قربانی ایک عظیم حکم الٰہی ہے، جس کی تعمیل ضروری ہے

قربانی ایک عظیم حکم الٰہی ہے، جس کی تعمیل ضروری ہے

انوار الحق قاسمی، نیپالی
واٹس ایپ نمبر:009779811107682

قربانی کیا ہے؟ قربانی ایک عظیم حکم خداوندی ہے ،جس کا امتثال ہر مالک نصاب مرد و عورت پر ضروری ہے۔
قربانی نام ہے: مخصوص اوقات: یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے جہاں عید الاضحٰی کی نماز ادا نہیں کی جاتی ہو(یعنی دیہات میں) اور جہاں ادا کی جاتی ہو (مثلا شہر میں)وہاں بعد نماز عید قرباں سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے قبل قبل تک محض رضائے الٰہی کی خاطر جائز جانوروں(یعنی جن جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے) کو قربان کرنےکا، نیز قربانی نام ہے: جد امجد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام کے عظیم اور حیرت انگیز کارنامے کو یاد کرنے کا۔
اس تحیر خیز کارنامے کوذرا یاد کیجئے، کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چھیاسی سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور کافی تمناؤں اور آرزؤں کے بعد اللہ رب العالمین نے انھیں ایک حلیم فرزند بنام حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا کیا تھا اور پھر جب وہ عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے، کہ اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ کی اعانت و مدد کر سکیں تو فورا حکم خداوندی ہوا کہ اے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کو محض میری رضا جوئی کی خاطر، میری راہ میں قربان کر ڈالو، حکم ربانی کےصادر ہونے میں تاخیر تھی، اطاعت وامتثال اور انقیاد میں چنداں تاخیر نہیں تھی، حکم جاری ہونا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے حلیم و بردبار اور جذبہ اطاعت سے مکمل سرشار فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ طلب کرتے ہوئے کہا : کہ اے میرے فرزند مجھے، تجھے بارگاہ صمدی میں قربان کرنے کا حکم ملا ہے، اس سلسلے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اطاعت شعار لڑکے نے بلا چوں چراں کہا : کہ اے میرے والد محترم بھلا اس میں بھی رائے طلب کرنے کی ضرورت ہے ،جس چیز کاحکم ملا ہے اسے فورا کر گذریے، عن قریب آپ صابر وشاکر پائیں گے، جواب ملتے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عظیم حکم کی تعمیل کے لیے اپنے فرزند کو زمین پر لٹا دیتے ہیں اور اس خوف سے کہ کہیں شفقت پدری غالب نہ آجائے اور تعمیل حکم میں تاخیر ہوجائے، اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتے ہیں، اور پوری طاقت و قوت کے ساتھ گردن پر چھری چلاتے ہیں؛ مگر چھری ہے کہ چل نہیں رہی ہے، اتنا کرنا تھا کہ آسمان سے آواز آتی ہے اےابراہیم علیہ السلام تونے خواب کو خوب سچ کر دکھلایا۔
اس عظیم کارنامے سے خوش ہوکر خداوند عالم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ قربانی کے لیے ایک ذبیحہ جنتی میڈھے کی شکل میں عنایت فرمایا، اور حکم ہوا کہ اسے قربان کیجیے، پس آپ نے اسے بارگاہ ایزدی میں قربان کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اللہ رب العالمین کو اتنا پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لیے امت محمدیہ کے صاحب استطاعت لوگوں پر واجب قرار دے دیا، جسے آج امت محمدیہ کاہر فرد محض خوش نودی ربانی کی خاطر بارگاہ ایزدی میں جانوروں کوقربان کر کے انسانی فطرت سے ماورا کارنامے کو یاد کرتے ہیں ۔
ایام قربانی میں قربانی کرنے والوں کے لیے احادیث مبارکہ میں بے شمار فضائل وارد ہوئی ہیں، اور حکم قربانی سے سرتابی کرنے والوں کے لیے بڑی وعیدیں آئی ہیں؛ چناں چہ محبوب العالمین سردار انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ایام قربانی میں بندہ کا کوئی بھی عمل، عمل قربانی سے زیادہ عند اللہ مقبول و محبوب نہیں ہے، اور قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گر نہیں پاتا ہے کہ پروردگار عالم قربانی کرنے والوں کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، اور اس جانور کو قیامت کے روز سینگوں ،کھروں اور بالوں کے ساتھ لایا جائے گا. حدیث مبارکہ ہے:ماعمل آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من اهراق الدم ، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها واشعارها وان الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالارض فطيبوا بها نفسا. {ترمذی، حدیث نمبر :۱۴۰۹}۔
قربانی کی ماہیت و حقیقت اور کنہہ دریافت کرنے کے لیے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شہنشاہ کونین سے سوال کیا :ماھی الاضاحی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم یہ قربانی جسے ہم آج کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ تو تاج دار بطحا نے فرمایا : هي سنة ابيكم ابراهيم عليه السلام. یہ تمھارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اوران کی یادگارہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علھم اجمعین نے سوال کیا : ومالنا فيها؟ ہمیں اس کے بدلے کیا ملے گا؟ شافع محشر محمد مصطفی صلی اللہ وسلم نے فرمایا: بكل شعرة حسنة.ہربال کے عوض ایک نیکی. انسان غور و فکر کے ذریعے اپنے معاصی وسیئات اور ذنوب کی تعداد شمار کرنا چاہے،تو شمار کرسکتا ہے؛ مگر اللہ رب العالمین کی راہ میں قربان کردہ جانور کی پشت پر موجود غیر معمولی بالوں کی تعداد ہرگز ہرگز شمار نہیں کر سکتا ہے، یہ ہے شان کریمی اور رحیمی کہ وہ بہانہ تلاش تلاش کر، ہمارے گناہوں اور معاصی کو حسنات میں تبدیل کرنا چاہتا ہے مگر ہم ہیں کہ احکامات خداوندی کے امتثال میں کوتاہی اورکاہلی برتتے ہیں۔
پس ہر مالک نصاب مرد عورت کو چاہیے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ فقط رضائے الہی کی خاطر ایام قربانی میں قربانی کرے اور غربا، فقرا، مساکین کا خاص خیال رکھے، اور یہ بات بھی یاد رہے کہ قربانی، نمود و نمائش کے لیے اور اسی طرح گوشت خوری کی نیت سے ہرگز ہرگز نہ کرے؛ ورنہ قربانی مقبول نہیں ہوگی، اور قربانی کرنے کا کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، کیوں کہ قربانی سے مقصود و مطلوب عند اللہ تقویٰ ہے، کما قال اللہ تبارک وتعالی: لن ينال الله لحومها ولادمائها ولا كن يناله التقوي منكم.
باوجود وسعت واستطاعت کے اس عظیم حکم خدائی سے اعراض کرنے والے مسلمانوں کے لیے سخت تحدیدی وعید سناتے ہوئے محبوب العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من وجد سعة فلم يضحي فلا يقربن مصلانا. مالک نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے مسلمانوں کے لیے سخت تحدیدی حکم یہ ہے، کہ وہ میری عید گاہ، تو درکنار؛ بل کہ اس کے دروازہ کے قریب بھی جانے کی جرات نہ کرے، اس ارشاد نبوی سے صاف یہ واضح ہوگیا کہ جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی عظمت و وقعت نہ ہو، اسی طرح سے ان کے لیے جاں نثاری کا جذبہ جسم کی رگ وریشے میں موجود نہ ہو، تو پھر ایسے لوگوں کے لیے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ عیدگاہ آکر عید کی دوگانہ ادائیگی کے ذریعے جسم کے ظاہری اعضا و جوارح کے ذریعے مذہب اسلام کا اظہار کرے، اس لیے وہ میری عید گاہ سے بہت ہی دور رہے اور ان مسلمانوں سے بھی دور رہے، جنھوں نے بسر و چشم اس عظیم حکم ربانی کی تعمیل کی ہے۔
جن مسلمانوں کے افکار و قلوب پر معاندین اسلام کے باطل افکار و خیالات کا کچھ زیادہ ہی اثر ہو چلا ہے، وہ بلا تردد اور حیص بیص کے سوشل میڈیا پر شیطانی نظریات ( کہ ہم مسلمانوں کو ان مخصوص ایام میں اربوں، کھربوں روپیوں کا جانور خرید کر، اللہ کے لیے قربانی دینے سے بہت ہی بہتر اور مناسب ہے، کہ ہم ان پیسوں کو قربانی کے جانوروں کی خریداری پر صرف نہ کرکے، ہم ان کے ذریعے غریبوں، یتیموں، مسکینوں، اور محتاجوں کی مدد کریں؛ پھر دیکھیں کہ وقت قریب ہی میں کتنے ہی غربا، فقرا خوش حال ہو جاتے ہیں، اور پھر چند سالوں کے اندر ہی دنیا سے فقر و غربت ختم ہو جاتا ہے) کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں کو متزلزل کرتے رہتے ہیں، اور افسوس کہ ہمارے بعض مسلمان ان کےدام فریب میں آکر اس عظیم حکم ربانی کی تعمیل سےباز آ کر، قربانی کے جانوروں پر خرچ ہونے والے پیسوں کے ذریعے غریبوں کی امداد کرتے ہیں، اس موقع سے میں صاف عرض کردینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ غریبوں، محتاجوں کی اعانت ایک نیک عمل اور کار خیر ہے، دنیاوی اوراُخروی اس کے بے شمار فوائد ہیں؛ مگر کیا مسلمان اس کے لیے شعائراللہ کو بھی ختم کر دے؟ کیا غریبوں کی امداد کے لیے دیگر رقومات نہیں ہیں؟ جن کے ذریعے غریبوں کی مدد کی جا سکے، بالکل دیگر رقومات ہیں، اور بحمدہ تعالی ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق آج سے نہیں؛ بل کہ جب سے مذہب اسلام آیا ہے، اسی وقت سے غریبوں، محتاجوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور جب تک اس روئے زمین پر اسلام باقی رہے گا کرتے رہیں گے ۔
اسلام کے شیدائیوں کو قربانی کے بجائے صدقات و خیرات کی ترغیب دینے والو، اس سے باز آجاؤ، یہ تمھارے ترغیب دینے سے پہلے ہی، اس کے عادی ہو چکے ہیں، ایام قربانی میں قربانی کرنا، یہ خود ایک مستقل عبادت ہے، اور اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔
وجوب قربانی کے جہاں اور بھی دیگر عظیم مقاصد ہیں، من جملہ ان میں سے ایک اہم مقصد بندہ کی بندگی کا امتحان بھی ہے، خداوند قدوس ہر مالک نصاب شخص پر قربانی واجب کرکے یہ دیکھنا چاہتے ہیں، کہ کون میرا بندہ کامل بندگی کا ثبوت دینے کے لیے بسر و چشم اور بطیب خاطر میرے اس حکم کی تعمیل کرتا ہے، اور کون میرا بندہ ناقص بندگی کا ثبوت دینے کے لیے میرے اس حکم سے اعراض کرتا ہے، تعمیل کرنے والا بندہ محمود رہتا ہے اوراعراض کرنے والا مبغوض رہتا ہے؛ اس لیے بندہ کو چاہیے کہ قربانی کے ذریعے کامل بندگی کا ثبوت دے۔
دعا کریں کہ اللہ رب العالمین ہر مالک نصاب مرد و عورت کو ایام قربانی میں قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اغیار کے باطل افکار و خیالات سے کلی حفاظت فرمائے، آمین.
انوارالحق قاسمی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : جدید وقدیم فضلا کے درمیان آخر اتنا بڑافرق کیوں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے