دل کے ساتھ قربانی کریں، روشن خیالوں کے فریب سے بچیں اور قربانی کے مفہوم سے آگاہی حاصل کرکے اپنے اندر بھی اخلاص و ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔ کیوں کہ ہم جس مذہب کے Followers ہیں، وہ ہم سے جان و مال کی قربانی طلب کرتا ہے اور ایک بندۂ مومن ہزار ایثار و قربانیوں کے بعد ہی ایمان کامل کی کسوٹی پر فائز ہو سکتا ہے۔ جب تک ریا، جھوٹ، فریب، گم راہی، فسق اور چغلی و غیبت کی تاریکی سے نکل کر اخلاص و صداقت کے نورانی آنگن میں قدم نہیں رکھیں گے اس وقت تک ہم تنگ و تاریک گڑھوں میں گر کر اپنی تباہی کا سامان مہیا کرتے رہیں گے۔ اس لیے ان حالات میں ہمارے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بھرپور اخلاص کے ساتھ قربانی کریں اور اپنے اندر بھی جذبۂ ایثار کو خوب خوب جوان و توانا کریں۔
wazirmisbahi87@gmail.com
وزیر احمد مصباحی کی گذشتہ نگارش:نہ رادھا نہ رکمنی: امرتا پریتم کا اہم سوانحی ناول

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے