کیفی اعظمی کے افکار : ایک جائزہ

کیفی اعظمی کے افکار : ایک جائزہ

محمد مرسلین اصلاحی

کیفی _ کیفی اعظمی ایک شاعر ، ایک فن کار، ایک نامور شخصیت ، ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا در شہ وار ، کیفی کے انتقال پر نثر نگاروں نے تعزیتی تحریریں لکھیں، دردمندوں نے غم و افسوس کا اظہار کیا. ادبی حلقوں میں اسے عہد کا شاعر ہی نہیں بل کہ ایک پیغمبر تسلیم کیا گیا ۔ لیکن بذات خود کیفی اور کیفی کی شخصیت کیا تھی ؟ اس کے افکار و خیالات کیا تھے ؟ کیا کسی نے اس پہلو پر بھی غور کرنے کی کوشش کی ہے ۔
شعر و شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ نہ اب اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی حک و اصلاح کی ضرورت ۔ البتہ شعر ہر زبان میں کہے گئے ۔ اور اس کی افادیت بھی تسلیم کی گئی.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شعر کو پسند فرمایا اور آپ کا یہ ارشاد گرامی تو سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ شعر حکمت ہے ۔ دوسرے آپ کفار کے مقابل حسان بن ثابت رض کو بلاتے اور کہتے۔ حسان تم میرا دفاع شعروں کے ذریعہ کرو ۔ گو کہ قرآن مجید نے شعرا کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس دورکا عام تصور تھا جب قرآن مجید کی آیت کو کفار مثل شعر کہتے اور جادو سے تعبیر کرتے تھے۔ اور یہ منشائے نبوت کے خلاف تھا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امرء القیس جو شعرا کا سرخیل مانا جاتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” ملوک الضالین " کا خطاب دیا اور سخت نفرت کا اظہار فرمایا حالاں کہ امرء القیس کی شاعری ادبی و فنی اعتبار سے اتنی بلند پایہ سمجھی جاتی ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو وہ مقام حاصل ہوا ہو۔ لیکن اس کے برعکس نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عہد جاہلی کے ہی ایک شاعر عنترہ العبسی کا یہ شعر سنا کہ "میں کوئی ایسی رات یا ایسا دن نہیں گزارتا کہ کہ حلال رزق کی تلاش نہ کروں" تو آپ بہت خوش ہوئے اور دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی کہ مجھے اس شاعر کا دیدار کرادو یہ تو وہی کہہ رہا جس کا میں مشن لے کر آیا ہوں ۔ چناں چہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے تنقید کی جو یہ طرح ڈالی وہ صرف اور صرف ان کے خیالات اور فکری رجحانات کی بنیاد پر تھی ۔یقینا ادبیات کی صحت مندی اور حیات افروزی کا اصل پیمانہ یہی ہے۔ شاعری اگرچہ ادبی اور فنی لحاظ سے کتنی ہی معیاری ہو فحش ہے تو بے مقصد ہے۔ لازم ہے کہ اس میں صالحیت کے حیاتین پائے جاتے ہوں ۔ ادب برائے زندگی ہونا چاہئے ۔ ادب برائے ادب خام مال کی بے جا فروخت ہے. اگر ماحول و معاشرت پر اس کا مثبت اثر نہ پڑے اور اصلاحی رنگ غالب نہ ہو جو شاعری کا ما حصل ہے تو پھر موت ہے ۔
ابھی حال ہی میں ہمارے کالج کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف اردو ، ڈاکٹر شباب الدین صاحب نے کیفیات نامی ایک کتاب ترتیب دی ہے جو کالج میں منعقدہ کیفی حیات و خدمات سیمینار میں ہندوستان کے نامور ادیبوں اور اسکالرس کے پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ جس میں مقالہ نگار حضرات نے کیفی کے حالات و کوائف زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ادبی و شعری خدمات کا جائزہ لیا ہے ۔ کیفیات نامی اس کتاب میں محترم مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب ناظم دارالمصنفین اعظم گڈھ کا ایک وقیع مقالہ نظر سے گزرا. مولانا نے بڑے خوب صورت انداز میں کیفی کو اس کے شعری کمالات میں ڈھونڈنے کی ایک کام یاب کوشش کی ہے لیکن راقم کا آپ کے تئیں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ کیفی کی ذات پر آپ کا مقالہ لکھنا کتنا ضروری تھا. آپ ایک اسلامی فکر کے داعی اور روحانی رہ نما ہیں ۔ سینکڑوں صحیح العقیدہ اور اسلامی فکر رکھنے والے شعرا ایسے ہیں جن کی خدمات سراہنے والا کوئی نہیں ۔ ایک شخص جو فلم انڈسٹری کا شاعر، کمیونزم کا پروردہ ، خدا کی ذات کا انکاری ، اس پر کس قدر لوگ قلم کی قلابازیاں دکھاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔کیفی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

ٹوٹ گئے ہیں راہ میں پاؤں تو یہ معلوم ہوا
جز مرے اور مرا راہ نما کوئی نہیں
ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا ہے
کہہ دیا عقل نے تنگ آ کے خدا کوئی نہیں

جس شاعر کی مادہ پرستانہ ذہنیت نے بنو آدم کی زندگی کو بے معنی قرار دے دیا ۔ گویا کائنات نہ کسی انتظام کے تابع ہے اور نہ انسان ۔ آندھی فطرت سب کچھ کئے جارہی ہے ۔ اس اندھے منتظم طریق ارتقا کی بدولت انسان بھی منی سے پیدا ہوتا ہے ، نشو و نما کی چند منزلیں طے کرتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کو سمجھنا چاہیے کہ خالق کائنات تو بے نیاز ہے ۔ کوئی ” ربنا ماخلقت ھذا باطلا” کہے نہ کہے ۔ مگر آدمیت کی اس سے بڑی کوئی توہین نہیں کہ !

یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیرِ گردوں رسمِ لا دینی نہاد
مشکلات حضرتِ انساں از دست
آدمیت را غمِ پنہاں از دست
در نگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے محور است

خدا نے کہا میں نے پیکر آدم کے اندر اپنی روح پھونکی "ونفخت فیہ من روحی" ۔ پھر جو روح خدا نے پھونکی ہو وہ کیسے مر سکتی ہے لیکن یہ جھگڑا لادینیت ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ اگر اس تنظیم کائنات کا کو ئی خدا تسلیم کر لیا جائے تو پھر تخلیق کو بھی کسی مقصد کا نتیجہ ماننے میں دقت نہ ہو اور ہستئ الہی کے انکار سے فکر کا محور ہی اکھڑ گیا. نظر کی ڈوری ہی الجھ گئی ۔ آغاز و ابتداء ، مصدر و مورد کی حیثیت ہی ناپید ہو گئی۔ فکرو نظر کی اس کجی کا سب سے بڑا مناد کیفی تھا ۔
جب ہم کیفی کے مذکورہ شعر کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیفی نے کس طرح سے خدا کی ذات کا انکار کیا ہے جب کہ دور جاہلی کا شاعر امرء القیس، اس کے یہاں بھی وحدۃ الشہود کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا جیسا کہ قرآن نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ ”
اے رسول ! جب تم ان سے دریافت کروگے کہ آسمان کس نے بنایا ۔ زمین کس کی کی تخلیق ہے ۔ تو یہ بے ساختہ پکار اٹھیں گے ۔ اللہ! ”
لیکن کیفی صاحب کے یہاں سرے سے خدا کے وجود کا یقین ہی ندارد ___ بقول ماچس
شیخ جی آئے جو محشر میں اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امرء القیس کو اس کی فحش شاعری کی بنا پر شہ گمرہاں کا خطاب دیا تھا تو اس سے کہیں زیادہ فحش اور غلیظ انکار کا نظریہ ہے اور اگر آپ نے امرء القیس کی ادبی شان کو کوئی اہمیت دی ہوتی جس طرح مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے کیفی کے شعری کمالات اور ادبی شان کو اجاگر فرمانے میں سعی ناتمام کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عنترہ کی تعریف نہ فرماتے ۔ بل کہ امرء القیس آپ کے نزدیک بدرجۂ اتم محبوب ترین شاعر ہوتا.
اگر آپ کیفی کی درج بالا رباعی کے تیسرے اور چوتھے مصرعے پر نظر ڈالیں تو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کیفی کے یہاں خداؤں کی ایک بھیڑ ہے اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ کیا کریں۔ ان کے یہاں ایمان اور ایقان کا کوئی مطلب نہیں بل کہ ہر مسئلہ کی میزان اور کسوٹی عقل ہے جیسا کہ کیفی کا یہ شعر _

ذہن کے واسطے سانچے تو نہ ڈھالے گی حیات
ذہن کو آپ ہی ہر سانچے میں ڈھلنا ہو گا

جب کہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ایمان دل سے سچے اور پختہ یقین کا نام ہے اور عقل اس سچائی اور ایقان کو شہادتیں پیش کرتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ ، آسمان ، پہاڑ اور زمین کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتا ہے ۔ "پس یاد دہانہ حاصل کرو "۔ گویا عقل کی بنیاد پر کسی اصل الاصول کو ٹھکرانا کم عقلی کی دلیل ہے. کیوں کہ ہماری عقلیں بڑی محدود ہیں ۔ ہم چھوٹی سے چھوٹی چیز پر غور کرکے خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت کے قائل ہو سکتے ہیں ۔ چہ جائے کہ زمین و آسمان ، پہاڑ و سمندر ہوں ۔ کمیونزم اور دہریت کا علم بردار کیفی جس کا مذہب ہی Nothing God خدا کوئی نہیں ہے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شعرا کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے ۔
شبلی کالج اعظم گڈھ کے فارسی ڈیپارٹمنٹ کے ایک نوخیز صاحب ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی وہ ادب کی دنیا میں بھی نوخیز ہیں ۔ کیفی کے اس شعر کے بارے میں لکھتے ہیں :
"کیفی کے اس شعر سے لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے کہ کیفی نے خدا کا انکار کیا ہے ۔ بل کہ اس کا سبب روس میں کمیونسٹ حکومت کے زوال پر کیفی کا اظہار افسوس ہے. چوں کہ اس وقت نئی استعماری حکومت میں آنے والے کسی طرح بھی کیفی کے حامی و ہم منشا نہ تھے۔"
لیکن نوخیز صاحب اس شعر کی بابت کیا فر مائیں گے جو ” آوارہ سجدے " میں کیفی کے اس دہری خیال کی ترجمانی کرتاہے جو فی الواقع مذہب اسلام سے بیزارگی کا بین ثبوت ہے ۔ جس کا اظہار یوں کیا ہے ۔
اپنی لاش آپ اٹھانا کوئی آسان نہیں
دست و بازو مرے آوارہ ہوئے جاتے ہیں
جس سے چمکی تھی ہر دور میں تمہاری دہلیز
آج سجد ے وہی آوارہ ہوئے جاتے ہیں

یا وہ شعر جس میں خدا کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر پر تنقید ہے ۔

لبالب ہیں کہیں ساغر ، کہیں خالی پیالے
یہ کیسا دور ہے ساقی ، یہ کیا تقسیم ہے ساقی
نہیں پہچانتا تیور ابھی تو تشنہ کا موں کے
ترا دستورِ بخشش لائقِ ترمیم ہے ساقی

جدید فرزندان ادب شعر کی ایسی تاویل کرنا چاہتے ہیں کہ ایک نیا نکتہ نکالیں گے۔ گرچہ شعر اپنے مظاہر کے لحاظ سے کچھ بھی بولتا ہو۔ اسی سبب حالی بڑی حدتک موجودہ غزل کے خلاف تھے۔ لیکن وہ غزل کے وجود پر نہیں بل کہ اس کے مظاہر پر معترض تھے ۔ بہ ایں ہمہ اس کے اور بھی وجوہ ہیں.
غالبا یہ بات آپ کو عجیب سی لگے کہ شعر کے داخلی رموز بھی کوئی چیز ہوتے ہیں. ہمیں اس سے انکار نہیں لیکن اس طرح آپ تاویل کرنے بیٹھیں گے تو پیاز کی طرح دار پرتیں نوچتے رہیں گے اور ایک وقت وہ آئے گا جب پیاز اپنا وجود ختم کردے گی اور ہم جہاں سے چلے تھے "ہنوز قصہ ء روز اول است"۔ بہر کیف مثال کے طور پر غالب کا یہ شعر :

یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتےجو نہ بادہ خوار ہوتا

غالب بادہ خوار تھے ، شراب ارغوانی سے جام لنڈھاتے تھے ۔ ان کا یہ شعر ان کے اس پہلو پر غالب ہے۔ ان کی یہ پوری غزل تصوف کا پورا فلسفہ ہے۔ ورنہ اگر تاویل کی جائے اور آپ کی طرح مختلف حالات کے تار پود جوڑے جائیں تو نفی مفہوم کا بھی استدراک ہو سکتا ہے ۔ اور یہ دعوہ مجھے بھی ہے کہ غالب کے اسی شعر سے مع دلائل بادہ خواری سے ان کی شخصیت کو مبرا کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ سوانح نگاروں نے بڑی جسارت اور وثوق کے ساتھ ان کے اس پہلو پر لکھا ہے ۔ لیکن شعر کے مظاہر اصلا شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں جیسا کہ خلیل الرحمن اعظمی مقدمہ کلام آتش میں لکھتے ہیں :
” خمریاتی شاعری سے صحیح معنوں میں وہی شخص عہدہ برآ ہو سکتا ہے جو محض شراب کا ذکر کر نے کے بجاے اپنی شخصیت میں وہی رندانہ کیفیت اور بے پناہ سر مستی رکھتا ہو ”
ایک مضمون جناب عمیر الصدیق صاحب ندوی رفیق دار المصنفین اعظم گڈھ کا ہے۔ جو کیفی اور علامہ شبلی نعمانی کے مابین موازنہ پر مشتمل ہے۔ موصوف نے شعری و ادبی جہت سے دونوں کا موازنہ کیا ہے ۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں انھوں نے وہ کون سے اسباب بیان کیے ہیں جو کیفی کو علامہ کے دست راست لا کھڑا کرتے ہیں اور کتنے ہمہ گیر ہیں ۔لکھتے ہیں
” جس طرح علامہ شبلی کا گھرانہ مذہبی تھا اسی طرح کیفی کا گھرانہ بھی علمی رنگ میں ڈوبا ہوا تھا ۔ جس طرح بندول کی فضا صاف ستھری تھی اسی طرح مجواں کی فضا بھی صاف تھیں۔ علامہ شبلی بھی زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے اور کیفی بھی زمیندار گھرانے سے متعلق تھے ۔ "
پہلی چیز تو یہ کہ نسلی تفاخر اور خاندانی مشیخت کوئی بڑائی کی چیز نہیں ۔ یا پھر مجواں اور بندول کی فضا صاف ستھری تھی باقی قصبات گندلے تھے ۔ یہاں ایک چیز کا مجھے اعتراف ہے کہ ان کا گھرانہ مذہبی تھا ۔ لیکن اس مذہبی گھرانے کی بنیاد پر علامہ شبلی نعمانی رح تاریخ و سیر ت کے امام ٹھہرے ۔ آپ کی شخصیت بے لوث تھی ۔ دین و مذہب سے جو عقیدت علامہ کو تھی میں نہیں سمجھتا کہ کیفی اس کے پاسنگ بھی رہے ہوں گے ۔
افسوس ہے عمیر الصدیق صاحب کی زلہ ربائی اور ادب نوازی پر کہ آپ کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کہاں شان شبلی اور کہاں کیفی ۔ علامہ شبلی کو گو کہ شعرا کے تذکروں میں صحیح جگہ نہ ملی یا ملی تو بس یوں ہی لیکن علامہ شبلی ایسے پہلے فرد ہیں جنھوں نے شعر سے بھی تاریخ کا کام لیا اور باقاعدہ ایک مدرسۂ خیال کی نیو رکھی ۔ ان کے مقام کے تعین سے جدید تذکرہ نویسوں اور خوردہ نشینوں کا اغماض در اصل سیاسی انتقام کی ایک مجرمانہ حرکت ہے۔
نیز ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ کیفی آخر وقت تک شکوہ بگو رہے اور فریاد کرتے رہے کہ لوگ مجھے مذہب بیزار کہتے ہیں میں نے وہ کون سی بات کہہ دی جو سر سید اور شبلی نے نہیں کہی ۔ روشن خیالی اور ترقی کے جرم میں ان پر فرد جرم عائد ہوئی اور مجھے بھی مذہب بیزار کہا جاتا ہے ۔
شاید کیفی صاحب کو پتہ نہیں کہ سر سید سے زیادہ ترقی کا خواہاں اور افرنگ کی تعلیم کا حامی کون تھا لیکن انھیں کھلے الفاظ میں سمجھانا پڑا کہ ترقی کا مفہوم کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
” ایک ایک شخص جو بھی اسلام کے گروہ میں شامل ہے وہ سب مل کر مسلمانوں کی ایک قوم کہلاتی ہے ۔ جب تک وہ اپنے عزیز مذہب کے پیرو اور پابند ہیں تب ہی تک وہ قوم ہیں یاد رکھو اسلام میں جس پر تم کو جینا ہے جس پر تم کو مرنا ہے اس کو قائم رکھنے سے ہی ہماری ترقی ہے ۔ اے عزیز بچے ! اگر کوئی آسمان کا تارا ہو جائے مگر مسلمان نہ رہے تو تم کیا وہ ہماری قوم کا ہی نہ رہا "
اسد ملتانی نے کیا خوب کہا ہے :

کی مسلماں نے ترقی جو فرنگی بن کر
یہ فرنگی کی ترقی ہے مسلماں کی نہیں

دوسرے ندوی صاحب نے کیفی کے ان اشعار کو بطور مثالی کارنامہ کے پیش کیا ہے جو کیفی نے علامہ کے شعر پر گرہ کشائی کی ہے ۔ لیکن سوال اس بات کا ہے کہ اگر کیفی نے علامہ کے چند اشعار پر قافیہ پیمائی کی ہے تو کون سا قابل ذکر کارنامہ انجام دے دیا ۔ چند مصرعوں اور قافیوں کے شاعر بھی استاد شعرا کی زمینوں پر جولانیاں دکھاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا کارنامہ تو نہیں کہ جس پر سر دھنا جائے اور لازما ان کے درمیان موازنے کی میزان کھڑی کردی جائے ۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ادب کو اتنا نقصان پہنچایا کہ صدیوں کی کاوش بھی شاید اس کی بھر پائی نہ کر سکے. اس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں ایسی مثالیں ملیں گی جنہوں نے درباری رعایت اور سیاسی اغراض و مراعات کی بنا پر شاعری کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اصل طبع زاد شاعری مر گئی اور وہ محدود دائرے میں گھوم پھر کر رہ گئے۔ چند مثالیں اس سے مستثنی بھی ہیں ۔ جیسے نظیر اکبرآبادی نے قبول عام کی پروا کیے بغیر وسیع النظری سے کام لیا اور کبھی بھی درباروں کی کاسہ لیسی نہ کی ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جائے یا کہا جائے وہ حقائق پر مبنی ہو ۔شخصیت پرستی یا سیاسی اغراض کی بنیاد پر کسی کا ڈانڈا کہیں سے کہیں ملا دینا درست نہیں ۔
ترقی پسند شعرا کی طرح ادبی معاملات میں ترقی پسند تحریک کے اکثر نقاد بھی کجرویوں اور فکری خامیوں کے شکار نظر آتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے ترقی پسند ادب پر 1981 میں ایک کتاب شائع کی. جہاں اس تصنیف میں اس تحریک کے تاریخی مطالعہ اور ادبی نشو و نما کا خاکہ کھینچا گیا ہے وہیں افراط و تفریط سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا بیش تر حصہ خود ان کے اپنے مزعومات و تصورات پر مبنی ہے۔ جیسا کہ خلیل الرحمٰن اعظمی لکھتے ہیں :
” ترقی پسند تحریک سے متعلق ادبا افراط و تفریط میں مبتلا تھے۔ وہ ماضی کے سارے ادبی کارناموں کو نظر انداز کر کے ترقی پسندی کا میکانکی تصور پیش کر رہے تھے۔ بعض خام ذہنوں نے بغاوت اور تحریک کو ترقی پسندی تصور کیا اور جنسی بے راہ روی اور اخلاقی قیود سے آزادی حاصل کرنے کو ترقی پسندی کا منتہا سمجھا۔ انھوں نے ادب کی رمزیت اور جمالیاتی انداز کو رجعت پسندی کی علامت سمجھا۔ انھوں نے جذباتی اور سطحی طور پر اس نظریے کو قبول کیا۔
ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی اس روش سے ادب اور ترقی پسند تحریک دونوں کو نقصان پہنچا۔ اس تحریک کے زیر سایہ وجود میں آنے والے ادب پر پروپگنڈہ کا گمان ہونے لگا اور فنی صداقتیں مجروح ہو گئیں۔"
بقول شورش کاشمیری :
” ترقی پسند ادیبوں نے ادب و شعر سے مفاسد و عوارض کو خارج کر نے کی کوشش تو کی مگر ان کی تحریک میں اثبات کے بجائے نفی کا پہلو عام تھا۔ انھوں نے اپنی ہمہ ہمی کے باوجود کوئی میر ، غالب ، اقبال پیدا نہیں کیا ۔ ان کی صفوں میں ایک بھی حالی ، اکبر اور ظفر علی خاں نہیں ۔ سردار جعفری نے ” ترقی پسند ادب ” میں بعض کھلونوں کو بڑا بنانے کی کوشش تو کی مثلا مجروح سلطان پوری اور کیفی اعظمی، لیکن ان کا حدود اربعہ بس اتنا ہے کہ شاعری کے مدرسہ میں کند ذہن طالب علم ہیں. خود سردار جعفری اپنی تحریک کے حالی بننا چاہ رہے تھے لیکن غور کرنے سے ان کا اپنا وجود محل نظر ہے. "
مزید لکھتے ہیں :
"ترقی پسند وں کا ایک گروہ یقیناً ایک نیا ذہن ، نیا جذبہ اور نیا احساس لے کر اٹھا لیکن ان کی بڑی خوبی درشت گوئی اور مشاہدہ کی کمی ہے۔ ان کے یہاں تقلید ، اخذ و توارد زیادہ ہے. فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے شعری رہ نما ہیں۔ ان کے نظریوں کو جدلی مادیت کے گہرے مطالعے اور طبقاتی آمیزش کے عمیق مشاہدے نے پروان چڑھایا، ان کے یہاں فکر سے فرض تک ایک ہی لے ہے ۔"
اسی طرح جمیل مظہری لکھتے ہیں :
” یہ بمبئی والے حضرت جعفری صاحب ہیں ان کی بھی ایک امت ہے۔ جس کی تصویر علامہ اقبال رح نے یوں کھینچی ہے ۔
یہ پریشان روزگار ، آشفتہ حال و آشفتہ ہو ۔
سردار جعفری صرف خواب دیکھتا ہے، عالم گیر اشتراکیت کا خواب ، عالمگیر برابری کا خواب ۔ لیکن ان خوابوں کو پیکر وجود میں لانے کے لیے وہ کوئی نتیجہ خیز زحمت گوارا نہیں کرتا. ہوٹلوں میں بیٹھ کر چائے پیتا ہے ۔ سگریٹ پیتا ہے ۔ یہ جماعت نصف صدی سے ہندوستان میں اپنی موجودگی کا اعلان تو کرتی آرہی ہے۔ لیکن ہندوستان جو دیہاتوں کا ملک ہے، اس کے کسی دیہات میں آپ چلے جائیے اور وہاں کے لوگوں سے اس پارٹی کے بارے میں پوچھیے تو وہ کانوں پر ہاتھ دھریں گے اور حیران کن آنکھوں سے آپ کی صورت دیکھیں گے۔ یہ ہے عوام سے ان ہمدردان ازل کا رشتہ و روابط ۔ کاش ! یہ عمل دارانِ حریت اپنی آرام کرسیوں پر بیٹھ کر اونچی اونچی لمبی لمبی گپیں ہانکنے کے بجائے گاؤں گاؤں پھیل کر عوام کے ذہن کی تربیت کرتے اور ان کے پیمانۂ فہم کے مطابق سمجھاتے ۔ کاش ! کوئی اسٹالن صاحب سے کہتا کہ ہندوستان میں جواہر لال نہرو کی اشتراکیت کے باوجود جو مہاجن شاہی قائم ہو گئی ہے وہ آپ کی اس پارٹی کی بے عملی کا نتیجہ ہے جس کا نام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ہے ۔ یا آپ نے انھیں سکھایا ہی نہیں ۔ خوابوں کے یہ بچے سپنوں کے یہ لال صرف سپنا دیکھتے ہیں ۔ اور آنکھیں بند کرکے انقلاب کا کلمہ جپتے ہیں ۔ اور کامناوں کا پنکھ لگا کر خلا میں اڑتے ہیں۔ اور اپنے نرم گداز بستروں پر آرام سے لیٹ کر یہ تمنا کرتے ہیں کہ کوئی خونیں انقلاب کا سیلاب آئے اور ان کے ارادوں کی کشتی کو بھارت کے راج سنگھاسن کے قریب لاکر لگادے۔ یہ مولانا ابوالکلام کی زبان میں فرزندان دانش وری اور دل دادگان لیلائے حماقت اور مجانین صحرائے صحافت کمیونسٹ پارٹی کے لوگ ہیں."
کیفی کے خیالات میں وحدت کا کوئی رشتہ نہیں ، ایکا ایکی نفسانی طور پر باہمی فکری تصادم ہے اور جو لوگ جنسی کج روی میں زندگی بسر کرتے ہیں ان کا ذکر ہی بے کار ہے ۔ انھیں زیادہ سے زیادہ شعری ممیوں کا نام دے سکتے ہیں ۔ ” اردو ترقی پسند تحریک" کے ڈھڑے سے جڑے رہنے کے سبب غزل و نظم کے مشرقی روپ سے فرار در اصل میں فکر کی ژولیدگی کا نتیجہ ہے ۔ فیض اور ان کے دو چار خوشہ چینوں کو چھوڑ کر اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا ذہن مستعار اور زبان ادھار ہے. یہ جتنا عوام کا ذکر کرتے ہیں اتنا عوام سے واقف نہ تھے ۔ یہ لوگ شعروں میں نعرہ بازی کرنا جانتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ اصلا اشتمالی چھاپ کے بعد سستی شہرت کا حصول تھا ۔ کیفی کو ایک انقلابی شاعر کا نام دینا ادب سے عدم دل چسپی اور ادبی وقعت کو مجروح کرنا ہے ۔ کیفی نہ انقلابی شاعر تھا اور نہ ہی اس کے شعروں میں وہ روحانیت ہے جو انقلاب کی جوت جگائے۔ کیفی لے دے کے ترقی پسند تحریک کا پرچارک تھا ۔ وہ ہندوستان کی عوام سے سستی شہرت چاہتا تھا. یہ انقلاب نہیں بل کہ نراج ہے۔ ترقی کے معنی ہیں آگے بڑھنا توڑنا نہیں۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ماضیِ مرحوم کی عمارت سے ہر اینٹ کھینچ لیں. ان کی فراست قابل اعتنا نہیں ۔ جن کی ذہنیت اشتمالیت سے زنگ آلود ہے ۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے علاوہ اور بھی شاعر ہیں جن کے یہاں گونج گرج ، رجز ، جوش ، ولولہ ، جدت ، شور و غل، نئے تراشے ، استعارے ، تشبیہیں ، ترکیبیں کم نہیں۔ لیکن ترقی پسند تحریک کی طرح وہ مشیت کو گالی نہیں دیتے ۔
چناں چہ کیفی کو کمیونسٹ حکومت کے زوال کا بڑا درد و کرب تھا ۔ شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

اک یہی سوزِ نہاں کل مرا سرمایہ تھا
دوستوں میں کسے یہ سوز نہاں نذر کروں

لیکن مارکسیت اشتراکیت کی ایک خاص شکل ہے. اس کا بانی انیسویں صدی کا جرمن مفکر کارل مارکس ہے۔اس کے نظریات کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا دار و مدار معاشیات پر ہے ۔ وہ تہذیب ہو یا فلسفہ ، شعر و ادب ہو یا مذہب ۔ سب کا تعین معاشی عوامل کرتے ہیں ۔ اور زمانے کا فلسفہ تمدن ہو گا. یہاں تک کہ مذہب کا بھی ۔ اس لیے اس کے نظریے کا نام "جدلیاتی مادیت ” پڑا ۔ کمیونزم والے مذہب کو تو نہیں مانتے ۔ البتہ ان کے نزدیک مذہب کی حیثیت وہی ہے جو جو شادی بیاہ میں رسوم اور کھیل کود کی ہوتی ہے. بیسویں صدی میں عقلیت پرستی جو ختم ہوئی تو اس میں بڑا ہاتھ نفسیات کا ہے ۔ اور اس دائرے میں سب سے گہرا اثر فرائڈ کا ہے ۔ لیکن فرائڈ مذہب کو ایک فریب اور وحشیانہ دور کی یادگار سمجھتا ہے ۔ نئی نفسانیت میں دوسرا نام یونگ کا ہے۔ یونگ مذہب کا قائل ہے اور ضروری سمجھتا ہے. لوگوں میں یہ عام تصور پیدا ہو گیا تھا کہ یونگ کے نظریات سے مغرب میں مذہب زندہ ہورہا ہے ۔ لیکن یونگ وحی کو نہیں مانتا ، وہ کہتا ہے کہ وحی بھی اجتماعی لاشعور کا نتیجہ ہے ۔ چناں چہ اس نے تمام دینی تصورات و رموز کی نفسانی تشریح کردی۔ اور اس طرح مسخ کیا کہ جو لوگ اس کے زیر اثر تھے ان کے لیے مذہب کا سمجھنا نا ممکن ہو گیا ۔ اور متبعین آج تک کش مکش کا شکار ہیں ۔
جواہر لال یونیورسی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرما ئیں :
” اسلام مذہب اور کمیونزم بنیادی طور پر اقتصادی نظام ہے اور اس اقتصادی نظام کی بنیاد پر قائم کیا ہوا سماجی ڈھانچہ ۔ بہر صورت اسلام اور کمیونزم میں تضاد ڈھونڈنا بے تکی بات ہے ( عصری آگہی 79ء) "
یہی وہ بے تکی بات ہے جس سے یہ سرخ حضرات کام لیتے ہیں ۔ اگر آپ صاحب کے سامنے لینن صاحب کا یہ فرمان موجود ہوتا تو ایسی بے تکی بات نہ کہتے ۔ ملاحظہ فرمائیں
” ہم اس اخلاق کو رد کرتے ہیں  جو عالم بالا کے کسی تصور پر مبنی ہو ۔ ہم اس فریب کا پردہ چاک کر کے رہیں گے ۔ اخلاق اس کے سوا کچھ نہیں کہ مزدوروں کی مطلق العنانی حکومت کو مضبوطی سے قائم کیا جائے."
مارکس اور لینن کے امتی اور فرزندان شریعت ِ مسیح بے صلیب ماسکو تک کا تو سفر کر سکتے ہیں ۔ مگر ہندستان میں بیٹھ کر کسی خونی انقلاب کی تمنا عبث ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ کمیونزم کے صرف ایک اجتماعی زراعیت کی اسکیم کے نفاذ کے لیے 19 لاکھ افراد کو تہ تیغ کیا گیا۔ 30 لاکھ سے زاید افراد کو انسانیت سوز سزائیں دی گئیں. اور 39 لاکھ افراد کو ملک بدر ہو نا پڑا ۔ اس کے باوجود روس اور چین کی اشتراکی پارٹیاں اس نظام کے نفاذ میں کلیۃً نا کام رہیں ۔
اسلام کو مذہب اور کمیونزم کو نظام کہنے والے یہ بتائیں کہ زکوۃ ، عشر ، صدقات ، فطرہ ، انفاق ، کفارہ ، اوقاف ، ترکہ ، وصیت ، کفالت ، نان و نفقہ ، دین ، مہر ، اسراف و تبذیر کے قوانین ، مضاربت کے اصول، حقوق اتفاق کی دفعات ، تحدید ملکیت ، تعذیرات کیا محض نرے مذہبی احکامات ہیں یا کیا کسی ریاست کی تشکیل کے لیے اقتصادی ، سیاسی ، سماجی معاشی و معاشرتی اور سیاسی گوشوں کے لیے مکمل نظام بھی ۔
تو پھر کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ اشتراکیت کا رشتہ راست طور پر مذہب سے جڑا ہوا ہے جب کہ ترقی پسند تحریک کی بنیاد ہی مارکسی نظریات ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کیفی اشتراکیت پسند تھا ۔ اور یہی اس کا ملجا و ماوی۔ اس نے اشتراکیت کے زوال پر اظہار افسوس بھی کیا ۔ اور اس کی تبلیغ میں تمام عمر ختم کر دی ۔ اور اس پارٹی کا ایک سرگرم رکن بھی تسلیم کیا گیا ۔ لیکن کیفی کا رشتہ مذہب سے کس نو عیت کا تھا کیفی کے خیالات کا ڈانڈا مذہب سے جوڑنے والوں نے اس کے افکار کو سمجھا ہی نہیں۔ بل کہ ان ہمدردان وفا اور اخوان صفا نے کیفی کا دفاع اس طرح کیا ہے کہ کیفی مارکسی نظریات کا حامی ہو نے کے باوجود مذہب سے بہت قریب تھا ۔ یہ بالکل بعد الابعاد سی بات ہوئی ۔ جو شخص مارکسی نظریات کا حامی ہو اور اس پر سر دھنے اس کے خیالات مذہب سے کتنے ہم آہنگ ہوں گے بالا تشریحات کی روشنی میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ہم جب کیفی کے مجموعی کلام پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیفی کی شاعری عوامی ہم دردی کا نقارہ ہونے کے باوجود اس میں بنیادی انسانی اقدار کا فقدان ہے. گویا کہ کیفی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مغز کو چھوڑ کر چھلکوں پر دیوانہ وار ٹوٹ پڑے. اور اسے یہ بھی خبر نہ ہو کہ مغز بھی کوئی چیز ہوتا ہے. عوام کانعرہ لگانے والا ، شعروں میں ہنگامہ آرائی کرنے والا ، اگر عوام کی بنیادی اقدار سے ناواقف ہو تو وہ عوام کے درد کو ہرگز نہیں سمجھ سکتا ۔ ایک زمانے میں جب ادب کے اندر انسانی اقدار کی اہمیت تسلیم کی جاتی تھی تو اس سے معنی خیز نتائج برآمد ہوتے تھے. اور عوام پر اس کا خاطر خواہ [اثر] پڑتا تھا ۔ لیکن انسانی اقدار کی تلاش ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اور آج کے ادب میں حتی الامکان معدوم شے ہے ۔
جیسے کہانی کہنے والا کسی شہزادے کو چن لیتا ہے اور اس پر نیند وارد کر کے اسے خواب کے ذریعہ ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جہاں اشیا کی شکل و صورت اس دنیا سے بہتر دکھائی دیتی ہے اور وہ اس دنیا کی تلاش میں نکل جاتا ہے ۔ اس دل فریب دنیا کا پتہ پوچھتا ہے ۔ آخر اسے ایک بزرگ کی رہ نمائی حاصل ہو جاتی ہے۔
"مجھے اس دل فریب دنیا کی تلاش ہے ” شہزادہ کہتا ہے۔
اے میرے عزیز ! بزرگ جواب دیتا ہے ۔ یہ دنیا اس پرندے کے وسیلہ کے بغیر نہیں مل سکتی جسے سیمرغ کہتے ہیں ۔
یہ سن کر شہزادہ سیمرغ کی تلاش میں وادیوں ، پہاڑوں اور دریاؤں کو قطع کرتا ہوا جنگلوں میں پہنچ جاتا ہے ۔لیکن سیمرغ اسے کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ البتہ کچھ جنگلی پرندے اس کے ہم سفر بن جاتے ہیں ۔ جہاں شہزادہ رکتا ہے ، پرندے بھی رکتے ہیں ۔شہزادہ سوتا ہے تو پرندے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ پھر جب وہ چلنے لگتا ہے تو پرندے اس کے ساتھ اڑتے ہیں ۔ یوں برسوں گذر جاتا ہے ۔ شہزادہ تھک کر سو جاتا ہے ۔
اے شہزادے ! پرندے پوچھتے ہیں :
” تو کس کی تلاش میں برسوں سے سرگرداں و پریشاں حال ہے "
شہزادہ جواب دیتا ہے ۔ ” سیمرغ کی تلاش میں "
اتنا سنتے ہی پرندے قطار وں میں رک جاتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ ہمیں دیکھ کیا ہم تیس نہیں ہیں ۔ شہزادہ انہںں دیکھتا ہے اور گنتا ہے ۔ اور اس پر یہ راز کھل جاتا ہے سیمرغ یہی تیس پرندے ہیں اور کوئی ایسا پرندہ نہیں جو سیمرغ کے نام سے موسوم ہو۔ اس وقت شہزادے کے ارد گرد وہی دنیا رونما ہونے لگتی جس کا اس نے برسوں پہلے خواب دیکھا تھا ۔
اس حکایت کا تذکرہ اس لیے لازمی ہے کیوں کہ بنیادی انسانی اقدار کا ادب براہ راست صحیح نتائج پیدانہیں کرتا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ ادب بنیادی انسانی اقدار کا ترجمان ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سیمرغ کی تاویل کیوں کرہو سکتی ہے؟
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کہانی کے پیچھے ایک علامتی حقیقت پوشیدہ ہے ۔ داستان کا پھیلاؤ عملا تیس پرندوں کی کہانی میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اور اس طرح انسانی اقدار کی ہمہ گیر علامت بن جاتا ہے. اب آخر اس تیس کے ہندسے سے کیا مراد ہے ۔ قاری کی یہ سوچ مذہبی تصورات کی طرف لے جاتی ہے اور وہ خدا کی کتاب کے تیس پاروں کو پرندوں کا مصداق قرار دیتا ہے ۔ اور کلام اللہ کی علامت بن جاتا ہے ۔ اور جو بات واضح ہوتی ہے ۔ وہ یہ کہ زندگی کو بہشت میں بدلنے کے لیے سیمرغ کی موجودگی لازمی ہے ۔ چناں چہ انسان جب اقدار کی ان علامتوں کو محسوس کرتا ہے تو وہ شہزادے کے مانند سیمرغ کی تلاش میں دشت و بیاباں میں نکل پڑتا ہے اور اس کا یہ مسئلہ سیمرغ کی علامت پر ختم ہو تا ہے ۔ اور لوگ بنیادی انسانی اقدار کو کلام اللہ کی بنائی ہوئی قدروں سے الگ نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ کلام اللہ کے مطابق اعمال مرتب کرنے سے امن و سلامتی کو زمین پر قایم کیا جا سکتا ہے ۔ یہ سوچ ان کے تخلیقی ذہن کو سیمرغ کی علامت میں ظاہر کرتی ہے ۔ یہ بات شاعری پر بھی صادق آتی ہے ۔ اور مختلف انداز میں پیش ہوتی رہی ہے ۔ معاشرے اور سیاست کے ذیل میں اس تلاش کے ذریعہ ترقی پسند تحریک کا ادب اور اقبال کی شاعری پیدا ہوئی ۔ لیکن دونوں میں بنیادی ، فکری اور معنوی تضاد پایا گیا ۔ نیکی کی قدر صحیح اسلامی قدروں ہی پر قائم ہو سکتی ہے ۔ اس کا عمل اپنے محدود دائرے میں جتنے چناؤ کرتا ہے وہ برائی کی طاقتوں کی نفی کرتا ہے ۔ انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے ۔ وہ دکھ سے زیادہ سکھ اور اطمنان کی خوش خبری دیتا ہے. اس کا مطلب کچھ اور نہیں ہوتا کہ زمین پر بسنے والے انسانوں کو امن و سلامتی کا ماحول واپس لوٹانے کے لیے زمین پر نیکی کا قیام خیر مطلق کی بشارت کا باعث ہے ۔ خوب صورتی ، اطمینان ، امن و سلامتی ، محبت ، عالم گیر انسانی اخوت ، خوش حالی ،اور ثانوی قدریں نیکی کی بنیادیں ہی تو ہیں جو مذہبیت کے سنگھم سے نکلتی ہیں اور روئے زمین پر پھیل کر پورے عالم کو سیراب کرتی ہیں ۔ مگر جب ہم یہ قدریں کیفی کی شاعری میں تلاش کرتے ہیں تو وہ انسانوں کو فراست کے مطابق اپنے خلاق کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے ۔
________________ختم شد_____________

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کتاب: انتظار حسین کی افسانہ نگاری (تبصرہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے